“بیٹا ۔۔کون ہو آپ ۔۔“ زہرہ شکیل نے ایک چھوٹے سے بچے کو آ فاق کے گھر دیکھ کر کہا ۔۔۔۔
وہ۔۔۔۔ آنٹی میں سامنے والے گھر سے ہوں ۔۔۔۔ہم نیو شفٹ ہوۓ ہیں یہاں ۔۔بچے نے ہکلا تے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔
“بیٹا ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ ادھر آؤ میرے پاس ۔آپکا نام کیا ہے ۔۔؟؟مسز شکیل نے پیار سے اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوۓ کہا
میرا نام شہروز ہے ۔۔۔۔۔
بیٹا آپ کا نام تو بہت پیارا ہے ۔۔۔۔مسز شکیل کو وہ پیارا سا بچہ ڈری سہمی ہوئی آنکھو ں والا انہیں بہت دل کے قریب لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بیٹا آپکے گھر میں اور کون ہے ؟؟؟““
”میں ۔۔ماما ،،گڑیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابا ۔۔۔۔۔۔““
بابا کے نام پر اسکے آنکھوں میں ایک وحشت سی آ یی جسے زہرہ شکیل نے پرکھ لیا ۔۔۔
“آنٹی یہاں پر بچے ہیں مجھے کھیلنا ہے انکے ساتھ۔۔۔۔۔“
“ہاں میرا بیٹا ار حم اور مدیحہ ہیں انکے ساتھ کھیلنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی وہ روم میں بیٹھے ہونگے جاؤ تم انکے پاس ۔۔۔۔“انہوں نے روم دیکھاتے ہوۓ کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں ،
اور امی نے سمجھائی نہیں
میں کیسے میٹھی بات کروں ؟
جب میں نے مٹھائی کھائی نہیں ۔ ۔
آپی بھی پكاتی ہیں حلوہ ،
پھر وہ بھی کیوں حلوائی نہیں ؟
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں !
نانی کے میاں تو نانا ہیں ،
دادی کے میاں بھی دادا ہیں ۔
جب آپا سے میں نے یہ پوچھا
کیا باجی کے میاں باجا ہیں ؟
وہ ہنس ہنس کر یہ کہنے لگیں
اے بھائی نہیں ، اے بھائی نہیں ۔ ۔
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں !
جب نیا مہینہ آتا ہے تو
بجلی کا بل آجاتا ہے ۔۔
حالانکہ بادل بے چارا
یہ بجلی مفت بناتا ہے ،
پھر ہم نے اپنے گھر بجلی
بادل سے کیوں لگوائی نہیں ۔۔۔
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں ۔۔۔
لاؤڈ سپیکر پر یہ پوئم لگا کر مدیحہ زور و شور سے پوئم کی دهجياں بکھیر رہی تھی ۔۔ ۔۔۔۔۔ ارحم کو چوکلیٹ لنے کے لئے بھج دیا تھا اور خود اب مزے سے گول گول گھوم رہی تھی ۔۔۔۔۔
گھومتے ہوۓ اسکی نظر دروازے پر کھڑے ہوۓ لڑکے پر پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حیران نظروں سے اس معصوم لڑکی کو دیکھتا جا رہا تھا ۔۔
تون ہو تم ۔۔۔۔۔مدیحہ نے اسکے پاس آ کر پوچھا ۔۔۔۔
بیٹا یہ آپکے پڑوسی ہیں ۔۔انکے ساتھ بھی آپ کھیلا کرو ۔۔مریم کو زہرہ شکیل ۔۔۔شہرو ز کے بارے میں بتا چکی تھی ۔۔۔۔
اوکے ماما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمهالا نام ؟؟
میلا نام شہروز ہے ۔۔۔۔۔۔۔شہروز نے بھی اسی کے لهجے میں جواب دیتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔۔
