وہ انا پرست تھا اسکی باتوں میں اقرار بھی تھا
اسکے چھبتے ہوۓ لہجے میں پیار بھی تھا۔۔۔۔۔
نومبر کی پل پل بدلتی صورتحال کے مطابق سوات کی ہواٸیں بھی رنگ بدل رہی تھی۔۔۔۔۔کبھی ہلکی ہلکی دھوپ نکل آتی کبھی آسمان پہ کالے بدل چھا جاتے۔۔۔۔۔موسم خزاں کے اواٸل دنوں میں ۔۔۔۔۔سبز پتے بدل کے ہلکے ذرد دیکھاٸی دے رہے تھے۔۔۔۔۔اور اونچی قد آور درختوں سے جھڑتے ۔۔۔۔یہ ذرد پتے ذمین پہ بچھی سبز چادر پہ گرتے تو عجیب سحر آنگیز نظارہ پیش کرتے۔۔۔۔۔۔
اپنے کمرے کی گلاس ونڈو کے باہر نظریں جماۓ وہ کھڑی تھی
جہاں سبزے پہ خوبصورت گھوڑے۔۔۔۔۔گھاس کھانے میں مصروف تھے
ہاتھ میں پکڑا کافی کا کپ ٹھنڈہ پڑ چکا تھا
لیکن وہ اپنی ہی سوچوں میں گری کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
جب درواذہ دھیرے سے کھول سے وہ اندر داخل ہوا۔۔۔۔
اسے ایک نظر دیکھا جس نے اس کی موجودگی کا نوٹس بھی نہیں لیا تھا
وہ اسے طرح ہی نظریں باہر جماۓ کھڑی تھی
وہ دھیرے دھیرے چلتا اس کے قریب آیا
اور ہاتھ باندھ کے اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا
اور اس کے کان کے قریب جاکے گلا کھنکارا۔۔۔۔۔تو وہ یکدم چونک کے پیچھے مڑی۔۔۔۔
تو اس کے سینے کے ساتھ جا ٹکراٸی
پھر یکدم لرزتی پلکیں اٹھا کے۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔۔
وہ مسکرا رہا تھا
وہ بالکل اس کے قریب کھڑا تھا
وہ تھوڑی سی شرمندہ ہو کے پیچھے ہٹنے لگی۔۔۔۔
تو اس نے ہاتھ ونڈ اسکرین کے ساتھ ٹکا کے اسے یہ کرنے سے باز رکھا
وہ اب اس کے بازٶں کی گرفت میں سر جھکاۓ کھڑی تھی۔۔۔۔
”اب مارو میرے منہ پہ تھپڑ۔۔۔۔۔“؟
وہ مصنوعی غصہ چہرے پہ سجاۓ اسے اکسا رہا تھا
وہ سانس روکی خاموشی سے وہی کھڑی رہی۔۔۔۔
”مارو۔۔۔۔۔“؟
وہ دوبارہ حاکمانہ لہجے میں بولا
تو اس نے بامشکل سر اٹھایا۔۔۔۔
اور لب کچلنے لگی۔۔۔۔
”میں نہیں مارو نگی۔۔۔۔۔“
اس نے جان چھڑانی چاہی۔۔۔۔۔“
کیوں بھلا۔۔۔۔“؟
وہ انجان بنا۔۔۔۔۔
”کیونکہ اب آپ میرے شوہر ہیں۔۔۔۔۔۔“
وہ آہستہ آواز میں ہچکچاتے ہوۓ۔۔۔۔۔۔بولی
تو وہ کھلکھلا کے ہنسا۔۔۔۔۔
اس نے گھبرا کے نظریں جھکا لی۔۔۔۔
”دیکھو تمہارے منہ سے مجھے شوہر کہنا۔۔۔۔۔مجھے بہت پسند ہے۔۔۔۔۔“
اس نے تھوڑی سے پکڑ کے اس کا چہرہ۔۔۔۔اوپر کیا۔۔۔۔
وہ ذومعنی انداز میں مسکرا رہا تھا
”ہٹیں مجھے تھوڑا کام ہے۔۔۔۔“
وہ جانے کے لیے پر تولنے لگی۔۔۔
”کیا مجھ سے بھی کوٸی ضروری کوٸی کام ہونا چاہیۓ تمہاری ذندگی میں۔۔۔۔“؟
وہ مصنوعی ناراضگی سے بول کے اسے پھر لاجواب کر گیا۔۔۔۔۔
”پہلی عورت دیکھی ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ بھی خود کو اتنا غیر محفوظ سمجھتی ہے۔۔۔۔۔“
وہ اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کے۔۔۔۔جی بھر کے بدمزہ ہوا۔۔۔۔۔
بیویاں رومینس سے خوش ہوتی ہیں۔۔۔۔۔اور تم گھبرا جاتی ہو۔۔۔۔۔“
