ناصر عباس نیر(جھنگ)
تھوڑے دن ہوئے اردو کے ایک سینئر نقاد نے یہ سوال اٹھایا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ نئی نسل تنقیدمیں حقیقی دلچسپی نہیں لے رہی ، نہ تنقید پڑھنے میں نہ تنقید لکھنے میں ؟اس ضمن میں ان کے سامنے اردو تنقید کے مختلف ادوار اوررجحانات تھے ۔ انیسویں صدی کا ربع آخر ،جب اردو میں باضابطہ تنقید کا آغاز ہوا۔ رومانی تنقید، ترقی پسند تنقید، حلقہ ارباب ذوق کی تنقید ، پاکستانی اور اسلامی ادب کی موید تنقید، لسانی تشکیلات کی حامی تنقید، ساختیاتی تنقید ، پس ساختیاتی اور مابعد جدید تنقید ، امتزاجی تنقید۔ ان کا موقف تھا کہ اردو تنقید کے ان ادوار میں یا ان رجحانات کے تحت تنقید پڑھنے اورلکھنے میں جس دلچسپی اورسرگرمی کا مظاہرہ کیاگیا ہے، وہ اب مفقود ہے ۔ پہلے نئے سوالات اٹھائے جاتے تھے(جیسے پاکستانی ادب، پاکستانی کلچر کا سوال، ادب برائے انقلاب کا سوال ، ادب کے تخلیقی عمل کی ما ہیت کا سوال، جدید فرد اور جدید ادب کی شناخت کا سوال ، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے امتیاز کا سوال ، روایت کا سوال وغیرہ) جن پر موافقت اور مخالفت میں خوب مباحث ہوتے تھے ۔ مگر اب نئے نقادوں کا کوئی گروہ ایسا نہیں جو نئے سوالات قائم کرتا اور پھر ان پر بحث کو جنم دیتا ہو۔
ویسے تو اس سوال کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ اردو میں تنقید مر رہی ہے ۔ اوراردو تنقید کو اب نیا خون میسر نہیں آرہا ۔ مگر کیا واقعی؟ ․․․․مجھے یہاں اس سوال کے جواب میں دو سوال سو جھ رہے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا نئی نسل کو پڑھا بھی جا رہا ہے کہ نہیں؟ نئی نسل اپنی فوری پیش رو نسل کو جس احترام اور توجہ سے پڑھتی (اور اثرات قبول کرتی ) ہے کیا پیش رو نسل بھی اپنے بعد میں آنے والوں کو اسی توجہ سے پڑھتی ہے؟ کیا نئی نسل کے لکھے کو خام یا غیر اہم سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاتا؟ دوسرا سوال یہ سوال کہ سینئر نسل اپنے (اور ماسبق) پیمانوں سے نئے ادب کو کیوں ناپتی ہے؟ یعنی پہلے آنے والے ، بعد میں آنے والوں کے آگے خود کو یا کسی ماسبق عہد کو رول ماڈل کے طور پر کیوں پیش کرتے ہیں؟ کیا یہ عمل نئے کی قوت نمو کے آزادانہ اظہار میں رکاوٹ نہیں ڈالتا؟ کیا نئے کے لیے لازم ہے کہ وہ پرانے کا مقلد بنے، اس کا ناقد نہ بنے ؟ مجھے احساس ہے کہ ان سوالات میں ایک ایسی برہمی ہے جو کسی الزام کا سامنا کرتے وقت آدمی میں بالعموم پیدا ہو جاتی ہے ۔ اور یہی برہمی اصل سوال یا صورت حال پر پردہ بھی ڈال دیتی ہے ۔لہذا ان سوالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے تنقید کی بساط پر تازہ وارد ہونے والوں کے کام کا اجمالی جائزہ پیش کرتا ہوں۔ امید رکھنی چاہیے کہ اسی جائزے میں اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا، جس سے اس مضمون کی تمہید باندھی گئی ہے۔نئے نقادوں کے کام کے تین بڑے زمرے بنائے جا سکتے ہیں۔ فکشن، شاعری اور تھیوری ۔ تاہم واضح رہے کہ فکشن کے زمرے میں شامل نقادوں نے شاعری پر بھی لکھا ہے اور تھیوری میں دلچسپی لینے والوں نے فکشن اور شاعری پر بھی لکھا ہے۔ یہ تقسیم محض سہولت کی خاطر کی گئی ہے۔ جن لوگوں نے جس موضوع پر زیادہ اور اچھا (اچھے کا فیصلہ راقم کا ہے ،جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے)لکھا ہے انھیں اسی موضوع کے تحت زیر بحث لایا جائے گا۔ کچھ لوگوں کو کسی مخصوص زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا ۔ ان کا کام متفرق ہے ۔ یہ شکایت عام طور پر کی گئی ہے کہ اردو تنقید نے شاعری کا طواف زیادہ اورفکشن کی طرف نظرِ التفات کم کی ہے اورجب اردو فکشن کو موضوع نقد بنایا گیا ہے تو بالعموم شاعری کی تنقیدکے تعقلات اور معیارات کو کسوٹی بنایا گیا ہے فکشن کی اپنی شعریات کو فکشن کی تنقید میں راہنما نہیں بنایا گیا ۔ یہ شکایت ایک حد تک بجا ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں کہ فکشن پر معیاری تنقیدلکھی ہی نہیں گئی۔ اس ضمن میں وقار عظیم، سہیل بخاری، احسن فاروقی، ممتاز شیریں اور علی عباس حسینی کا کام خاص طور پر اور حسن عسکری، مولانا صلاح الدین احمد، خورشید الاسلام ، پروفیسر عبدالسلام ، وزیر آغا، شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، وارث علوی، شمیم حنفی، انور سدید ، سلیم اختر کا کام عام طور پر بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ دیگر سینئر نقادوں میں شکیل الرحمن ،فرمان فتح پوری، محمود واجد، مہدی جعفر، سہیل احمد خان، انوار احمد ، ناصر بغدادی، فردوس انور قاضی کی تنقید کا حوالہ دیا جانا بھی مناسب ہے۔ سراج منیر نے بھی فکشن پر چند اچھے مقالات لکھے۔
