گلبن کو جاری ہوئے ابھی چار پانچ سال ہوئے تھے اور مجھے بھی باقاعدہ طور پر ادبی دنیا میں داخل ہوئے تقریباً اتنا ہی عرصہ ہوا تھا جب میرا ایڈیٹر گلبن سے رابطہ قائم ہوا ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اکتوبر ۱۹۸۱کے شمارے میں چھپنے والی میری غزل گلبن میں چھپنے والی میری پہلی تخلیق تھی ۔ اس کے بعد کبھی کبھار میری کوئی نہ کوئی چیز گلبن میں چھپ جاتی ۔ رسالہ خان پور کے ایڈریس پر موصول ہو جاتا تھا ۔ لیکن رابطہ کی یہ صورت ایڈیٹر اور لکھاری کے رشتہ سے زیادہ نہ تھی ۔ لگ بھگ دس سال کے رسمی تعلّق کے بعد اس وقت میری سیّد ظفر ہاشمی سے قلمی ملاقات ہوئی جب انڈیا میں ماہیئے کے درست وزن کا مسئلہ گلبن میں پیش کیا گیا ۔ گلبن انڈیا کا پہلا ادبی رسالہ تھا جس نے ماہیے کے لوک روپ کو اجاگر کرنے کے لئے فورم مہیّا کیا اور ماہئے کے فروغ کا آغاز ہوا۔ پھر کب یہ قلمی رابطہ، قلبی رابطہ میں بدل گیا اور گلبن کی جگہ سیّد ظفر ہاشمی نے لے لی اس کا مجھے پتہ ہی نہ چلا ۔ حالانکہ گلبن اور سیّد ظفر ہاشمی کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا اسکے باوجود گلبن کے مقابلے میں سیّد ظفر ہاشمی سے میرا قلبی تعلّق مسلسل گہرا ہوتا گیا ۔
ادبی سطح پر سیّد ظفر ہاشمی کی تین حیثیتیں ہیں ۔ (یہاں مجھے حاجی معلّق کی ستّرویں کڑی کا آغاز یاد آگیا ۔ ) مدیر ،طنز و مزاح نگار ،اور افسانہ نگار ۔ مدیر کی حیثیت سے ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ ادب کے بڑے ناموں کے پیچھے نہیں بھاکتے ۔ نئے لکھنے والوں کو نسبتاََ زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ اگرچہ وہ اعلیٰ ادب کے فروغ کے مقابلہ میں اردو زبان کی بقا کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ تاہم انھوں نے اپنے ادبی رسالہ کا ایک کم از کم ادبی معیار ہمیشہ برقرار رکھا ہے۔ ادب کے نام پر دکانداری کرنے والوں کو اور ادبی اکادمیوں کے غیر ادبی طرز عمل کو انھوں نے ہمیشہ زد پر لئے رکھا ہے یہ محض بیان کی حد تک بات نہیں ہوتی بلکہ وہ ٹھوس شواہد اور حقائق کی بنیاد پر مضبوط گرفت کرتے ہیں ۔ مثلاً گجرات اردو اکیڈمی جسے مکمّل طور پر سرکار کی مالی سرپرستی حاصل ہے اس نے ایک ادبی رسالہ جاری کرنے کا اعلان کیا ۔ حکومت کی مددسے مالی فراخدلی کے باوجود پندرہ برسوں میں صرف تین شمارے شائع کئے گئے ۔ چوتھا شمارہ ترتیب دینے کے لئے جن صاحب کو اکیڈمی نے ذمہ داری سونپی انھوں نے ادبی تخلیقات کے حصول کے لئے جو باقاعدہ لیٹر جاری کیا اس میں ۲۳سطروں کے مضمون میں ۱۵جملے ادبی مضحکہ خیزی کی مثال ہیں اور سب سے زیادہ تماشہ یہ ہوا کہ لیٹر ۷نومبر۱۹۹۶کو جاری کیا گیا اور اس میں مکتوب ا لیہان سے تقاضہ کیا گیا کہ وہ اپنی تخلیقات ۵نومبر ۱۹۹۶تک پہنچا دیں ۔ ٹھوس دلائل پر مبنی یہ اداریہ جولائی ۔اگست ۱۹۹۷کے گلبن میں پڑھا جا سکتا ہے ۔