وردان احمد( چشتیاں)
(زبانیں۔اصناف۔ ہییتں اورخصوصیات شعر)
یوں تو صاحب زادہ نصیر الدین نصیر کی شخصیت کی کئی حیثیتیں اور کئی جہات ہیں لیکن ہمارے لیے ان کی دو جہتیں بہت نمایاں اور اہم ہیں۔ صاحب زادہ نصیر الدین نصیر صاحب کہیں ہوں، کسی بھی جگہ کسی بھی حیثیت سے تشریف فرماہوں،ان کی پہلی شناخت مشائخ چشت اور چشم وچراغ خانوادۂ پیر مہر علی شاہ کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔
صاحب زادہ نصیر الدین نصیر کی دوسری حیثیت ان کا نثر نگار ہونا ہے۔ یہ بحث بعد کی ہے کہ ان کی نثر کے عمومی موضوعات کیا ہیں؟ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ’’ امام ابوحنیفہ اور ان کا طرز استدلال‘‘ سے لے کر خواجہ قطب الدین کے مجموعۂ کلام ’’ بے تابی‘‘ تک صاحب زادہ نصیر الدین نصیر ایک اعلیٰ درجے کے نثر نگار کے طور پر سامنے آتے ہیں گو کہ ان کی یہ حیثیت دیگر جہتوں کے مقابلے میں کسی قدر کم ہے اور اس میں تخلیقی عنصر بھی کم نظر آتا ہے لیکن صاحب زادہ نصیر الدین نصیر اگر سجادہ نشین نہ ہوتے تو پھر بھی ایک اعلیٰ پائے کے صاحب اسلوب شاعر ضرور ہوتے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ غالباً عہد حاضر کا کوئی دوسرا پاکستانی شاعر شعری مرتبے کے حوالے سے صاحب زادہ نصیر الدین نصیر کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ سبب تو یہ ہے کہ اوّل تو بیشتر شعراء یک زبانی شاعرہیں مثلاًجوش، حفیظ، مجید امجد، ن۔م راشد اور فیض وغیرہ(۱) لیکن اگر کسی شاعر نے اردو کے علاوہ کسی دوسری زبان کو منتخب بھی کیا ہے تو وہ اس کی مادری زبان ہے یا پھر وہ زبان جس میں شاعر نے ایم۔اے کیا ہے اور یہ کیفیت بھی ان شعراء کے ہاں ملتی ہے جو عمر اور تجربے میں مذکورہ بالا شعراء کے بعد آتے ہیں۔ مثلاًپروفیسر عابد صدیق (۲)پروفیسر انور مسعود(۳)پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی (۴) اور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری(۵)
پروفیسر عابد صدیق مرحوم اپنی اُردو اور ہندی آمیز شاعری کی وجہ سے معروف تھے نیز اپنی عمر کے آخر ی حصے میں پنجابی غزلیات بھی کہنے لگے تھے۔ پروفیسر انور مسعود اُردو کے علاوہ پنجابی اور فارسی زبان میں شعر کہتے ہیں۔ پروفیسر خورشید رضوی اُردو اور عربی زبان میں شعر کہتے ہیں۔ جبکہ پروفیسر اسلم انصاری اُردو،فارسی،سرائیکی اور انگریزی کے شاعرہیں۔ لیکن ان علمائے شعر کے ساتھ ساتھ صاحب زادہ نصیر الدین نصیر تقریباً چھ زبانوں یعنی عربی،فارسی، اردو پنجابی، سرائیکی اور پوٹھوہاری میں شعر کہتے ہیں اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی ’’ رنگ نظام‘‘ پر اپنے دیباچے میں لکھتے ہیں۔
’’نصیر میاں ما شاء اﷲ قادرالکلام اور ہفت زبان شاعر ہیں۔‘‘
