ارسلان نے روم میں آکر ایک نظر بھی نور کو نہیں دیکھا اور سیدھا ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔
ارسلان جب چینج کر کے باہر آیا تو نور ابھی بھی ویسے ہی بیٹھی ہوئ تھی۔
ابھی تک ایسے کیوں بیٹھی ہو جاؤ اٹھ کر چینج کر لو۔
ارسلان کا لہجا سپاٹ تھا۔
نور بغیر کچھ کہے چلی گئی۔
ارسلان بیڈ پر لیٹا نور کے مطالق ہی سوچ رہا تھا۔
آج اسے نور کو دیکھ کر واقع حیرت ہوئ تھی کیونکہ جس لڑکی نے آج تک باہر جاتے ہوئے بھی کبھی دوبٹہ سر پر نہیں لیا تھا آج وہ اپنی شادی پر حجاب میں تھی۔
ارسلان کو یاد تھا اس واقع کے بعد اس نے جب بھی نور کو دیکھا تو وہ حجاب میں ہی ہوتی تھی اور اسے یہ چینج بہت پسند آیا تھا۔
کھٹکے کی آواز پر ارسلان نے جب سامنے دیکھا تو بلو کلر کی سمپل سی ڈریس میں نور بہت پیاری لگ رہی تھی۔
ارسلان نے دیکھا اب نور کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھی اور وہ چپ چاپ اسکی ساری کاروائی ملاحظہ فرما رہا تھا۔
آخر کار نور کو جائے نماز مل گئ اور وہ نماز پڑھنے لگی۔
نماز پڑھنے کے بعد نور نے دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے اسے اپنے اوپر ارسلان کی نظریں محسوس ہو رہی تھیں۔
ایک فیصلہ کرنے کے بعد نور کھڑی ہوئ اور ارسلان کی جانب بڑھی۔
ارسلان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمت کر کے نور نے اسے آواز دی۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسلان جس نے نور کو کھڑا ہوتے دیکھ اپنی آنکھیں بند کر لیں تھیں نور کی آواز پر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
ارسلان مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔
نور نے بھرائی ہوئ آواز میں کہا۔
بولو۔
اب وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
ارسلان پ۔پلیز مجھے معاف کر دیں۔
نور نے اسکے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے۔
ارسلان نے حیران نظروں سے اس کے جڑے ہوئے ہاتھ دیکھے اور پھر وہی ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
کس چیز کی معافی؟
ارسلان کی نظریں سامنے دیوار پر جمی ہوئی تھیں اور لہجہ سپاٹ تھا۔
“م۔۔ممجھے معاف کردیں ارسلان پلیز مجھے معاف کر دیں۔میں نے آپکا بہت دل دکھایا ہے۔میں نے بہت غلط کیا ہے ۔میں نے اپنے رب کو ناراض کیا ہے۔میں بہت بہت بری ہو ۔میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
روتے روتے نور کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔
شش۔ خاموش ہو جاؤ کچھ نہیں ہوا ہے۔
ارسلان نے نور کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے کہا۔
“جو بھی تھا وہ اسکی پہلی محبت تھی اسے اس پر بہت غصہ تھا اور اسنے سوچ لیا تھا وہ اس سے بالکل بات نہیں کرے گا لیکن نور کو اسکا طرح روتے دیکھ اسے تکلیف ہوئ تھی۔”
ارسلان آپنے مجھے معاف کر دیا ہے نا۔
نور نے آنکھوں میں امید لیئے پوچھا۔
ہاں نور۔تم نے اپنی غلطی تسلیم کی یہی بہت ہے۔
تمھیں پتا مجھے تم پر بہت غصہ تھا اور میں نے سوچا تھا کہ تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گا اور مجھے امید بھی نہیں تھی کہ تم اس طرح مجھ سے معافی مانگو گی۔
نور میں بھی کوئ بھت نیک انسان نہیں ہوں ۔غلطیاں مجھ سے بھی ہوتی ہیں جب میں غلطی کرکے معافی کا طلبگار ہوتا ہوں تو میں تمھیں کیسے مایوس کروں معاف نا کر کے۔