اسے اب اس کی خاموشی سے کوفت ہو رہی تھی۔۔۔۔
”وہ اصلی بیویاں ہوتی ہیں۔۔۔۔“
اس کی بھی برداشت اتنی ہی تھی
اس لیے جل کر بولی
اس کے لبوں پہ تبسم بکھر گیا
”تو کیا تم نقلی بیوی ہو۔۔۔۔۔“؟
اس نے اسے چھیڑا۔۔۔۔
”ہاں آپ کی نظر میں ایک فالتو چیز جسے آپ جب تک چاہیں۔۔۔۔۔گے ساتھ رکھیں گے اور جب چاہیں گے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔۔“
وہ اس کو بہت کچھ جتا گٸ تھی
”تو کیا تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔“؟
وہ ایک ابرو اٹھا کے بولا۔۔۔۔۔
وہ فوراً بوکھلا گٸ جذبات میں وہ شکوہ کر بیٹھی تھی
”مجھے نہیں پتہ ۔۔۔۔۔
جان چھڑانے والے انداز میں کہتے ہوۓ
وہ اس کے بازو کے نیچے سے ہو کے نکل گٸ ۔۔۔۔
اس حرکت پہ وہ مسکرا دیا
پھر یکدم اس کے پیچھے آیا
جو اپنی حفت مٹانے کے لیے یونہی بیڈ کی چادر درست کرنے لگی
اس نے ایک نظر ناگواری سے اس کے سراپے کو گھورا۔۔۔۔
جو اس وقت ہلکے آسمانی رنگ کی لمبی قمیض اور چوڑی دار اور پاجامہ پہنے ہوۓ تھی
ہلکے گولڈن رنگ کے بالوں کا ڈھیلا سا جوڑہ بنا رکھا تھا۔۔۔۔۔
سنو۔۔۔۔۔
اس کے پکارنے پہ بھی وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوٸی
وہ اس کی طرف دیکھنے سے دانستہ گریز پا تھی۔۔۔۔
”مانا میں تمہیں پسند نہیں ہوں۔۔۔۔لیکن اب ایسی بھی کیا ناراضگی ہے کہ۔۔۔۔۔تم نے ایسا بیوہ عورتوں والا حلیہ بنا لیا ہے۔۔۔۔۔“؟
وہ برا سا منہ بنا کر بولا
تو اس نے پلٹ کے اسے گھورا تھا۔۔۔۔۔
خود کو بیوہ کہنا اسے برا لگا تھا
لیکن اس کا اظہار نہ کر پاٸی
اور واقعی آج صبح ہی میک اپ کا تمام سامان بوا نے ڈریسنگ ٹیبل پہ سجا دیا تھا
وہ الگ بات تھی کہ اس نے پلٹ کے اس طرف دیکھا بھی نہیں تھا۔۔۔۔
وہ دھیرے سے اٹھا۔۔۔
اور اس کے قریب آیا اسے بازو سے پکڑ کے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے کے سامنے لے گیا
وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ کے رہ گیا۔۔۔۔۔
ٹیبل پہ پڑی مختلف شیڈز کی لپ اسٹکس میں سے ایک ڈارک شیڈ لگایا
اور اس کے ہونٹوں پہ لپ اسٹک لگانے لگا۔۔۔۔
وہ بس حیرت اور بے یقینی کے ملے جلے تاثرات سے اسے دیکھ کے رہ گٸ۔۔۔۔۔
ساتھ ہی اس کے بالوں پہ۔۔۔۔۔لگا کیچر کھولا۔۔۔۔
لمبے بال شانوں سے ہوتے ہوۓ کمر پہ بکھر گۓ۔۔۔۔۔
وہ اپنا اور اس کا عکس شیشے میں دیکھ کے رہ گٸ۔۔۔۔
”اب لگ رہی ہو نا تم تھوڑی تھوڑی دلہن۔۔۔۔۔“
وہ فاتحانہ لہجے میں بولا۔۔۔۔۔
ساتھ ہی بوا کو آوازیں دینے لگا۔۔۔۔۔
بوا تیزی سے ادھر آٸی۔۔
بوا جو کپڑوں کا آرڈر دیا تھا وہ تیار ہوا کہ نہیں۔“؟
وہ صوفے پہ بیٹھ کے اب سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔۔۔
”جی صاحب جی تھوڑی دیر تک۔۔۔۔۔ہو جاٸیں گے تیار۔۔۔۔۔۔“
بوا نے ایک نظر سر جھکا کے کھڑی زرپاش کو دیکھ کے اطلاع دی۔۔۔۔۔
”اچھا صحیح۔۔۔۔۔۔تب تک آپ کسی مہندی لگانے والی لڑکی کا انتظام کریں۔۔۔۔۔۔“