اور اس کے لیے کسی تصدیق کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ’’ مہر منیر‘‘ اور صاحب زادہ صاحب کے مجموعہ ہائے کلام اس کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں اور ان کی کتب کو دیکھ کر ہم بلا جھجھک صاحب زادہ صاحب کو شش زبان شاعر کہہ سکتے ہیں۔ یہاں پر ایک بات قابل غور ہے کہ صاحب زادہ صاحب اپنی مجبوریوں کے باعث صرف ایشیائی یا اسلام سے متاثر یا اپنے علاقے سے تعلق رکھنے والی زبانوں میں شعر کہتے ہیں یعنی ان کے ہاں انگریزی یا دیگر یورپی زبانیں نہیں ملتی۔
اس سے زیادہ اہم معاملہ ان اصناف کا ہے جن میں صاحب زادہ صاحب شعر کہنا پسند کرتے ہیں۔شاعر اور اس کے ہاں موجود صنف سخن میں ایک رابطہ ہوتا ہے مثلاً سودا اور میر تقی میر دونوں نے غزلیں بھی کہیں اور قصیدے بھی۔ لیکن میر کی غزلیں معروف ہوئیں اور سودا کے قصائد اس کی وجہ یہ ہے کہ سودا کے مزاج کی مناسبت قصیدے سے تھی اور میر کے غم کی مناسبت غزل سے اسی طرح ’’سحر البیان‘‘ صرف میر حسن ہی لکھ سکتے تھے اور لکھنؤ کی عمومی فضا اور انیس کا مزاج مرثیے کو بام عروج تک پہنچانے کا سبب بن گئے اس طرح صاحب زادہ نصیر الدین نصیر کے کلام کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں پتا چلے گا کہ ان کے ہاں خاص طرح کی اصناف ملتی ہیں جس میں غزل،رباعی، مخمس، مسدس، مثنوی، قصیدہ، مستزاد اور ایک نئی ہیت ہے۔ ’’ فیض نسبت’’ کو موضوعات کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور شعری ہیتوں کے حوالے سے بھی مثلاً ’’ فیض نسبت‘‘ میں دو حمدیں موجود ہیں اور اٹھاون مناقب دیے گئے ہیں۔ مناقب کی موضوع شخصیات آنحضرتﷺکے دادا،والد، والدہ ماجدہ،حضرت حلیمہ سعدیہ، ازواج مطہرات، شہزاد گان رسولﷺ،دختران رسولﷺبنت رسولﷺ،آنحضرتﷺکےنواسے، خلفائے راشدین، حضرت غوث الاعظم،حضرت داتا گنج بخش، حضرت معین الدین اجمیری، مولانا جلال الدین رومی،بابافرید، نظام الدین محبوب الٰہی، صابر کلیری، شمس الدین سیالوی، قمرالدین سیالوی، پیر مہر علی شاہ، بابوجی، خواجہ غلام فرید اور محمد اسمعیل شاہ کرماں والا ہیں۔ جبکہ ایک منقبت یوم عاشور کے لیے کہی گئی ہے۔ ان تمام مناقب میں پرانی ہیتیں استعمال ہی گئیں ہیں۔ خاص طور پر قصیدے کی ہیت زیادہ برتی گئی ہے۔
غزل سے زیادہ صاحب زادہ صاحب رباعی کے شاعر ہیں ۔’’ فیض نسبت‘‘ میں تین رباعیاں موجود ہیں جبکہ ان کے دو مجموعہ ہائے کلام یعنی ’’ رنگ نظام‘‘ اور ’’ آغوش حیرت‘‘ باالترتیب اردو اور فارسی رباعیات کے مجموعے ہیں۔ صاحب زادہ صاحب کی شاعری میں بطور خاص’’ فیض نسبت‘‘ میں چار مسدس ہیت کی نظمیں بھی شامل ہیں۔ ’’فیض نسبت‘‘ میں دو مخمس بھی نظر آتی ہیں جبکہ مثنوی فارم میں نظمیں موجود ہیں۔ مستزاد فارم میں صرف ایک نظم ہے جو ’’ فیض نسبت‘‘ کے صفحہ ۳۹۱پر درج ہے۔ ان تمام منظومات کو دیکھ کر ایک بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح صاحب زادہ صاحب کی شاعری میں بر صغیر پاک و ہند کی مختلف زبانیں آئی ہیں بالکل اس طرح میرو سودا کے زمانے کی اصناف شعر اور ہیتیں نظر آتی ہیں۔ البتہ اسی مجموعے کے صفحہ نمبر ۱۹۱پر ایک نئی اور اْچھوتی ہیت میں کہی گئی نظم بھی ملتی ہے اس ہیت کو نئی اور اَچھوتی اس لیے قرار دیا ہے کہ اس ہیت میں اس سے پہلے اور بعد کہی گئی کوئی نظم نظر نہیں آتی۔ اگر حضرت سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ‘ السامی کے بارے میں کہی گئی اس منقبت کا پہلا شعر یعنی
جگ تم پر بلہار خواجہ مہر علی شاہ پیر ہمارو
کو نظر انداز کر دیا جائے تو باقی نظم سات بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند میں پانچ مصرعے شامل ہیں اس طرح اس نظم کو مخمس ہیت کی نظم کہا جا سکتا ہے لیکن یہ نام اس نظم کے لیے بے حد گمراہ کن ہو گا۔ اس لیے کہ اس نظم کا ہر بند ایسے پانچ مصرعوں پر مشتمل ہے جس کے پہلے تین مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف بھی ہیں اور ہم وزن بھی، اور چوتھا مصرع نہ ہی باقی تین مصرعوں سے ہم قافیہ ہے اور نہ ہی ہم وزن۔ بلکہ چوتھا مصرع ساری نظم کے بندوں کے ہر چوتھے مصرعے کا ہم قافیہ و ہم وزن ہے۔ اسی طرح ہر بند کا آخری مصرع ترجیع بند ہے یعنی بار بار لوٹ کر آرہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
دکھ چنتا کی ندیا چڑھی ہے ناؤ بھنور میں آن پھنسی ہے
تورے کرم کی آس لگی ہے تم ہو کھیون ہار
خواجہ مہر علی شہ پیر ہمارو
زہراؓ کے تم راج دلارے حسنؓ حسینؓ کی آنکھ کے تارے
بغدادی بنرا کے پیارے حیدرؓ کے دلدار
خواجہ مہر علی شہ پیر ہمارو
طہٰ کے یٰسین،کے صدقے بسم اﷲ،آمین کے صدقے
خواجہ معین الدین کے صدقے ہم کا دیو دیدار
خواجہ مہر علی شہ پیر ہمارو
ان تین بندوں کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک منفرد اور اچھوتی ہیت میں کہی گئی نظم ہے۔ لہٰذا یہ بات بڑی آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ یوں تو صاحب زادہ صاحب پرانی اصناف شعر اور ہیتوں کے شاعر ہیں لیکن جہاں جہاں اپنی جودت طبع سے کام لیتے ہیں تو نئی، انوکھی اور منفرد ہیت بھی پیدا کر لیتے ہیں۔
’’ فیض نسبت‘‘ چونکہ مجموعۂ مناقب ہے لہٰذا اس میں کوئی غزل نہیں ملتی البتہ بہت سی ایسی مناقب نظر آتی ہیں جن کی ہیت قصیدے اور غزل جیسی ہے۔ البتہ ’’ پیمان شب‘‘ اور ’’ دست نظر‘‘ صاحب زادہ صاحب کی اردوغزلیات کے مجموعے ہیں۔ جبکہ ’’ عرش ناز‘‘ فارسی، اُردو، یورپی، پنجابی اور سرائیکی کا متفرق کلام دیا گیا ہے جو غزل کی ہیت سے بھی تعلق رکھتا ہے۔
صاحب زادہ صاحب زبانوں، ہیتوں اور اصناف وغیرہ کو کیسے نبھاتے ہیں؟ یعنی ان کے ہاں شعری محاسن کی کیا صورت حال ملتی ہے؟ اس کے لیے مختصراً یہ بات عرض کرنا ضروری ہے کہ صاحب زادہ صاحب جتنے بڑے منطقی اور زبانوں کو برتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس سے زیادہ ان کی شعری محاسن پر گرفت ہے۔