ارسلان نے محبت سے کہا۔
شکریہ ارسلان مجھے معاف کرنے کے لیئے۔مجھے لگا تھا آپ مجھے بہت ڈانتے گے اور شاید ماریں گے بھی۔
نور نے دل میں آیا خدشہ ظاہر کیا۔
عورت پر ہاتھ صرف بذدل اٹھاتے ہیں نور بلکہ عورت پر ہاتھ اٹھانے والا میری نظر میں مرد ہی نہیں ہے۔اس دن جب میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا تھا اس کا پچھتاوا مجھے ابھی تک ہے۔وہ بس ایک سوچے سمجھے بغیر کیئے جانے والا عمل تھا میں اس وقت بہت غصے میں تھا۔اگر میں صحیح وقت پر نہیں پہنچتا تو۔۔۔۔۔۔اس سے آگے ہے مجھ سے سوچا نہیں جا رہا تھا۔تم اس قدر بے وقوف ہو گی یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔کیا تم مجھے معاف کر دو گی پلیز۔۔۔۔
ارسلان نے اپنے دونوں کان پکڑ کر معصوم سی شکل بنائ۔
ارسلان کو اس طرح دیکھ نور نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہاں میں سر ہلایا۔
افف۔ میں منہ دکھائی تو دینا ہی بھول گیا۔
ارسلان نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے سائڈ ڈرار سے ڈبی نکالی اور اس میں سے ہیرے کی انگوٹھی نکال کر نور کو پھنائ۔
کیسی لگی؟
ارسلان نے نور کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا۔
بہت پیاری ۔
نور کی آنکھوں میں ستائش تھی۔
نور میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔پلیز وعدہ کرو تم میری محبت کا جواب ھمیشہ محبت سے دو گی۔
ارسلان نے اپنا ہاتھ نور کے سامنے کیا۔
پکا وعدہ۔
نور نے مسکرا کر اپنا ہاتھ ارسلان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
***********************
آج ازلان کو گھر آئے دو دن ہو چکے تھے۔وہ بالکل خاموش ہو کر رہ گیا تھا۔
زاہرہ بیگم اسکا ہر طریقے سے خیال رکھ رہی تھیں۔
جب نایاب کا فون آیا تو انکی ہمت ہی نہیں ہوئ اسے کچھ بھی بتانے کی آخر کس منہ سے وہ اسے واپس آنے کا کہتی لیکن جب نایاب نے انھیں خوشخبری سنائی تو ان سے رہا نا گیا اور انھوں نے سب کچھ نایاب کو بتا دیا جسے سن کر پہلے تو اسے یقین ہی نہیں آیا لیکن پھر
روتے ہوئے اس نے آج ہی آنے کا کہا تھا۔
بیل بجنے کی آواز پر زاہرہ بیگم نے چونک کر دروازے کو دیکھا اور کھولنے کے لیئے اٹھ گئ۔
انھوں نے جب دروازہ کھولا تو سامنے ہی نایاب نم آ نکھیں لیئے کھڑی تھی۔
امی۔ ۔ وہ ۔ ۔ ازلان۔
اندر آتے ہی نایاب زاہرہ بیگم کے گلے لگ گئ تھی۔
بس بیٹا دعا کرو تم اس کے لیئے۔
زاہرہ بیگم نے اسکے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔
کہاں ہیں وہ۔
نایاب نے پوچھا۔
کہاں ہوگا ۔اپنے کمرے میں۔بالکل چپ ہو کر رہ گیا ہے۔
زاہرہ بیگم نے نم لہجے میں کہا۔
نایاب بغیر کچھ کہے کمرے کی جانب چل دی۔
نایاب نے جب کمرے کا دروازہ کھولا تو ازلان سامنے ہی بیڈ پر سو رہا تھا۔
نایاب ایک پل کے لیئے تو اسے دیکھ کر حیران ہی رہ گئ تھی۔
یہ تو وہ ازلان لگ ہی نہیں رہا تھا جس کا چہرہ ہر وقت غرور میں اکڑا رہتا تھا یہ تو کوئ اور ہی ازلان لگ رہا تھا مرجھائے ہوئے چہرے والا۔
نایاب کی آنکھ سے ایک آنسوں ٹوٹ کر بے مول ہوا۔
******************¬********
از۔۔۔ازلان۔۔۔۔۔۔۔
نایاب نے آہستہ سے پکارا۔
کون ؟
ازلان نے بند آنکھوں سے پوچھا۔اسکی آواز میں نقاہت صاف واضح تھی۔
میں۔۔۔۔۔نایاب۔
جو بھی تھا وہ اسکا شوہر تھا اور نایاب سے اسکی یہ حالت برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