گجرات اکیڈمی نے اپنے دستور میں تبدیلی کی کہ اب اعزاز صرف شاعر اور ادیب ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اردو کے لئے مجموعی خدمات کی بنیاد پر دیا جائے گا اور محی ا لدین بمبے والا کو یہ ایوارڈ دے دیا گیا ۔ تب سیّد ظفر ہاشمی نے اس غلط بخشی پر احتجاج کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر غیر ادیبوں کی اردو خدمات کو دیکھنا ہے تو پھر ان افراد کو اہمیت دی جائے جو اپنے تعلیمی اداروں کے ذریعہ اردو کی تعلیم عام کر رہے ہیں ، خصوصاََ اردو میڈیم اسکولوں اور کالجوں کو چلانے والوں کی خصوصی اہمیت بھی بنتی ہے ۔ ان کی احتجاجی آواز کو نظر انداز کر دیا گیا اور اگلے سال ؛؛ تاریخی دستاویز ؛؛ کے موضوع سے متعلّق انگریزی میں ۲۲کتابیں لکھنے والے اکبر علی ترمذی کو اردو کا ایوارڈ دیا گیا ۔ اس پر سیّد ظفر ہاشمی نے اکبر علی ترمذی سے ملاقات کرکے بعض دلچسپ حقائق پیش کرنے کے ساتھ اپنے اداریہ میں یہ بھی لکھا:
”وارث علوی کا تعلّق اردو اور صرف اردو سے ہے ۔ اگر انھیں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرف سے پلاسٹک انڈسٹری کے فروغ کے سلسلے میں محض اس بنا پر یوارڈ دیا جائے کہ وہ بازار سے سودا سلف لانے کے لئے پلاسٹک کی تھیلی استعمال کرتے ہیں تو وہ کتنی مضحکہ خیز بات ہو گی۔“
سیّد ظفر ہاشمی کو بخوبی علم ہے کہ اکیڈمی کے ارباب اختیار ان کے احتجاج کو اہمیت نہیں دیں گے لیکن وہ اپنے مدیرانہ فرض کو پورا کرتے ہوئے اصل حقائق کو ادب کی تاریخ میں محفوظ کئے جا رہے ہیں ۔
مدیر کی حیثیت سے سیّد ظفر ہاشمی نے نہ صرف گلبن کی اشاعت میں با قاعدگی کو قائم رکھابلکہ ہر سال کے آغاز میں ایک خاص نمبر کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کیا ۔ یوں تو گلبن کے خاص نمبر کی اپنی ایک اہمیت ہے تاہم گجرات نمبر ، ماہیا نمبر ، اور نعت نمبر تینوں خاص نمبرز کی خصوصی اہمیت ہے ۔ پنجابی اخبار بھنگڑا گوجرنوالہ نے بھی ایک ماہیا اڈیشن پہلے شائع کیا تھا اور اس کی تاریخی حیثیت بھی بنتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ گلبن کے ماہیا نمبر(۱) کی اشاعت کے بعد اردو ماہیا واقعتا ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا ۔
طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے سیّد ظفر ہاشمی نے حاجی معلّق میں سماجی ناہمواریوں کو بھی اجاگر کیا ہے ۔ اور اپنی شگفتہ مزاجی کو بھی ظاہر کیا ہے۔اس میں تین مرکزی کردار ہیں حاجی معلّق ، میر صاحب ،اور مصنّف خود ۔ حاجی صاحب کے کردار میں ظاہر پرستی ہے ۔وہ سود کو حرام مانتے ہیں لیکن اٹکل کے ساتھ اسے حلال بھی کرنا چاہتے ہیں یوں ان کی شخصیت کا مضحک پن نمایاں ہوتا ہے ۔یہ مضحک پن ہمیں ہنساتا بھی ہے اور سوچنے پر بھی اکساتا ہے ، میر صاحب اور حاجی صاحب کے درمیان ہونے والی ایک گفتگوکا یہ اقتباس دیکھیں ۔