فکشن کے نئے پاکستانی نقادوں میں پہلا قابلِ ذکر نام ممتاز احمد خان کا ہے ۔ انھوں نے اردو ناول کے نقادکی حیثیت سے اپنا اعتبار قائم کیا ہے ۔ آزادی کے بعد اردو ناول میں ہئیت ، اسالیب رجحانات اور تکنیک کی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان پر تحقیق و تنقید کی ہے۔ یوں انھوں نے جدید اردو ناول کے بیشتر اہم پہلوؤں کے مطالعے کو اپنی دلچسپی کا موضوع بنایا ہے ۔ ان کے مقالات کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے وہ بیانیے کے نظری مباحث میں کچھ زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کرتے ، مگر ناول کی عملی تنقید میں وہ خاصے کامیاب ہیں۔ویسے عمومی طور پر نظری مباحث سے بے زاری کااظہا ر ہی کیا جاتا ہے۔اور اس بات پہ غور نہیں کیا جاتا کہ یہ بے زاری عملی تنقید میں گہرائی پیدا نہیں ہونے دیتی۔ اس لیے کہ عملی تنقید کا ہر فیصلہ اور معنی خیزی کا ہر عمل کوئی نہ کوئی نظری بنیا د رکھتا ہے۔ نقاد اگر اپنے فیصلوں اور تجزیوں کی نظری بنیا دوں سے بے خبر یا کم آگاہ ہو تو وہ نہ اپنے فیصلوں کا دفاع کر سکتا ہے نہ اپنے تجزیوں کو با معنی بنا سکتا ہے۔
جدید اردو افسانے کی تنقید میں ایک اہم نام سلیم آغا قزلباش کا ہے ۔ جدید اردو افسانے کے رجحانات پر ان کی کتاب دراصل اردو افسانے کی پوری روایت (جو صد سالہ بنتی ہے) کو سمجھنے کی سنجیدہ اور عالمانہ کوشش ہے۔ سلیم آغا نے جدید علوم اور جدید تر تنقیدی نظریات کادقت نظری سے مطالعہ کیا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ان کے ہاں ایک گہری اور امتزاجی تنقیدی بصیرت کی نمود ہوئی ہے۔ وہ افسانوی متن کی تہ میں ہی نہیں اترتے ، اس کے اطراف و جوانب میں بھی پہنچتے ہیں اور متن کے مرکزی موقف کے علاوہ دیگر معنیاتی انسلاکات کو بھی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ نیز وہ اپنے مطالعے کی وسعت اور تجزیے کی قابل لحاظ صلاحیت کی مدد سے متعدد ایسی آرا کو Deconstructکرتے ہیں جو صنفِ افسانہ اور اس کے بعض رجحانات کے سلسلے میں باقاعدہ آئیڈیالوجی یا پھر عصبیت کے درجے کو پہنچ چلی ہیں ۔ انھوں نے اردو افسانے ، اس میں ہونے والے تجربات اور رونما ہونے والے رجحانات کی تعبیر اور تعین قدر اپنے زاویے سے کی ہے ۔ سلیم آغا نے اردو انشائیے پر بھی بعض خیا ل انگیز مقالات پیش کیے ہیں۔
اس سلسلے میں اگلا اہم نام آصف فرخی کا ہے۔ انھوں نے علامتی افسانہ نگار کے طور پر اپنے ادبی کیرئیر کا آغاز کیا، پھر ترجمہ و تنقید کو اپنی دلچسپی کا مرکز بنالیا ۔ ان کی تنقید کا محور فکشن ہے۔ وہ جدید اور جدید تر مغربی فکشن نگاروں (اور شاعروں) اور مفکرین کا برابر مطالعہ کرتے ہیں۔ مگر یہ مطالعہ برائے اخذو استفادہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی تنقیدات میں بیانیے کی مشرقی شعریات کی پاسداری کرتے ہیں۔ ان کی تنقید کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وہ افسانوی متن کا اپنے زاویے سے مطالعہ کرتے ہیں اور کسی متن یا مصنف سے متعلق مقبول آرا کو بالعموم مسترد کرتے ہیں۔ اور ان کا اپنا زاویہء نظر دراصل افسانے کی کلید کو گرفت میں لینا ہے،جو کسی تخلیق کار کے تجربہ زندگی ، اس تجربے کے زمانی و مکانی سیاق و سباق اور صنفِ افسانہ کی ہئیت (اور شعر یات ) سے عبارت ہوتی ہے۔
