دو پہر کا وقت تھا ہر طرف خاموشی تھی چڑیاں کےچہچانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
وہ اس وقت لیٹا ہوا اپنی ہونے والی جیون ساتھی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
“نہ جانے کیسی ہوگی کیسی عادت کی مالک ہو گی مجھ سے پیار کرے گی بھی کہ نہیں”
وہ تھوڑا کنفیوز تھا آگے کے بارے میں سوچتے ہوئے۔
“آزر تم سوئے تو نہیں “شیلا بیگم نے دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھا۔
“نہیں ماما آئیں آپ “اس نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اور شیلا بیگم کو اندر بلایا۔
“طبیعت کیسی ہے تمہاری کیا سوچ رہے ہو “انہوں نے اسے سوچ میں ڈوبے ہوئے دیکھا تو پوچھا۔
“کچھ نہیں بس ایسے ہی سوچ رہا تھا آپ بتائیں کوئی بات ہے کیا “اس نے شیلا بیگم سے پوچھا۔
“ہاں بیٹا ہم کل جا رہے ہیں لڑکی دیکھنے تو کچھ لے کے تو جانا ہوگا نا تو تم ہمیں مٹھائی وغیرہ لا دینا رات کو “انہوں نے مسکرا کر کہا۔
“اچھا ٹھیک ہے آپ کے ساتھ کون کون جائے گا “اس نے پوچھا۔
“بیٹا میرے ساتھ نشاء اور مہرین جائینگی میں سوچ رہی ہوں اسکے بچوں کو لے کر نہ جاؤں وہاں جا کر بچے شرارت نہ کریں “انہوں نے متفکر ہو کر کہا۔
“نہیں مہرین آپی بچوں کے بغیر کیسے جائیں گی اور یہاں پر بچوں کو سنبھالے گا کون میں اور ڈیڈ تو آفس چلے جائیں گے”اس نے جلدی سے کہا۔
“اچھا چلو میں مہرین سے پوچھ لوں گی تم رات میں مٹھائی ضرور لے آنا “انہوں نے مسکرا کر کہا۔
“ٹھیک ہے ماما آپ پریشان نہ ہوں میں لے آؤں گا رات کو “اس نے بھی جوابن مسکراکر کہا۔
“ٹھیک ہے بیٹا میں چلتی ہوں تم آرام کرو اور پریشان نہ ہو ہم دیکھ بھال کر کے ہی لڑکی لائینگے “انہوں نے اس کا چہرہ پڑھ لیا تھا اس لیے مسکرا کر کہا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔
“جی ٹھیک ہے”وہ ہلکا سا مسکرایا۔
شیلا بیگم اس کے کمرے سے چلی گئیں تھیں۔
اس نے اٹھ کر دروازہ بند کیا اور سونے کے لئے لیٹ گیا۔
***
شہزاد شاہ اور شیلا کے تین بچے ہیں۔
دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔
مہرین اور نیشاء!