عوام نے نہ تو قرآن سمجھا ہے نہ حدیث پڑھی ہے اور جنھوں نے پڑھا ہے اور سمجھا ہے وہ خود بیان دیتے ہیں کسی کی سنتے نہیں ۔ آپ کا بیان عوام کے لئے ہوگا ۔ کچھ بھی کہہ جایئے گا سب چل جائے گا ۔ صرف اتنا کہہ دیجئے گا کہ قرآن اور حدیث کی رو سے ایسا ہونا چاہیئے ۔
کیسا ہونا چاہیئے ؟
یہی تو غور کرنے والی بات ہے ۔ چائے منگوایئے تو کچھ سوچیں ۔ “
افسانہ نگار کی حیثیت سے سیّد ظفر ہاشمی سیدھے سادے بیانیہ کے قائل ہیں ۔ ان کے افسانے واقعات کے تانے بانے سے اپنے آپ کو مکمّل کرتے ہیں۔ ان کا ایک حالیہ افسانہ یہ دھرتی ہے بلیدان کی کئی لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ بھارت اور پاکستان کی طرف سے جو ایٹمی دھماکے کئے گئے انھیں کو مدِ نظر رکھ کر انھوں نے بھاتال اور پاتال دو ملکوں کے ایٹمی دھماکوں کا قصّہ بیان کیا ہے ۔ پھر ایک کردار تانترک رنڑ بھومی راﺅ کے ذریعہ روح کی تسخیر کی فنتاسی پیش کی جاتی ہے ۔ راﺅ ایک روح کو مسخر کر لیتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ کوئی ایسی صورت کرے کہ ہمارے ایٹم بم تو دشمن کو نابود کردیں لیکن ان کے ایٹم بم ہم پر چل ہی نہ سکیں یا ہمیں نقصان نہ پہنچا سکیں ۔ تب روح اسے کہتی ہے کہ کوئی ایک منتری اپنے پورے خاندان کے ساتھ قربانی دے دے تو ان کے ملک کوپاتال کے ایٹم بم سے بچایا جا سکتا ہے ۔ پھر یہ شرط وزیر کو چھوڑ کر کسی ایک ایم پی یا ایم ایل اے کے خاندان کی قربانی پر آجاتی ہے ۔ لیکن کوئی وزیر، ایم پی اور ایم ایل اے اپنی اور اپنے پورے خاندان کی قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔آخر یہ کہ آتما خود تانترک رنڑ بھومی کی قربانی لینا چاہتی ہے ۔ وہ جان بچا کر بھاگنا چاہتا ہے ۔ لیکن آتما کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتا ہے ۔ یوں اس کہانی میں حب ا لوطنی کے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کی قلعی کھول کر ایٹم بم سے ہونے والی تباہی کا احساس دلایا گیا ہے ۔ اس کہانی میں بھارت کے حوالے سے وہاں کی سیاست کی منافقت کو ظاہر کیا گیا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست کی صورت حال بھی بالکل ایسی ہی ہے ۔ شاید برصغیرکے مجموعی سیاسی رویوں میں یکسانیت ہے ۔
مدیر ، طنز نگار اور افسانہ نگار کی حیثیتوں سے ہٹ کر سیّد ظفر ہاشمی بہت اچھے انسان ہیں ۔ دوستی کو نبھانے والے لیکن اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے دوستی کو نبھانے والے ۔ ۔۔روایات اور اقدار کا پاس رکھنے والے ۔۔کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا قلمی تعلّق جو قلبی تعلّق بھی بن چکا ہے اب اس سے بھی کچھ زیادہ بن رہا ہے ۔ ایسا احساس مجھے اپنی طرف سے کم اور سیّد ظفر ہاشمی کی طرف سے زیادہ ہوتا ہے ۔ کہیں یہ محبت ہی کی کوئی صورت تو نہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ سہ ماہی توازن مالے گاؤں۔ جنوری ۔تا اپریل۔۲۰۰۱