اکتوبر ۱۸۸۳ء میں میں نے چاہا کہ اپنے چوبی گھر کو مسجد بناکر فی سبیل اللہ وقف کردوں، سب مسلمان جو بغیر مسجد کے تکلیف اٹھاتے تھے اس خواہش سے بہت خوش ہوئے، مگر ڈپٹی کمشنر ہرچ صاحب نے از راہ تعصّب یہ رپورٹ بھیج دی کہ یہ شخص وہابی ہےاور مسجد بھی وہابیوں کے قبضے میں رہے گی، لہذا مسجد بنانے کی اجازت نہ دی جائے، اس طرح وہی تعصّب وہابیت اس کار خیر میں مانع ہوا۔
انڈمان کا انتظام حکومت
جیساکہ میں نے پورٹ بلیر میں اپنی آمد کا تذکرہ کرتےہوئے یہاں کے جغرافیہ اور قدیم باشندگان کے حالات بیان کیے تھے، اسی طرح اس مقام پر پورٹ بلیر سے روانگی کے ذکرسے قبل ساکنانِ پورٹ بلیر کے قوانین اور طرزِ زندگی پر کچھ روشنی ڈال کر اس جزیرے سے رخت سفر باندھتا ہوں۔
یہ جزیرہ دوسرے جزیروں کی طرح گورنمنٹ کی مستقل مملکت ہے، چیف کمشنر صاحب کو اختیار ہے جو قانون چاہے بنائے، جسے چاہے دیوانی فوجداری اختیارات کا قلم دان سونپ دے، چیف کمشنر ہی یہاں کاسیشن جج بھی ہےاور اس کا حکم حکم ناطق ہے، اس کے بعد اپیل نہیں ہو سکتی، صرف مقدمات پھانسی کے لیے گورنر جنرل کے اجلاس کونسل کی اجازت ضروری ہے، دیگر سب امور میں خواہ دیوانی ہوں یا فوجداری چیف کمشنر ہی ہائی کورٹ کے فرائض سر انجام دیتا ہے، چیف کمشنر کی اجازت کے بغیر یہاں سے کوئی مسافر، جہاز یا مال و اسباب نہیں گذر سکتا، چیف کمشنر صدر مقام روس میں رہتا ہے اور اس کی تنخواہ تین ہزار روپیہ ماہوار ہے۔
یہ جزیرہ جنوبی و شمالی دو ضلعوں میں تقسیم ہے، جنوبی ضلع کا صدر مقام ابرڈین ہے اور شمالی ضلع کا چاٹم، دونوں ضلعداروں کے ماتحت دوسرے بہت سے اسسٹنٹ اور کمشنر کام کرتے ہیں، ۱۸۵۸ء کی ابتدا سے لے کر اب تک اس سٹیلمنٹ کے دستور العمل اور قواعد میں بے شمار دفعہ تبدیلی ہوئی ہے اور ہمیشہ زیادہ سے زیادہ سختی کرنے کی کوشش کی جاتی ہےاور کیفیت یہ ہے کہ ؎
ہر کہ آمد براں مزید کرد
قیدیوں کے لیے قوانین
ہر سال دو ہزار قیدی ہندوستان سے قید کرکے یہاں بھیجے جاتے ہیں، اس وقت یہاں چودہ ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں، جہاز سے اتر کر جب ایک مہینہ ہوجاتا ہے تو ان کی بیڑیاں کاٹ دی جاتی ہیں، یہاں جیل خانے نہیں بنائے گئے؛ بلکہ قیدیوں کو بارکوں میں قیدی افسروں کے ماتحت رکھا جاتا ہے، ہندوستان کی جیلوں کی طرح یہاں بھی قیدیوں سے دن بھر سخت مشقت لی جاتی ہے، دو وقت کھانا دیا جاتا ہےاور رات کو بارکوں میں ہی سلایا جاتا ہے، بارکوں کی حفاظت کے لیے قیدی افسروں کے علاوہ اور کوئی پولیس یا جنگی پلٹن نہیں ہوتی، الغرض قیدیوں کی حفاظت، نگرانی اور تقسیم کار وغیرہ سب قیدی افسروں کے سپرد ہے، جو سرپر لال دوپٹہ اور گلے میں چپڑاس ڈال کر رہتے تھے اور اپنے اپنے مدارج کے مطابق حکومت سے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں۔
