“امی شادی ملتوی نہیں ہو سکتی ۔۔۔ “زائر ناشتہ کرتے ہوئے بولا۔ فاطمہ چائے رکھتے ہوئے ٹھٹھک گئی ان کے تاثرات دیکھ کر زائر وضاحت کرتے ہوئے بولا۔
“مجھے کام کے سلسلے میں دبئی جانا پڑے گا اگلے ہفتے تک , تو میں سوچ رہا تھا واپس آ جاؤ پھر رکھ دیں شادی “۔
“نہیں ہو سکتی شادی ملتوی ۔۔۔۔ تم آفس والوں کو بولو کہ بعد میں بھیج دیں تمہیں ۔۔۔ اور بھی اتنے لوگ ہیں وہاں ان کو بھیج دیں تمہارا جانا اتنا ضروری نہیں ہے “۔
“امی یہ کام میرا ہے تو مجھے ہی جانا پڑے گا نا میری ٹکٹ بھی فائنل ہو گئی ہے چینل والے کبھی نہیں مانے گے آپ خالہ سے بات کریں نا ۔۔۔”۔ وہ جھنجھلا کر بولا۔
“زائر مجھے تم سے اس بیوقوفی کی امید نہیں تھی دونوں طرف کی تیاریاں مکمل ہیں اتنے تھوڑے سے دن بچے ہیں اور اب تمہیں یاد آ رہا ہے کہ تم نے جانا ہے ۔۔۔۔ میں عین ٹائم پہ شادی ملتوی کرنے کی کیا وجہ بتاؤ گی کہ میرے بیٹے کو باہر گھومنے جانا تھا اس لیے شادی ملتوی کر دی ہے ۔۔۔۔”۔ فاطمہ برہمی سے بولی۔
“امی ۔۔۔۔ “زائر نے بےیقینی سے ان کی طرف دیکھا۔
“کیا امی ۔۔۔ غلطی میری ہی ہے میں نے ہی سر چڑھا رکھا ہے تم لوگوں کو “۔۔۔۔ کچن میں آتا عمر انہیں زائر پہ برستے دیکھ کر چپکے سے باہر نکل گیا ۔
“امی میری بات تو سمجھنے کی کوشش کریں “۔
“ٹھیک ہے تم نے اگلے ہفتے جانا ہے نا تو تمہارا نکاح کل ہو گا میں آپا سے بات کر لیتی ہوں ولیمہ تمہارے آنے پہ کر لیں گے ۔ اب تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے ۔۔۔”۔
“امی لیکن اتنی جلدی آپ تیاری کیسے کریں گی؟؟”۔ وہ حواس باختہ سا پوچھ رہا تھا۔
“وہ ہمارا مسئلہ ہے تم بس اتنا کرنا آ کر ہاں کر دینا , ساری تیاری پوری ہے بس تھوڑا سا سامان رہتا ہے وہ بھی آ جائے گا۔۔۔”۔ فاطمہ برتن سمیٹتے ہوئے بولی۔
زائر بیزاری سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔
“امی بھی نا پتا نہیں کیا نظر آیا ہے انہیں اس لڑکی میں ۔۔۔ ابو کہاں پھنسا دیا ہے مجھے !!”۔ وہ انگلیاں بالوں میں پھنسائے صوفے پہ گر سا گیا۔
※••••••※
مریم کے گھر میں کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ اتنی جلدی شادی پر شائستہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے ۔ صائم انہیں اپنے ساتھ لے گیا تھا شاپنگ کے لیے جہیز لینے سے فاطمہ نے منع کر دیا تھا رجب علی نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر فاطمہ نے یہ کہہ کر انہیں چپ کروا دیا۔
“بھائی ہمیں بس مریم چاہیئے اور رہی بات جہیز کی تو آپ جانتے ہیں ہمارے خاندان میں نہ جہیز لیا جاتا ہے اور نا دیا جاتا ہے ۔۔۔ ” ان کی بات پر رجب علی مسکرا کر خاموش ہو گئے۔
مریم نے جب یہ بات سنی تھی تو ایک پل کے لیے اسے ایسے لگا جیسے زمین پاؤں سے نکل گئی ہو ۔۔۔!! بےیقینی تھی کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی ۔اُس نے تو سوچا تھا کہ دو ہفتے تک وہ کچھ نا کچھ ضرور کر لے گی جس سے شادی رک جائے ۔۔۔۔ مگر اب چوبیس گھنٹے بھی نہیں تھے اس کے پاس ۔۔۔۔!!
