اس کے بعد ایک درخواست براہ راست جناب ڈپٹی کمشنر بہادر لودھیانہ کی خدمت میں اس مضمون سے بھیجی کہ “مجھ کو آب و ہوا لودهیانہ کے موافق نہیں ہے اور دہلی کی موافق ہے اور یہاں علاج بھی ڈاکٹر صاحب سول سرجن دہلی کا ہو رہا ہے، سو میں درخواست کرتی ہوں کہ براہ مہربانی میری تبدیلی دہلی کی منظور فرما کر مجھ کو مطلع فرمائیں۔ اور اگر حضور کو میری بیماری میں کچھ شبہ ہو تو ڈاکٹر صاحب سول سرجن دہلی سے حلفاً میرا حال دریافت فرما دیں”۔ اس پر جناب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر لودھیانہ نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر دہلی کے نام چٹھی اس مضمون سے لکھی کہ “آپ براہ مہربانی ڈاکٹر صاحب سول سرجن دہلی سے شہر بانو بیگم کا حال دریافت کر کے ہم کو اطلاع دیں”۔ چنانچہ صاحب ڈپٹی کمشنر، بہادر دہلی نے ڈاکٹر صاحب سول سرجن دہلی سے دریافت فرمایا۔
ڈاکٹر صاحب کا چٹھی لکھنا اور تبدیلی کا منظور ہونا
اس پر ڈاکٹر صاحب نے یہ جواب لکھا: “چٹھی نمبری ٩٠، مورخہ ١٤ مئی ١٨٧٨ء، بحوالہ آپ کی ڈاک نمبری پانسو انیس، مورخہ ١١ مئی سنہ حال، لکھا جاتا ہے کہ مسماۃ شہر بانو بیگم کو دو دفعہ دیکھا، غالباً وہ کبھی صحت نہ پائے گی مرض ملحقہ سے، اگر اس کی زندگی چند سال ممکن ہے”۔ جب یہ چٹھی ڈاکٹر صاحب کی جناب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر لودھیانہ کو پہنچی اور انھوں نے میرا حال معلوم کیا، تو اسی وقت میری تبدیلی کی رپورٹ کر دی۔ چنانچہ ١٢ جون ١٨٧٨ء کو میرا حلیہ تبدیل ہو کر دہلی کے خزانہ پر آ گیا۔ پھر تو دشمنوں نے بہتیری تدبیریں کیں، مگر کچھ پیش نہ چلی۔ آخر رو پیٹ کر چپ ہو رہے۔
احمد علی خاں کا بیمار ہونا اور اس کا فوت ہونا
لیکن بوا! تقدیر کی میں ایسی پوری ہوں کہ خوشی قسمت میں لکھی ہی نہیں۔ تبدیلی ہوئی تھی، جو لڑکا احمد علی خاں بیمار پڑا۔ نہیں معلوم کہ وہ کم بخت کیا بیماری تھی کہ کسی کی سمجھ ہی میں نہ آئی۔ چار برس بیمار رہا۔ ویسے حکیموں، انگریزی ڈاکٹروں، ہندی ویدوں سے علاج کرائے۔ مگر مرض کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ مرض کیا تھا گویا پیام اجل تھا اور مجھ کو اس کے ساتھ کچھ ایسا عشق تھا کہ اپنی بیماری یا دکھ سب کچھ بھول گئی تھی۔ رات دن اسی کا شغل تھا اور اسی کے دھندے میں رہتی تھی۔ آخر ١٦ محرم ١٢٩٩ھ کی شب جمعہ کو پنجۂ اجل نے اسے آن دبوچا۔ میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ میرے کئی بچے ہوئے، وہ چھوٹی عمر میں فوت ہو ہو گئے۔ اب خدا خدا کر کے ناک رگڑ کے اس بچے کو اتنا بڑا ہونا نصیب ہوا تھا، خدا نے اس کو بھی اٹھا لیا۔ صبح کو جمعے کے روز اکیلا جنگل میں جا کر سو رہا۔ میری دس برس کی محنت اللہ تعالی نے آناً فاناً میں لے لی۔ ہائے کیا خبر تھی کہ اس طرح مجھ کو بے وارث کر کے اور آپ قبر کی گود میں جا سوئے گا۔ ہے ہے،میں تو یہ جانتی تھی کہ اپنے ہاتھ سے مجھے کو مٹی کر دے گا۔ افسوس منشیِ تقدیر نے میری پیشانی پر یہی لکھا تھا جو پیش آیا۔ ہائے اس کی صورت، اس کا بانکپن، اس کی تمیز، کس کس بات کو یاد کروں۔ کیوں کر دل کو تسلی دوں۔ جینا وبال ہے۔ رات دن اسی کا خیال ہے۔ بیت:
نہ مرتی ہوں نہ جیتی ہوں عجب حالت ہے فرقت میں
کہ جاں عاجز قضا سے ہے، قضا عاجز ہے اب جاں سے
میری تو زندگی ہی خراب ہوئی اور موت بھی برباد ہوئی۔ نہ کوئی نام لیوا رہا، نہ پانی دیوا۔ بیت:
صبر کس کس بلا پر کر گزروں
چاره اس بن نہیں جو مر گزروں
لیکن خدا کا دیا سر پر۔ سوائے صبر اور کچھ بن نہ آیا۔ پر اس روز سے یہ حال ہے کہ آج درد سر ہے تو کل بخار ہے۔ بیت:
مرض یہ پھیل پڑا ہے تپ جدائی سے
کہ پیٹھ لگ گئی یاروں کی چارپائی سے
نہیں معلوم کہ خدا ابھی اور کیا کیا دکھائے گا۔ کس کس طرح آزمائے گا۔ سو خیر زندگی کے دن پورے کرتی ہوں، جو ایسے ایسے دکھ بھرتی ہوں۔ بیت:
غنچہ رہا، نہ گل ہے، نہ بلبل، نہ باغباں
کس کس کو ہائے کیجیے فصل خزاں میں یاد
غرض چالیس برس کی عمر میں دنیا کا خوب تماشا دیکھا اور دیکھتی ہوں۔
دنیا کی شکایت
دنیا بڑی مکار ہے، اس کا کیا اعتبار ہے۔ دیکھو ابتدا میں مجھے کیا سبز باغ دکھایا، آخر کو کس طرح خاک میں ملایا۔ ایک وہ وقت تھا کہ پانسو روپے خرچ پاندان کا مقرر ہوا تھا، اب وہی ہم ہیں کہ کلّہم نوے روپے میں گزارہ کرتے ہیں، لاکھ طرح کے دکھ بھرتے ہیں۔ دنیا دل بستگی کا مقام نہیں، اس کا ایک جا قیام نہیں۔ اس پر گھمنڈ کرنا عین نادانی ہے، کیونکہ سرائے فانی ہے۔ جو لوگ اس کا حظ اٹھاتے ہیں، عزت کے عوض میں ذلت پاتے ہیں۔ دنیا حسد کی جڑ ہے، دنیا بے ایمانی کا گھر ہے۔ جس نے دنیا کا لحاظ و پاس کیا، اس نے اپنی عقبیٰ کا ناس کیا۔ حضرت معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ عقل مند وہ شخص ہے کہ جو تین کام کرے، دنیا سے دستبردار ہو جائے، قبل اس کے کہ دنیا اس سے دستبردار ہو۔ اور قبر تعمیر کرائے، قبل ازیں کہ قبر میں جائے اور حق سبحانہ تعالی کو خوشنود کرے، پیش ازآں کہ اس کے دیدار سے مشرف ہو۔