نئے نقادوں میں مبین مرزا بھی خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی تنقید سنجیدگی ، تفکر اور تجزیہ کے عناصر ثلاثہ سے مرکب ہے، وہ عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ ادبی متون اور ادبی مسائل پر تفکر کرتے اور پھر انھیں تجزیے کے عمل سے گزارتے ہیں۔ ان کی (فکشن کی) تنقید کا تناظر بنیادی طور پر تہذیبی ہے۔ وہ ادب کو ایک تہذیبی مظہر کے طور پر لیتے ہیں اوراسی حوالے سے ادب پاروں کی قدر کا تعین کرتے ہیں۔ ان کی تنقید کی یہ نہج ترقی پسندوں کی تنقید ی نہج سے ٹکراتی ہے ۔ ترقی پسند نقاد ادب کو سیاسی اور طبقاتی کشمکش کے تناظر تک محدود کرتے ہیں اور ان تمام موضوعات و مسائل کو بورژوا(جس سے وہ ایک تحقیر بھی وابستہ کرتے ہیں)قرار دیتے ہیں جواس تناظر سے الگ یا ماورا ہوں۔ فکشن کی تنقید میں مبین مرزا نے قابل رشک تنقیدی بصیرت اور فکری عمق کا ثبوت دیا ہے ۔ انتظار حسین اور اسد محمد خان کے افسانوں پر ان کے مقالات ان افسانہ نگاروں کی تفہیم نئے انداز میں کرتے ہیں۔ مبین مرزا کسی مصنف کے کلی افسانوی وژن کو گرفت میں لیتے ہیں ۔۔۔۔ مبین مرزا نے محمد حسن عسکری کے حوالے سے بھی چند اہم مقالات لکھے ہیں۔ یہ مقالات ہر چند حسن عسکری پر کیے جانے والے بعض اعتراضات کے جواب میں لکھے گئے ، مگر یہ عسکری فہمی میں مستقل اہمیت کے حامل ہیں مبین مرزا کی تنقیدی آئیڈیالوجی پر عسکری کی فکر کے کچھ اثرات ہیں، مگر ان کی عملی تنقید وں کے پس منظر میں عسکری کا تصور روایت کار فرما بہر حال نہیں ہے ۔ انھیں اپنی الگ شناخت کا احساس بھی ہے او راس پر اصرار بھی۔
فکشن کے نئے نقادوں میں قاضی عابد بھی نمایاں ہیں ۔ انھوں نے کم لکھاہے مگرجتنا لکھا ہے جم کر لکھا ہے۔ ان کا بڑا کام اردو افسانے میں اساطیر کے مطالعے پر مبنی ہے ۔ اردو داستان اور اردو شاعری میں اساطیری عناصر کی کھوج تو کی گئی ہے ، مگر اردو افسانے میں اساطیر کی کارفرمائی کو انھوں نے پہلی مرتبہ تحقیق و تنقید کا موضوع بنایا ہے ۔ ان کی تنقید کی اہم خصوصیت مختلف الجہات مطالعہ اور پورے تیقن کے ساتھ اپنی آرا کا اظہار ہے۔ وہ اس سے نہیں گھبراتے کہ ان کی آرا بعض بڑے نقادوں کی بالعموم دہرائی جانے والی آرا سے ٹکرا رہی ہیں۔ وہ اس آویزش سے لطف لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تنقیدات میں اس روشن خیالی کا ثبوت دیتے ہیں، جس کا ایک سرا ترقی پسندوں سے ملتا ہے۔ مگر وہ روایتی مفہوم میں ترقی پسند بالکل نہیں ہیں، وہ ادب کی جمالیات کو مقدم رکھتے ہیں ۔ انھوں نے جدید اردو نظموں کے کامیاب تجزیے بھی کیے ہیں۔ نئے نقاد کے طور پر اپنی شناخت بنانے والوں میں امجد طفیل بھی شامل ہیں ۔ اپنے معاصرین کی طرح وہ وسیع اور گہرے مطالعے کے بعد لکھتے ہیں ۔ اپنی رائے قائم کرتے ہیں، اسے پورے اعتماد سے ظاہر کرتے ہیں اور کسی سے مرعوب نہیں ہوتے۔ انھوں نے فکشن کی تنقید میں دلچسپی اور سر گرمی دکھائی دی ہے۔ قراۃ العین حیدر پر انھوں نے لکھا ہے ۔ نفسیاتی تنقید کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اردو تنقید کے حالیہ مباحث پر اظہار خیال کیا ہے۔
فاروق عثمان ہر چندعمر میں سینئر ہیں، مگر ناول کے نقاد کے طور پر ان کی رونمائی گزشتہ چند برسوں میں ہوئی ہے ۔ ناول کی تنقید کے لیے مطالعے کی جس وسعت ، تجزیے کی جس گہرائی اور اسلوب کے جس توازن کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ ان کے ہاں موجود ہے۔انھوں نے اردو ناول میں مسلم ثقافت کے حوالے سے تحقیق و تنقید کی ہے ۔ ثقافت کے نظری مباحث پر ان کی گرفت قابل داد اور اردو ناول کو مسلم ثقافتی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کامیاب ہے ۔ تاہم یہ سوال ضرور پیدا ہوتاہے کہ ادب کے تہذیبی مطالعے میں ’’جزئی زاویہ نظر‘‘ اختیار کرنا کہاں تک مناسب ہے؟ کہ مسلم ثقافت اردو کی تہذیب کا بہر حال ایک جز ہے۔ یہ جز کتنا بڑا ہے، یہ الگ مسئلہ ہے۔ محمد عالم خان کچھ عرصہ پہلے فکشن (اور دوسرے موضوعات) کی تنقید میں خاصے فعال تھے۔ مگر اب وہ کم کم لکھتے ہیں۔تاہم انھوں نے اردو افسانے کے رومانی رجحانات پر تحقیق و تنقید کی ہے۔اور اس موضوع پر یہ ایک اہم کام ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ جو اعتراض فکشن کی تنقید پر کیا گیا ہے ، وہی اعتراض اردو شاعری کی تنقید پر دوسرے رنگ میں کیا گیا ہے ۔فکشن کی تنقید میں اگر شاعری کو بطور قدر(norm) سامنے رکھنے کا الزام ہے تو شاعری کی تنقید پر مغربی پیمانوں کو بے دریغ برتنے کی تہمت ہے۔ جی ہاں تہمت ہے ۔ اگر معترضین ’’اردو شاعری کا مزاجـ‘‘ (وزیر آغا) ، اردو غزل، ہندوستانی ذہن و تہذیب‘‘ ( گوپی چند نارنگ) اور’’ شعرِ شور انگیز‘‘ ( شمس الرحمن فاروقی) ہی پڑھ لیں تویہ باور کرنا مشکل نہ ہو گا کہ اردو شاعری کو اس کے تہذیبی پس منظر میں دیکھنے اور مقامی ثقافتی لسانیاتی نظام (Local signifying System) کی رو سے معرض تجزیہ میں لانے کا مشکل کام سر انجام دیا جا چکا ہے۔اصل میں کلیم الدین احمد کے بعض نیم تنقیدی جملوں پر اتنا شور مچایا گیا ہے کہ اردو شاعری پر ہونے والا قطعی اور جنل کام پس منظر میں چلا گیا ہے۔ اس کام کے علاوہ یوسف حسین خان ، فراق گورکھ پوری، عندلیب شادانی، سید عبداللہ، عبادت بریلوی، حسن عسکری، آلِ احمد سرور، اسلوب احمد انصاری، رشید احمد صدیقی، خلیل الرحمن اعظمی ، سید عابد علی عابد، نظیر صدیقی، خواجہ محمد زکریا، تحسین فراقی کی کتب اور مقالات بھی اردو شاعری کی تنقید کا بلند معیار پیش کرتے ہیں۔