اس شادی کا قصور وار وہ زائر کو ہی سمجھتی تھی۔ ضرور اس نے ہی کچھ کیا ہو گا جو خالہ جلدی شادی پر راضی ہو گئی ہیں ۔۔۔!!
※••••••※
اور پھر اُس کی بےیقینی بھی ختم ہو گئی تھی جب اس نے رجب علی کے ساتھ نکاح خواہ کو دیکھا تھا۔ کچھ آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرے۔ ایک دفعہ تو اس کا دل چاہا وہ سب چھوڑ کر بھاگ جائے جہاں اُس شخص کا سایہ بھی اسے نظر نا آئے مگر پھر رجب علی کی طرف دیکھا جو چمکتی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے ، پھر اس کی نظریں شائستہ پر پڑی جو اپنے آنسو چھپا رہی تھی۔ مریم نے سارے آنسو اپنے اندر اتارے۔۔۔۔!!
نکاح کے بعد وہ شائستہ کے گلے لگ کر بہت روئی تھی ۔
نکاح کے بعد مریم کو باہر لایا گیا ایک طرف صائم تھا اور دوسری طرف سے عمر نے اسے پکڑا ہوا تھا۔ فاطمہ نے پیار سے اس کی پیشانی چومی۔ زائر رجب علی کے ساتھ باتوں میں مصروف رہا اس نے نگاہ غلط بھی اس کی طرف نا ڈالی۔
شائستہ مسکرا کر نم آنکھوں سے زائر سے کچھ کہہ رہی تھی زائر ہلکی مسکراہٹ لیے انہیں سن رہا تھا۔
※••••••※
فاطمہ اُسے زائر کے روم میں چھوڑ گئی تھی بیڈ پہ بیٹھی وہ کمرے کے در و دیوار کا جائزہ لے رہی تھی۔ اس کی نظریں بھٹک کر زائر کی تصویر پر گئی تصویر پر نظر پڑتے ہی اس کا سارا غصہ عود کر آیا تھا۔
“میں کیوں اس شخص کے انتظار میں بیٹھی ہوں ؟؟”۔ اس نے سوچا اور پھر ایک جھٹکے سے کھڑی ہو گئی۔ ایک ایک کر کے سارا زیور اتار کر ڈریسنگ پر رکھا ۔ چینج کرنے کے بعد اس نے بیڈ کے کنارے کھڑے ہو کر تھوڑی دیر سوچا ۔ کمرے میں صوفہ بھی پڑا ہوا تھا ایک تکیہ اٹھا کر صوفے پر رکھا اور لائٹ آف کر کے بیڈ پر آ گئی۔۔۔۔!!
رات گئے جب زائر نے کمرے میں قدم رکھا ہاتھ مار کر لائٹ آن کی اس کی نظریں حیرت سے بیڈ پر پڑے وجود کو دیکھ رہی تھیں۔
دروازہ زور دار آواز میں بند کرنے کے بعد اس نے غصے سے الماری کا دروازہ کھولا کپڑے نکال کر الماری کے دروازے کو بھی اسی انداز میں بند کیا ۔ مریم کی آنکھ اسی شور سے کھلی اُس نے ناگوار نظروں سے زائر کی سمت دیکھا مگر اس کے تیور دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔
وہ پلٹ کر واش روم میں گھس گیا۔
“او میرے اللّٰہ !! اب یہ شخص ضرور کوئی ہنگامہ کرے گا۔ مگر مجھے اُس سے الجھنا نہیں ہے چاہے کچھ بھی کہے۔۔۔”۔ زائر کی نظر اس کے پر سوچ چہرے پر پڑی اس نے واش روم کے دروازے پر اپنا غصہ اتارا مریم چونک کر سیدھی ہوئی۔
“دروازہ آہستہ بھی بند کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ مینرز بھی کسی چیز کا نام ہے “۔ کچھ دیر پہلے اپنے آپ سے کیا جانے والا وعدہ بھول کر وہ اسے ٹوکنے سے باز نہیں آئی تھی۔
“تم سے سیکھنے ضرور آؤ گا کسی دن “مینرز”۔۔۔!!”۔ بالوں میں برش کرتے ہوئے وہ اس کے عکس کو دیکھتے ہوئے بولا۔
مریم نے اس کی پشت کو گھورا اور چادر سر تک تان کر لیٹ گئی۔
“ویسے مینرز لفظ تم پر سوٹ نہیں کرتا “۔ زائر اس کے چادر میں تنے وجود کو گھور کر بولا۔
مریم کی خاموشی پر وہ کچھ اور سلگا تھا۔
“ہنہ پہلے دن ہی میرے بیڈ پر قبضہ کر لیا ۔۔۔۔ واہ مولا صوفے والا زمانہ بھی دیکھنا تھا مجھے ۔۔۔ اف اباّ کیا کر گئے ہیں آپ ۔۔۔!!” وہ صوفے پر لیٹے ہوئے سوچ رہا تھا۔ اسے غصہ اب بھی بہت تھا مگر گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کسی کو بات کرنے کا موقع ملے ۔۔۔۔!!
