کسی نے جگ بھر پانی اسکے منہ پر اچھال کر ہوش دلایا ۔۔ وہ ہڑبڑا کر سیدھا ہوا ۔۔۔ لیکن اسکے پائوں جکڑے ہوئے تھے ۔۔ وہ زوروں سے سر جھٹکتا ہوا مزاحمت کرنے لگا مگر ناکام رہا ۔۔
سلاااااام ۔۔۔ آئی ایس آئی ؟؟
خوش آمدید ۔۔ کیسے مزاج ہیں جناب کے ؟
بڑے وثوق سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے وہ اسکی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہا تھا ۔۔ فیصل شاکڈ رہ گیا ۔۔اسے یاد وہ بازار سے گزر رہے تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا ۔۔۔ اور پھر اسے کوئی ہوش نہیں رہا ۔۔
آفیسر ؟؟ کیپٹن؟ دونوں کہاں گئے ؟ وہ زہن میں اٹھتے سوالات کو زبان پر نہیں لا سکا ۔۔
تمہیں کیا لگا تم ہماری ناک کے نیچے سے ساری کاروائی کروگے اور نکل جائو گے ہمیں کچھ خبر نہیں ہوگی ۔۔ ایسا ہرگز نہیں پیارے ۔۔ ہم نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں ۔۔ تمہیں لگا تم کلب ملو گے میرے فون سے چھیڑ چھاڑ کروگے ۔۔ پھر میرے گھر میں گھسو گے کاغذات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کروگے ۔۔۔ اگلے دن بینک جائوگے حساس انفارمیشن چرائوگے اور ہمیں کچھ خبر نہیں ہوگی ۔۔
فیصل کو قدموں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی ۔۔۔
مگر داد دیتی ہوں تمہیں ۔۔ تم بہت کمال کے ہیکر ہو ! ھانی کے پاس تمہارے لئے ایک آفر ہے ۔۔ کیوں ھانی ؟؟
فیصل نے ہونکوں کی طرح ھانی کی صورت دیکھی ۔۔۔
ہم سے ہاتھ ملالو ۔۔فائدے میں رہو گے ۔۔ میں تمہیں تمہارے کام کا منہ مانگا معاوضہ دینے کو تیار ہوں ۔۔۔
فیصل کی لا شعوری طور پر ہنسی آنے چھوٹی۔۔۔
تمہیں لگتا ہے میں اپنے ایمان کا سواد کروں گا تم سے ؟؟؟ یعنی اپنا وطن بیچ دوں ،یعنی 6789 کروڑ لوگوں کی آبادی کا ساتھ کھلواڑ کروں چند پیسوں کے عوض ۔۔ ؟؟؟
‘میں ھانی نہیں ہوں پاکستانی ہوں ‘ وہ زور دے کر بولا اسکے اٹل لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی ۔۔۔
تم جیسے بیوقوف سڑک چھاپ اچھے اچھوں کو لے ڈوبتے ہیں ۔۔ڈبو دیا تم آئی ایس آئی کو۔۔بھی تم تو کیا تمہارے اچھے اچھے بھی مان جائیں گے بس دیکھتے جائو ۔۔ آئی ایس آئی کو تمہاری خاک بھی نہیں ملے گی وہ زہر اگلنے لگا
میں تو دیکھ لوں گا لیکن پھر جو ہوگا تم سے دیکھا نہیں جائے گا ھانی ۔۔ اس کا انداز چیلجنگ تھا ۔۔ جانے اتنی ہمت اور ولولہ کہاں سے آیا تھا ۔۔لیکن اس نے بہت بہادری اور ڈٹ کر سامنا کیا تھا اسکا ۔۔ ھانی کے جاتے ہی جنت کرسی کھینچ کر اسکے قریب بیٹھ گئی ۔۔
ھانی کی بات مان لو اسے غصہ مت دلائو وہ تمہیں بہت ٹارچر کرے گا ۔۔ اسکے پاس جدید تکنیکی آلات اور مشینیں ہیں تم زندہ لاش بن کر رہ جائو گے ۔۔
تم میری نہیں اپنی فکر کرو جنت قدوسی ۔۔۔ ویسے تم پہلی جنت ہو جسے نظر انداز کرکے میں جہنم جانا پسند کرو گا ۔۔ اسکا غیر سنجیدہ رویہ اسے طائو دلا گیا ۔۔۔
بھاڑ میں جائو تم ۔۔وہ پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔ فیصل نے سکون کا سانس لیا ۔۔ اور دماغ کے گھوڑے دوڑانے لگا ۔۔ اسکے زہن میں ایک خیال کوندا ۔۔