حضرت علی المرتضیٰؓ کی مدح میں کہی گئی اس منقبت کو ملاحظہ فرمائیے۔
آگہی کے بام پر اودی گھٹا چھانے لگی
زلف‘ علم و فکر کے شانے پر لہرانے لگی
شہپر جبریل کی مہکی ہوا آنے لگی
لو کمر زہرہ کی لچکی ، مشتری گانے لگی
زمز نے صحن ہنر مندی پہ برسائے گئے
مر کیوں کو موتیوں کے ہار پہنائے گئے
کشتی دریائے دانائی کو لنگر مل گیا
علم کی حق آشنا دیوی کو زیور مل گیا
ہاتھ کو کنگن ملا ، ماتھے کو جھومر مل گیا
موجۂ گفتار کو انداز کوثر مل گیا
تیرگی میں دولت بیدار پیدا ہو گئی
علم کی پازیب میں جھنکار پیدا ہو گئی
(۶)
پہلے بند میں آگہی، علم،فکر جبریل اور ہنر مندی کا لفظی تعلق گھٹا، زلف، شانے، لہرانا، ہوا، مہکنا اور برسنے کا تعلق، زہرہ اور مشتری، نیز زہرہ کا لچکنا اور مشتری کا گانا وغیرہ، زمزمے اور مرکیوں کا تعلق، نیز موتیوں،ہار اور پہنائے جانے کا تعلق قابل توجہ ہے۔ اسی طرح دوسرے بند میں کشتی،دریا اور لنگر کا تعلق، زیور، کنگن،جھومر، پازیب کا تعلق، ہاتھ، کنگن، ماتھے، جھومر، پازیب اور جھنکار کا تعلق، موج اور کوثرکا تعلق قابل دید ہے۔ لیکن یہ صنائع بدائع اور یہ لفظی تعلق بہت سے شعراء کے ہاں نظر آسکتے ہیں لیکن ’’ فیض نسبت‘‘ کے صفحہ ۷۴پر درج ایک اور بند ملاحظہ فرمائیے جو صنعتِ التزام کی بہترین مثال ہے۔
نوعِ انسانی کو انداز تکلم آگیا
وہ تکلم ، جس سے باتوں میں تحکم آگیا
وہ تحکم ، جس سے لہجوں میں ترنم آگیا
وہ ترنم ، جس سے موجوں میں تلاطم آگیا
وہ تلاطم،جس سے پیغام صبا آنے لگا
وہ صبا، جس میں پرجبریل لہرانے لگا
اس طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے حضرت پیر نصیر الدین نصیر زبانوں، اصناف،ہتیوں اور شعری محاسن کی وجہ سے عہد حاضر کے معدودے چند شعراء میں شامل ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ ڈاکٹر سیلم اختر،اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، متعدد صفحات
۲۔ نعیم نبی، عابد صدیق، مقالہ برائے ایم ۔ اے اردو و اقبالیات، مملوکہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور
۳۔ خالد نذیر،انور مسعود، مقالہ برائے ایم۔ اے اردو و اقبالیات،مملوکہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور
۴۔ فرح نورین، خورشید رضوی،مقالہ برائے ایم۔ اے اُردو واقبالیات ، مملوکہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور
۵۔ مظہر عباس، گفتگو و خاکہ برائے ایم ۔فل بعنوان، پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری شخصیت اور فن
۶۔ فیض نسبت، از پیر نصیر الدین نصیر، صفحہ نمبر ۶۴،مہریہ نصیریہ پبلشر، گولڑہ شریف، اسلام آباد
جان و دلم فدائے جمالِ محمدؐ است
خا کم نثار کوچۂ آلِ محمدؐ است