مہرین کی شادی ہو چکی ہے اسکے چار بچے ہیں دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔
جو حد سے زیادہ شرارتی ہیں۔
نیشاء یونیورسٹی میں پڑتی ہے جبکہ آزر نے پڑھائی کے بعد شہزاد صاحب کا آفس جوائن کر لیا تھا۔
اور اب اس کے لیے رشتہ ڈھونڈنے کا کام جاری تھا۔
تینوں ماں بیٹی آزر کے لیے رشتہ ڈھونڈنے میں مصروف تھی۔
اور آذر بھی اپنے رشتے سے بے حد خوش تھا۔
***
اس نے کسلمندی سے اپنی آنکھیں کھولیں کالج سے آنے کے بعد وہ کھانا کھا کر سو گئی تھی۔
تھکن اس کی آنکھوں سے عیاں تھی۔
وہ سستی سے اٹھی اور سائیڈ سے اپنا دوپٹہ اٹھایا اور واش روم کی طرف فریش ہونے چلی گئی۔
منہ دھونے کے بعد اس نے وضو کیا اور باہر آکر عصر کی نماز ادا کرنے لگی۔
نماز پڑھنے کے بعد کچھ وقت قرآن لے کر بیٹھ گئی اور قرآن پڑھنے لگی۔
آدھے گھنٹے بعد وہ اٹھی اور قرآن رکھکر باہر کی طرف چلی گئی جہاں فہمیدہ بیگم شام کے لیے پکوڑے تل رہی تھیں۔
“ماما کیا بنا رہی ہیں آپ “اس نے ایک پکوڑا اٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا۔
“تم اٹھا کر پکوڑا کھا رہی ہو اور مجھ سے پوچھ رہی ہو کیا بنا رہی ہیں “فہمیدہ بیگم نے اسے تھیکے چتونوں کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا۔
“میرا فرض بنتا ہے میں پوچھوں حالانکہ میں کھا بھی رہی ہوں “وہ ہنس کر بولی۔
“بیٹا تمہارا فرض تو اور بھی بہت کچھ بنتا ہے ان کا بھی پوچھ لیا کرو “فہمیدہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔
“ماما پڑھائی ختم ہونے دیں پھر سارے فرض ادا کرو گی “وہ مسکرا کر بولی اور پکوڑے کھانے لگی۔
“ہاں ویسے بھی پڑھائی کی بعد تمہاری شادی کر دینی ہے تم اس فرض کی ادائیگی کے لئے تیار رہو “انہوں نے چائے کے لیے پانی چڑھاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
“کیا ہے ماما آپ بھی کہاں کی بات کہاں لے کے چلی گئیں”وہ گڑبڑا کر بولی۔
“کیوں شادی تو تمہیں کرنی ہی ہوگی اس لیے تیار رہو “انہوں نے پانی میں دودھ ڈالتے ہوئے شرارت سے کہا۔
“ہاں اس دن بھی بابا اس بارے میں پوچھ رہے تھے”اس نے آہستہ سے کہا۔
“تو تم نے کیا جواب دیا اپنے بابا کو “انہوں نے مڑ کر اس سے پوچھا۔
“میں نے ان سے کچھ ٹائم مانگا تھا سوچنے کے لیے “وہ دوسرا پکوڑا منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔
“ریحا تم سارے پکوڑے یہی کھا لوگی اب اگر دوسرا اٹھایا تو ہاتھ توڑ دوں گی “فہمیدہ بیگم نے ڈپٹ کر کہا کیونکہ وہ بات کرتے ہوئے پانچ پکوڑے کھا چکی تھی۔
“سوری ماما “وہ زور سے ہنستے ہوئے اپنے کانوں میں ہاتھ ڈال کر سوری کرتے ہوئے بولی۔
“ہاں بولو کیا کہہ رہی تھی تم “انہوں نے گھور کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“میں نے ان سے ٹائم مانگا تھا اور بابا نے کہا ٹھیک ہے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا “وہ سیرئیس ہوکر بولی۔
“تو تم نے سوچ لیا کیا راۓ ہے تمہاری اس بارے میں اب”وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو کر بولیں۔
“ماما میں آپ لوگوں کی فرمابردار بیٹی ہوں
ایسا ہو سکتا ہے میں آپ لوگوں کی بات ٹال دوں”وہ وہ ہلکی سی شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
“ماشاء اللہ اس میں تو ہمیں کوئی شک نہیں اللہ تمہارے نصیب اچھے کریں ہمیشہ خوش رہو “خوشی سے نہال ہوتے ہوئے انہوں نے اسے گلے لگایا اور دعائیں دیں۔
“تو پھر اس خوشی میں مجھے چھٹا پکوڑا کھانے دیں “وہ شرارت سے بولی اور ایک پکوڑا اٹھایا۔
سدھر جاؤ تم شرافت کے ساتھ پکوڑا واپس رکھو اور باہر جاؤ میں چائے اور پکوڑا لے کر آتی ہوں”انہوں نے اسے گھورتے ہوئے باہر کی طرف بھیجا۔
“اچھا ماما بس لاسٹ “وہ پکوڑا ہاتھ میں لیکر بولتے ہوۓ باہر کی طرف بھاگی۔
“جھلی “فہمیدہ بیگم نے مسکرا کر ہلکی آواز میں کہا اور چائے کپ میں ڈالنے لگیں ۔
***
طاہر حمدانی اور شہر بانو بیگم کےتین بچے تھے۔
بشیر ہمدانی کبیر ہمدانی اور نزہت ہمدانی۔
طاہر ہمدانی نے بشیر اور کبیر کی شادی اپنی بھتیجی فہمیدہ اور فریدہ سے کر دی دونوں آپس میں بہنیں ھیں۔
اور نزہت کی شادی اپنے دوست کے بیٹے فہیم رزاق کے ساتھ کردی۔
جو دوسرے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔
نزہت بیگم کبھی کبھی اپنے بھائیوں کے گھر گھومنے آجاتی ہیں۔
بشیر اور فہمیدہ کے دو ہی بچے ہیں فرحان اور ریحا!