شاعری کے نئے پاکستانی نقادوں میں پہلا اہم نام حیدر قریشی کا ہے۔ حیدر قریشی نے نوے کی دہائی میں اردو ماہیے کے محقق اور نقاد کی حیثیت سے خاصی شہرت پائی ہے۔ انھوں نے اردو ماہیے کی ہئیت کے سلسلے میں یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ اس کا پہلا اور تیسرا مصرع تو ہم وزن ہیں ، مگر دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں انھوں نے پنجابی کے بعض ماہیوں کو معیاری قرار دے کرا پنے موقف کے حق میں بطور دلیل پیش کیا ۔ گو ان کے موقف سے بشیر سیفی مرحوم ، نصیر احمد ناصر، علی محمد فرشی اور سیدہ حنانے اتفاق نہیں کیا ۔ پرویز بزمی نے بھی ان سے اختلاف کیا ۔ مگر حیدر قریشی کی تحریک پر درجنوں شعرا ء نے ماہیے لکھے اور ماہیوں کے متعدد مجموعے منظرِ عام پرا ٓئے ۔ حیدر قریشی نے اردو ماہیے کی تحقیق میں بھی نئے ابعاد کا اضافہ کیا۔ مثلاً انھوں نے چراغ حسن حسرت کی بجائے ہمت رائے شرما کو اردو کا پہلا ماہیا نگار ثابت کیا ۔ گزشتہ دس برسوں میں حیدر قریشی نے اردو ماہیے کی تخلیق اور تنقید کو غیر معمولی ترقی دی۔
خاور اعجاز اردو غزل کے نئے نقادوں میں نمایاں ہیں۔ ہر چند ستر کی کی دہائی میں انھوں نے اپنے ادبی کیرئیر کا آغاز کیا تھا، مگر غزل پر تنقید کا کام انھو ں نے حال ہی میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے غزل کے مطالعے کو پہلے ستر کی دہائی تک محدود کیا تھااور اس دہائی کی غزل کے اسلوبی اور فنی خصائص کی نشاندہی پر توجہ دی تھی تاکہ اسے ما سبق اردو غزل سے ممیز کیا جا سکے، مگر اب انھوں نے اسی اور نوے کی دہائی کے غزل گوؤں کا مطالعہ بھی شروع کر رکھا ہے اور ان پر عمومی تبصرے کر رہے ہیں ۔ ان کا نقطۂ نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر نسل کو اپنے نقاد خود پیدا کرنے چاہیں، بلکہ ہر صنف میں لکھنے والوں کوبھی اپنے نقاد پیدا کرنے چاہیں۔ اسی طرح کی بات کچھ عرصہ پہلے شمس الرحمن فارروقی نے رشید امجد سے کہی تھی کہ نئے افسانہ نگاروں کو اپنے نقاد بھی پیدا کرنے چاہیں، بہر کیف یہ ایک متنازع بات ہے جس پر بحث کا یہ محل نہیں۔۔۔۔ بشیر سیفی مرحوم نے بھی جدید پاکستانی غزل کے مطالعات کیے تھے۔ رؤف امیر نے بھی اردو غزل اور اس کی تنقید پر قابل قدر کام کیا ہے۔
نئی نسل کے اہم نقادوں میں سید عامر سہیل بھی شامل ہیں ۔ان کی دلچسپی شاعری سے ہے ۔ نقطۂ نظر کے اعتبار سے وہ ترقی پسند ہیں۔ ’’انگارے‘‘ کے نام سے رسالہ نکالتے ہیں جس کے ہر شمارے کے سرورق پر ’’ترقی پسند ادب کا ترجمان‘‘ کی سرخی جمائی گئی ہوتی ہے۔ مگر ان کی ترقی پسندی معتدل اور متوازن ہے۔ وہ ادب کو سماجی صورت حال کے ادراک، انعکاس کا وسیلہ اور اسے بدلنے کا ذریعہ تو خیال کرتے ہیں اور اورنئے لکھنے والوں سے یہ مطا لبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے سماج کے مادی ؍حقیقی مسائل سے تعرض کریں، مگر وہ ان تخلیقات کے ادبی مرتبے کا اعتراف اور ان کی باقاعدہ تحسین بھی کرتے ہیں، جو ’’مارکسی جمالیات‘‘ کی بجائے جدید اور مابعد جدید جمالیات کی علمبردارہیں۔ خود انہوں نے سب سے زیادہ مجید امجد پر لکھا ہے ، جو معروف معنوں میں ترقی پسند نہیں تھے اور مجید امجد کی نظموں کی تفہیم میں جدید فلسفے اور مابعد جدید تنقیدی تھیوری (بالخصوص دریدائی ساخت شکنی) سے استفادہ بھی کیا ہے ۔ ان کی تنقید میں ایک عالمانہ اور فلسفیانہ فضا ملتی ہے۔ ا ن کے ہم نام ایک اور نقاد بھی ہیں، عامر سہیل (جوایبٹ آباد میں رہتے ہیں) انھوں نے بھی بعض اچھے مقالات لکھے ہیں۔