کیوں نہ وہ ان سے ہاتھ ملا لے !! اس میں برائی کیا تھی؟؟؟ کسی بات مزا لیتے ہوئے وہ مسکرایا تھا ۔۔
_______________________________________
ابراہیم نے کرنل جاوید اور اسکی فیملی کو بھی نکاح میں مدعو کیا تھا ۔۔ وہ لوگ بھی اسکی فیملی سے کم نہیں تھے ۔۔ میجر عون اور کرنل کے اس پر بہت سے احسانات تھے ۔۔ آج ان کے سنگ شزانہ بھی آئی تھی ۔۔۔ ابراہیم نے اسے سب سے متعارف کروایا تھا ۔۔ وہ امیر کبیر افغان سفیر کی بیٹی تھی ۔۔ یہ انکشاف سب کو حیران کر گیا تھا ۔۔
وہ کئی دنوں اسکی بے چینی کا سبب بنی ہوئی تھی ۔۔ ریسٹورنٹ میں ملنے کے بعد اسکا احساس جرم یکایک چاہت کے جذبات میں بدل گیا ۔۔ وہ ان جذباتون کو کوئی بھی نام دینے سے قاصر تھا ۔۔۔ وہ اس سے بات کرنے کے ارادے سے آگے بڑھا ۔۔ وہ چونک کر پلٹی
کیسی ہو تم؟؟ یوسف کو دیکھ کر اسکا چہرہ بے تاثر ہوگیا ۔۔ اسکے گزشتہ رویے نے شزانہ کو بہت تکلیف پہنچائی تھی ۔۔
ٹھیک ہو ۔۔ وہ مختصر سا بولی ۔۔۔
مجھ سے نہیں پوچھو گی ؟؟ وہ براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا ۔۔۔
کیوں پوچھوں میں آپ سے رشتہ کیا ہے میرا؟ نپا تلا سا جواب سن یوسف خاموش رہ گیا ۔۔
میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں ۔۔ جو بھی ہوا نہیں ہونا چاہیئے تھا ۔۔ حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ مجھے مجبورا وہ قدم اٹھانا پڑا ۔۔ وہ گہری سانس لے کر بولا
سب حالاتوں کا دوش ہے تو آپ کیوں معافی مانگ رہے ہیں ۔۔ اسکے لہجے میں ناراضگی کا تاثر چھلکا ۔۔
کیوں کہ مجھے لگا میرے رویے سے تم ہرٹ ہوئی ہو
وہ یاسیت سے بولا ۔۔
سہی لگتا ہے آپ کو ۔۔ میں نے پہلی بار کسی اجنبی پر بھروسہ کیا تھا اور آپ نے مجھے آئندہ کے لئے بہت اچھا سبق سکھایا ۔۔ وہ تلخ ہوئی ۔۔ یوسف لب بھینچ کر رہ گیا ۔۔۔ شادی کروگی مجھ سے ؟ اسکے بڑھتے ہوئے قدموں کو بریک لگی تھی ۔۔ انتہائی حیرت سے اس خوبرو جوان کو دیکھنے لگی ۔۔ جو اسے حیران کرنے پر تُلا ہوا تھا ۔۔
کیوں ؟ وہ اتنا ہی پوچھ سکی
کیونکہ میں تمہیں چاہنے لگا ہوں اگر تم ہاں کردو تو ۔۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں بہت خوش رکھوں گا ۔۔ محبت بھرے لہجے میں یقین دہانی کروائی ۔۔۔
اپنے گزشتہ برے اور خود غرض رویے کے باوجود آپ کی ہمت کیسے ہوئی یہ بات کرنے کی ؟ انداز میں روکھا پن تھا ۔۔ البتہ لہجہ نارمل تھا ۔۔اسے شاید غصہ بھی نہیں آتا تھا ۔۔
اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں ! پس ماندگی سے بولا ۔۔
آپ ہمیشہ ہی اتنے مجبور رہتے ہیں؟؟ وہ جھنجھلا گئی ۔۔ یوسف اسکے انداز پر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا ۔۔ شزانہ نے خفگی سے رخ موڑ لیا۔۔۔
میں اماں کو بھیجوں گا تمہارے گھر ناں مت کرنا ۔۔ تحکممانہ انداز میں بولا ۔۔ شزانہ بس اسے گھور کر رہ گئی ۔۔ عجب سر پھرا شخص تھا ۔۔۔ اسکے ہاتھ سے فون لے کر اپنا نمبر سیو کیا ۔۔ اور خوبصورت سی مسکراہٹ اچھالتے ہوئے پلٹ گیا۔۔۔
میجر عون نے اسکی یہ حرکت بخوبی دیکھی تھی ۔۔۔