اس نے پرسوچ نظروں سے سر جھکا کے کھڑی زرپاش کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔
تو بوا سر ہلا کے وہاں سے چلی گٸ۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ ایک لڑکی کے ساتھ وہاں موجود تھی
وہ چودہ پندرہ سال کی ایک خوش شکل لڑکی تھی ۔۔۔۔۔۔پٹھانوں کا مخصوص لباس پہنے وہ خدو خال سے یہاں کی رہاٸشی لگتی تھی۔۔۔
زرپاش تو بس کسی کٹھ پتلی کی طرح اس کے کہنے پہ عمل کرتی جارہی تھی
ابھی بھی اس کے کہنے پہ مہندی لگوا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ پاس بیٹھا تنقیدی نظروں سے جاٸزہ لے رہا تھا۔۔۔۔۔
پھر ایک نظر اس کے سفید ہاتھوں پہ لگی مہندی پہ ڈالی۔۔۔۔۔
”سنو یہاں جگہ چھوڑ دو یہاں میرا نام لکھنا۔۔۔۔۔“
اس کے یوں کہنے پہ وہ فوراً چونکی۔۔۔۔
لیکن وہ اس کی طرف دیکھے بغیر کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔
”سنو۔۔۔۔۔۔
یہ لباس کدھر سے لیا ہے تم نے۔۔۔۔۔“
اس کے مخصوص موتیوں والے لباس کو دیکھتے ہوۓ اس نے پوچھا۔۔۔۔
”یہ اماری اماں نے خود بنایا ہے لالا۔۔۔۔
اس نے مہندی لگاتے ہوۓ اردو میں کہنے کی کوشش کی۔۔۔۔
ایک میری بیوی کے ناپ کا بھی بنا دو۔۔۔۔۔۔“
اس کے اگلے حکم پہ اس نے سر اٹھا کے دیکھا۔۔۔۔۔
وہ اس کی ہی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
پتہ نہیں وہ کرنا کیا چاہتا تھا۔۔۔۔
”ہاں بنوا دوں گی لالا۔۔۔۔۔
اس نے فوراً کہا۔۔۔۔۔
وہ جلدی بے تکلف ہونے والی لڑکی تھی۔۔۔۔۔
”میری بیوی ہے بھی پیاری۔۔۔۔۔“ اس کے ساتھ تو بہت خوبصورت لگے گا۔۔۔۔“
وہ اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔۔۔
تو اس نے سر مذید جھکا لیا
پتہ نہیں وہ بار بار اس پہ کیا جتانا چاہتا تھا
”لالا بہت محبت کرتا ہے تم سے۔۔۔۔۔“
لڑکی نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
اس نے چور نظروں سے دیکھا تو وہ ایسے بیٹھا تھا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نا ہو۔۔۔۔
دل کے اندر کہیں ٹیس اٹھی تھی۔۔۔۔۔
وہ اس کی طرف دیکھ کے زبردستی مسکرا دی۔۔۔۔
اب وہ اس کے ہاتھ پہ اس کا نام لکھ رہی تھی
اور اس کی نظریں اس نام پہ جم سی گٸ
پتہ نہیں یہ نام اس کے نصیب میں تھا یا نہیں۔۔۔۔۔۔
ہم نے اس کے درد سے اپنی سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں ذندہ رہنے کی ایک صورت اور بھی ہے
موسم نے پھر اپنا رنگ ڈھنگ بدلا تھا۔۔۔۔اور برفباری ایک دفعہ پھر شروع ہو گٸ تھی۔۔۔۔کاروبارِ ذندگی معطل ہو کے رہ گٸ تھی لینڈ سلاٸیڈنگ کا خطرہ بھی بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔ملکہ کوہسار پہ سیاخوں کی آمد کی وجہ سے۔۔۔۔۔ٹریفک جام ہو چکی تھی۔۔۔۔
ایسے میں وہ اس چھوٹے سے گھر کے گرم کمرے میں بیٹھا تھا پاس ہی آگ جل رہی تھی
اس کے ہاتھ میں پکڑا کافی کا کپ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