نئے قیدیوں کو بھی بشرط نیک چلنی تین چار برس کے بعد تنخواہ ملنے لگتی ہے، تنخواہ پانے کے بعد یہ قیدی بھی پٹے والے افسر مقرر ہوجاتے ہیں، دس برس نیک چلن رہنےکے بعد ہر قیدی ٹکٹ کا مستحق ہو جاتا ہے، ٹکٹ پانے والا قیدی بارک سے آزاد ہوجاتا ہےاور اسے اجازت حاصل ہوتی ہے کہ جس شہر یا بستی میں چاہے سکونت اختیار کرےاور جو چاہے کسب معاش کا طریقہ اختیار کرکے کمائےاور کھائے۔
قیدیوں کی پچاس ساٹھ کے قریب بستیاں بھی موجود ہیں، ان میں نمبردار، پٹواری اور چوکیدار سب قیدی ہیں، جو قیدی کھیتی باڑی کرنا چاہیں، انھیں گاؤں میں سرکار کی طرف سے پندرہ بیگے زمین مفت مل جاتی ہے، تین برس تک محصول بھی معاف رہتا ہے؛ بلکہ کبھی کبھی حکومت نقدی، بیل اور خوراک کی صورت میں بھی مدد کرتی ہے، جو لوگ حلوائی، نانبائی یا نائی وغیرہ کے طور پر کام کرنے کے لیے ٹکٹ حاصل کرتے ہیں، انھیں بھی کبھی کبھی حکومت کی طرف سے امداد مل جاتی ہے، اس قسم کے ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد قیدی آزاد ہو تا ہے کہ جو چاہے کرے۔ قیدی عورتیں ایک الگ جزیرہ میں لیڈی افسروں کے ماتحت بارکوں میں رکھی جاتی ہیں، جب تک بارک میں رہتی ہیں زناکاری کی پوری پوری روک تھام کی جاتی ہے، عورتوں کوبھی بارک میں پسائی اور سلائی وغیرہ کی مشقت کرنا پڑتی ہے، عورتوں کو پانچ سال بعد آزادی کا ٹکٹ دے دیا جاتا ہے، لیکن جوان عورتیں جب تک شادی نہ کر لیں، انھیں ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد بھی بارک سے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
پانچ برس کی مدت گذرنے کے بعد عورت کواختیار ہوتا ہے کہ وہ جس مرد سے چاہے شادی کرلے، لیکن مردوں میں سے صرف انھیں شادی کی اجازت ہوتی ہےجو ٹکٹ حاصل کرچکے ہوں، جو آدمی شادی کرنا چاہے وہ عورتوں کے جزیرے میں جاکر کسی عورت کوپسند کر لیتا ہے، اور اسے کچھ دے دلا کر شادی پر راضی کر لیتا ہے اور جب دونوں راضی ہو جاتے ہیں، تو انھیں اپنی رضامندی اور محبت و موافقت سے مل کر رہنے کا اقرار نامہ لکھ کر چیف کمشنر کو دینا پڑتا ہے، اس کے بعد بیوی اپنے خاوند کے گھر چلی آتی ہے۔
ٹکٹ والے قیدی ملک سے اپنےبیوی بچوں کو بھی بلا سکتے ہیں، جب کوئی قیدی بیس برس تک نیک چال چلن رہے تو اس کی رہائی بھی ہو جاتی ہےاور اسے اختیار ہوتا ہے، چاہے یہاں رہے، چاہےاپنے وطن مالوف چلا جائے، ٹکٹ حاصل کرنےوالے قیدیوں کو اختیار ہوتا ہے کہ حلال کمائی سے خواہ لاکھوں روپیہ جمع کر لیں، لیکن ٹکٹ سے قبل اسے اپنے پاس رکھنے یا کسی دوسرے کے پاس جمع کرانے کی اجازت نہیں ہوتی، بارک کے ایام میں قیدی ایک سال یا تین مہینے بعد ایک خط اپنے گھر بھیج سکتے ہیں اور ایک خط اپنے وطن سےوصول کرسکتے ہیں۔