※••••••※
مریم کی آنکھ اذان کی آواز پر کھلی تھی وہ وضو کرنے کے لیے اٹھی تو نظر سیدھی صوفے پر سوئے زائر پر پڑی تھی ۔ اس کا بازو نیچے لٹکا ہوا تھا ۔اسے اتنے چھوٹے صوفے پر سوئے دیکھ کر زائر پر ترس آیا تھا مگر صرف ایک لمحے کے لیے ۔۔۔۔ اگلے ہی پل وہ اٹھی اس کا بازو اس کے سینے پر رکھا اور پلٹ کر واش روم میں چلی گئی۔
نماز پڑھ کر اس نے پانچ منٹ بعد کا الارم لگا کر زائر کے کان کے نیچے رکھ دیا اور کمرے سے نکل آئی۔
فاطمہ بھی نماز کے لیے اٹھی تھی مریم کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی ۔
“اسلام علیکم!!”
“وعلیکم اسلام آؤ اندر آ جاؤ ۔۔۔”
“نماز پڑھ لی ہے ؟؟”
“جی “۔
“چلو تم بیٹھو میں بھی نماز پڑھ لوں”۔ انہوں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
“آپ نماز پڑھیں میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں “۔ وہ مسکرا کر کہتی باہر نکل آئی ۔ زائر وہ جتنا نا پسند کرتی تھی فاطمہ سے اسے اتنی ہی محبت تھی ۔ عمر اور صائم نے تو اس کی بھائی کی کمی کو پورا کر دیا تھا۔ مگر زائر اسے اس گھر میں سب سے زیادہ برا لگتا تھا۔ وجہ شاید وہ بھی نہیں جانتی تھی بس اسے برُا لگتا تھا تو لگتا تھا۔
چائے فاطمہ کو دے کر وہ واپس اوپر اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔
“الارم لگانے کی آئندہ ضرورت نہیں ہے اپنی زمہ داریاں گھر والوں تک محدود رکھو “۔ اس کی سرد آواز مریم کے کانوں میں پڑی۔
“مجھے کوئی شوق بھی نہیں ہے آپ کی زمہ داریاں نبھانے کا ۔ میں نے نماز کے لیے اٹھایا تھا آئندہ نہیں اٹھوں گی۔۔۔”۔ وہ بھی اسے کے انداز میں بولی۔
“شادی کر کے جیسے کوئی بہت بڑا احسان کیا ہے مجھ پہ ۔۔۔ پتا نہیں کیا سمجھتا ہے یہ انسان خود کو ۔۔۔ اب پتا نہیں اور کیا کیا دیکھنا اور سننا باقی ہے ۔۔۔۔ کاش اماں کو میں اس شخص کا اصلی چہرہ دکھا پاتی اماں تو بس اس کے گن ہی گاتی رہتی ہیں ۔۔۔۔!!”۔ مریم بڑبڑا کر لیٹ گئی۔
زائر نے اس کی بڑبڑاہٹ واضح طور پر سنی تھی اور لب بینچ کر بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کیا تھا۔
زائر کے دبئی جانے کے بعد مریم نے سکون کا سانس لیا تھا۔زائر کو گئے ہوئے ابھی ایک دن بھی نہیں ہوا تھا فاطمہ اس سے شرمندہ تھی کہ شادی کے چوتھے دن ہی وہ چلا گیا مگر مریم سے کوئی پوچھتا۔ پورے گھر میں وہ چہکتی پھر رہی تھی۔