تم ملا مذاک ارا رہے ہو ۔۔۔۔۔!!!!!! منہ بناتے ہوۓ دیا صوفے پر جا کر بیٹھ گیی
ارے نہی نہی میں مذاق نہی اڑا رہا تھا ۔۔۔سوری گھٹنوں پر بیٹھ کر شہروز نے سوری کہا تبھی ارحم بھی آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کو ن ہو ۔۔۔۔۔۔۔ار حم نے غصے میں پوچھا ۔۔
میں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحم یہ تحروز ہے ۔۔۔آج سے یہ بھی ہمرے ساتھ کھیلے گا ۔۔۔۔
” صرف میرے ساتھ کھیلے گا تمہارے ساتھ نہی۔تم صرف میری ڈول ہو ۔۔۔۔
جبکے شہروز خاموشی سے وہاں سے واپس آ گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ایسا لگتا ہے شاید اب میں گزرتے دنوں کے ساتھ اپنا ذہنی توازن کھوتی جا رہی ہوں،
شاید اب میں نفسیاتی مریض ہوتی جا رہی ہوں-
یونہی بیٹھے بیٹھے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں،
کہنے کو میرے پاس ہر رشتہ ہے پھر بھی خود کو جیسے لا وارث محسوس کرتی ہوں،
ہجوم میں ہوتے ہوۓ بھی ایک سناٹا سا محسوس ہوتا ہے.
ایسا لگتا ہے جیسے میرا سب کچھ چھن گیا ہو،
کسی بھی چیز میں من نہیں لگتا،
عجیب قسم کی بے چینی ہے کسی بھی ایک جگہ رکا نہیں جاتا،
بس دل چاہتا ہے کہیں دور چلی جاؤں جہاں میرے سواء کوئی نہ ہو،
وہاں جا کر بہت زور زور سے چیخوں،
اپنے بال کھینچوں
نوچ لوں اپنا منہ خود کو بس مار گراؤں
شاید میں نفسیاتی مریض ہوتی جا رہی ہوں
یا پھر میں ہو چکی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی آنکھو ں سے بے تحا شا آنسوں بہ رہے تھے
ماما ماما ۔۔۔۔۔کی آواز سوچوں سے باہر نکال کر آیی ۔۔
کیا ہوا ماما کی جان ماما کے مانی ۔۔۔۔۔
گڑیا کہاں ہے ۔۔۔۔۔شہروز نے اپنی ما ما سے پوچھا ۔۔۔۔
وo سو رہی ہے آپ کہاں چلے گیے تھے
ماما میں سامنے والے گھر میں گیا تھا اتنے اچھے لو گ ہیں وہاں ایک لڑکی چھوٹی سی فیری کی طرح ہے جیسے آپ سٹوری سناتی ہو بلکل ویسے ہی ۔۔۔۔۔یہ سب بتا تے ہوۓ اسکی آنکھوں میں ایک چمک سی آگیی تھی۔۔۔۔
اچھا میں بھی ملنگی اس فیری سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذلیل عورت تم یہاں فیری سے ملنے کے پلان بنا رہی ہو کہاں بھاگنے کا ارادہ ہے تمہارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔باپ کی آواز سن کر شہروز تھر تھر کانپنے لگا ۔۔۔۔۔
آ آ آ پ ؟؟؟؟میں کہیں بھی نہی جا رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔
“اچھی طرح جانتا ہوں تمہیں اور تمہاری ذھن کے گند کو بھی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ملک شہباز نے گالی دیتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔
خدا کا واسطہ بس کر دیں آپ ۔۔۔میرا نہی تو اپنے بیٹے کا ہی خیال کر لیں ۔۔۔۔۔
