گودی کے اس علاقے میں شام ہمیشہ ایسے اترتی ہے جیسے کسی نے کچے اپلوں کو آگ لگا دی ہو۔ ان اداس اور دھندلی شاموں سے گذرتے ہوئے مجھے وہ برے دن یاد آ جاتے جب ہم ساری امیدیں ہار چکے تھے اور ڈھاکہ سے سینکڑوں میل دور ہم نے دریا کے کنارے ایک کچے گھر میں پناہ لے رکھی تھی جسے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کے ٹھہرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ یہ دریا کافی کشادہ تھا اور اس کا سبز گھاس سے ڈھکا ہوا کنارا دریا پر بہت نیچے تک جھکا ہوا تھا جس میں جگہ جگہ ایسی بھیانک دراڑیں تھیں کہ انسان ان کے اندر گر کر ہمیشہ کے لئے غائب ہو جائیں۔ ان کناروں پر ایسے اور بھی سینکڑوں کچے گھر بنے ہوئے تھے جن میں دوسرے لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ کچھ گھر ایسے بھی تھے جن کا آدھا یا ایک چوتھائی حصہ ٹوٹ کر دریا کے اندر چلا گیا تھا اور باقی حصہ رہ رہ کر ڈھ رہا تھا۔ یہ کنارے بالکل غیر محفوظ تھے، مگر ان میں ہر روز لوگوں کا اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس دن کہاسے نے شام غائب کر رکھی تھی۔ ہمارے پاس کوئی گھر تھا نہ کوئی وطن مگر ہمیں اس بات کا علم تھا کہ کسی بھی پل یا تو ایک نئے ملک کے دروازے ہمارے لئے کھل جائیں گے یا ایک نئی مصیبت ہمارے سر پر ٹوٹ پڑے گی۔ ہم نے ایک خاص جگہ جہاں پانی کم تھا، دریا کو چل کر پار کیا تھا۔ وہاں ماں کو اپنے نقدی کے ایک اچھے بڑے حصے سے محروم ہونا پڑا تھا۔ دریا پار کئے یہ ہمیں تیسرا دن ہو رہا تھا۔ ماں کو جس آدمی کا انتظار تھا دو دن سے اس کا کوئی پتہ نہ تھا۔ ہمارے پاس چینی کا ایک ڈبہ اور پاؤ روٹی کے تھوڑے سے ٹکڑے بچے تھے جو اب اتنے باسی ہو چکے تھے کہ چھوتے ہی چور ہو جاتے۔ ہمارے پاس ایک تھیلی چاول کی بھی تھی مگر اسے ابالنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اور پھر ہمیں سختی سے منع کیا گیا تھا کہ کسی جھونپڑی سے دھواں نہ نکل پائے۔ پانی کے لئے ماں مجھے کچی سڑک پر بھیجا کرتی جہاں ایک ہینڈ پمپ کے پیچھے بیرک کی چھت پر جو کبھی کسی زمیندار کی حویلی رہی ہو گی مگر اب فوج کی تحویل میں تھی، فوجی سگریٹ پیتے ہوئے، کندھوں سے رائفل لٹکائے پہرا دیا کرتے اور اور اپنی گردن سے لٹکتی دو چشمی دوربین سے دریا پار دیکھا کرتے جب کہ وہ جگہ ننگی آنکھوں سے بھی صاف نظر آتی تھی۔ کبھی کبھار جب میں ان کی نظروں میں آ جاتا تو وہ ہاتھ ہلا کر اشارا کرتے اور مسکراتے ہوئے کوئی ٹافی یا کاغذ میں لپٹا ہوا کیک کا ٹکڑا پھینک دیتے۔ ہمارا آدمی واپس لوٹا تو اس نے ایک سرخ ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر ایک سفید ستارا ٹنکا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر ماں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ’’اسے واپس رکھ لو۔ یہ پیسہ کافی نہیں ہے۔‘‘ اس نے ماں کو پیسے لوٹاتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارے پاس کوئی گہنا وہنا نہیں ہے کیا؟‘‘
’’سارے لٹ لٹا گئے۔‘‘ ماں اس سے آنکھیں چرا رہی تھیں۔ پھر ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ مجھے لگا وہ شاید اس آدمی کو دکھانا چاہتی تھیں کہ ان کے پاس اب بھی تھوڑے سے آنسو بچے ہیں۔ اس آدمی نے ٹوپی اتار کر اپنا سر کھجاتے ہوئے ماں کے سراپے کا جائزہ لیا۔ اس کے ننگے سر کو دیکھ کر مجھے بڑی کراہیت کا احساس ہو رہا تھا کیونکہ نہ صرف اس کے سر پر بال برائے نام تھے بلکہ اس کی کھوپڑی کھجلیوں سے بھری ہوئی تھی جس سے مجھے اس کے ٹوپی پہننے کا راز سمجھ میں آ گیا۔ ’’تم مجھے ایسا کیوں دیکھ رہے ہو؟ تمہارا ارادہ کیا ہے؟‘‘ ماں نے اپنی پیشانی پر گر آئی لٹ کو انگلی سے واپس بالوں کے درمیان لوٹاتے ہوئے کہا۔ ’’تم کیوں نہ چل کر بیرک کے افسر سے خود بات کر لو۔‘‘ اس آدمی نے ٹوپی واپس سر پر رکھ کر اپنی جیب سے ایک سگریٹ نکال کر سلگایا۔ ’’تم اسے اپنی بات کہہ سکتی ہو۔ اگر کام بن گیا تو مجھے بھی پیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’تمہیں یقین ہے اس سے کام بن جائے گا؟‘‘