سچ فرمایا ہے، دنیا کی چق چق اور بق بق پر دل لگانا عین حماقت ہے۔ بس جس نے اس کی آرزو زیادہ کی، وہی خلق کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوا اور جس نے اس کو چشم حقارت سے دیکھا، وہ لوگوں کی نظروں میں باوقار ہوا۔ جس نے دنیا کو چھوڑا اور اس سے منہ موڑا، وہی مراد کو پہنچا۔ اللہ تعالی مجھ عاجزه کو بھی اِن نیکیوں کی پیروی نصیب کرے اور میری خطاؤں کو بخشے۔ سچ کہتی ہوں کہ دنیا سے میرا دل سرد ہو گیا اور یہ خیال آیا کہ دنیا میں اپنا ہے ہی کون۔ صرف ایک ماں کا دم ہے اور وہی قبلہ و مکرم ہے۔ اس کی خدمت گزاری اور رضا مندی کے کام خدا نصیب کرے تو یہی سعادت مندی کی راہ اور نیک بختی کی سڑک ہے۔ مگر قسمت کی برگشتگی سے وہ نصیب نہ ہوئی۔
احمد علی خاں کی بیوہ کا نالش کرنا اور وثیقہ مقرر ہونا
جب احمد علی خاں دنیا سے سدھارا تو اس کی زوجہ کی طرف سے تنخواہ کا دعوی پیش ہوا۔ چنانچہ سرکار دولت مدار نے اس مرحوم کی پنشن میں دس روپے اس کی بیوہ کے اور دس روپے مجھ بدنصیب کے مقرر فرمائے۔ ہنوز یہ مقدمہ طے نہ ہوا تھا کہ
والدہ صاحبہ کا بیمار ہونا اور ان کا خط میری طلب میں آنا اور میرا پاٹودی جانا اور احمدی کا نکاح کرنا اور جبراً مجھ کو شریک کرنا اور میرے دشمنوں سے ملنا اور میری بربادی پر کمر ہمت کی باندھنا
والدہ صاحبہ کا خط پاٹودی سے آیا کہ “میں سخت بیمار ہوں، دیکھتے ہی اس خط کے تم پاٹودی آؤ۔ اگر دانہ وہاں کھاؤ تو پانی یہاں پیو”۔ میں خط کے دیکھتے ہی فوراً پاٹودی پہنچی۔ ان کی خدمت کی۔ خدا نے ان کو شفا دی۔ جب غسل صحت کر چکیں تو یہ احمدی، جسے آپ میرے ہاں دیکھتی ہیں، اسے میں نے اپنے فرزند احمد علی خاں کی خدمت کے لیے پالا تھا، وہ فوت ہو گئے، یہ موجود ہے۔ والدہ صاحبہ نے اس کے نکاح کی تجویز پاٹودی ہی میں کی۔ ہر چند میں مانع ہوئی، مگر انھوں نے نہ مانا اور اس کا نکاح کر دیا۔ میں خاموش ہو رہی اور کچھ شکایت میں نے نہیں کی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ میرے سوتیلے بھائی محمد جعفر علی خاں مرحوم جو تھے، اللہ ان کو جنت نصیب کرے، ان کی دختر کی شادی خادم علی خاں کی نواسی سے قرار پائی۔ اور خادم علی خاں میرے دشمن جاں ہیں اور لڑکی کی سرپرست والدہ صاحبہ بنیں اور انھوں نے اس کی شادی وہاں کرائی اور اس شادی میں جبراً مجھ کو بھی شریک کیا۔ ہر چند مجھ کو گوارا نہ تھا، لیکن والدہ صاحبہ کی خوشنودی کی خاطر میں شادی میں شریک ہوئی اور تیوری پر میل تک نہیں لائی۔ بعد اس کے والده صاحب لودھیانہ میرے دشمن کے مکان پر گئیں اور وہاں سے لڑکی کو لے کر میرے گھر تشریف لائیں۔ آٹھ دس روز رہیں۔ حالانکہ کئی آدمی خادم علی خاں صاحب کی ان کی بہو کے ساتھ تھے، مگر میں نے کچھ خیال نہ کیا اور برابر خاطر داری کرتی رہی۔ اس لحاظ سے کہ والدہ صاحبہ کی طبیعت پر کسی طرح کا میل نہ آئے۔