پانچ سو اکیس عورتیں! اتنی تو وسیم اکرم کی وکٹیں نہیں
ہماری کوچ سوئٹزر لینڈ کی جانب رواں دواں تھی۔ پیرس سے نکلتے ہی ڈرائیور نے کوچ کی رفتا ر بڑھا دی۔ فرانس کا دیہی علاقہ اپنی تمام تر خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ ہمارے دونوں جانب حد نظر تک پھیلا ہوا تھا۔ کبھی گھنے سر سبزو شاداب جنگلات آجاتے۔ کبھی فصلوں کی بہار آنکھوں کو ٹھنڈک دینے لگتی۔کبھی پھلوں کے باغات دعوتِ نظارہ دینے لگتے اور کبھی رنگ برنگے پھولوں کے قطعات دل و دماغ کو فرحت پہنچانے نظروں کے دائرے میں چلے آتے۔ اتنے حسین نظارے، اتنا سبزہ اور اتنے رنگ برنگیقدرتی مناظر سڑک کے دو نوںجانب موجود تھے کہ نیند سے بوجھل آنکھوں کے باوجود میں سونے کے لئے تیار نہیں تھا۔ دل چاہتا تھا کہ قدرت کے یہ حسین نظارے دیکھتے دیکھتے زندگی گزر جائے۔ ڈر لگتا تھا کہ آنکھیں بند کرنے کے بعد یہ نظارے کہیں گم نہ ہو جائیں۔ ویسے بھی ان جگہوں اور ان مقامات کو دوبارہ دیکھنا شاید ہی نصیب ہو اس لئے میں یہ سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ حسین نظارے تھے کہ سلسلہ وار نگاہوں کے سامنے آتے چلے جارہے تھے ۔ ایک جیسے خوبصورت ، ایک جیسے دلکش اور رنگ و بو کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے۔
پیرس سے سوئٹزر لینڈ کے بارڈر تک پہنچنے کے لئے قریباً آٹھ گھنٹے کی ڈرائیو تھی۔ تقریباََتمام سیاح رات دیر تک جاگ کر پیرس سے وداع ہونے کی تقریب مناتے رہے تھے۔ لہذا اب اپنی سیٹوں پر بیٹھے بیٹھے کچھ اُونگھ رہے تھے اور کچھ باقاعدہ سو رہے تھے ۔ نیند کا خمار سبھی کی آنکھوں میں نظر آرہا تھا۔ جانجی اور مشی حسبِ معمول ایک دوسرے سے چمٹے سو رہے تھے۔ حالانکہ رات کو وہ ہال میں نظر نہیں آئے۔ شاید ان کا تقریب منانے کا طریقہ الگ تھا ۔ سبب کوئی بھی رہا ہو وہ بھی اردگرد کے نظاروں سے غافل بے خبر سور ہے تھے۔ تا ہم بھارتی خاندانوں کے بچے ترو تازہ لگ رہے تھے۔وہ حسبِِ معمول شرارتیں کر رہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ڈاکٹر رمیش ان کو آنکھیں دکھاتا اور سوئے ہوئے مسافروں کی طرف اشارہ کرتا تو وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو جاتے۔ چند ساعتوں بعد وہ پھر سے اٹھکھیلیاںکرتے نظر آتے۔ کسی بھی سیاح نے بچوں کی ان معصوم شرارتوں کاپورے سفر میں بُرا نہیں منایا۔ تمام سیاح ان بچوں سے شفقت اور محبت سے پیش آتے۔ یہ بچے میری اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے اور اب تک مجھ سے کافی بے تکلف ہو چکے تھے۔ میرے ساتھ اکثر شرارتیں کرتے رہتے تھے۔ میں بھی ان کی معصوم شرارتوں سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ بلکہ گاہے بہ گاہے انہیں چھیڑ کر شرارت پر اُکساتا رہتا تھا۔