چلو اچھا تھا ۔۔ اسے ایک ٹھوس جواز مل گیا تھا ۔۔ شزانہ اچھی لڑکی تھی معصوم ۔۔۔ من موہنی سی مگر اسکا دل البیلی تاشا پر آگیا تھا ۔۔ پہلے دن سے ہی اسے وہ بے حد بھائی تھی ۔۔۔ لیکن مما کے بے حد اسرار پر اس نے شزانہ کے لئے ہاں کردی تھی ۔۔ مگر اب یوسف کی صورت میں اسکے پاس انکار کا ٹھوس جواز موجود تھا ۔۔۔
مٹھائی کھائیے ۔۔نکاح ہوگیا ۔۔عون کی جب جب نظر اس پر پڑتی لب خودبخود مسکرا اٹھتے ۔۔۔
بڑا مسکرایا جا رہا ہے ۔۔ ایک منٹ ۔۔
اس نے رک کر زہن پر زور ڈالا ۔۔ آپ ؟؟ آپ تو وہی ہیں نا ۔۔ جس دن ہم بھاگ گئے تھے آئی مین جس دن ہم بھاگ آئے ان لوگوں کی قید سے تو آپ نے ہماری مدد کی تھی ۔۔۔
وہ یاد آنے پر بولتی چلی گئی ۔۔
جی ہاں میں وہی ہو ۔۔۔ عون کا دل کیا دیوار سے سر پھوڑ ڈالے ۔۔ جب ابراہیم نے اسکا گھر والوں سے تعارف کروایا تھا تب سے لیکر محترمہ کو اب یاد آرہا تھا ۔۔
خیر اچھا لگا آپ کو میری دوست کی شادی میں دیکھ کر ! وہ ازلی انداز میں بولی ۔۔
صرف دوست کیوں بھائی بھی تو ۔۔ وہ حیران ہوا
ارے نہیں آج دن میں نوال کے ساتھ ہوں بیچاری بہت گھبرائی ہوئی تھی نا ۔۔ اب دلہن بننا اتنا آسان تو نہیں ہے نا ۔۔ اس نے امائوں کی طرح ہاتھ جھلایا ۔۔
کیوں بھلا؟ وہ لاشعوری طور پر حیران ہوا
اب آپ خود سوچیں میجر صاحب آپ کو خوبصورت سا سرخ لباس پہنایا جائے ، لمبا سا گھونگھٹ اوڑھا دیا جائے ۔۔ جن رشتے داروں کی کبھی شکل بھی نہ دیکھی ہو وہ بھی آپ کے میک اپ جیلوری پر تبصرہ کر رہے ہو ۔۔ یہی نہیں اور بھی سنیے آپ کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھما دیا جائے ۔۔۔ پھولوں سے سجے کمرے میں تن تنہا اجنبی شخص بیٹھا ہو ۔۔۔ جسے کبھی دیکھا نہ سنا ہو ۔۔ اس شخص کو دیکھ کر دل اتنا شدید دھڑکنے کرنے لگے ۔۔ کہ آواز آپ کے کانوں تک گونجنے لگے ۔۔۔ ایسے عالم میں آپ کیا کریں گے میجر ؟
ظاہر سی بات ہے یہ آسان کام نہیں ہے ؟؟
میں ملٹری آفیسر ہوں مجھے وہی رہنے دو !
عون نے لب دباتے ہوئے کہا
چلیں … آپ سوچنا بھی نہیں چاہتے تو اندازہ لگا لیں ‘دلہن’ بننا کتنا مشکل ہے ! ہرگز آسان نہیں ہے یہ ! وہ امائوں کی طرح ہاتھ جھلا کر بولی ۔۔
سہی کہہ رہی ہیں آپ۔۔ پھر تو آپ کا دلہن بننے کا کوئی پلین نہیں ہوگا ۔۔۔ عون نے اسے چھیڑا
بہرحال میرے پلین اکثر و بیشتر فلاپ ہی ہو جاتے ہے ۔۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔۔
اسکا انداز تاشا کی تشویش زدہ نگاہوں کی زد میں آگیا
آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟؟
آپ کو کیا لگتا ہے کیوں پوچھ رہا ہوں میں ؟؟؟ عون نے لب دباتے ہوئے کہا ۔۔
مجھے کیا خبر۔۔تاشا نے گڑبڑا کر آس پاس نگاہ دوڑائی ۔۔ جیسے چوری پکڑی جانے کا ڈر ہو ۔۔ اسکے حسین چہرے پر بکھرتی سرخی بہت دلکش تھی ۔۔ وہ بے توجہی کا مظاہرہ کرنے لگا ۔۔ عون کی سحر انگیز نگاہیں اسکے اندر طوفان برپا کرنے لگی ۔۔۔
میں ۔۔۔ مٹھائی سب کو کھلا کر آتی ہوں ۔۔ اس نے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی ۔۔ میجر عون کی نگاہوں نے بہت دور تک اسکا پیچھا کیا ۔۔