بیٹے کا ہی خیال کر رہا ہوں ۔ورنہ ایک منٹ بھی نہ لگا تا گھر سے باہر نکالنے میں ۔۔۔۔کرسی کو لات مارتے ہوۓ غصے سے گھر سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔
گھر ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے شکیل اور اعوان کے گھر میں آواز صاف صاف جا رہی تھی مسز شکیل یہ آوا زیں سن کر فورا انکے گھر آیی ۔۔۔۔۔
سب سے پہلے شہروز کو پانی پلا کر روم میں بھج دیا اور روتی بلكتی ہوئی مسز شہباز …..کو گلے سے لگا یا ۔۔۔۔
نہ نہ روتے نہی ہیں ۔۔۔ہمّت کرو حوصلہ رکھو ۔۔۔۔
اس شفیق ہستی کو دیکھ کر مسز ندا شہباز کے رونے میں کمی آیی
کیسے ہمت کروںمیرے شو ہر اپنوں کے قریب جانے نہی جاتا کسی سے ملنے نہی دیتا مری قدر کرنا تو دور کی بات مجھے روئ کی طرح دھنک کر رکھ دیتا ہے مجھ پر شک کرتا ہے ۔۔۔۔۔انکی منگیتر انہیں چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بھاگ گیئی اب یہ مجھے بھی ایسی عورت سمجھتے ہیں ۔۔۔شادی کے 10 سال بعد بھی انہیں مجھ پر یقین نہی ہے ۔۔۔۔۔۔سسکتے ہوۓ بول رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
ہمّت کرو بہن ۔۔آج سے مجھے اپنی بڑی بہن سمجھو کبھی بھی کسی انسان کی طرف سے اپنی ناقدری پہ نہ کڑھیں، کیونکہ قدر و قیمت کا تعین وقت کرتا ہے،
درجات کا تعین عرش پر ہوتا ہے،
انسانی رویوں پہ الجھو گے تو ہمیشہ الجھے ہی رہو گے،
“عیب اور غیب” کے معاملات جاننے والے سے اپنے معاملات درست کر لیں، یقین کریں آپکے سب معاملات خودبخود ٹھیک ہو جایئں گے ۔۔خاموشی میں عا فیت ہے آپ خاموش ہی رہا کرو جب آپکے شوہر گھر میں نہی ہونگے تب میں آپکے پاس آ جایا كرنگی
مسز ندا کا دل کا بوجھ کافی تک ہلکا ہو گیا تھا بہت عرصے بعد اس طرح نرم لهجے میں کسی نے سمجھایا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اداس ہو نا
کہ یہ گناہ نہیں چھوٹ رہیں
خود سے بھی اب کراہت سی آنے لگی ہے
کہ میں گناہ کیوں نہیں چھوڑ پا رہی
تمہیں اب ہر چیز سے بیزاری سی ہونے لگی ہے
کیونکہ تمہاری فجر چھوٹ جاتی ہے
کتابوں میں دل نہیں لگتا
کیونکہ صبح قرآن نہیں پڑھ پاتی ہو
اِن سب نے خود میں ایسا سمو لیا ہے کہ
اب کسی کی بات بھی اچھی نہیں لگتی
کیونکہ اُسے کیا معلوم کہ
میں فجر چھوڑ کر خود کو
بے جان سی پاتی ہوں
کسی کو کیا خبر قرآن نہ پڑھ کر
دل مُردہ سا پاتی ہوں
کسی کو میرے اندر کی کیا خبر کہ
صبح شام کے اذکار چھوڑ کر
خود کو کسی گھنے جنگل میں پاتی ہوں
کسی کو کیا خبر کہ
استغفار چھوڑ کر
خود کو گناہوں تلے پاتی ہوں
میری اِن کیفیت کی کیا خبر کسی کو
تم یہی نہ سوچتی ہو
تمہیں شاید علم نہیں مگر
صِراطَ الْمُسْتَقِيمَ کے ہر مسافر کو
یہ سب سہنا پرتا ہے
وہ بھی تم جیسی ہی ہو جاتی ہیں
جب رب سے دور جاتی ہیں
ہاں شاید تمہاری محبت میں تڑپ زیادہ ہو
شاید تم اِن سب کو چھوڑنے کے بعد
رب سے بہت دور اور شیطان کو قریب پاتی ہو
مگر اے دوست!