آج صبح نیند سے بوجھل آنکھیں اور ہاتھوں میں سوٹ کیس اٹھائے جب میں کوچ کے پاس پہنچا تو ذہن میں رات کے واقعات تازہ تھے۔ میں جولی کا ردِ عمل جاننا چاہتا تھا۔ ذہن میں کئی خدشات بھی کلبلا رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی کافی دن کا سفر باقی تھا۔ اپنے ہمسفروں خصوصاً اپنی ہم نشین کے ساتھ کسی بھی بدمزگی سے سفر کا مزہ کر کرا ہو سکتا تھا۔ جولی اپنا ہلکا سا سوٹ کیس اٹھائے آئی توکافی حد تک نارمل نظر آرہی تھی ۔سامان رکھوانے کے بعد وہ حسبِ معمول میرے ساتھ آکر بیٹھی تو گڈ مارننگ کی رسمی علیک سلیک کے بعد چند منٹوں تک بالکل خاموش رہی۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور ہونٹوں پر کھیلنے والی مستقل مسکراہٹ بھی غائب تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے نظر یں ملائے بغیر دِھیرے سے میرے کان کے پاس منہ کر کے’’ سوری ‘‘کہا اور پھر سر جھکا لیا۔ میں نے محض مسکرا دینے پر اکتفا کیا۔ یہ جان کر میرے ذہن سے بوجھ ہٹ گیاکہ جولی کو اپنی غلطی کا احساس ہے۔ میں نے اپنے آپ کو کبھی باہر کے نظاروں اور کبھی بچوں کی شرارتوں میں مصروف رکھا۔ دو گھنٹے بعد ہماری کوچ ایک خوبصورت سے کیفے کے سامنے جا کررُکی۔ سیاح باہر نکل کر واش روم، کیفے اور کرنسی تبدیل کرنے والے کاوٗنٹروں کی طرف چلے گئے۔ کافی کا گرم گرم کپ لے کر میں کیفے کے وسیع دالان کے ایک کنارے پر بچھے بنچ پر آبیٹھا ۔ سگریٹ سُلگا کر اور کافی کے گرم گرم گھونٹ حلق میں اتار کر میں نے نیند کو کافی حد تک جھٹک دیا اور تروتازہ ہو گیا ۔
تھوڑی دیر بعد ہی جولی کافی کا کپ اٹھائے میری طرف آتی نظر آئی۔ میرے پاس بیٹھ کر وہ چند لمحوںتک خاموشی سے میری آنکھوں میں جھانکتی رہی ۔ پھر اس کی آنکھوں میں نمی سی اُترنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ نمی اس کی خوبصورت پلکوں پر اشکوں کی صورت میں نمودار ہو گئی۔ میں گھبرا سا گیا۔’’کم آن جولی! اپنے آپ کو سنبھالو‘‘
اس نے فوری رد عمل ظاہر کیا۔ اپنی آنکھیں صاف کیں۔ پہلا جملہ اُس کے منہ سے نکلا’’ تھینک یو طارق!‘‘
’’ کس بات کا شکریہ ادا کر رہی ہو؟ ‘‘
’’شکریہ اس بات کا کہ تم نے ایک اچھا انسان ہونے کا ثبوت دیا اور میری مدہوشی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے رات جو کچھ کیا اس پر شرمندہ ہوں اور تم سے معافی مانگتی ہوں۔ اس وقت میں نشے کے زیرِ ا ثر تھی۔ امید ہے کہ تم مجھے معاف کردو گے۔ میں ہرگز ایسی لڑکی نہیں ہوں۔ رات کو ماحول ہی ایسا بن گیا تھا۔ شراب کا نشہ، تمھاری ہلکی پھلکی باتیں اور مجھے اٹھا کر کمرے تک پہنچانا۔ ان سب نے جیسے مجھے پاگل سا کر دیا تھا۔ لیکن تم نے جو کردار ادا کیا وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ ناقابلِ فراموش ہے۔ رات کو میں نے تمہیں بہت تنگ کیا ۔ میں اس کے لیے ایک دفعہ پھر معافی مانگتی ہوں‘‘
میں نے جولی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو اس کا جسم قدرے کپکپاتا سا محسوس ہوا۔ اس کا چہرہ سامنے آیا تو میں نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا’’ جولی! جو ہونا تھا وہ ہو گیا ۔شکر ہے کہ صرف تم نشے میں تھیں میں نہیں۔ تا ہم رات کی بات کو بھول جاوٗ اور سفر کو پہلے کی طرح انجوائے کرنے کی کوشش کرو‘‘