_______________________________________
وہ دلہن بنی بہت حسین لگ رہی تھی ۔۔۔ نکاح ہو چکا تھا ۔۔ فاتح کو لاکر اسکے بغل میں بٹھایا گیا فوٹو سیشن چل رہا تھا ۔۔۔ لیکن کوئی بھی فاتح کو زیادہ دیر وہاں بیٹھا نہیں سکا تھا ۔۔وہ پھر سے اٹھ کر اپنے دوستوں کے بغل میں آکھڑا ہوا ۔۔ شاکرہ بیگم اسے گھور کر رہ گئیں ۔۔
عمارا اور ابراہیم بھی نکاح میں شریک ہوئے تھے ۔۔۔ عمارا نے سوچ رکھا تھا خالہ سے جی بھر کر شکوے کرے گی ۔۔لیکن معاملہ ایسی نوعیت کا تھا وہ سب کے سامنے کچھ نہیں کہہ سکی تھی ۔۔ البتہ سب گھر والے ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر بہت خوش تھے ۔۔۔ اور وہ دونوں بھی
نوال کو عجیب بے چینی نے گھیرا ہوا تھا ۔۔ دل چاہ رہا تھا کہ بس اٹھ کر سب کی نظروں سے دور بھاگ کر جائے ۔۔اللہ اللہ کرکے تقریب ختم ہوئی تو رات کے دو بج گئے تھے ۔۔ ابراہیم عمارا کو چھوڑنے اسکے گھر گیا تھا ۔۔۔ مہمان رخصت ہوچکے تھے ۔۔ تاشا اسے لائونج میں شاہین صاحب کے پاس چھوڑ گئی تھی ۔۔۔ روشن رومیشا سب کے تھکن زدہ چہروں کو دیکھ کر کچن میں چائے بنانے چلی گئی تھی ۔۔۔
چلیں نوال ۔۔؟؟؟ لائونج میں سب چونک کے پلٹے اسکی بات پر ۔۔۔
کہاں ؟ نوال بمشکل بولی تھی
ارے تم بھول گئی تم ہی نے تو کہا تھا تمہیں ساحل سمندر پر جانا ہے ۔۔
م۔۔میں نے کب۔۔۔!!
نوال اسکی مکاری پر غم و غصے سے بل کھا کر رہ گئی ۔۔اوہہوووو ۔۔۔
اماں کی مسکراتی نگاہیں تاشا کا شوخ لہجہ ۔۔ نوال شرم سے سر نہیں اٹھا سکی تھی ۔۔۔صد شکر کہ شاہین ماموں اٹھ کر جا چکے تھے ۔۔۔ اسکا دل کیا فاتح کو صفا حستی سے مٹا دے ۔۔
تم چینج کرلو چاہو تو ۔۔ پھر چلتے ہیں ۔۔ وہ کہہ کر جا چکا تھا ۔۔ نوال اپنی سی صورت لے کر رہ گئی ۔۔۔ وہ انکار بھی نہیں کر سکتی تھی ۔۔ کوئی جواز نہیں بنتا تھا ۔۔۔ وہ سب کی نظروں سے خائف ہوکر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔ تاشا کی قہقہہ اسکی پشت پر گونجا ۔۔۔ اس نے مڑ کر زور دار مکہ اسکی کمر پر جڑ کر حساب برابر کر دیا تھا ۔۔
بھلا مجھ بیچاری کا کیا قصور ہے خفیہ منصوبے بھی خود بنائے اب بھانڈا پھوٹ گیا سب کے سامنے تو مجھ پر خندس نکال رہی ہے محترمہ ۔۔ وہ بلند آواز بولی ۔۔ اسے بھی سب خبر تھی مگر وہ اسے جلانے کی خاطر اور زور سے بولی تھی ۔۔ شاکرہ بیگم اسے گھور کر رہ گئیں ۔۔۔
____________________________________
رات کی کالی چادر نے ہر منظر کو ڈھانپ لیا تھا ۔۔۔ آسمان پر گھنے بادلوں نے تاروں کی نمائش میں خلل ڈال دیا ۔۔ دور کہیں رکھوالی کے کتے بھونک رہے تھے ۔۔۔ویران گلیاں ، سنسان راستے خاموشی کے فسوں میں جکڑے ہوئے تھے ۔۔ جانے وقت کیا ہوا تھا۔۔! ایسے میں ھانی کے محل کی پچھلی دیوار سے ٹیک سے لگائے وہ انتظار میں تھی۔۔۔ قدموں کی چاپ سنائی دینے پر چونکنا ہوئی ۔۔۔ دائم نے پر امید نگاہوں سے جلی ہوئی سگریٹ کا آدھا حصہ اس کی طرف بڑھائی ۔۔
یہ کیا ؟ وہ الجھی ۔۔
غور سے دیکھو جواباً وہ مسکرایا ۔۔۔
سگریٹ کا آدھا حصہ جل چکا تھا بقیہ حصے پر چند ایک الفاظ نظر آرہے تھے ۔۔وہ کچھ کچھ سمجھ گئی تھی
لڑکا اسمارٹ ہے کیپٹن مانو یا نہ مانو ۔۔ وہ بھی مسکرائی تھی ۔۔