یہ تو ہم صِراطَ الْمُسْتَقِيمَ کے ہر مسافر کی یہی کہانی ہے
کیونکہ اللہ کے راستے پر چلنے والوں کی
کہانیاں،اوقات اور مناظر مختلف ہوتے ہیں
مگر سب کے جزبات اور کیفیات ایک سے ہوتے ہیں
تمہیں شاید نہیں معلوم دوست!
ہم بھی فجر میں نہ اُٹھنے کے بعد
خود کو کسی اَنجانے سحر میں قید پاتے ہیں
اور معلوم ہے یہ قید شیطان کی ہوتی ہے
کیونکہ رب سے دور ہونے پر
وہ ہمیں خود کے راستوں پر لانا چاہتا ہے
ہمیں ہمارے نفسوں نے ایسا اُلجھایا ہے
کہ گناہ کو قریب پاکر بھی ہمیں ہوش نہیں آتا
دوست! ابھی ہم نے اپنے نفسوں پر کام نہیں کیا ہے
ابھی ہمیں ضرورت ہے اِس پر مسلسل کام کرنے کی
اِسے یہ بتانے کی کہ یہ خیال اور دعوت ابلیس کی ہے
اے میری صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی ساتھی!
ہم بھی تو تم جیسے ہی ہیں
ہر روز اپنے نفس سے لڑتے
روتے اور سسکتے
اپنے رب کی جانب
چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے
قدموں میں پتھر کو پاتے
کبھی کانٹوں سے چھلنی کرتے
کبھی بارش کی ایک پھوار کو پاکر
لب پر ایک مدھم سی مسکراہٹ لا کر
آسمان کی جانب تکتے
جو شیطان کے وسوسے آتے
ڈر کر اور سہم کر
رب سے مدد کی طالب بنتے
اے میری صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی ساتھی!
ہم بھی تو تم جیسے ہی ہیں
باہر سے ہنستے مسکراتے
اندر سے ٹوٹتے اور بکھرتے
پیروں میں کانٹوں اور پتھر سے
خود کو زخمی کرتے
روتے اور سسکتے
رب کی جانب آگے آگے
یونہی قدم بڑھاتے ہیں
اے میری صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی ساتھی!
ہم بھی تو تم جیسے ہی ہیں
ہم بھی رب سے دور ہوکر
اندر سے روتے اور سسکتے ہیں
ہم بھی رب سے غافل ہوکر
اندر سے مر جاتے ہیں
ہم بھی اِن راستوں پر چلتے
ابلیس کو چاروں طرف پاتے ہیں
کیونکہ وہ تو دشمن ہے ہمارا
وہ تو اپنا کام کریگا
وہ تو ہمیں گمراہ کرنے کی
سارے حدیں جو پار کریگا
تم اُداس نہ ہو اِن سب سے
ہمیں ہر روز کوشش کرنی ہے
ہر روز اپنے رب کی جانب جاتے
اُن راستوں پر خود کو ہنستے اور مسکراتے
آگے ہی آگے بڑھنا ہے
ہر روز ایک جنگ لڑنی ہے
ہر روز فجر کے لئے صبح اُٹھنا
صبح شام کے اذکار پڑھنا
فجر کے قرآن کو معمول بنانا
استغفار کی کثرت کرنا
اِن سب کے لئے خود کو تیار کرنا
ابلیس کو شکست دینا
اپنے کام کو پورا کرنا
اُسے ناکام ہوتے دیکھنا
ہمیں یہ سب کرنا ہے
ہمت ہار کر خالی بیٹھ کر
اُسے خوش نہ ہونے دینا ہے
اے میری صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی ساتھی!