فرحان ایم بی بی ایس کر رہا ہے اسے اپنی بہن ریحا سے بے انتہا پیار ہے۔
اور ریحا کالج میں انٹر کر رہی ہے یہ اس کا آخری سال ہے۔
کبیر ہمدانی کے پانچ بچے ہیں تین بیٹیاں اور دو بیٹے۔
نیہا زوہا سارہ ثاقب اور سجاد۔
نیہا اور زوہا کی شادی ہو چکی ہے۔
سارا پرائمری کے بعد فریدہ بیگم سے گھر داری سیکھ رہی ہے۔
وہ ریحا سے دو سال چھوٹی ہے۔
ثاقب اور سجاد نے پڑھائی کے بعد اپنا کاروبار شروع کر لیا دونوں ساتھ کام کرتے ہیں۔
انکی بھی شادی ہو چکی ہے۔
نزہت بیگم کی ایک ہی بیٹی ہے” ندا “جو لاڈلی ہونے کی وجہ سے بے حد نکچڑی طبیعت کی مالک ہے۔
سارہ اور ریحا کی اس سے بلکل نہیں بنتی۔
ماں باپ کے مرنے کے بعد کبیر ہمدانی نے اپنی فیملی بڑی ہونے کی وجہ سے گھر الگ کرلیا جہاں ان کی بیٹے اور بہوئیں ایک ساتھ رہتے ہیں۔
بظاھر تو گھر الگ تھا لیکن دونوں بھائی اور بہنوں میں بےانتہا پیار کی وجہ سے ان کے بچے بھی آپس میں پیار سے رہتے ہیں۔
***
“سنئے”فہمیدہ بیگم نے کپڑے تہہ کرتے ہوئے بشیر صاحب کو پکارا۔
“جی سنائیں بیگم صاحبہ”بشیر صاحب نے بک سے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“ریحا مان گئی ہے رشتے کے لئے “انہوں نے مسکرا کر بشیر صاحب کو بتایا۔
“یہ تو بہت اچھی بات ہے آخر ہمارے بیٹی ہے ہمارے بات تھوڑی ٹال سکتی ہے اللہ اس کے نصیب اچھے کرے خوشیاں ملے “انہوں نے خوشی سے ریحا کے لیے دعائیں کی۔
“اچھا وہ لوگ کب آئیں گے دیکھنے کے لئے ”
فہمیدہ بیگم نےان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“میں تو بتانا ہی بھول گیا تھا وہ کل آنا چاہ رہے ہیں “بشیر صاحب نے اپنے سر پر ہاتھ مار کر کہا۔
“آپ بھی کتنے غیر ذمہ دار ہیں اتنی بڑی بات آپ اب بول رہے ہیں اتنی جلدی کیسے تیاری ہونگی”فہمیدہ بیگم نے ناراضگی سے کہا۔
“پریشان نہ ہو بیگم میں سارا کو فون کرکے بلا لیتا ہوں وہ مدد کر یگی آپ کی ہے “انہوں نے فہمیدہ بیگم کی پریشانی دور کرتے ہوئے کہا۔
“آپ بھی نا کتنے بھلکڑ ہیں ایسا کرتی ہو فریدا اور سارا کو بلوا لیتے ہیں”وہ کہتی ہوئیں اپنا فون اٹھا کر فریدہ بیگم کا نمبر ڈائل کرنے لگیں۔
“چلو بیگم تم بات کر لو میں ذرا باہر سے ہو کر آتا ہوں “بشیر صاحب کہتے ہوئے اٹھےاور چلے گئے۔