’’یہ میں کیسے کہہ سکتا ہوں۔ مگر ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ اور آخر میں کچھ لوگوں کے کام بنے تو ہیں۔‘‘
میں آدھی رات تک اکیلا اپنی جگہ گٹھری اور سوٹ کیس کو تھامے بیٹھا رہا۔ کوٹھری کے باہر جھاڑیوں میں ہوا چپ تھی۔ کسی وجہ سے اس دن دریا میں پانی بہت کم تھا اور جگہ جگہ پانی سے ریت کے تودے اس طرح ابھرے ہوئے تھے جیسے دریا میں سینکڑوں گھڑیال آرام کر رہے ہوں۔ کبھی کبھار سفید بادلوں کو چیر کر چاند نکل آتا تو ریت کے گھڑیالوں کی آنکھیں روشن ہو جاتیں۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ کہیں ماں کے آنے سے قبل ہی یہ کچا گھر اپنی کمزور زمین کے ساتھ ٹوٹ کر دریا برد نہ ہو جائے۔ مگر میں یہ جگہ چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ ماں نے سخت تاکید کی تھی کہ جب تک وہ لوٹ کر نہ آئے میں اس جگہ سے نہ ہلوں۔ میں تقریباً غنودگی کی حالت میں تھا اور اپنی آنکھوں کو کھلی رکھنے کی حتی المقدور کوشش کر رہا تھا جب ماں کی واپسی ہوئی۔ ان کے بال الجھے ہوئے تھے، قدم ٹھیک سے نہیں گر رہے تھے اور ان کے چہرے پر ناخن کے کھرونچ کے دو گہرے نشان تھے۔ یہ نشان مجھے روشنی میں اور بھی بڑے نظر آئے۔
’’تم ایسا میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو۔ اپنی آنکھیں واپس لو۔‘‘ ماں دھم سے میرے پہلو میں مٹی کے فرش پر بیٹھ گئی۔ انھوں نے جھک کر پانی کی بوتل اٹھائی، کئی لمبے گھونٹ لئے اور لالٹین کی مدھم روشنی میں اپنا چہرا دھویا۔ پانی میں ان کے چہرے کا گھاؤ جل اٹھا تھا۔ ان کی آنکھیں تلملا رہی تھیں۔ وہ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھی سانسیں لیتی رہیں، پھر خاموش ہو گئیں۔ باہر چاند ایک بار پھر بادلوں کے پیچھے چھپ چکا تھا جس کے سبب بادل بھی دکھنا بند ہو گئے تھے۔ ایک بار مجھے ایسا لگا جیسے نیچے دریا میں ریت کے گھڑیالوں میں سے کسی نے حرکت کی ہو۔ ماں بالکل بھی سانس نہیں لے رہی تھی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ گذر چکا تھا جب ماں نے گٹھری کھول کر اس کے اندر سے ایک کھرپی برامد کی، لالٹین کی لو دھیمی کی اور لالٹین اور کھرپی اٹھائے ایک سائے کی طرح برامدے سے اتر کر جھاڑی کے پاس گئی۔ میں نے برامدے پر کھڑے ہو کر دیکھا، وہ جھاڑی کے نیچے کی زمین کھود رہی تھی۔ گڈھا جب تھوڑا گہرا ہو گیا تو انھوں نے اس کے اندر سے کپڑے کی ایک چھوٹی سی تھیلی برامد کی جسے جانے کب میری لا علمی میں انھوں نے مٹی کے اندر چھپا دیا تھا۔ لرزتی انگلیوں سے تھیلی کو واپس گٹھری کے اندر رکھ کر جسے سفر کے دوران ماں ہمیشہ اپنی گود میں رکھا کرتی، انھوں نے اسے گرہ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’کبھی اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔‘‘ انھوں نے پینچ گھما کر لالٹین بجھا دی۔