“صائم “۔ عمر نے ٹی وی میں گم صائم کا کندھا ہلا کر اسے متوجہ کیا۔
“کیا ہے یار میچ دیکھنے دو ۔۔۔” صائم غصے سے بولا۔
“یار مجھے لگتا ہے آپی کا دماغ خراب ہو گیا ہے “۔ عمر نے مریم پر سنجیدگی سے تبصرہ کیا جبکہ صائم نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
“کیا بکواس کر رہے ہو امی یا آپی نے سن لیا نا چھوڑیں گی نہیں وہ تمہیں۔۔۔”۔
“اب دیکھو نا بھائی شادی کے فوراً بعد چلے گئے ایسے میں انہیں اداس ہونا چاہیئے تھا دو چار آنسو بھی بہا لیتی لیکن وہ تو اتنی خوش ہیں ابھی بھی کچن میں بریانی بنا رہی ہیں ۔۔۔۔”۔
“یہ کوئی فلم یا ڈرامہ نہیں ہے کہ شوہر کے جانے پر بیوی دھاڑیں مار مار کر روئے ۔۔۔۔ اور تم کیوں جل رہے ہو ان کی خوشی سے ۔۔۔ ویسے بھی انسان کو خوش رہنا چاہیئے۔۔۔۔ اب منہ بند کرو تم مجھے میچ دیکھنے دو ۔۔۔”۔ صائم کہہ کر ایک دفعہ پھر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گیا۔
عمر نے برا سا منہ بنایا۔
“بھابھی آپی ۔۔۔۔”۔ وہ کچن کی طرف جاتے ہوئے چیخ کر بولا۔
“کتنی دفعہ کہا ہے عمر آپی کہو مجھے “۔ مریم آنچ کم کرتے ہوئے ناگوار انداز میں بولی۔
“اور میں بھی کتنی دفعہ کہا ہے میں دونوں رشتوں سے پکاروں گا۔۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے اگر آپ کو نہیں پسند تو میں آپی کہو گا ۔۔۔۔”۔ مریم کے گھورنے پر وہ فوراً بولا۔
“بھائی کے بغیر دل نہیں لگ رہا گھر کتنا سونا سونا لگ رہا ہے “۔ عمر شیلف سے ٹیک لگا کر دلگیر انداز میں بولا۔
“اچھا مجھے تو نہیں لگ رہا “۔ مریم سلاد کاٹتے ہوئے سکون سے بولی۔
عمر نے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا۔
“ہائے ۔۔۔ ایسا تو مت کہو ۔ میرے بھائی کے کیا کیا ارمان ہیں اور آپ ۔۔۔۔”۔
“ڈرامے بازی مت کرو اور چلو یہ برتن لگاؤ ٹیبل پر “۔
“بھائی کیا گھر سے گئے آپ نے تو اپنی اصلیت ہی دکھا دی سسرال والوں پر ظلم اف ہم کہاں جائیں ۔۔۔۔”۔ مریم نے مسکراہٹ دبائے اس کے کندھے پر تھپڑ مارا۔
“چلو بھاگو “۔
“اب مار دھاڑ بھی ابھی میری ننھی سی جان کو پتا نہیں اور کیا کیا دیکھنا ہے “۔ وہ کہہ کر مریم سے بچنے کے لیے باہر کی جانب بھاگا۔
مریم بےساختہ ہنس دی۔۔۔
※••••••※
زائر کمرے میں بیٹھا documents دیکھ رہا تھا جب اس کا فون بجا۔
اسلام علیکم سر!!