چلتے ہیں ۔۔ وہ ہمارا انتظار کر رہا ہو گا ۔۔۔ وہ گاڑی میں سوار ہوئے اور حلب کے لئے نکل پڑے ۔۔ لیپ ٹاپ ٹریکنگ ڈیوائس شو کر رہا تھا ۔۔ وہی ڈیوائس جو فیصل نے نہ جانے کیسے ان کے سسٹم میں انسٹال کی تھی ۔۔ رات کے اس وقت انہیں اونچے نیچے راستوں پر بہت دشواریوں کا سامنا تھا ۔۔ جنرل بخشی نے اسپیشل فورسز تیار رکھی تھی ۔۔ انہیں بس فیصل کو ان کے حوالے کرنا تھا ۔۔ پھر ہی وہ ھانی کی طرف بڑھ سکتے تھے ۔۔ لیکن ایک اور بڑی مصیبت انکا انتظار کر رہی تھی ۔۔ جس سے وہ سب انجان تھے ۔۔
_______________________________________
فریبی مکار انسان ۔۔ کتنے بڑے جعل ساز ہو تم !
اس نے دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازہ بند کیا اور فاتح پر مکوں کی برسات کردی ۔۔۔
شرم حیا کرو ۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ہمارا نکاح ہوا ہے ۔۔ نئی نویلی دلہن کی طرح بی ہیو کرو یار۔۔۔ اور شوہر ہوں تمہارا خبردار اگر مجھے جعل ساز اور مکار فریبی کہا تو ! موصوف کے تو انداز و اطوار ہی بدل گئے تھے ۔۔
نوال کی دھڑکنیں تیز تیز چلنے لگیں ۔۔
مجھے تمہارے ساتھ کہیں جانا فاتح ۔۔ پلیز ۔۔ مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔
گھبرا کیوں رہی ہو ؟ فکر مت کرو کھا نہیں جائوں گا تمہیں میں آدم خور نہیں ہوں ۔۔
اسکی دہکتی نگاہوں سے خائف ہوکر رخ بدل لیا ۔۔۔ وہ اسے ہوٹل کے خوبصورت سجے ہوئے کمرے میں لے آیا ۔۔۔۔ والز کے پار رات کی سیاہی میں سمندر کے نیلگوں پانیوں کا اتنا حسین نظارہ پیش کر رہا تھا کہ وہ مبہوت رہ گئی ۔۔۔
خوبصورت ہے نا ۔۔
وہ چونک کر پلٹی ۔۔
تم…مجھے یہاں کیوں لائے ہو فاتح؟ وہ پل بھر کو خوفزدہ ہوئی تھی ۔۔۔ اس سارے عرصے میں اسکی غیر معمولی حرکتوں سے بہت وہشت زدہ ہوکر رہ گئی تھی
پتا نہیں ۔۔ میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں مگر میں تمہیں ہر اس چیز سے متعارف کروانا چاہتا ہوں جو مجھ سے تعلق رکھتی ہے ۔۔ حتی کہ تمہیں بھی ایک نئی نوال نے متعارف ہونا ہے ۔۔ بھول جائو کوئی رامس تمہاری زندگی میں آیا تھا اور اس سے تمہاری منگنی ہوئی تھی ۔۔ تم اب صرف میری ہو ۔۔ صرف میری بیوی ۔۔ عجب سحرزدہ انداز تھا ۔۔ وہ میکانکی انداز میں سر ہلانے گئی ۔۔
تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔ اپنے گردن پر اسکے ہاتھوں کا لمس محسوس کرکے اس نے جھرجھری سی لی ۔۔۔ اسکے لبوں پر مسحور کن مسکراہٹ تھی ۔۔۔
تو۔۔تم کہنا چاہتے ہو کہ تم نے مجھ سے شادی۔۔
فاتح نے طویل سانس لے کر خود کو ڈھیلا چھوڑا
وہ سب کچھ نہیں تھا محض ایک وقتی غصہ تھا جو تب ہی ختم ہوگیا جب تاشا نے مجھے بتایا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔۔
کیا؟؟؟؟ تاشا نے تمہیں سب بتادیا تھا۔۔ اسے صدمہ ہوا دل ہی دل میں تاشا کو دو چار گالیاں بھی دے ڈالیں
ہاں نا۔۔ اسی لئے وہ سہی وقت پر سہی فیصلہ کرنے کی وجہ بنی ۔۔تمہیں اسکا شکریہ ادا کرنا چاہیئے اگر وہ نہ بتاتی تو مجھے شاید کبھی پتا نہیں چلتا ۔۔اور اس بندر رامس سے تمہاری شاید ہوچکی ہوتی۔۔ وہ جل کر بولا