جولی میرے چہرے پر نظریں جمائے کافی دیر تک مجھے دیکھتی رہی۔ آخر میں گویا ہوئی’’ تم کتنے مختلف ہو۔ آج تک میرا کسی ایسے مرد سے واسطہ نہیں پڑا‘‘
اتنی دیر میں جان آتا نظر آیا۔ جولی نے واش روم جانا تھا۔ وہ چلی گئی۔ جان میرے پاسبیٹھکر بولا’’ تو آخر تم نے اس اُڑتی چڑیا کو اپنے دام میں پھنسا ہی لیا۔ بہت اچھا کیا۔ اس سے تمھار ا سفر اور بھی خوشگوار ہو جائے گا۔ ویسے میرے لئے اب مولی ہی بچی ہے۔ میں اس پر ٹرائی جاری رکھتا ہوں۔ ہو سکتا ہے بات بن جائے‘‘
’’ جان تمھارے پاس عورت کے علاوہ کوئی اور بھی موضوع ہے بات کرنے کے لئے یا نہیں‘‘ میں نے قدرے جھنجلا کر کہا
’’ عورت نہیں میری جان! لڑکیاں کہو ! کیونکہ میں نے زندگی میں کبھی تیس سال سے زیادہ عُمر کی لڑکی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘
’’تیس سال کی عورت ہی ہوتی ہے لڑکی نہیں۔ بلکہ اگر پاکستان جیسے کسی ملک میں ہوتوچھ سات بچوں کی ماں بن کر بڑھاپے کی جانب مائل ہو چکی ہوتی ہے۔ اس میں لڑکپن تو در کنار جوانی کے آثار بھی غائب ہو چکے ہوتے ہیں‘‘
’’ کچھ بھی کہو! عورتوں کو جتنامیں جانتا ہوںاتنا تم نہیں جان سکتے۔ کیونکہ اتنی مختلف عورتوں سے شاید ہی دنیا میں کسی مرد کے تعلقات رہے ہوں۔ ہرقسم ، ہر رنگ، ہر قوم، ہر نسل، ہر زبان اور ہرمزاج کی عورت کو میں نے بھگتا ہے۔ مجھے تو عورت کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنی چاہیے بشرطیکہ کوئی یونیورسٹی اس موضوع پر ڈگری جاری کرتی ہو‘‘
یہ جان کا من پسند موضوع تھا۔ وہ اس موضوع پر بولتا تھا تو پھر بولتا ہی چلا جاتا تھا۔ میں نے اُس کی زبان کو بریک لگانے کی غرض سے کہا ’’ لگتا ہے ساری زندگی تم نے اسی کام میں صرف کی ہے۔ اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دو کہ اب تک کتنی عورتوں سے تمھارے تعلقات رہے ہیں‘‘
’’طارق! تم نے یہ سوال مذاق میں کیا ہے لیکن میں بالکل سچ بتائوں گا۔شاید تمھیں میری بات کا یقین نہ آئے ۔ میں نے اپنی ڈائری میں ان تمام عورتوں کے نام بھی نوٹ کئے ہوئے ہیں جن سے میرے جسمانی تعلقات رہے ہیں۔ ان کی کل تعداد پانچ سو اکیس ہے۔ ان میں سے اکثر سے میں دوسری بار نہیں ملا۔ کیونکہ میں وہ بھنورا ہوں جو ایک پھول کا رس دوبارہ نہیں چوستا‘‘
’’ پانچ سو اکیس! ‘‘میں نے بے یقینی سے کہا ’’یہ توبہت بڑی تعدادہے۔ اتنی تو وسیم اکرم کی وکٹیں نہیں ہیں حالانکہ وہ ایک اننگز میں پانچ پانچ وکٹیں لیتا رہا ہے۔ اب یہ بھی بتا دو کہ یہ سب تمھاری دوست تھیں یا ان میں وہ بھی شامل تھیں جن کا جسم اور وقت زرِ مبادلہ کے عوض خریدا جا تا ہے‘‘
’’ زیادہ تروہی تھیں کیونکہ اب بھی ہفتے میں کم از کم دو تین مرتبہ میں سڈنی کے کسی نہ کسی عشرت کدے کا رُخ ضرور کرتا ہوں ۔میری کمائی کا زیادہ تر حصہ اب تک اسی کام میں صرف ہواہے‘‘
’’ بہت اچھا مصرف نکالا ہے تم نے اپنی کمائی کاجان۔لیکن کب تک ایسا چلے گا ۔تمھیں ایک جگہ ٹھہرنے کا خیال کبھی نہیں آیا؟ اپنی بیوی اور بچوں کا تصور تمھارے دل میں کبھی نہیںا بُھرا؟ ایک ایسے گھر کا نقشہ کبھی تمھاری آنکھوں میں نہیں آیا جس میں ایک پیار کرنے والی شریک حیات تمھاری راہ دیکھتی ہو۔ معصوم بچے پیاری بھری نظروں اور توتلی زبان سے تمھیں ڈیڈ کہ کر پکاریں اور تمھاری دِن بھر کی تھکاوٹ انہیں دیکھ اور چھو کر زائل ہو جائے‘‘
