محبت سیلابِ تُند جولاں کی طرح ہوتی ہے ۔ اس کے اظہار کا کوئی پیمانہ نہیں، وہ ہر روپ میں اور ہر آن اپنا اظہار کرتی ہے۔ پھر اگر محبت کی اساس علم و آگہی اور حقیقت کے عرفان پر ہو تو وہ محبت پائیدار ہوتی ہے اور اس میں آفاقی اور کائناتی آہنگ آجاتا ہے۔ ایسی محبت اپنے اظہار کے کئی راستے تراش لیتی ہے۔
جناب غلام صابر کی حکیم اُلامّت علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال سے محبت کو مٹ منٹ (Commitment)کی حدتک ہے۔ وہ سچّے عاشقِ اقبال ہیں۔ اسکینڈی نیویا میں ڈنمارک کی کوئی محفل ایسی نہیں جہاں ان کی آواز میں اقبال کا سوز دروں نہ پہنچا ہو۔ خوش الحان غلام صابر سے کلامِ اقبال سن کر میرے جسم میں زندگی بوند بوند اترنے لگی۔ میری روح کی گہرائیوں میں ایک تازگی کا احساس رقص کرنے لگا، اور یوں محسوس ہوا کہ غلام صابر کی آواز میں اقبال کے فکر و شعور کی آگہی کے سارے ہی عناصر موجود ہیں۔ اقبال اسلامی دنیا کے ان خوش قسمت مفّکروں میں سے ہیں جو لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ان کا پیغام لوگوں کی رگوں میں خون بن کر گردش کر رہا ہے۔ اقبال برصغیر کی مسلم علمی روایت اور شاعری کا تکملہ اور نکتۂ کمال ہے۔ جس طرح حضرت قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر میں مسلم سیاست کا نکتۂ عروج ہیں، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سچ کی بنیاد پر سیاست کو بڑھایا تھا،قائد اعظم سچ کی اس سیاست کا بیسویں صدی میں عملی نمونہ تھے۔ دنیا نے یہی سنا کہ جھوٹ کا نام سیاست ہے۔ قائد اعظم نے اپنے نبیؐ آخر الزّمانؐ کے تتبع میں بتایا کہ سیاست سچ کا نام ہے اور سچ بھی سیاست ہوسکتا ہے۔ اس طرح اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم قومیت کا نکتہ اتصال دے کر انھیں ایک قوم بنا دیا، قوم رسول ہاشمی جس کا دستور قرآن حکیم ہے جو خدا کا آخری پیغام ہے ۔
اقبال کی شاعری، اقبال کی نثر اور اقبال کے نظرئیے کی یہی فینٹسی ہے جو اُن کے ہر قاری اور سامع کے رگ و پے میں اتر جاتی ہے، اور وہ دیوانہ وار رقص کرنے لگتا ہے، اور وہ احیائے اسلام کی تحریک کا داعی بن جاتا ہے جس کا مقصد، مدعا اور نظریہ آج کے دور میں ایک جدید اسلامی جمہوری معاشرہ کی تشکیل و تعمیر بن جاتا ہے تاکہ مسلمان پھر دنیا کی امامت کا بارِ امانت اٹھا سکیں جو خلیفۃ اللّٰہہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کو ہی سزا وار ہے۔ اقبال کا پیغام مسلمانوں کے لیے اس دور میں صورِ اسرافیل ہے ایک نغمہ اُمید ہے ایک لائحہ عمل ہے جو ہر مسلمان کے لیے اپنے اندر کشش رکھتا ہے ۔