آر یو جیلس؟ وہ شریر ہوئی
ہاں نا۔۔ ویسے تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔ اپنے گردن پر اسکے ہاتھوں کا لمس محسوس کرکے اس نے جھرجھری سی لی ۔۔۔اسکی پیشانی پر محبت سے لبریز مہر ثبت کرنے لگا
وہ کسمسا کر اسکی گرفت سے نکلی
کہاں بھاگ رہی ہو؟ اسکے لبوں پر مسحور کن مسکراہٹ تھی ۔۔۔
مجھے چینج کرنا ہے۔۔اس نے عذر تراشا ۔۔ اسکے گال شعلوں کی مانند دہک رہے تھے۔۔
بعد میں کرلینا مجھے جی بھر کر دیکھ تو لینے دو۔۔اسکی کمر کے گرد بازو حمائل کرکے اپنی طرف کھینچا اور نوال کی ساری مزاحمتیں دم توڑ گئیں
_______________________________________
تو تم نہیں مانے لڑکے ۔۔ تمہیں لگتا ہے تم جیسے سڑک چھاپ لڑکے ہمارا کچھ اکھاڑ پائیں گے ۔۔ اس مقام تک ایسے ہی نہیں پہنچا ہوں کہ تم جیسے کئی آئے اور گئے۔۔تم پہلے مکمل جاسوس تو بن جائو ۔۔
وہ مکاری سے ہنسا
ہونہہ ۔۔اگر تم اتنے ہی طاقتور ہوتے تو میرے ساتھ کی بھیک نہ مانگ رہے ہوتے ۔۔ وہ گردن اکڑا کر بولا ۔۔۔ اچانک فضا میں غیر معمولی سی آوازیں گونجنے لگی ۔۔۔ ھانی اضطراری کیفیت میں اٹھ کر وین کی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا ۔۔
تم بہت بیوقوف ہو ۔۔تم نے اپنے ساتھیوں کو بھی پکڑوا دیا
اس نے جیسے کسی بات کا مزہ لیا ۔۔ اور کسی کو فون ملانے لگا ۔۔ اچانک گاڑی جھٹکا کھا کر رکی ۔۔ دائم نے ڈیوائس گاڑی کی پیچھے فکس کیا اور برقی رفتار سے دور بھاگ گیا ۔۔ دیکھا دیکھی گاڑی کا پچھلا حصہ دھماکہ خیز مواد سے تباہ و برباد ہوگیا ۔۔
سعی کہا تھا تم نے ھانی ۔۔۔ میں سڑک چھاپ ہوں لیکن بے وقوف نہیں ۔۔ گڈ بائے سی یو اِن ہیل
وہ آنکھ دبا کر کہتا گاڑی سے کود گیا ۔۔۔سڑک پر بل کھاتا ہوا بہت دور جاگرا ۔۔ کل رات جب جنت اسے کھانا دینے آئی ۔۔ بظاہر وہ اسے اپنے جال میں پھنسانا چاہتی تھی اسے یہ بتاکر کہ وہ اسرائیلی ہے ھانی نے جبراً اسے یہاں قید کر رکھا ہے ۔۔ اگر فیصل اسکا ساتھ دے تو وہ بھاگنے میں اسکی مدد کر سکتی ہے ۔۔ بدلے میں ھانی سے ہاتھ ملالے (بظاہر طور پر) اور اسکا ہر حکم مانتا جائے ۔۔ لیکن وہ اس کی چال سمجھ گیا ۔۔ وہ راضی ہو بھی جاتا لیکن پھر اسے ایسا کچھ پتا چلا جس نے اسکا دماغ گھما دیا تھا ۔۔ جنت قدوسی عرف ونیسا ڈبل ایجنٹ تھی ۔۔ دراصل وہ سی بی آئی کے لئے کام کرتی تھی ۔۔۔ لیکن فیصل تو فیصل تھا ۔۔ اگر وہ اپنی پر آجائے تو دنیا کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا تھا ۔۔۔ اس نے اپنی انگلیوں کا جادو دکھا کر نہ صرف ھانی کے بلکے سی بی آئی سے متعلق بھی ساری حساس انفارمیشن سیدھا آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر رپورٹ کردی تھی ۔۔۔ اب صرف اس کے پاس ایک ڈیوائس تھی جس میں مشن سے متعلقہ ساری انفارمیشن اس نے نئے سرے سے حاصل کی تھی ۔۔۔ ھانی پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا ۔۔اور شاید جنت کو بھی شک ہوگیا تھا کہ فیصل اسکی اصلیت جان چکا ہے ۔۔۔اسلئے دونوں طرف سے فیصل کو مارنا بہت ضروری ہوگیا تھا ۔۔۔ ان کی بدقسمتی تھی یا امتحان ۔۔ وہ بروقت وہاں پہنچ گئی ۔۔ اور راستے میدان جنگ بن گئے ۔۔ھانی کے ساتھ اسکی ساری فوج تھی جبکے وہ تین تھے ۔۔ بلاشبہ ان تینوں کو دشواری کا سامنا تھا ۔۔