اردو شاعری کے معاصر نقادوں میں شاہین مفتی بھی نمایاں ہوئی ہیں۔ ان کا اہم کام جدید اردو نظم میں وجود یت پر ہے ۔ ان کے ہاں مطالعے کی وسعت اور تجزیے کی صلاحیت اچھی ہے ۔ اسلوب بھی رواں ہے۔ مشکل باتوں کو قابلِ ابلاغ بنا کر پیش کرنے کا بہرہ بھی ہے اور موضوع بھی انھوں نے اہم منتخب کیا ہے مگر صریحاً جانب داری سے کام لے کر اسے غیر اہم بنا دیا ہے ۔ انھوں نے بعض جدید شعرا کے یہاں وجودی اثرات کی نشاندہی کی بجائے ان کی شخصیت کے انہدام کی وہ کوشش کی ہے جس کا موضوع کی رعایت سے تو کوئی جواز نہ تھا، کچھ حلقوں کی خوشنودی مطلوب ہو تو دوسری بات ہے ۔ نئے ناقدین میں یہ واحد مثال ہیں ، جو اس ادبی گروہ بندی کا شکار نظر آتی ہیں جو ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی میں اپنے عروج پر رہی ہے ۔ حالانکہ نئی نسل کے نقادوں نے ادب میں گروہی سیاست سے عملاً لا تعلقی ظاہر کی ہے۔
ناہید قاسمی نے اردو شاعری میں فطرت نگاری کو موضوع تحقیق و تنقید بنایا ہے۔ انھوں نے اردو شاعری میں فطرت کے مناظر و مظاہر کی ترجمانی اور عکاسی کے مختلف اسالیب کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے ایک بڑے اور پھیلے ہوئے موضوع پر کام کیا ہے۔ تاہم ایک بات کھٹکتی ہے کہ انھوں نے فطرت نگاری پر کوئی نظری بحث نہیں کی۔ فطرت نگاری کا مفہوم فطرت کے مناظر ومظاہر کی تصویر کشی لیا ہے، حالانکہ عام طور پر فطرت نگاری کو نیچرل ازم کے مفہوم میں برتا گیا ہے، جو ایک باقاعدہ فلسفیانہ اصطلاح اور ادبی تحریک ہے اور جس کا موقف ہے کہ فطرت انسانی کو بغیر کسی مثالی اور اخلاقی نقطۂ نظر کی راہنمائی قبول کیے، اسی طرح پیش کیا جائے جو تجربے میں آتی ہے۔
قراۃ العین طاہرہ بھی نئے نقادوں میں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ یہ غیر جانبداری اور پوری ذمہ داری کے ساتھ تنقید لکھتی ہیں ، ان کا موضوع شاعری بھی ہے اور افسانہ بھی ، خواتین نقادوں میں یہ سب سے زیادہ فعال رہی ہیں، مگر نہ جانے کیوں آج کل یہ ادیبوں کے انٹرویوز میں اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہیں۔
خواتین کا ذکر چلا ہے تو مجھے یہاں پروین طاہر کا ذکر بھی کرنا ہے، جنھوں نے گزشتہ چند سالوں میں جدید نظم کے خیال افروز تجزیاتی مطالعے پیش کیے ہیں۔ نظم کے انفرادی مطالعات کا آغاز میرا جی نے کیا تھا اور جسے’’ ادبی دنیا ‘‘میں اور’’اوراق ‘‘میں وزیر آغا نے آگے بڑھایا۔ جدید نظم پہلی یا سرسری قرات میں اپنے معانی عیاں نہیں کرتی ، اس لیے کہ یہ گہرے اور تہ دار مفاہیم رکھتی ہے اور جو دراصل اس کی نئی اور قدرے اجنبی علامتوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ مرکوز مطالعہ چاہتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں جدید اردو نظم کے نہایت اہم تجزیے لکھے گئے ہیں ، جو نہ صرف نظم فہمی میں معاون ہیں، بلکہ عملی تنقید کے عمدہ نمونے بھی ہیں، پروین طاہر کے تجزیوں کا شمار بھی اسی فہرست میں ہوتا ہے۔ جدید نظم کے معروف شاعر نصیر احمد ناصر نے بھی چند اچھے تجزیے رقم کیے۔ زیف سید نے بھی قابلِ قدر تجزیاتی مطالعے پیش کیے ہیں۔
نظم کے ایک نئے نقا د طارق ہاشمی بھی ہیں، جنھوں نے جدید اردو نظم کی تیسری جہت پرلکھا ہے۔ ہر چند انھوں نے چند ایک نظم گوؤں کو اپنا موضوع بنایا ہے اور جدید نظم کے بعض اہم شعرا کا ذکر نہیں کیا ( جو کھٹکتا ہے) تاہم ان میں اچھی تجزیاتی صلاحیت ہے۔ شاعری پر مخصوص زاویہ نظر سے لکھنے والوں میں احمد صغیر صدیقی کا ذکر بھی ضروری ہے ، وہ اچھی اور بُری شاعری کے ذوق کو موضوع بناتے ہیں۔
عالمی سطح پر ساٹھ کی دہائی میں تھیوری کو اہمیت ملنا شروع ہوئی، جب ساختیات کا چلن ہوا ، جو دراصل سوسیئر کے لسانی فلسفے سے ماخوذ تھی اور جسے پہلے بشریات میں لیوی اسٹراس نے اور بعد ازاں ادب میں رولاں بار ت نے برتا ۔ ستر کی دہائی میں ساختیات کا زور ٹوٹ گیا اور پس ساختیات موضوع بحث بنی۔ بالخصوص ژاک دریدا کی ڈی کنسٹرکشن کی تھیوری نے ساختیات کے مرکزی موقف پر ضرب لگائی۔ پھر اگلی دہائیوں میں مابعد جدیدیت کا شہرہ ہوا ، جو دراصل پسِ ساختیات(دریدا اور فوکو کے نظریات) کی تھیوریز کو لیے ہوئے ہے۔ گو ساختیات کی جگہ پسِ ساختیات نے لے لی اور پھر مابعد جدیدیت آئی۔ مگران سب میں قدر مشترک تھیوری ہے۔ واضح رہے کہ تھیوری سے مراد کوئی ایک تنقیدی نظریہ نہیں ، بلکہ یہ نظریہ سازی کی ایک غیر روایتی روش ہے۔ تھیوری دراصل ادب کو ہی نہیں ہر ثقافتی مظہر کو ایک متن قرار دے کر پڑھتی ( پڑھنے کے مفہوم میں قاری اساس تنقد اور ریسیپشن تھیوری اور ساختیات کی مطالعاتی نہج پیش نظر رہے)ہے اور اس کے لیے یہ کسی بھی علم سے اس کا حربہ یا استدلال مستعار لیتی ہے ، یا خود ایک نیا حربہ وضع کر سکتی ہے۔ تھیوری Inter-disciplinary ہے۔۔۔۔ اردو میں ہر چند حسن عسکری نے اپنے ایک انگریزی خط نما مضمون اور اپنی آخری کتاب ’’مغربی جدیدیت ، گمراہوں کا ایک خاکہ ‘‘ میں اس کا ذکر کیا، مگر باضابطہ اور سب سے پہلے محمد علی صدیقی نے اور پھر گوپی چند نارنگ ، وزیر آغا ، فہیم اعظمی ، ریاض صدیقی ، دیو ندراسر، حامدی کا شمیری، وہاب اشرفی ، مناظر عاشق ہرگانوی،حقانی القاسمی، ضمیر علی بدایونی اور قمر جمیل نے اس پر لکھا۔ تھیوری کو موضوع بناتے ہوئے نئے نقادوں کے سامنے یہ سارا کام موجود تھا۔
تھیوری کی تفہیم کرنے والوں اور اسے وسیع تر تناظر میں موضوع بحث بنانے والوں میں پہلا اہم نام رفیق سندیلوی کا ہے۔ گو انھوں نے پورے تسلسل کے ساتھ تنقید نہیں لکھی، پھر بھی گزشتہ پندرہ برسوں میں انھوں نے متنوع موضوعات پر مقالات کی ایک معقول تعداد نذر قارئین کی ہے۔ انھوں نے ابتدا میں ہائیکو پر درجنوں تحقیقی اور تنقیدی مقالات لکھے اور ہائیکوکے نقادوں کی صفِ اول میں ا ن کا شمار ہونے لگا۔ ہائیکو کی تنقید میں ان سے پہلے محمد امین ، پرویز پروازی،، بشیر سیفی اور وضاحت نسیم موجود تھے۔ تاہم انھوں نے ہائیکو کی تاریخ ، مزاج اور شعر یات کی توضیح و تجزیے میں غیر معمولی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور اردو میں ہائیکو کے ناقدین کی توجہ حاصل کرلی۔ تھیوری کا انہوں نے بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے انھوں نے اپنے نتائج فکر اپنی تازہ کتا ب’’ امتزاجی تنقید کی شعریات ‘‘ میں پیش کیے ہیں ان کا نقطہ نظر ہے کہ ساختیات ، ساخت شکنی ، نئی تاریخیت، نئی مارکسیت، تانیثیت وغیرہ تھیوری کے مختلف انگ ہیں ان میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ سچائی ہے ۔ مگر ہر ایک کی سچائی اضافی ہے۔ سو کسی ایک نظریے پر انحصار کرنے کے بجائے امتزاجی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہر چند امتزاجی تنقید کا تصور وزیر آغا کا دیا ہوا ہے اور انھوں نے اپنی کتاب میں وزیر آغا کے تنقیدی نظام کا تفصیلی مطالعہ بھی پیش کا ہے۔ مگر انھوں نے جگہ جگہ اپنی اور جنلٹی کا مظاہر کیا ہے اور امتزاجی تنقید کے تصور کو آگے بڑھایا ہے۔ امتزاجی تنقید میں انڈیا کے اسلم حنیف اور جمال اویسی اور پاکستا ن کے نئے نقادوں میں شاہد شیدائی، اقبال آفاقی، حنیف سرمد، عامر عبداللہ ، علی دانش نے گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔
رؤف نیازی اگرچہ سا ٹھ کے ہندسے کو عبور کر چکے ہیں، مگر یہاں ان کا ذکر اس لیے کیا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنی پہلی تنقیدی کتاب ’’مابعد جدیدیت ‘‘ حال ہی میں پیش کی ہے ، اس لیے ان کی جگہ نئے نقادوں میں بنتی ہے۔ رؤف نیازی نے مغرب میں مابعد جدیدیت کی صورت حال اور تھیوری کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ ان کا طریق کار توضیح اور تشریح اور تفسیر کا ہے۔ انھوں نے مابعد جدیدیت کی مشکل اصطلاحات ، جیسے ڈی کنسٹرکشن ، ہائیپررئیلٹی، لا مرکزیت عدم مطلقیت، افتراق، التوا،ڈسکورس ، آئیڈیالوجی وغیرہم کو قابل فہم اسلوب میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے یہ کتاب اس احساس کے تحت لکھی ہے کہ اردو میں ما بعد جدیدیت وارد ہو چکی ہے اور ہم ما بعد جدید عہد میں سانس لے رہے ہیں ۔ انھوں نے ما بعد جدیدیت کی اصل بنیادوں کو سمجھنے او رسمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ پوری کتاب مغربی ما بعد جدیدیت کے فینو مینا سے متعلق ہے ۔ اردو میں ما بعد جدیدیت کا ڈسکورس کس رخ پر یا کس سطح پر ہے ، اس سے رؤف نیازی نے تعرض نہیں کیا ۔ اسی ضمن میں احمد سہیل کا ذکر بھی ضروری ہے، جو مقیم تو امریکا میں ہیں مگر ہیں پاکستانی ۔انھوں نے بھی تھیوری پر خاصا لکھا ہے اور کھل کر لکھا ہے۔ انھوں نے مغرب میں بیٹھ کر مغربی تھیوری کا مطالعہ کیا ہے اور اس صورت حال کا خود ایک حصہ ہیں ، جس نے اس تھیوری کو جنم دیا ہے، اس لیے تھیوری کی تفہیم اورتعیین قدر کے مواقع ان کے پاس زیادہ تھے۔ وہ اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مابعد جدیدیت جس روشن خیالی کے پراجیکٹ کی حامی ہے ، اردو کا قدامت پسند مزاج اسے قبول نہیں کر سکتا ۔ احمد سہیل کے اسلوب میں غرابت ہے۔ وہ تھیوری کے عسیر الفہم تعقلات کی اردو میں ترسیل میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہیں۔ غالباً اسی لیے اردو والوں نے انھیں کچھ زیادہ توجہ نہیں دی۔ تاہم ان میں قابل قدر تنقیدی صلاحیت ہے۔