آج مفتی صاحب کی تدفین کو چوتھا روز گزر چکا تھا۔۔۔۔۔مسلسل خود سے جنگ لڑنے کے بعد وہ اس نتیجے پہ پہنچا تھا کہ وہ ان کا حکم نہیں ٹال سکتا۔۔۔۔۔
اور آخر آج شام اس نے ماہ جبین سے خاموشی سے نکاح کر لیا تھا
سب لوگوں کے جانے کے بعد بھی وہ اسی گھر میں موجود تھا
اس وقت وہ دونوں ہی اس کمرے میں موجود تھے
دونوں یوں سر جھکا کے بیٹھے تھے جیسے انہوں نے کوٸی جرم کر دیا ہو
اس خاموشی کو اس کی آواز نے توڑا تھا
”آپ کے ابو کا مجھ پہ بہت بڑا احسان تھا۔۔۔۔۔کہ انہوں نے مجھ جیسے ایک شرابی انسان کو ہدایت کا راستہ دیکھایا۔۔“
وہ نظریں جھکاۓ سپاٹ لہجے میں کہہ رہا تھا
اور ان کا ہر حکم سر آنکھوں پر۔۔۔۔۔ان کے حکم کے مطابق۔۔۔۔۔میں نے آپ سے نکاح کر لیا۔۔۔۔۔
لیکن ایک بات آپ یاد رکھیۓ گا۔۔۔۔۔۔
میری ذندگی میں آپ کے لیے کوٸی گنجاٸش نہیں نکل سکتی۔۔۔۔
وہ دھیرے دھیرے کہہ رہا تھا اور وہ سر جھکا کے سنتی پتہ نہیں ضبط کے کون سے مراحل سے گزر رہی تھی۔۔۔۔۔
لیکن ہمارا رشتہ کبھی نکاح سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔۔۔۔
”میری بیوی ہے جس سے میں بہت محبت کرتا ہوں میری دو بیٹیاں ہیں۔۔۔۔۔“
اس انکشاف نے تو جیسے۔۔۔۔۔اس کو اندر تک جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا
اس نے تڑپ کے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا تھا
جو ذمین کو گھور رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ کہیں سے بھی شادی شدہ نہیں لگتا تھا۔۔۔۔۔
اور وہ جو یہ سوچ کے بیٹھی تھی کہ وہ اس شخص کی ذندگی میں جگہ بنا ہی لے گی۔۔۔۔یہ امید بھی اپنی موت آپ ہی مر گٸ تھی۔۔۔۔۔
اور پھر فقط وہ اتنا ہی بول پاٸی تھی
”میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے ابا کا حکم مان کے مجھے۔۔۔۔۔سہارا دے دیا۔۔۔۔۔اس سے ذیادہ کچھ نہیں چاہیۓ۔۔۔۔
بات کے آخر میں نہ چاہتے ہوۓ بھی اس کی آواز لڑکھڑا گٸ تھی۔۔۔۔
ساتھ ہی وہ چاۓ کا خالی کپ اٹھا کے اٹھ کھڑی ہوٸی
وہ اپنے آنسو ان سے چھپانا چاہتی تھی
وہ ملا بھی تو اس تھا تو اس طرح
کہ اس کے دل میں کوٸی اور تھا۔۔۔۔۔۔
اسی لمحے موباٸل کی اسکرین پہ جلتے بجھتے ۔۔۔۔۔مہرالنساء کے نام نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔۔
انہوں نے بجھے دل کے ساتھ فون اٹھایا۔۔۔۔۔
فون اٹھاتے ہی وہ شروع ہو چکی تھی۔۔۔۔۔اس چیز سے بے خبر کے ان کا شوہر اب بٹ چکا ہے۔۔۔۔۔
وہ بس ہاں ہوں میں جواب دے رہا تھا
کچن میں کھڑی وہ خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی
اور باہر شام محو تماشہ تھی۔۔۔۔۔
اس کی قربت میں ہے کیا بات نا جانے محسن
ایک لمحے کے لیے صدیوں کو بھلا دیتا ہے۔۔۔۔۔
موسم نے یکدم پلٹا کھایا تھا اور ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گٸ تھی۔۔۔۔۔
وہ جب کمرے میں داخل ہوا