اقبال کے خوابوں کی سر زمین پاکستان ہے۔ اقبال نے مسلمانوں کی ارضی مرکزیت قائم کرنے اور اسلام کو ایک جدید دنیا پر واضح کرنے کے لیے پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور حضرت قائد اعظم کو مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے تجویز کیا تھا۔ آپ کے لیے شاید یہ امر حیرت انگیز ہو کہ قائد اعظم کا سب سے پہلے خطاب علامہ اقبال کو دیا گیا جو علامہ اقبال نے اپنی بجائے قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے پسند کیا، چنانچہ میاں فیروز جنہوں نے سب سے پہلے قائداعظم کا محمد علی جناح کے لیے نعرہ لگایا۔ علامہ اقبال کے قریبی عزیز تھے اور اغلباً بات یہ ہے کہ علامہ اقبال نے یہ کام از خود خاموشی اور راز داری سے سر انجام دیا تاکہ محمد علی جناح ؒ جیسی عظیم ہستی پر مسلمانوں کا اجماع ہوسکے اور وہ انہیں اپنابیسویں صدی میں قائدِ اعظم مان لیں۔ جو شخص اقبال سے محبت رکھتا ہے وہ پاکستان سے بُغض نہیں رکھ سکتا اور جو پاکستان سے محبت رکھتا ہے وہ اقبال کو محبوب تر رکھتا ہے ۔ ہمارے دوست جناب غلام صابر کی پاکستان سے محبت عشق کا درجہ رکھتی ہے ۔ انہوں نے تحریک پاکستان کو پروان چڑھتے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ ۱۴؍ اگست کے دن وہ ٹونک کی ریاست میں مرحوم اختر شیرانی کے مہمان تھے ۔ ٹونک محفوظ تھا مگر ہر طر ف مسلمانوں کا قتلِ عام ان کے لیے بہت تلخ تجربہ ہے جو ان کے شعور پر مرتسم ہے۔ ٹونک سے دلی کے راستے مسلمانوں کے لُٹے پٹے قافلوں کے ساتھ آپ جب پاکستان آئے تو سجدۂ شکر بجالائے ۔
جناب غلام صابر کا سفر زندگی بڑا تلخ ہے آپ اپنی تقدیر کے خُود ہی معمار رہے ہیں سیلف میڈ شخصیت ۔ آپ ۱۰ فروری ۱۹۲۵ء کو مراد آباد میںپیدا ہوئے۔ جو یوپی میں مسلمانوں کا گڑھ تھا، جہاں کے امرود بہت مشہور ہیں اور جہاں قرآنِ حکیم کے حفّاظ بہت بڑی تعداد میں ہوا کرتے تھے بلکہ کوئی گھر حافظ قرآن سے خالی نہ تھا۔ آپ کے والد گرامی شیخ علی احمد مرحوم صاحب طرز بزرگ اور چشتیہ صابر یہ خاندان سے وابستہ تھے ۔ ہم عصر بزرگوں میں مقبول اور بلند مقام رکھتے تھے ۔ دوسرے پڑھے لکھے مسلمانوں کی طرح فارسی اور اردو ادب سے گہرا شغف تھا۔ان کی تربیت سے غلام صابر کے اندر ایک خاص دینی ذوق پیدا ہوا۔
غلام صابر شروع سے ہی ادبی ذوق کے مالک تھے ۔ اوائل عمری میں ہی شعر و شاعری میں دلچسپی لیتے تھے۔ اقبال کے مطالعہ کا شوق انہیں بچپن سے تھا ان کے علاوہ جگر مراد آبادی سے وہ بڑے متاثر ہیں۔ اقبال کے کلام کی ہر سو اُن دنوں دھوم مچی ہوئی تھی، لہٰذا کلامِ اقبال اردو اور فارسی کا ذرا گہرائی میں اتر کر مطالعہ کیا۔ کلامِ اقبال خوش الحانی سے گانے کا شوق انہیں اسی زمانے میں ہوا۔
غلام صابر نے ابتدائی تعلیم جو اردو اور فارسی پر مشتمل تھی، ایک عظیم درویش اور بزرگ مولانا مجیب الحق مرحوم سے حاصل کی جو مراد آباد میںہر طبقہ خیال کے لوگوں کے نزدیک قابل احترام تھے۔ وہ ایک لائق استاد تھے علم و ادب کا ذوق ان کی ہی عطا ہے۔ آخری عمر میں گوشہ نشین ہوگئے تھے ۔ غلام صابر صاحب کے والد گرامی سے ایک خصوصی تعلق خاطر تھا لہٰذا پیار کا ایک سلسلہ قائم تھا۔ اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی بھی صابر صاحب کو انہوں نے ہی پڑھائی۔ بارہ سال کی عمر میں آپ ہیویٹ مسلم ہائی سکول مراد آباد میں ساتویں جماعت میں داخل ہوئے ۔ ۱۹۴۰ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا۔ میٹرک کے بعد میری طرح انہیں بھی مالی مشکلات کے باعث تعلیم کا سلسلہ ترک کرنا پڑا مگر شوق کے راستے کس نے روکے ہیں۔ دیواریں چڑھتے سورج کی کرنیں کب روک سکتی ہیں۔ ایک طویل وقفے کے بعد ۱۹۵۲ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا ۔ یہ دس بارہ سال کی ساری زندگی ایک المناک داستان ہے جس کا بیان یہاں بے محل ہوگا۔
آپ نے اپنے کیرئیر کا آغاز قومی ائیر لائن پی ۔آئی ۔اے سے کیا ۔ اپنی عمر عزیز کا زیادہ عرصہ آپ نے لاہور میں گزارا ۔ دسمبر ۱۹۷۶ء میں آپ کو راولپنڈی سے کوپن ہیگن ڈنمارک ٹرانسفر کر دیا گیا اور آپ ۱۹۸۰ء تک وہیں رہے۔ پھر آپ نے پی ۔آئی ۔ اے سے قبل از وقت ریٹائر منٹ لے لی اور ڈنمارک کی ایک ائیر لائن میں ملازمت اختیار کر لی ۔ آپ نے ۱۸ سال ڈنمارک میں قیام کا عرصہ ہوائی سروس کی نذر کر دیا اور ۱۹۹۲ ء کو ڈنمارک میںائیر لائن کی سروس سے بھی سبکدوش ہوگئے اور وہیں مستقل رہائش اختیار کر لی اور مطالعہ کی طرف دوبارہ رجوع کیا۔
آپ نے اقبال کی فکر کے تقاضے پورے کرنے کے لیے فلسفے کا مطالعہ شروع کیا۔ میری فلسفے پر کتب فلسفہ کیا ہے؟ اور زمان و مکاں کا مطالعہ ان کے سمند شوق کو ایڑ لگانے کا باعث بنا چنانچہ انہوں نے فلسفے کی کتب جمع کرنے اور انہیں پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ جس کے نتیجے میں انہیں احساس ہوا کہ یورپ کی فضائوں میں پروان چڑھنے والی پاکستانی نسل کو بالخصوص اور جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے انسانوں کو بالعموم اقبال کی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے، آسان ، سلیس اور سادہ زبان میں۔ کیونکہ وہ دقیق مفاہیم اور گنجلک مسائل کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ انہیں سادہ اور عام فہم زبان میں ہی فکرِ اقبال سے روشناس کرایا جاسکتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی جناب غلام صابر صاحب نے اپنی خوش الحانی کا جادو جگا نا شروع کر دیا اور ڈنمارک (سکینڈی نیویا) کی ہر محفل میں اقبال کا اردو اور فارسی کلام پڑھنا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اقبال کی تعلیمات کی طرف کھچے چلے آنے لگے، اور غلام صابر صاحب سے مطالبہ کرنے لگے کہ وہ انہیں اقبال کی ان نظموں اور غزلوں کے مطالب سے آگاہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے ڈنمارک‘ سویڈن اور ناروے کے اخبارات ماہنامہ شاہین کوپن ہیگن، پندرہ روزہ وقارکوپن ہیگن منزل سویڈن میں مقالات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان مقالات کی تحریر سے انہوں نے نہ صرف اپنی علمی پیاس بجھانے کا موقع فراہم کیا بلکہ فکرِ اقبال کی روشنی میں مغربی مفکرین اور فلاسفہ کا مطالعہ کرکے اقبال سے گہری آشنائی پیدا کی۔ انہوں نے ڈنمارک میں اخبارات کے ذریعے افکارِ اقبال کی تشہیر ‘ خصوصاً بیرون ملک بسنے والے اپنی قوم کے نوجوانوں میں عقابی روح بیدار کرنے کا عزم کیا اور اب بھی اپنی بساط کے مطابق انتھک کام کر رہے ہیں۔ ڈنمارک کے پڑھے لکھے طبقے نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی ہے۔
اقبال سے ان کا عشق اس قدر ہے کہ جب بھی اقبال کے اشعار انہیں یاد آتے ہیں تو ان کے دل کے تار چھڑ جاتے ہیں اور انہیں گُنگُنانے لگتے ہیں۔ اگر کبھی تنہا ہوتے ہیں تو ایک ایک شعر اور مصرعے کو سینکڑوں مرتبہ اور گھنٹوں دہراتے رہتے ہیں، کبھی سرور و سرمستی میں ڈوب جاتے ہیں او رکبھی یادِ رفتگاں میں کھو جاتے ہیں اور آنکھوں سے موتیوں کی جھڑی شروع ہو جاتی ہے ۔ دوستوں کی محفل ہو تو کلام اقبال سے خود بھی تڑپتے ہیں اور اوروں کو بھی تڑپاتے ہیں ۔
اقبال کی یہ کتنی خوش بختی ہے کہ انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے چاہنے اور پیار کرنے والے بے شمار لوگ دنیا بھر میں موجود ہیں، جوان کے پیغام کو سمجھنے اس کی تشریح و تعبیر کرنے اور اپنے لیے زندگی کرنے کا درس اور روشنی لینے کے لیے رجوع کرتے ہیں۔ اقبال نے درست ہی کہا تھا کہ وہ اپنی کشتِ ویران سے ناامید نہیں، بس ایک نم کی ضرورت ہے ورنہ امّتِ مُسلِمہ کی یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب، افغانستان میں مجاہدین کا روس کو پارہ پارہ کر دینا ، مجاہدین کشمیر کا بھارتی استبداد سے ٹکرانا، عسکریت کے بل پر سوشلزم کا ڈھونگ رچانے والے روس کا تاش کے پتوں کی طرح بکھر جانا، اور وسط ایشیا میں اسلامی ریاستوں کا دوبارہ ظہور‘ فکر اقبال کا ہی کرشمہ ہیں اور سب سے بڑھ کر جنوبی ایشیا میں ایک آزاد مسلم مملکت پاکستان کا وجود جس سے یہ سارے برگ وبار پھوٹے ہیں، اقبال کے ہی نالہ نیم شبی کا اعجاز ہے۔ اقبال کی ٹھوکر سے ہی دیوارِ برلن گری اور ہنگری، پولینڈ، چیکو سلاواکیہ، رومانیہ اور بلغاریہ اشتراکی استعماریت سے آزاد ہوئے ۔ اس وقت پوری دنیا میں احیائے اسلام کی جو تحریک برپا ہے، جسے مغرب بنیاد پرستی کہہ کر کچل دینا چاہتا ہے، اقبال کے ہی نغمۂ جاوید سے متحرک ہوئی ہے۔ تحریکِ اسلامی کے لیے اقبال کا کلام منشور کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ایران کے ممتاز شاعر ملک الشعراء بہار نے کوئی غلط نہیں کہا تھا کہ :
قرنِ حاضر خاصۂ اقبال گشت
یعنی موجودہ زمانہ اقبال کا ہے۔ شاعری ‘ فکر ‘ فلسفے اور اسلامی فقہ و سماجیات کی تدوین و تشریح میں فکرِ اقبال عصر حاضر میں کلیدی درجہ رکھتا ہے اور اسی سے دنیا میں اسلامی انقلاب رستخیز ہوگا اور غلام صابر صاحب جیسے عاشقِ اقبال اس سحر کی بنیاد ہوں گے، کیونکہ ان کے دم سے ہی فکرِ اقبال کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
ڈاکٹر وحید عشرت