“واسلام !! کیسے ہو ؟؟ اور کام کہاں تک پہنچا”۔
“اللّٰہ کا شکر ہے سر اور کام تقریباً ہو گیا ہے ۔۔۔۔ آصف نے بہت مدد کی ہے میری ۔۔۔ کچھ documents رہتے ہیں وہ بھی انشااللّٰہ دو تین دن تک مل جائیں گے “۔
“ٹھیک ہے بیسٹ آف لک “۔
“تھینک یو سر اللّٰہ حافظ”۔ بیل کی آواز پر وہ چونکا ۔
آصف ہو گا۔۔۔ وہ سوچتے ہوئے دروازہ کھولنے گیا۔
“اسلام علیکم کیا حال ہے , میں جانتا ہوں تم نے بہت مس کیا ہو گا مجھے اسی لیے میں خود آ گیا راستہ تو دو یار ائیرپورٹ پر ذلیل کر دیا لوگوں نے مجھے میں مقدمے کا سوچ رہا ہوں تم کیا کہتے ہو ؟؟”۔ مرسلین ایک ہی سانس میں اسے کہتا اندر صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔ زائر کمر پر ہاتھ رکھے اسے گھور رہا تھا۔
“فلیٹ تو بہت اچھا سجایا ہے تم نے واؤ کلر سکیم بھی بہت زبردست ہے آئی لائک اٹ یار ۔۔۔۔ اگر میں دو چار دن یہاں رہ لوں گا تو آئی ایم شیور تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔۔۔”۔ زائر کی گھوریوں کو نظر انداز کر کے وہ اردگرد نظر دوڑاتے ہوئے بولا۔
“تمہیں اپنے گھر سکون نہیں ملتا ؟؟”۔
“نا “۔ وہ سر کو دائیں سے بائیں ہلاتے ہوئے بولا۔
زائر نے افسوس سے سر جھٹکا۔
“کافی پیو گے ؟؟”۔ زائر نے پوچھا۔
“آف کورس یار “۔
“میں بھی پیو گا جاؤ بناؤ اور ہاں دو چمچ چینی میں بیسمینٹ میں ہوں وہاں آ جانا ۔۔۔۔ اور ہاں ذرا جلدی ۔۔۔”۔ زائر کہہ کر وہاں سے نکل گیا جبکہ مرسلین کھلے منہ کے ساتھ شاکڈ بیٹھا تھا۔
زائر لیپ ٹاپ پر جھکا کام کر رہا تھا جب مرسلین نے کپ زور سے ٹیبل پر رکھا۔
“تھینکس تو کہنے کی ضرورت نہیں ہے نا؟؟”۔ زائر نے شرارت سے پوچھا۔
“ایک تو مہمان آؤ اور اوپر سے کافی بھی پلاؤ “۔ وہ جل کر بولا۔
“تو میرے بھائی کس نے کہا تھا آنے کے لیے ؟؟”۔
“اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری بات سن کر میں غیرت میں آؤ گا اور کافی کا کپ چھوڑ کر گھر چلا جاؤں تو ائی ایم سوری میں ایسا بلکل بھی نہیں کروں گا ۔ اب چپ کر کے اپنا کام کرو ۔۔۔”۔ مرسلین پلٹ کر کھڑی کی جانب چلا گیا پردے ہٹا کر وہ نیچے کھیلتے کودتے بچوں کو دیکھ رہا تھا۔
“ویسے تمہیں لگتا ہے تمہارے documents اتنے valid ہوں گے کہ ان لوگوں کو فرق پڑے گا آفٹر آل ایسے پہلے بھی بہت بار چکا ہے اور اُس کا انجام بھی تمہارے سامنے ہے ۔۔۔۔”۔
زائر نے گہری سانس لے کر لیپ ٹاپ بند کیا کافی کا مگ ہاتھ میں پکڑے وہ بھی اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
“ہاں میں مانتا ہوں ان لوگوں کی طاقت بہت زیادہ ہے اپنی طاقت کے بل بوتے پر وہ ہمیشہ سے ہر کیس سے نکل آتے ہیں ۔۔۔۔ کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ان لوگوں کا مگر ہمیشہ تو ان کی قسمت ان کا ساتھ نہیں دے گی نا اب وقت ہے ان سب سے حساب لینے کا۔۔۔۔ جتنا اس ملک کو نقصان پہنچنا تھا پہنچ چکا اب یہ سب لوگ حساب دیں گے ۔۔۔۔”۔
“گڈ!! آئی ہوپ کہ ایسا ہی ہو اللّٰہ تمہیں تمہارے مقصد میں ضرور کامیاب کرے گا”۔
“انشااللّٰہ !!”