تو اسے دیکھ کے وہی ٹھہر گیا۔۔۔۔
سامنے وہ کالے رنگ کے کام دار شیفون کے سوٹ میں۔۔۔۔۔بال کھولے۔۔۔۔۔ہلکے میک اپ کے ساتھ بہت حسین لگ گٸ تھی
وہ وہی کھڑا محویت سے اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے دنیا میں اس سے ذیادہ ضروری اور کوٸی کام نہیں۔۔۔۔
اس کے حکم کے مطابق وہ تیار ہوگٸ تھی
اپنے چہرے پہ وہ نظروں کی تپش محسوس کر کے وہ پلٹی تو۔۔۔۔سامنے اسے کھڑا دیکھ کہ فوراً سے نظریں جھکا لی۔۔۔۔
وہ چلتا چلتا اس کے قریب آیا
اس کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوٸی۔۔۔۔۔۔
”تم آج اتنی حسین لگ رہی ہو کہ۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ اگر میں تمہیں نظر بھر کے دیکھوں گا تو۔۔۔۔۔تمہیں نظر لگ جاۓ گی۔۔۔۔۔“
تھوڑی سے اس کا چہرہ اوپر کر کے۔۔۔۔۔وہ مخمور لہجے میں بولا
تو وہ جھنپ گٸ۔۔۔۔۔
”چلو۔۔۔۔۔میں نے تمہیں آج سیر پہ لے کے جانا ہے۔۔۔۔۔۔“
اس نے فوراً خود کو سنبھالا۔۔۔۔۔
وہ چپ چاپ پھر اس کے پیچھے چلنے لگی۔۔۔۔
سیڑھیاں اتر کے وہ جیسے ہی نیچے آۓ۔۔۔۔۔۔
تو بوا نے ایک نظر دونوں کو دیکھا۔۔۔۔۔
کالے رنگ کے کپڑوں میں وہاج۔۔۔۔۔نہایت خوشگوار موڈ میں تھا۔۔۔۔۔اور ساتھ سر جھکاۓ زرپاش۔۔۔۔۔۔کے چہرے پہ حیا کے رنگ تھے۔۔۔۔
”بے اختیار ان کی زبان سے نظر نہ لگنے کی دعا نکلی
جس پہ انہوں نے فوراً آمین کہا۔۔۔۔۔
تب تک وہ دونوں جا چکے تھے۔۔۔۔۔
وہ میرا کون ہے معلوم نہیں ہے
جب بھی ملتا ہے تو پہلو میں جگا دیتا ہے۔۔۔۔۔
اس کچے پل کو اس کا ہاتھ تھام کے پار کرتے ہوۓ تحفظ کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔۔کہیں اس کے وجود کے پیچھے چھپ کے ان نظاروں کو دیکھتے ہوۓ ایک میٹھا سا احساس جاگا تھا۔۔۔۔۔جسے شاید محبت کہتے ہیں۔۔۔۔۔وہ ذندگی کا ایک نیا روپ دیکھ رہی تھی جس میں صرف وہاج ہی تھا۔۔۔۔۔گھوڑے پہ اس کا ہاتھ پکڑ کے چڑھتے اور اس کے ساتھ گھڑ سواری کرتے ہوۓ اسے محسوس ہوا تھا وہ ہواٶں میں اڑ رہی ہے۔۔۔۔۔وہ یہ جانتی تھی کہ سامنے موجود شخص نا پاٸیدار ہے لیکن محبت پاٸیداری یا ناپاٸیداری نہیں دیکھتی۔۔۔۔۔اسے یا بھی پتہ تھا سامنے موجود شخص۔۔۔۔۔کسی لمحے بھی بدل سکتے ہے لیکن محبت بدلنے کے رنگوں سے ناواقف ہوتی ہے وہ تو بس ہوتی ہے تو بے حساب بے پناہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔وہ کچھ بھی نہیں جانتی تھی وہ بس اس نرم گھاس تک پہنچنے تک صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ مکمل طور پہ اس کی محبت میں ڈوب چکی ہے۔۔۔۔۔
وہاج کے موباٸل کی رنگ ٹون نے اسے ہوش کی دنیا میں لایا۔۔۔۔۔
وہ اس وقت قدرے اونچی جگہ پہ گھاس پہ کھڑے تھے۔۔۔۔۔
سامنے ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔۔۔۔۔جو پتھروں کی مدد سے بنایا گیا تھا
باہر کرسیاں پڑی تھی
وہ دونوں بھی جاکے ایک کرسی پہ بیٹھ گۓ۔۔۔۔۔