یہاں مجھے تھیوری کے حوالے سے ہی ایک غیر معروف نئے نقاد کا ذکر کرنا ہے، جس نے خاموشی کے ساتھ اور تحسین سے بے نیاز ہو کر اس موضوع پر لکھا ہے۔ ان کا نام ہے یونس خان ۔ ان کے مضامین رسائل میں بہت کم چھپے ہیں، سارا کام کتابی صورت میں آیا ہے۔ تھیوری سے ان کی دلچسپی گہری ہے۔ وہ اسے سمجھتے بھی ہیں اور اس کی اردو میں ترسیل پر قادر بھی ہیں ۔ تھیوری پر ہی شفیق احمد شفیق نے بھی گاہے گاہے اظہار خیال کیا ہے۔
روش ندیم اور صلاح الدین درویش نے ’’تھیوری‘‘ کو بانداز دیگر اپنا موضوع بنایا ہے ۔ یہ در اصل کلاسیکی ترقی پسندی میں یقین رکھنے والے نئے نقاد ہیں ۔ کلاسیکی ترقی پسندی ہر ثقافتی مظہر کو معاشی اور سیاسی نظام کا زائیدہ سمجھتی ہے۔ اس کی رو سے کوئی ثقافتی سرگرمی (جس میں ادب بھی شامل ہے ) خود مختارنہیں۔ چناں چہ ان دونوں ناقدین نے جدید ادبی تحریکوں کا مطالعہ جدید سیاسی ، سامراجی نظام کی روشنی میں کیا ہے۔ ان کے مطابق جدید ادبی تحریکیں (جدیدیت، وجودیت،سرریلزم، مابعد جدیدیت وغیرہ) سامراجی نظام کی آلہ کار کے طور پر ابھریں۔ انھوں نے مارکسیت کے بنیادی استدلال کی رو سے بیسویں صدی کے’’ جمالیاتی فکری نظام ‘‘ کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اور نئی نسل کے ناقدین کی طرف سے ’’تھیوری‘‘ کی یہ ایک ا ہم کتاب ہے۔ مگر اس ’’تھیوری‘‘ سے نئی نسل کے ناقدین ہی کو اختلاف ہے ۔ سماجی صورت حال ادب میں پیش ہونے والی صورت حال کا محض ایک حصہ ہے ۔ ادب دراصل ثقافتی شعریات کا زائیدہ ہے، جو سماجی نظام یا صورت حال سے وسیع تر ہے اور جس میں کسی سوسایئٹی کے تمام نشانیاتی نظام ،اقداری رویے آجاتے ہیں۔ اور جن کی اساس معاش نہیں ہوتی ۔ دوسرے لفظوں میں ادب جس نشانیاتی نظام کا حامل ہے وہ کا ملاً’’ معاشی اساس‘‘ نہیں رکھتا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ خود مارکس اور اینگلز ادب کو نیم خود مختار قرار دیتے تھے اورنو مارکسی نقادوں ( بریخت ، اڈورنو، گولڈمان، آلتھیو سے ، ماشرے ، ٹیری ایگلٹن ، جیمی سن وغیرہ) نے بھی ادب کی نیم خود مختاری کے تصور کو قبول کیا ہے۔ افسوس اردو کے سینئر اور نئے نقاد دونوں عالمی سطح پر مارکسی تنقید میں ہونے والی تازہ پیش رفت سے آگاہ نہیں ہیں۔ اور ابھی تک مارکسی تھیوری کی ان کلاسیکی تعبیرات پر رکے ہوئے ہیں، جو جارج لوکاچ ، کرسٹوفر کا ڈویل اور ٹراٹسکی نے پیش کی تھیں۔
نئے نقادوں میں کچھ نام ایسے بھی ہیں، جنھیں کسی مخصوص خانے میں نہیں رکھا جا سکتا ، مگر جن کا تنقیدی کام قابل ذکر ہے۔ ان میں پہلا اہم نا م غفور شاہ قاسم کا ہے ۔انھوں نے ’’پاکستانی ادب ۔ شناخت کی نصف صدی ‘‘ لکھ کر اہل نظر کی توجہ حاصل کر لی ہے ۔ غفور شاہ قاسم وسیع المطالعہ نقاد ہیں۔ پاکستان کے جدید اور جدید تر ادب کا جتنا وسیع مطالعہ وہ کرتے ہیں اتنا مطالعہ ان کے معاصرین میں شاید ہی کوئی کرتا ہو گا۔ وہ اردو کی ہر صنف میں ہونے والی پیش رفت سے برابر آگاہ رہتے ہیں اور تخلیقی اور فکری سطحوں پر ہونے والی ہر چھوٹی بڑی تبدیلی کی نوعیت کو جاننے اور اس کا تجزیہ کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ وہ کسی متن پر رائے قائم کرتے ہوئے ، اس متن سے متعلق پہلے سے موجود آرا سے بھی استفادہ کرتے ہیں ۔ان کا مجموعی رویہ تنقیح کی بجائے توضیح و توثیق کا ہے۔
قیصر نجفی نے بھی متفرق موضوعات پر مسلسل لکھا ہے تاہم وہ مسائل سے زیادہ کتابوں پر لکھتے ہیں ، ان کی بڑی دلچسپی معاصر ادب سے ہے۔ وہ گہرا مطالعہ کرتے اور اپنی جدا گانہ رائے قائم کرتے ہیں ۔
محمد حمید شاہد بھی نئے ناقدین میں نمایاں ہیں۔ وسیع المطالعہ ہیں اور مضامین میں اپنے مطالعے کی وسعت کے اظہار کا کوئی نہ کوئی قرینہ نکال لیتے ہیں۔ غیر رسمی اور گفتگو کے انداز میں لکھتے ہیں اور صیغہ واحد متکلم کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر معاصر تخلیق کاروں یا فوری پیش رووں پر لکھا ہے ۔ ان کا رویہ بالعموم ہمدردانہ ہے۔ معاصر زندگی کے تقافتی مسایل کے فہم سے انھیں خصوصی دلچسپی ہے۔موجودہ اردو افسانے کی جہتِ خاص کا مطالعہ ان کا خاص میدان ہے۔ ان کے مضامین میں کہیں کہیں تاثر ، تجزیے پر حاوی ہوجاتا ہے۔