ہمیں ہر روز یہ کرنا ہے
مسز شکیل جیسی شفیق ہستی سے مل کر ندا بیگم اللّه کا شکر ادا کرتے نہی تهكتی تھی ۔انکی وجہ سے ندا بیگم صراط المستقیم کی مسافر بن گیئی ۔۔۔۔۔اللّه کی طرف رجو ع کر کے انہیں بہت سکون ملا …
ملک شہباز کے ظلم و ستم پر اب ندا بیگم خاموش رہتی زبان سے اف تک نہ کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔انکی خاموشی بھی ملک شہباز کو تشویش میں ڈال دیتی تھی ۔۔۔اب اپنی بیوی پر اور بھی کڑ ی نظر رکھنے لگے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیری بات سنو ۔۔۔۔۔شہروز نے مدیحہ کو آہستہ آواز میں بلایا ۔۔۔
گھر میں ارحم کی غیر موجودگی کے وقت شہروز مدیحہ سے بات کرتا اور کھیلتا ۔،،۔۔۔۔۔،۔اور ایسا بہت ہی کم ہوتا
ارحم کا نام شہروز نے angry man رکھا تھا کیوں کے شہروز کو دیکھتے ہی اسے بہت غصہ آتا تھا ۔۔۔۔۔
فیری ۔۔۔۔؟؟؟؟شہروز نے اسے دوبارہ آواز دی
مدیحہ اسکے پاس آیی ۔۔۔
“ہمارے گھر آ جانا گڑیا سے بھی مل لو گی تم ۔۔اور کھیلنگے ۔۔angry man بھی نہی ہوگا ۔۔۔۔“
نہیں ہے angry man ۔۔۔۔ اتنا اچآ ہے الھم اور ابھی وہ چھوٹا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔man نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔
تم ۔۔۔۔۔۔۔۔ارحم کی آواز سن کر شہروز اچھلا
دیا منع کیا ہے تمہیں کے تم اس سے بات بھی نہی کروگی ۔۔۔۔جاؤ تم اندر روم میں ۔۔۔۔۔۔
شہروز کو جان بوجھ کر دھکا دیتے ہوۓ ارحم نے سوری کہا لکن شہروز کو چوٹ لگی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحم بالکنی میں بیٹھا سیگریٹ کے کش لگا رہا تھا جب زین آیا۔سیگریٹ کی گرم راکھ اس کے پاؤں پہ گر رہی تھی لیکن مقابل کو پرواہ ہی کہاں تھی۔
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں، یوں رکھا ہے
اس وقت دل کے رخسار پہ تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ٹھل گیا ہجر کا دل ، آ بھی گئی وصل کی رات
تبھی زین اس کے پاس گیا اپنے آنسو صاف کرتا۔۔۔۔بھلا اپنے دوست کو ایسے حال میں کیسے دیکھتا ۔
اوئے سستے دیوداس ! کہاں گم ہیں جناب تب سے کال کر رہا کوئی خبر بھی ہے تجھے۔۔۔
تجھے کیا ہوا ہے ٹرین کیوں چل رہی تیری۔( ارحم نے خجل ہوتے ہوئے اپنے آنسو چھپائے)
زین نے اسے دیکھتے ہوئے گہری سانس لی ۔ اور بولا کب تک چھپائے گا اپنا غم ۔۔۔ آخر کب تک؟ کیا ہوا تھا تین سال پہلے ارحم جس میں تو نے اپنی دیا کو کھو دیا تھا۔ میں نے آج تک تجھے صرف روتے دیکھا ہے پتا نہیں کب سے دیکھ رہا ہوں۔ سمجھاتا ہوں تسلی دیتا ہوں لیکن آج تک نہیں پوچھا بتا کیا ہوا تھا تب۔۔۔۔
تجھے اب دیکھنے کو دل ترپتا ہے مرا یا رب
نہیں ہے تاب آنکھوں میں مگر حسرت نہیں جاتی
————
اندھیرا کر دیا دل میں مرے اپنے گناہوں نے
ہزاروں کوششیں کر لیں مگر ظلمت نہیں جاتی
———-