تم لوگ جائو یہاں سے ۔۔ اور میری بات اب غور سے سننا ۔۔ یہاں کچھ کلو میٹر کی دوری پر گنجان علاقہ ہے ۔۔ یہاں آنے سے پہلے ہم نے جنرل بخشی سے مدد طلب کی تھی ۔۔۔ امدادی ٹیم اور فائیٹر جیٹس پانچ منٹ سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے ۔۔ یہاں خطرہ بڑھ گیا ہے ۔۔ فیصل کے لئے یہاں رہنا ناممکن ہے ۔۔تم اسے یہاں سے لے جائو ۔۔ فورا
ہم آپ کے بغیر نہیں جائیں گے ۔۔ وہ چیخا تھا ۔۔
میرے لئے بلکے ہم سب کے لئے تم بہت ضروری ہو فیصل ! وہ پہلی بار براہراست اپنائیت سے گویا ہوا ۔۔
فیصل کا دل نہیں مانا تھا ۔۔
نایا بھی فیصل سے اکتفا کرتی تھی مگر دائم کا فیصلہ ہی درست تھا ۔۔
آر یو شیور ؟؟
اسکے تفکر بھرے انداز پر دائم نے ہلکا سا مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور پلٹ گیا ۔۔ چند پلوں کے لئے وہ دونوں گم سم ہوگئے۔۔وہ جا چکا تھا مگر اسکی موجودگی احساس ابھی بھی وہاں تھا ۔۔ کبھی اسکا ہنسنا ، اسکی ڈانٹ ، اسکا غصہ، ایک کے بعد ایک ساتھ بِتائے پل یاد آنے لگے ۔۔ سب پل بھر میں غائب ہوگیا ۔۔ فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ مسلسل لگاتار سنائی دے رہی تھی ۔۔۔ وہ سراپا سوگ تھے ۔۔ بچھڑنے کا سوگ ۔۔ جانے وہ اب کب ملیں ۔۔ پتا نہیں ملیں گے بھی کہ نہیں ۔۔۔ لوگوں کا ملنا ۔۔اور پھر مل کر بچھڑ جانا بھی ایک امتحان تھا ۔۔۔وہ دونوں بوجھل قدموں سے واپس پلٹ گئے ۔۔
فیصل کا دل تو کہیں بہت پیچھے شام کی گلیوں اور بازاروں میں رہ گیا ۔۔۔
_______________________________________
جنرل بخشی ہیڈکوارٹر سے ہنگامی میٹنگ کے لئے نکل رہے تھے کہ انکا اسسٹنٹ ہانپتا ہوا ان کے قریب پہنچا ۔۔ اور کان میں بڑبڑایا ۔۔۔ چند لمحے کے لئے ان کا چہرہ تاریک ہوگیا ۔۔
اِنّا لِلّهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن
وہ زیر لب بڑبڑائے ۔۔
ہمارے ایجنٹس سے رابطہ ہوا ۔۔ ؟؟؟ ان کے سوال پر
اسسٹنٹ کے چہرے پر مایوسی چھائی رہی ۔۔
ٹھیک ہے جیسے ہی ان سے رابطہ ہو ۔۔ مجھے فورا انفارم کرنا ۔۔ اسسٹنٹ سر ہلاتا ہوا پلٹ گیا ۔۔
_______________________________________
وہ اسے گھر کے بجائے کمرے تک چھوڑنے آیا تھا ۔۔۔
عمارا کو اسکے تیور بدلے بدلے سے معلوم ہورہے تھے ۔۔ بہرحال جو بھی تھا وہ بہت خوش تھی ۔۔ بہت ہی زیادہ
ابراہیم غیر دلچسپی سے کبھی دیواروں پرلگی پیٹنگس کو بغور دیکھتا ۔۔ کبھی راہداری میں چیزیں الٹ پلٹ کر دیکھتا ۔۔کبھی فرج میں جھانکنے لگتا تو کبھی لائونج کی کھڑکیوں کے پردے آگے پیچھے کرنے لگتا ۔۔وہ جو کب سے اسکی حرکتوں کو نوٹ کر رہی تھی ۔۔
جھنجھلا کر پوچھنے لگی ۔۔۔
کیا بے سکونی ہے کیا کرنا چاہ رہے ہو؟؟؟ اور تمہیں جانا نہیں کیا ؟ گھر والے تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے ؟
کیا کروں عادت سے مجبور ہوں نا ! تسلی کیئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا ۔۔ بے نیازی ہی بے نیازی تھی دوسری طرف ۔۔