“اچھا وہ میں نے احمد کو بھی بلا لیا ہے بس آتا ہی ہو گا بہت اداس ہو رہا تھا میں اس سے ۔۔۔۔ وہ پگلا بھی اتنا بزی رہتا ہے ملتا ہی نہیں ہے!!” مرسلین مسکراہٹ چھپائے اس سے کہہ رہا تھا ۔
“ہادیہ کو بھی بلا لینا تھا کہیں اُس کے بغیر تمہارا دل ہی نا بند ہو جائے ۔۔۔”۔ زائر خشمگیں لہجے میں بولا۔
“ہائے ظالم کس کا نام لے لیا تم نے ۔۔۔۔ پہلے سوچا تھا میں نے اسے بھی بُلا لوں مگر پھر تایا سے کیا کہتا بس اسی لیے دل پر پتھر رکھ لیا ۔۔۔”۔
“یہاں اگر رہنا ہے تو شرافت کے جامے میں رہنا جمع تو ایسے کر رہے ہو سب کو جیسے میں پکنک منانے آیا ہوں “۔
“تمہارا کیا بھروسا ہم وہاں کھڑوس باس کی ڈانٹ کھاتے اور تم یہاں عیش کرتے واہ بھئی واہ۔ جوان جہان لڑکے کو پردیس میں اکیلا چھوڑنا کہاں کی عقلمندی ہے ۔۔”۔
زائر نے اکتاہٹ سے اس کی طرف دیکھا۔
“کتنا بولتے ہو تم “۔
“ہاں یہ تو ہے ۔۔۔ اور مجھے فخر ہے اس پر “۔ مرسلین نے سعادت مندی سے تسلیم کیا۔
زائر نے وہاں سے جانا ہی مناسب سمجھا۔
※••••••※
رجب علی اور شائستہ مریم سے ملنے آئے تھے۔ “کیسی ہے میری بیٹی ؟؟”۔
“ٹھیک ہوں اباّ ۔۔۔آپ کیسے ہیں آئیں نا بیٹھیں”۔
“زائر کب آ رہا ہے واپس ؟؟ کتنے دن ہو گئے اسے دیکھے “۔ اماں نے فاطمہ سے پوچھا مریم کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا اس کے ذکر پر۔۔۔!
“تین چار دن لگ جائیں گے مزید اسے , مرسلین بھی اور احمد بھی اُس کے ساتھ ہی ہیں “۔
“بیٹا تم سے بات تو ہوتی ہے نا زائر کی فون کرتا ہے نا ؟؟”۔انہوں نے مریم سے پوچھا جس کی تیوریاں چڑھ گئی تھی سوال سن کے!!
“جی ہوتی ہے بات “۔ وہ آہستگی سے بولی۔
“فون ملاؤ اسے میں بھی بات کر لوں جاؤ شاباش ۔۔۔”۔
“جی “۔ “اف اماں بھی نا ” وہ برا سا منہ بنا کے اٹھ گئی۔
“ہیلو “۔
“آج ہمارے دشمنوں کو ہماری یاد کیسے آ گئی؟؟”۔ وہ خوشگوار لہجے میں بولا۔
وعلیکم اسلام !! کیسے ہیں آپ ؟؟ مریم کے نرم لہجے میں پوچھنے پر زائر کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
“تم ٹھیک تو ہو نا ؟؟”۔
“جی گھر میں بھی سب ٹھیک ہیں اماں اور ابا آئیں ہوئے ہیں آماّں نے آپ سے بات کرنی تھی اسی لیے آپ کو ڈسٹرب کیا سوری !!۔۔۔۔”۔ وہ معصومیت سے بولی اور فون اماں کو پکڑا دیا۔
زائر بےہوش ہوتے ہوتے بچا ۔۔۔۔ (میں نے کب بولا مجھے ڈسٹرب دیا۔۔)
اچھا تو خالہ کی وجہ سے محترمہ شوگر کی دوکان بنی ہوئی تھی۔۔۔!!
خالہ سے اس نے بہت اچھے سے بات کی خالہ بار بار اسے پوچھ رہی تھی ۔
“مریم سے خوش ہو نا بیٹا ؟؟”۔ وہ ماں تھیں اور ہر ماں کی طرح وہ بھی چاہتی تھی کہ ان کا داماد ان کی بیٹی سے خوش رہے ۔۔۔!!
“جی خالہ بہت خوش ہوں ” ۔ وہ دھیمے سے مسکراتے ہوئے بولا۔
“بیٹا وہ دل کی بہت اچھی ہے بس اسے غصہ ذرا جلدی آ جاتا ہے ۔۔۔”۔
(اس کی ناک پہ رہتا ہے غصہ ہر وقت )۔
“جی خالہ آپ ٹینشن نا لیں وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گی اور آپ سنائیں صحت کیسی ہے آپ کی ؟؟”۔
“ٹھیک ہوں بیٹا “۔
خالہ نے کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد فون مریم کو پکڑا دیا جو اباّ کے ساتھ باتوں میں مگن تھی ۔۔۔۔ مریم نے فون کاٹ دیا اور پھر سے باتوں میں مصروف ہو گئی۔ جبکہ اماں فاطمہ کے ساتھ باتوں میں لگی اس کی اِس حرکت کو دیکھ نہیں پائی تھی۔
※••••••※
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...