اس طویل سوال کے بعد میں نے جان کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھا تو چونک گیا ۔کیونکہ جان کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ وہ جیب سے ٹشو پیپر نکال کر ان اشکوں کوصاف کرنے لگا ۔لیکن اس کی آنکھیں ساون بھادوں کی طرح جیسے برسنے پر آگئی تھیں۔ چہرہ شدتِ جذبات سے سُرخ اور آنسووٗں سے بھری آنکھیں مزید سُرخ نظر آرہی تھیں۔ جان جیسے مرد کا یہ ردِ عمل میرے لئے قطعی غیر متوقع تھا۔صرف چند منٹ پہلے کا کھلنڈرا جان اور یہ جان ایک دوسرے سے بے حد مختلف تھے۔ اس غیر متوقع صورتِ حال پر میں خود بھی حیران رہ گیا۔ تا ہم میں نے اندازہ لگا لیا کہ جانے انجانے، میں نے جان کی کسی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ پچھلے آدھے گھنٹے میں اسی جگہ اسی بنچ پر جان دوسرا فرد تھا جو میرے سامنے ا شکوں کے ذریعے اپنے دل کا غبار دھو رہاتھا ۔ اس مختصر وقت میںمجھے دوسری بار کسی کو تسلی دینے کی ضرورت آ ن پڑی تھی۔ میں نے جولی کی طرح اب جان کے کندھے پر ہاتھ رکھا ’’سوری جان! ایسا لگتا ہے میری کسی بات نے تمھارے جذبات اور تمھارے اندر سوئے ہوئے غموں کو بیدار کر دیا ہے۔ میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ اپنے آپ کو سنبھالو۔ ہماری کوچ جانے کے لئے تیار کھڑی ہے۔ وہ ہمیں اشارے کر رہے ہیں۔‘‘
جان نے اپنی آنکھیں اچھی طرح صاف کیں۔ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور جولی کی طرح ایک ہی لفظ کہا’’ سوری ‘‘
ایسے لگتا تھا کہ آج’ سوری ڈے‘ منایا جا رہا ہے ۔ صبح سے ہر کوئی سوری کہے جا رہا تھا۔ ہم دونوں کوچ میں سوار ہوئے تو کوچ فوراً ہی وہاں سے چل پڑی۔ کیونکہ پہلے ہی خلافِ معمول اُس نے یہاں زیادہ قیام کر لیا تھا۔ شاید کافی مسافروں کو کرنسی تبدیل کرانی تھی اس لئے۔ اپنی سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے جان نے میرے کان کے پاس منہ لے جا کر ہولے سے کہا’’ تمھارے سوال کا جواب میرے اوپرقرض ہے۔میں جلد ہی تمھیں یہ قرض لوٹا دوں گا‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔
فرنچ اور سوئس بارڈر پر ہماری کوچ چند منٹوں کے لئے رُکی۔ ایک مختصر سی عمارت تھی۔ دو افراد پر مشتمل مختصر سے عملے نے ہمارے پاسپورٹ بھی چیک نہیں کئے اور ہمیں دنیا کے خوبصورت ترین ملک میں جانے کی بخوشی اجازت دے دی۔ دراصل ٹریفالگر ایک مستند اور معروف ٹریولنگ کمپنی تھی۔ ہماری گائیڈ نے ٹورسٹوں کے ناموں کی جو فہرست سوئس امیگریشن کے عملے کو دی ۔انہوںنے بلا حیل و حجت اس پر یقین کیا اور ہمیں جانے دیا۔
سوئس ، کاروباری ذہن رکھنے والی قوم