کیا مطلب کیا کرنا چاہ رہے ہو تم؟؟ جیولری اتارتے اسکے ہاتھ تھمے ۔۔
یہاں رکنا چاہ رہا ہوں ۔۔کیوں نہیں رک سکتا کیا ؟ بیوی شوہر کے گھر رہ سکتی ہے شوہر بیوی کے گھر کیوں نہیں رہ سکتا ۔۔اس نے لگے ہاتھ اعتراض اٹھایا ۔۔
کیوں نہیں رہ سکتے ہو گیسٹ روم خالی ہے ۔۔ جب تک دل چاہے رہو ۔۔ اس نے بالوں کو دو چار بل دے ڈھیلا ڈھالا سا جوڑا بنایا اور صوفے پر ٹک گئی ۔۔۔
میں گیسٹ روم میں رہوں گا ؟ اسے صدمہ ہوا
تو اس میں برائی کیا ہے ؟ وہ مزے سے بولی
تم نہیں لگتا کہ تم اپنے شوہر کے ساتھ زیادتی کر رہی ہو۔۔ تمہیں چاہیئے تھا مجھے پہلی فرست میں اپنا کمرہ پیش کردیتی لیکن تم نے رعبدار مالکن کی طرح مجھے گیسٹ روم پیش کردیا ۔۔ ویری ڈساپوائٹنڈ عمارا ۔۔ اس نے لہجے میں دنیا جہاں کا دکھ سمو کر بولا تو بے اختیار عمارا کی ہنسی چھوٹ گئی ۔۔
ویسے تمہارا گھر جانے کا کوئی ارادہ نہیں کیا؟ خالہ انتظار کر رہی ہوں گی ۔۔
ابراہیم کی تیزی سے اسکرین پر چلتی انگلیاں تھمیں ۔۔ نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔ جس کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی ۔۔
تم کہہ کیوں نہیں دیتی کہ یہاں سے چلے جائو ۔۔ میں چلا جائوں گا ۔۔۔ ایسے کڑوے بول بول کر دل مت جلائو یار !
وہ برا سا منہ بنا کر بولا تو عمارا ایک بار پھر سے ہنس دی ۔۔۔ اسکی ہنسی کا جلترنگ رات کے سناٹے میں گونجتا اسکی سماعتوں کو بہت بھلا لگا تھا ۔۔۔
مگر اسکرین پر ابھرتے اگلے پیغام نے سارا معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا ۔۔ ابراہیم نے ایک گہری سانس لی اور ‘اوکے’ کا سائن دے کر اسکرین بھجا دی ۔۔۔
میں چلتا ہوں ۔۔ تم اپنا خیال رکھنا !
اسکے تاثرات یک دم بدلے تھے ۔۔
میں مزاق کر رہی تھی تم جہاں چاہو سو سکتے ہو اور ۔۔۔
ایسی کوئی بات نہیں تم اپنا خیال رکھنا ۔۔ وہ اسکا گال تھپتھپا کر مزید کہے سنے بغیر باہر نکل گیا ۔۔ عمارا کی آنکھیں جل تھل ہونے لگیں ۔۔ وہ اتنا بے حس پہلے تو کبھی نہیں تھا ۔۔پہلے تو اسکی جلی کٹی باتیں بھی خندہ پیشانی سے سن لیتا تھا ۔۔۔ اور اب زرا سا مزاق بھی سہار نہیں سکا ۔۔ وہ بہت عجیب ہوگیا تھا ۔۔ بہت عجیب
عمارا نے صوفے پر گرتے ہی سر پکڑ لیا تھا ۔۔
_______________________________________
| آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر| | آب پارہ|
انٹرپول کی متعلقہ آفیسر کے والد ہمارے بہت ہی دلیر اور بہادر ایجنٹ تھے ۔۔ جن کا آج صبح انتقال ہوگیا ہے ۔۔ میں چاہتا ہوں تم اس کی جگہ خدمات انجام دو تاکہ وہ اپنے والد کی آخری رسومات کے وقت یہاں موجود ہو ۔۔مشن اپنے آخری مراحل میں ہے میں نہیں چاہتا کسی بھی وجہ سے ڈراپ ہوجائے ۔۔ بلاشبہ دونوں باپ بیٹی نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا ہے ۔۔
جیسے آپ کہیں سر !
ابراہیم نے سر خم دیتے ہوئے عقیدت سے کہا ۔۔جس کے بعد جنرل نے اسے متعلقہ ڈیٹیل بتا کر فورا روانہ ہونے حکم دیا تھا ۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...