اس نے اپنے مکروہ پنجے، جن کے پیچھے منحنی بازو متحرک تھے میری آنکھوں کے سامنے لہرائے۔ مجھے محسوس ہوا جیسے نوکیلے اور مُڑے ہوئے ناخن میرے ڈھیلے نکال لے جائیں گے۔ اس کے بازؤوں کی لجلجی جلد پر اُگے بھورے باریک بال اتنے ہی نجس تھے جتنی کہ اس کے گلتے سڑتے جسم سے پھوٹتی بُو ناگوار تھی۔
وہ میرے کندھوں پر سوار، میرے سر کو جکڑے تھا۔
“تم تو میرے تحفظ کا عہد کر چکے تھے۔ اب میرا نرخرہ کیوں دبا رہے ہو؟”
میں اس کی ٹانگوں کی گرفت اپنے نرخرے پر نرم کرتے ہوئے خرخرایا۔ “ہُوووں۔ تُم بڑے چالاک بنتے ہو۔ اتنا زیادہ کیوں کھاتے ہو۔ بدہضمی سے بھی نہیں ڈرتے۔ دوسروں کے حصے کا بھی خود ہی کھا جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہو۔ جو کھا نہیں سکتے ذخیرہ کر لینا چاہتے ہو۔ اتنا اکٹھا کرنا چاہتے ہوکہ شمار بھی نہ کر سکو”۔
اُس کی متعفن سانسیں میرے نتھنوں میں گھُس کر میری حالت خراب کر رہی تھیں۔ اس کی ٹانگیں میرے گلے کے گرد شکنجے کی صورت میری سانس بند کر رہی تھیں جبکہ اس کی سانسوں کا تعفن میری ناک کو گویا جلائے جا رہا تھا، جھلسا رہا تھا۔ وہ اپنے پنجے میری آنکھوں کی طرف لہراتا تو میری روح فنا ہو جاتی۔ میرے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی اور وہ بدبودار پسینے سے نہا جاتا۔
“تمہیں سب میسر ہے۔ میں تو تمہارا بچا کھچا کھاتا ہوں۔ وہ بھی کبھی کبھار جب تم مجھے اجازت دیتے ہو۔ تمہاری مدد تمہاری رضامندی سے چند نوالے لیتا ہوں۔ کچھ بچاتا ہوں تو آڑے وقت کے لیے۔ جب جی چاہے تُم خوان میرے سامنے سے سرکا لیتے ہو۔ میں تو سدا سے تمہارے رحم و کرم پر ہوں۔ پھر کیوں میرا ٹینٹوا دباتے ہو”۔
میں گھگھیایا۔
“تم اپنے خوان ہی پر نظر نہیں رکھتے، کنکھیوں سے میرا طشت بھی دیکھتے ہو۔ اپنی اوقات بھول جاتے ہو۔ تمہیں یاد نہیں رہتا کہ تمہاری بقا تمہارا وجود میرے مرہون منت ہے۔ تم مجھے اپنے جیسا یا شاید خود سے بھی کمتر جاننے کی خواہش پالتے ہو۔ مجھے ہمیشہ وقفے وقفے سے تمہارا نرخرہ دبانا پڑتا ہے۔ بدنگاہی کی عادی تمہاری بے ایمان آنکھیں شاید نکالنا ہی پڑیں”۔
اس نے اس بار اپنا منحوس پنجہ زیادہ تیزی سے میری آنکھوں کے بہت قریب لہرایا۔
میں بید مجنوں سا کانپ گیا۔ اس سے نجات پانے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو پا رہی تھی۔ ہر تدبیر مجھی پر اُلٹ دی جاتی۔ میں نے خود کو بہت بے بس اور مجبور محسوس کیا۔ پھر سوچا کہ ہمارا ایک دوسرے کے بغیر بھی تو گزارا نہیں۔ یہ کھیل اذیت ناک ہے لیکن معمول ہے۔ کراہیت کے باوجود اس کا مکروہ اور بدبودار وجود میرے جسم کا حصہ ہے۔ ہم ایک دوسرے کے طفیلی بن چکے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔ آکاس بیل نے درخت کو یوں جکڑ لیا ہے کہ اس کا جزولاینفک بن گئی ہے۔ کچھ اس صورت پیوست ہے کہ جدا کرنے سے درخت نجات نہیں پائے گا، ٹُوٹ جائے گا۔ مر جائے گا۔ آکاس بیل اور درخت ایکا کر چکے ہیں۔ دھرتی کو چوستے ہیں، کھوکھلا کرتے ہیں اور پلتے بڑھتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھار یہ جھگڑا ضرور اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کتنا رس کب کس کے حصے میں آئے گا۔
اس نے اپنا دباؤ کم کر کے میرا نرخرہ کسی حد تک آزاد کر دیا۔ میں نے منہ کے راستے تازہ ہوا بھری سانس لی۔ میرے جسم میں زندگی دوڑ گئی۔
پھر فوراً ہی میرے نتھنے اس کی جسمانی سڑاند اور متعفن سانس کے متلاشی ہوئے۔
٭٭٭