صبح سورج نکلنے سے پہلے وہ سرخ ٹوپی والا آدمی نمودار ہوا۔ ہم نے اپنے سامان سمیٹے اور دریا کے کنارے کنارے اس کے ساتھ چلنے لگے۔ جلد دریا پیچھے چھوٹ گیا۔ ہم تقریباً آدھا دن تک کھیتوں اور میدانوں میں چلتے رہے اور آخر کار ایک کچے راستے پر نکل آئے جس پر ہر سو دو سو گز کی دوری پر تارکول کے بچے کھچے ٹکڑے بتا رہے تھے کہ کبھی یہ ایک پکی سڑک رہی ہو گی۔ سرخ ٹوپی والے نے بتایا کہ کبھی یہ راستہ دونوں ملکوں کے بیچ آمد و رفت کا واحد ذریعہ تھا، مگر اب اس کی جگہ ایک اور بڑا راستہ نکال لیا گیا ہے جن پر اب سامان بردار ٹرک اور ملیٹری گاڑیاں دوڑا کرتی ہیں۔ اس متروک راستے پر چلتے ہوئے میں نے جو آسمان دیکھا اس جیسا روشن آسمان مجھے پھر کبھی نظر نہیں آیا۔ ہم نے عجیب و غریب چڑیاں دیکھیں جو جھنڈ بنا کر ہمارا پیچھا کر رہی تھیں۔ وہ رہ رہ کر جیسے ہوا سے نمودار ہوتیں اور پھر ہوا میں غائب ہو جاتیں۔ راستے میں ایک جگہ ماں کے ساتھ اس آدمی کی تکرار ہو گئی۔ اپنے چہرے کے دونوں زخموں سے رستے ہوئے رقیق مادے سے لا پرواہ ماں رندھے ہوئے گلے سے اس آدمی کا ہاتھ تھام کر کچھ رقم تھمانی چاہ رہی تھی جسے وہ لینے سے بار بار انکار کر رہا تھا۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ اتنے تھوڑے پیسے سے مطمئن نہ تھا۔ آخر کار دونوں کے درمیان کسی طرح کا فیصلہ ہو گیا۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دور تک ہمارے ساتھ چلا پھر ہمیں بتائے بغیر جانے کہاں غائب ہو گیا۔ ہم اکے لیے ہی ویران راستے پر کئی کوس چلتے رہے۔ ہمیں جگہ جگہ آم کے درختوں کے جھنڈ دکھائی دے رہے تھے جن کے پیچھے ہر آدھے گھنٹے کے بعد کسی نہ کسی چھوٹے موٹے قلعے یا محل کی بوسیدہ فصیل نظر آ جاتی یا تاریخی مسجدوں کے کھنڈر دکھائی دینے لگتے۔ سنّاٹے میں ٹیلیگراف کے تار بج رہے تھے۔ سورج ڈوب رہا تھا جب ہمیں ایک اجاڑ سا ریلوے اسٹیشن نظر آیا جس کے درختوں میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور پاس ہی کسی مندر میں گھنٹی بج رہی تھی۔ ہم لوگ اس کے پلیٹ فارم پر اپنی چرمی سوٹ کیس اور گٹھری کے ساتھ کھڑے ٹرین کا انتظار کر رہے تھے جب صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک جوڑے نے ہماری طرف دیکھا۔ وہ لوگ میرے باپ کی طرح اپنے ہولڈ آل اور سوٹ کیس کے ساتھ کھڑے تھے جیسے وہ بھی ایک ایسے سفر پر جانے والے ہوں جہاں سے کوئی نہیں لوٹتا۔
’’تم لوگ اس ملک کے نہیں لگتے۔‘‘ مرد نے کہا اور انگلی سے ہماری طرف اشارا کیا۔ مگر عورت نے اسے آگے کہنے کا موقع نہیں دیا۔ ’’چپ بھی کرو۔‘‘ وہ بولی۔ ’’تمہیں کیا لینا۔ یہ ملک سب کا ہے۔ کسی کے ماتھے پر یہ لکھا نہیں ہوتا۔‘‘
ٹرین کے اندر بہت دیر تک چپ چاپ بیٹھے رہنے کے بعد میں نے ماں سے پوچھا کہ رات وہ اتنی دیر تک کہاں رہ گئی تھی اور اس نے اس جگہ کیا دیکھا تو ماں نے مسکرا کر میرے سر کو سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’اور کہاں جا سکتی تھی۔ سرحد کے داروغہ کے پاس ہی تو گئی تھی۔ کچھ کاغذات کی خانہ پری کرنے۔‘‘
اس دن مجھے اس بات کا علم نہ تھا۔ مگر آج مجھے پتہ ہے وہ ناخن کے کھرونچ کے نشانات ان کے چہرے پر دائمی طور پر کیوں بن گئے تھے۔ ایک نئے ملک نے اپنے انداز سے ہمارا استقبال کیا تھا۔
’’تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ماں نے ٹرین کی کھڑکی سے چہرا موڑتے ہوئے کہا۔ انھوں نے اپنے حواس پر پوری طرح قابو پا لیا تھا۔
’’تم نے اس آدمی سے گہنا کے بارے میں جھوٹ کیوں کہا تھا؟‘‘
’’یوں سمجھ لو میرا تمہیں جواب دینے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘ اور ماں نے چہرا کھڑکی کی طرف موڑ لیا جس کے باہر دھان کے لہلہاتے کھیت پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے اور ان کی منڈیروں پر ناریل اور کیلے کے درخت کھڑے ہوا میں جھوم رہے تھے۔