دیگر نقادوں میں رؤف پاریکھ ، عشرت رحمانی، افتخار اجمل شاہین ، نذر خلیق ، طارق حبیب ، عاتکہ صدیقہ ، شگفتہ حسین ، عقیلہ بشیر ، عصمت جمیل ، محمد افسر ساجد، سیف اللہ خالد ، ضیاء الحسن ، زاہدمنیر عامر کے نام قابل ذکر ہیں۔
اب اگر نئے نقادوں کی تنقیدات کی جہت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو پہلی نظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی جہت نئی نہیں ہے ۔ انھوں نے پہلے سے لکھی جا رہی تنقید کی جہات کو ہی اختیار کیا ہے۔ جدیدیت کو قبول کیا ہے، ترقی پسندی اختیار کی ہے یا ما بعد جدیدیت سے لو لگائی ہے یا پھر امتزاجی تنقید سے اپنا ذہنی رشتہ قائم کیا ہے ۔ تو گویا نئی نسل نے بغاوت کی بجائے حمایت کی ہے۔ مگر کیا سچ صرف اتنا ہی ہے ؟۔۔ یہ تو سچ ہے کہ نئے نقادوں میں بغاوت کی آگ ویسی نہیں ، جیسی لسانی تشکیلات کے حامی نقادوں میں تھی۔ ان کی بغاوت نافرمانی (یہ لفظ انھی کا ہے، انیس ناگی نے بطور خاص یہ لفظ برتا ) تھی، اپنی روایت کا کامل انکار تھا۔ مگر نئی نسل کے نقاد روایت کو راکھ کرنے یا اپنے پیش رؤوں کے خلاف اعلان بغاوت کرنے کے بجائے روایت میں توسیع کے قائل نظر آتے ہیں اور توسیع کا یہ عمل نقدو نظر میں نئے آفاق کی جستجو کے تحت وہ انجام دے رہے ہیں۔ مثلاً افسانے کی تنقید میں نئے نقادوں نے کلی افسانوی وژن کو پورے تہذیبی سیاق وسباق میں دریافت کرنے کی سعی کی ہے، جو پیش رو نقادوں کی افسانوی تنقید سے آگے کا عمل ہے ۔ اسی طرح تھیوری پر نئے لکھنے والوں نے تھیوری کی تفہیم و تجزیہ اپنے زاویے سے کیا ہے ۔ تھیوری کے نہایت ادق تعقلات کی گہری تفہیم کے علاوہ اس کی رو سے عملی تنقید کے خیا ل انگیز نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ نئی نسل کے لکھنے والوں نے اپنے رسائل بھی جاری کیے ہیں اور اب ان رسائل سے اسی طرح نئے مباحث اٹھتے ہیں جس طرح پہلے بڑے رسائل میں (ادبی دنیا، اوراق، فنون، سویرا وغیرہ) میں مباحث ہوا کرتے تھے۔ گزشتہ چند سالوں میں نصیر احمد ناصر کے تسطیر، مبین مرزا کے مکالمہ،حیدر قریشی کے جدید ادب، آصف فرخی کے دنیا زاد، شاہد شیدائی کے کاغذی پیرہن ، عامر سہیل کے انگارے اورقیوم طاہر کے آفاق نے بعض اہم سوالات اور مسائل پر مباحث کرائے ہیں، یہ سب نئے رسائل ہیں، جو نئے لکھنے والوں کی ادارت میں نکلتے ہیں۔
نئے نقادوں کے کام سے متعلق یہ حتمی رائے نہیں ہو سکتی کہ انھوں نے اپنا کام مکمل نہیں کیا ۔ بعض نے اپنی شناخت قائم کر لی ہے اور بعض شناخت بنانے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ابھی ان کو بہت کچھ کرنا ہے ،نئی خواتین نقادوں کو فیمنزم کے حوالے سے اور نئے مرد نقادوں کو تھیوری (براہ کرم تھیوری کا وسیع مفہوم ملحوظ رکھیں) کے حوالے سے!!********* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق و تنقید کے میدان میں چہرے تو بہت سے ہیں مگر بہت کم چہروں پر علم کا نور نظر آتا ہے۔اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں کی کثرت ہے۔یہاں دوسروں کے شبد ساگر،سوچ دریامیں غوطہ لگانے والوں کا ایک غول بیابانی ہے۔ایسے میں اگر کوئی ایسی آواز تنقیدمیں ابھرتی ہے جو دوسروں سے بالکل الگ اور مختلف ہو تو یہی جی چاہتا ہے کہ ایسی آوازکے ساتھ کچھ ساعتیں ضرور گزار لی جائیں خواہ وہ ساعتیں پھیل کر سات رات بن جائیں یا سات یُگ۔۔۔
ناصر عباس نیر ایسے ہی تنقید نگار ہیں جن کی فکر و نظراور ادبی شعور کا رنگ اپنے ہمعصروں سے بہت حد تک مختلف ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ناصر نے برسوں تک افکار کی دنیا کی سیر کی ہے۔شبد اور ارتھ کے ساتھ کئی یُگ بِتائے ہیں۔سورج کی تابانی میں الفاظ و معانی پہ غور کیا ہے۔شمس کی کرنوں کو اپنی تحریروں میں جذب کیا ہے اور دشتِ تنقید کی سیاحی مجنوں کی طرح کی ہے۔کرشن کی طرح ادب کی رادھا سے پیار کیا ہے۔شبد اور ارتھ کے بدن کو چھو کر دیکھا ہے اور اس کی گہرائیوں میں اتر کروہ جمالیاتی عناصر دریافت کیے ہیں جو کہ تخلیقی وجدان کو نئی سمتیں عطا کرتے ہیں۔
(حقانی القاسمی کا تبصرہ بر جدیدیت سے پس جدیدیت تک۔
مطبوعہ ادبی جریدہ استعارہ دہلی شمارہ نمبر ۴۔ص۳۲۳۔۳۲۴)