سارا یورپ ہی قدرتی حُسن سے مالال مال ہے لیکن سوئٹزر لینڈ کے حصے میں قدرت کی بے پناہ فیاضی آئی ہے۔ جدھر نظر دوڑائو انتہائی خوبصورت انتہائی سر سبز اور گل رنگ نظارے پھیلے نظر آتے ہیں۔ اِس ملک میں قدرت کی مہربانیاںعام ہیں۔ بارڈر کرا س کرتے ہیہماری کوچ ایک طویل سُرنگ میں داخل ہو گئی۔ یہ سُرنگ اس وقت زیر مرمت تھی اس لئے ٹریفک کافی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ ہماری گائیڈ نے بتایا کہ سال کے تقریباً آٹھ دس ماہ برف اور بارش کی وجہ سے سڑکوں سرنگوں اور عمارتوں کی تعمیر اور مرمت کا کام نہیں ہو پاتا۔ ان دنوں موسم اچھاہونے کی وجہ سے ہر طرف یہ کام ہوتا نظر آئے گا۔
میں سوچ رہاتھا کہ پاکستان کو قدرت نے اتنا اچھا موسم دیاہے کہ سال کے بارہ مہینے سڑکوں کی مرمت کی جاسکتی ہے لیکن وہاں سڑکیں پھر بھی ٹوٹی رہتی ہیں۔ سالہا سال تک مرمت نہیں ہوتی۔ اگر کہیں کام شروع ہوتا بھی ہے تو وہ مہینوں اور سالوں تک پھیل جا تا ہے۔ پتھر اور مٹی سڑک پربکھرے رہتے ہیں۔ سڑک ناقابلِ استعمال بنی رہتی ہے۔ گاڑیاں مٹی سے اٹی اور پتھروں پر اُچھلتی ہوئی ایسے چلتی ہیں کہ مسافروں کا اِنجر پنجر ہل کر رہ جاتا ہے۔ مہینوں اور سالوں کے بعد تعمیر مکمل ہوتی ہے تو وہ اتنی ناپائیدار ہوتی ہے کہ تعمیر کے فوراً بعد سڑک پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہونے لگتی ہے ۔کئی سڑکیں آگے سے تعمیر ہو رہی ہوتی ہیں اور پیچھے سے تعمیر شدہ حصہ پھر پہلے جیسا شکستہ اور ٹوٹا پھوٹا نظر آتا ہے۔ اس طرح زیادہ تر سڑکیں اور مقامی گلیاں پختہ ہونے کے بجائے پتھروں اور گڑھوں کی وجہ سے ناقابلِ استعمال رہتی ہیں۔ غریب ملک ہونے کی وجہ سے حکومت سڑکوں کی مرمت کے لئے زیادہ فنڈ فراہم نہیں کر سکتی۔ مگر جہاں حکومت اس کام کے لئے گرانٹ دیتی ہے وہاں اس کا زیادہ تر حصہنوکر شاہی اور سیاسی مگر مچھوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ جو بچتا ہے وہ ٹھیکیدار ہڑپ کر جاتے ہیں۔ مشکلوں سے حاصلکی ہوئی گرانٹ کا عشرِ عشیر ہی اصل پراجیکٹ پر صرف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سڑک، گلی اور پُل پائیدار، مضبوط اور طویل العُمر نہیں ہوتا۔ غریب عوام پتھروں اور گڑھوں کو پھلانگتے عُمریں گزار دیتے ہیں۔
اس دن صبح پیرس سے روانگی کے وقت سے سوئٹزر لینڈ کے پر فضا ء مقام لیوزرن پہنچنے تک تمام دن وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ میرے سفرِ یورپ کی پہلی باقاعدہ بارش تھی۔ ورنہ اس سے پہلے خلافِ توقع موسم بہت اچھا رہا تھا۔ حتٰی کہ لندن کے عموماََ روتے بسورتے موسم کے باوجود میرے قیامِ لندن کے دوران بہت کم بارش ہوئی۔زیادہ تر دھوپ نکلی رہی ۔ اس دن پیرس سے سوئٹز ر لینڈ کے سفر کے دوران بھی بارش مسلسل نہیں تھی بلکہ تھوڑی دیر بارش ہوتی اور پھر اچانک مطلع صاف ہو جاتا ۔ دھوپ ایسے پھیل جاتی جیسے مدتوں سے یہاںبارش نہ ہوئی ہو ۔ تھوڑی دیر بعد ہی کہیں سے بادل نمودار ہوتے ہلکی ہلکی پھوار برساتے اور غائب ہو جاتے۔ اس طرح وہ پورا دن اسی آنکھ مچولی میں گزرا ۔ تا ہم شام کے وقت جب ہم لیوزرن کے علاقے میں پہنچے تو مطلع مکمل طور پر صاف ہو چکا تھا۔ آسمان انتہائی صاف اور نیلادکھائی دے رہا تھا۔
اس پہاڑی علاقے کی خوبصورتی ناقابلِ بیان اور اس کا قدرتی حسن آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا تھا۔ چمکتی سڑک کے دونوں جانب اونچا نیچا پہاڑی سلسلہ اور نشیب میں جنت نظیر وادیاں قدرت کی بھر پور فیاضی کی عکاسی کر رہی تھیں۔ سبزہ ، پھول، پودے، پھلوں سے لدے درخت، بھور ی بھوری گائیں، برف کے بڑے بڑے گولوں سے مشابہ سفید سفید بھیڑیں اور اُن کے پیچھے بھاگتے گول مٹول سے سوئس بچے۔ ایسے منظر تھے کہ انسان نظریں جھپکنا بھول جائے۔ ایسے لگتا تھا کہ قدرت نے اس علاقے پر اپنا خصوصی لطف و کرم کیا ہے اور انہیں خوبصورتی کا خزانہ دل کھول کر عنایت کیا ہے۔ سوئس باشندے خود بھی بہت خوبصورت اور بھولے بھالے سے ہیں۔ خصوصاً سوئس بچے اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر خود بخود نظروں میںپیار اُتر جاتا ہے۔ سوئس گائیں بھی منفرد اور خوبصورت ہیں۔ جولائی کے اس مہینے میں پورے یورپ میں پُھولوں کی بہتات نظر آئی لیکن سوئٹزرلینڈ میں تو جیسے رنگ برنگے پُھولوں کا سیلاب آیا ہوا تھا۔
ہماری کوچ جب اُن جنت نظیر وادیوں میں گزر رہی تھی تو ہر طرف پھیلے رنگ برنگے پُھولوں کے قطعات ، پہاڑیوں پر سرسبز و شاداب گھنے درخت ، نشیب میں سبز گھاس چرتی ہوئی خوبصورت سوئس گائیں اور پہاڑیوں کی ڈھلوانوں کے ساتھ ساتھ بنے ہوئے دِلکش مکانات جنت کا نقشہ کھینچ رہے تھے۔ سیاح یہ حسین مناظر پوری دلچسپی اور محویت سے دیکھ رہے تھے۔ جولی جو دن کے شروع کے حصے میں خاموش سی تھی اب خوب چہک رہی تھی۔ جب ہم ان وادیوں سے گزر رہے تھے تو کہنے لگی ’’ہم نے ٹریفالگر کو جو رقم ادا کی ہے آج اُس کی قیمت وُصول ہو گئی‘‘
باقی سیاح بھی اپنے اپنے انداز میں سوئٹزر لینڈ کے اس جنت نظیر خطے کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے۔ اُدھر ہماری گائیڈ مولی دلچسپ انداز میں سوئٹزرلینڈ اور اس کے باسیوں کے بارے میں بتا رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی’’ ویسے تو یورپ کے دوسرے ملکوں اور علاقوں میں بھی قدرتی حُسن کی کمی نہیں ہے لیکن سوئس باشندوں کو خدا نے دل کھول کر اس نعمت سے نوازا ہے ۔ان کے پہاڑ قیمتی درختوں سے مالا مال ، ان کی زمینیں سونا اگلنے والی، ان کی گائیں خوبصورت اور بہت سا دودھ دینے والی، ان کی بھیڑیں دنیا کی بہترین اُون فراہم کرنے والی اور ان کی زمین کی تہیں پیش قیمت دھاتوںسے بھر ی پڑی ہیں۔ خود سوئس باشندے بھی قدرت کے بخشے حُسن سے مالا مال ہیں۔ غرضیکہ دنیا کی کوئی نعمت نہیں جو سوئس باشندوں کو حاصل نہ ہو،،
مولی نے حسبِ معمول جگہ اور وقت کے مطابق یہ لطیفہ بھی سنایا۔ کہنے لگی ’’کہتے ہیں کہ جب خدا نے سوئس زمین پر اپنی نعمتیں تخلیق کیں تو اُس نے سوئس باشندوں سے پوچھا ’’تمھیں کس قسم کا مُلک درکار ہے؟‘‘
َ سوئس لوگوں نے کہا’’ ایسا ملک جو سر سبز و شاداب ہو۔جہاں پانی، درخت، سبزہ، پھول غرضیکہ سب کچھ ہو ‘‘
خدا نے ان کی بات مان لی اور ان سب نعمتوں سے انہیں نواز دیا۔ اور پھر ان سے پوچھا ’’اور کچھ ؟ ‘‘