***
“السلام علیکم حمیرا کیسی ہو “ریحا نے حمیرا کو کال کی اور اس کے کال اٹھانے پر سلام کیا۔
“وعلیکم السلام ٹھیک ہوں تو سنا کیسی ہے”حمیرا نے اس اسکا حال پوچھا۔
“تو جانتی ہے کیسی ہوسکتی ہوں پھر پوچھ کیوں رہی ہے”وہ پھیکی سی مسکراہٹ سے بولی۔
“ہہم۔۔۔ اور بتاکیا کررہی ہے”حمیرا نے پوچھا۔
“بس تیاری چل رہی ہے گھر میں آنی اور سارہ بھی آئی ہوئی ہیں”وہ اسے بتاتے ہوئے بولی۔
“اچھا۔۔۔ کس چیز کی تیاری چل رہی ہے ” حمیرا نے ہنکارہ بھر کے پوچھا۔
“تجھے رشتے کے بارے میں بتایا تھا نا تو وہ لوگ دیکھنے آرہے ہیں کل ” وہ آہستہ سے بولی۔
“اوہ یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔تو خوش ہے؟”حمیرا خوش ہوئی تھی اور اس سے پوچھا۔
“تو جانتی ہے میں نے کس طرح اپنے دل کو مضبوط کرکے اس رشتہ کیلئے ہاں کیا ہے مت پوچھ کے میں خوش ہوں کہ نہیں بس بابا لوگ میری وجہ سے خوش ہیں یہی میرے لئے بڑی بات ہے”وہ اداسی سے بولی۔
“مت پریشان ہو انشاءاللہ اللہ بہتر کریگا میری دعا ہے تمھارے ساتھ” حمیرا کہتی بھی کیا وہ یہی کہہ سکتی تھی۔
“میرے لئے دعا کرنا میں اسے ہمیشہ کیلئے بھول جاؤں میرا دل ایسے تڑپ رہا ہے نا جیسے باہر نکل آئیگا تکلیف ہورہی ہے دل میں”وہ تڑپ کر بولی اسکی آنکھوں سے بے آواز آنسوں نکلنے لگے تھے۔
“یار مت سوچ اسکے بارے میں کنٹرول کر خود پہ ورنا بند کر اور ہاں کل اپنے سسرالیوں سے اچھے سے ملنا مسکرا کر !
منہ مت بنانا سمجھی”حمیرا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
“ہمم۔۔۔سمجھ گئی تو پریشان مت ہو “وہ اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے بولی۔
“گڈ گرل”حمیرا نے ہلکا سا مسکرا کر کہا۔
“چلو ٹھیک ہے میں پھر بات کرتی ہوں سارہ آگئی ہےاللہ حافظ” اسنے سارہ کو آتے دیکھا تو حمیرا کو بتاتے ہوئے کال کٹ کی۔
“کس کی کال تھی “سارہ نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“حمیرا کی کال تھی ابھی بند کی ہے” وہ زبردستی مسکرا کر بولی۔
“اچھا چلو بھئی مجھے جگہ دو میں سونے لگی ہوں بہت تھک گئی ہوں تمھارے سسرالیوں کے چکر میں” سارہ اسکے پاس سے تکیہ اٹھاکر بولتے لیٹ گئی۔
“اسنے خاموشی سے اٹھکر لائٹ بند کی اور سارہ کے ساتھ سونے کی کوشش کرنے لگی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...