وہ ساتھ ساتھ موباٸل پہ بھی مصروف تھا۔۔۔۔
وہ کھانے کا آرڈر دے کے کال سننے کے لیے ساٸیڈ پہ چلا گیا۔۔۔۔
اسی لمحے ایک چھوٹی بلی۔۔۔۔۔اس کے پاٶں کے پاس آکے کھیلنے لگی۔۔۔۔شاید وہ اس ہوٹل کے مالک کی پالتو بلی تھی
بلیاں شروع سے ہی اس کی کمزوری تھی
وہاج ابھی تک کسی سے بات کر رہا تھا
اس نے بلی کو اٹھانے کی کوشش کی تو بلی اس کے ہاتھ سے نکل کے۔۔۔۔۔ڈھلوان سے ہوتی ہوٸی نیچے کی طرف بھاگی
وہ بھی اٹھ کے اس کے پیچھے بھاگی۔۔۔۔۔
کافی دیر وہ بلی کو پکڑنے کی کوشش میں ۔۔۔۔۔مزے سے اس کے پیچھے بھاگتی رہی۔۔۔
مختلف سیاحوں نے گردن موڑ کے اسے دیکھا تھا
کافی دیر بعد خود کو اس ویرانے میں پاکے اسے اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا
بلی تو کافی آگے نکل گٸ تھی وہ پیچھے رہ گٸ تھی۔۔۔۔
اس نے واپس جانے کی کوشش کی لیکن اسے محسوس ہوا کہ وہ اب واپس نہیں جا پاۓ گی
اسے واپسی کا راستہ بھی معلوم نہیں تھا
اسے وہاج کا خیال آیا۔۔۔۔۔
ابھی تک تو اسے پتہ چل گیا ہو گا۔۔۔۔۔
یہ راستہ کافی سنسان تھا۔۔۔۔۔نیچے گہرا جنگل تھا
اسے خوف آرہا تھا۔۔۔۔۔
ادھر وہاج جب واپس نہ آیا تو زرپاش کو وہاں نہ پا کر۔۔۔۔۔وہ کافی پریشان ہو گیا تھا
ہوٹل کے مالک سے پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔۔۔۔
اس بات نے اس کی تشویش میں مذید اضافہ کیا۔۔۔۔۔
وہ نیچے کی طرف گیا اور وہاں موجود سیاحوں سے پوچھنے لگا۔۔۔۔
اور انہوں نے بتایا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ لڑکی بلی کو پکڑتے ہوۓ نیچے کی طرف گٸ ہے
وہ پریشانی کے عالم میں اسی طرف گیا۔۔۔۔۔
جنگلی جانور کی دھاڑ سن کے وہ مذید سہم گٸ اور اٹھ کھڑی ہوٸی
بوکھلا کہ اندھا دھند بھاگی
اور سامنے کسی چیز سے ٹکرا گٸ اس نے دہشت بھری نظروں سے سر اس طرف دیکھا۔۔۔۔
اور اس کی سانس میں سانس آٸی
”وہاج وہ۔۔۔۔ادھر کوٸی ہے۔۔۔۔
وہ روتے ہوۓ اس کے سینے کے ساتھ جالگی۔۔۔۔۔
زرپاش تم آخر چاہتی کیا ہو۔۔۔۔۔۔“؟کیوں مارنا چاہتی ہو مجھے۔۔۔۔۔۔“؟
اس نے اسے دونوں شانوں سے پکڑ کے جھنجھوڑا تھا۔۔۔۔
”تمہیں اگر کچھ ہو جاتا تو۔۔۔۔۔“
وہ تیزی میں بولتا ہی جارہا تھا
وہ ہوش و حواس سے بیگانہ اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
”اگر میں وقت پہ نہ پہنچتا تو۔۔۔۔کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی۔“ ہاں۔۔۔۔۔“؟
وہ غصے میں اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔۔
لیکن وہ اس وقت اتنی ڈری ہوٸی تھی۔۔۔۔۔کہ اس پہ کسی ڈانٹ کا کوٸی اثر نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
”وہاج پلیز مجھے یہاں سے لے جاٸیں۔۔۔۔۔“
وہ ایک دفعہ پھر اس سے لپٹ گٸ۔۔۔۔
اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔۔۔۔
وہ سمجھ گیا کہ وہ ڈری ہوٸی ہے۔۔۔۔
اس لیے مذید ڈانٹ کا ارادہ ملتوی کر کے۔۔۔۔۔اسے تسلی دینے لگا