سوئٹزرلینڈ کے باشندوں نے کہا’’ اے خدا! ہمیں دنیا کی خوبصورت ترین قوم بنا دے‘‘
خدا نے اُن کی یہ بھی سن لی اور انہیں خوبصورت جسم اور خوبصورت چہرے عنائت کر دیے۔ پھر ان سے دریافت کیا’’ اس کے علاوہ بھی کوئی خواہش ہو تووہ بھی بیان کر دو‘‘
سوئس لوگوں نے کہا’’یاخدا! جہاں تم نے ہماری تمام خواہشیں پوری کر دیں وہاں یہ بھی کر دو کہ ہماری بھیڑیں اور گائیں بھی سب سے دلکش اور سب سے زیادہ اُون اور دودھ دینے والی ہوں ‘‘
خدا جو اس قوم پر خصوصی مہربان تھا اس نے سوئس باشندوں کی یہ آخری خواہش بھی پوری کر دی۔ اس کے بعد خدا نے کہا’’ میں نے تمھاری ساری خواہشیں پوری کردیں اور تمھیں ہر نعمت سے نوازدیا۔ اس کے بدلے مجھے گائے کے دودھ کا ایک گلاس دے دو۔سوئس جو اپنے کاروباری ذہن کے لئے مشہور ہیں انہوں نے فوراً کہا ’’پہلے دو ڈالر ادا کرو پھر دُودھ دیں گے‘‘
سوئٹرز لینڈ میں چار زبانیں جرمن، اٹالین، فرنچ اور انگریزی بولی جاتی ہیں۔ زیادہ تعداد جرمن زبان بولتی ہے۔ اُن کی جرمن کتابی جرمن سے قدرے مختلف ہے۔ سوئس باشندے تعصب سے عاری اوربھولے بھالے سے ہیں۔ انہیں جنگ سے سخت نفرت ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی اپنی کوئی فوج نہیں ہے اور نہ ہی اُن کا کسی ملک سے کوئی تنازعہ ہے ۔ بلکہ سوئس دنیا بھر میں ہونے والی ہرجنگ کے مخالف ہیں۔ سوئٹزرلینڈ ایک پراُمن اور پر سکون ملک ہے۔ ان کے باشندے زندگی کو اس کی مسرتوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ پر لطف انداز میں گزارتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ ان کے اپنے باشندوں کے علاوہ دنیا بھر کے کالے دھن والوں ، کرپٹ سیاست دانوں، آمروں اور ٹیکس سے بچنے والوں کی بھی جنت ہے۔ بہت سے ملکوں کے کرپٹ بھگوڑے اپنے ملکوں سے لوٹی کھسوٹی دولت سوئس بنکوں میں جمع کراتے ہیں۔ یہ اکاوٗنٹ نہایت محفوظ ہوتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے حکومتی دباوٗ کے باوجود کبھی ظاہر نہیں کئے جاتے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے دنیا بھر کی دولت کا ایک بڑا حصہ سوئس بنکوں میں ہر وقت موجود رہتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ قدرت کی بخشی دوسری تمام نعمتوں کے ساتھ ساتھ اس مد میں بھی بہت کچھ کماتا ہے۔ اس لئے سوئٹزرلینڈ بہت خوشحال ملک ہے۔ فوج اور دیگر دفاعی اخراجات بھی نہیں ہیں۔ اس لئے یہ ساری دولت عوام پر خرچ ہوتی ہے۔ سوئس عوام زندگی کی تمام نعمتوں اور خوبصورتیوں سیفیضیاب ہو رہیہے۔ غرضیکہ قدرت نے اِس خطے اور اس کے باشندوں کو قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ دولت سے بھی دل کھول کر نوازا ہے۔دولت اور خوشحالی سوئٹزرلینڈ میںہر جگہ نظر آتی ہے۔ لوگوں کے چہروں سے صحت و خوشی بن کر، شاندار اور آرام دہ مکانات کی شکل میں ، قیمتیگاڑیوں کی صُورت میں اور عوام کو حاصل ہر سہولت کی شکل میں۔ کاش ساری دنیا سوئٹرز لینڈ والے اصولوں پر عمل کرنا شروع کردے۔ اگر ایسا ہو جائے تو دُنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