وقت کے چلتے پہیہ نے جیسے جیسے مدیحہ اور ارحم کو پروان چڑھایا تھا اسی طرح دونوں کی الفت بھی بڑھی تھی ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ارحم کا غصہ اور مدیحہ کو لے کر پاگلپن بھی.وہ مدیحہ کے ساتھ کسی لڑکے تو کیا لڑکی کو بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا کوئی لڑکی بھی مدیحہ کے ساتھ کھیلتی تو وہ اسے مارتا ۔۔۔۔۔۔ بچپن میں مدیحہ آٹھ اور ارحم جب گیارہ سال کا تھا دیا کی ایک دوست بنی رابعہ۔۔۔۔۔ ارحم کو لگا جیسے اس کے انے سے دیا اس سے دور ہو رہی ہے ۔ ارحم اس بچی سے جلنے لگا اور ایک دن اسے دھکا مارا اور کہا اگے سے گھر مت انا۔۔۔
تب سے اس کے دل میں یہی تھا کہ کوئی اسکی دیا کو لے نا لے۔۔۔۔ اس واقعہ کے بعد جب دیا اس سے ناراض ہوئی تو اس نے خود کو سائیکل سے جان کر گرایا تاکہ چوٹ لگے ۔ اور دیا کو یہی کہا کہ اگر کوئی اور انکے بیچ آیا تو وہ خود کو نقصان پہنچانے گا۔
بچپن سے ہی ارحم اتنا جنونی ہو گیا تھا ۔ تب ہی زہرہ بیگم نے اس کے اس جنون کو محسوس کرنا شروع کیا ۔ اور سوچا کہ کہی بڑی ہو کر دیا کسی اور کو پسند نا کرنے لگے یا اسکے والدین نے کچھ اور سوچ لیا تو ارحم پتا نہیں کیا کر ڈالے۔
اسی خدشہ کے پیشِ نظر انہوں نے نو سال کی دیا اور بارہ سال کے ارحم کا نکاح کروا دیا ۔ اپنی طرف سے یہ بہت اچھا فیصلہ تھا جو انہوں نے کیا لیکن آگے جا کہ اس کا انجام کیا ہونے والا تھا یہ تو وقت بتانے والا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کے مطلب سے دیا بلکل ہی انجان تھی۔ اسے اس رشتے کی اہمیت اور تقاضوں کا نہیں پتا تھا۔ کیونکہ ابھی وہ کچی عمر کی تھی۔ ارحم نے زہرہ بیگم سے پوچھا امی یہ نکاح کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا جس میں دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں ایک دوسرے کے ہو جاتے۔۔۔۔ اپنی طرف سے انہوں نے یہ بات بہت آسان الفاظ میں بتائی تھی لیکن پھر ارحم نے سوچ لیا کہ نکاح یعنی دونوں ایک دوسرے کے ہونا مطلب اب دیا اس کی ملکیت ہے۔ ارحم نے اب اس پہ رعب بھی جھاڑنا شروع کیا ۔ کبھی کبھی مارتا بھی تھا جو دیا کسی کو نہیں بتاتی تھی۔ اس جنونیت سے کٹ کر ارحم بہت خیال رکھنے والا تھا ۔دجا کی ہر ضرورت ہر کام ہر فرمائش کا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کا کام ہے گزرنا ۔۔۔۔وقت کا پہیہ اپنے رفتار سے چلتا رہا ۔۔
ندا کے اپنے شوہر کے ظلم سہتے ہوے ۔۔سسکتے ہوۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحم اور شہروز کے درمیان ایک نامعلوم سی سرد جنگ چلتے ہوۓ
مدیحہ کا ان دونوں کا صلح كرواتے كرواتے الجھ کر رہ جانا
ارحم ۔مدیحہ ۔۔شہروز بڑ ے ہوتے ہوگیے ۔۔۔۔۔۔
لیکن مدیحہ کی کوئی بھی دوست نہی تھی ۔۔۔۔وجہ ار حم کی شدت پسندی تھی ۔مدیحہ اب سمجھ دار ہوتی جا رہی تھی ۔اسے ار حم کی بجا مداخلت بہت بری لگتی تھی ۔۔۔
……………………
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...