میری بے بسی کا مزاق اڑانے آئ ہو۔
ازلان نے بیٹھتے ہوئے کہا ۔
آپ نے ہمیشہ مجھے غلط سمجھا ہے۔
نایاب کو افسوس ہوا تھا اسکی سوچ پر ۔
خیر کیسی طبیعیت ہے آپکی۔
نایاب نے آنکھوں میں آئ نمی صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
کیسا ہو سکتا ہوں۔زندہ لاش بن کر رہ گیا ہوں۔یقینن تمھاری بد دعا لگ گئ ہے مجھے۔
ازلان نے کہا۔
میرا خدا گواہ ہے ازلان میں نے کبھی آپ کو بددعا نہیں دی۔میں صرف یہ دعا کرتی تھی کہ خدا آپ کو سیدھے راستے پر لے آئیں۔
نایاب میں تمھیں مجبور نہیں کروں گا ایک معزور شخص کے ساتھ رہنے کے لیئے۔مجھے بھی پتا ہے کہ اب تم میرے ساتھ نہیں رہو گی۔تو تم جب چاہو میں تمھیں طلاق دے دوں گا میں نہیں چاہتا تم میری وجہ سے اپنی زندگی خراب کرو۔پتا نہیں اب میں کبھی اپنے پیرو پر چل سکوں گا بھی یا نہیں۔
ازلان نے ضبط سے کہا تھا۔
مجھے آپ سے کوئ بات نہیں کرنی۔
نایاب روتی ہوئی کمرے سے چلی گئ ۔اسے بہت تکلیف ہوئ تھی ازلان کی باتوں سے۔
زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز پر ازلان آنکھیں مینچ کر رہ گیا۔
********************¬********
امی کیا ازلان کبھی ٹھیک نہیں ہونگے۔
نایاب نے بھرائی ہوئ آواز میں پوچھا۔
اگر خدا نے چاہا تو ازلان بالکل ٹھیک ہو جائے گا اور ڈاکٹر نے بھی کہا ہے کہ وہ جلد اپنے پیرو پر کھڑا ہو جائے گا۔
زاہرہ بیگم نے اسے تسلی دی۔
امی آپ دیکھنا ۔میں انکا بہت سارا خیال رکھوں گی اور کچھ ہی دنوں میں وہ اپنے پیرو پر کھڑے ہو جائیں گے۔
نایاب نے پر امید لہجے میں کہا۔
انشاءاللہ میری بچی ایسا ہی ہوگا۔
دروازہ بجنے کی آواز پر دونوں اس طرف متوجہ ہوگئے۔
نایاب نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے نور اور ارسلان کو کھڑا دیکھ وہ فورا نور کے گلے لگ گئ۔
بس آپی آپ حوصلہ کریں۔انشاءاللہ بھائ جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔
نور نے نایاب کے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔
ہمم۔
نایاب نے خود کو سنبھالا اور انہیں لے کر اندر آگئ۔
********************¬********
تم خوش ہو۔
نایاب نے اسکے کھلے ہوئے چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔
بہت۔۔۔۔۔آپی اللہ نے مجھے میری سوچ سے بڑھ کر نوازہ ہے۔
نور کی آواز میں خوشی صاف جھلک رہی رہی تھی۔
اللہ تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔
نایاب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر بعد جب نور اور ارسلان چلے گئے تو نایاب سوپ بنا کر ازلان کے پاس چلی گئی۔
********************¬**********
وہ لوگ چلے گئے؟
سوپ پیتے وقت ازلان نے نور اور ارسلان کے مطالق پوچھا۔
جی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی گئے ہیں۔
نایاب نے بتایا۔
ہمم۔بہت خوش لگ رہے تھے دونوں۔
ازلان کا دل چاہ رہا تھا نایاب سے باتیں کرنے کے لیئے ۔اس لیئے اسنے کہا۔
جی۔
نایاب نے مختصر کہا۔
نایاب کیا تم چلی جاؤ گی۔
ازلان نے دل میں مچلتا سوال پوچھا۔
کیا ہو گیا ہے آپ کو ازلان۔آپ کو کیوں ایسا لگتا ہے کہ میں آپ کو چھوڑ دوں گی۔
نایاب کو اسکی بات پر غصہ آیا تھا۔
“ایک معزور شخص کے ساتھ کون رہنا پسند کرتا ہے۔”
ایک تلخ مسکراہٹ ازلان کے لبوں پر بکھر گئ۔
“ازلان آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔آپ دیکھناجلد ہی آپ اپنے پیرو پر کھڑے ہو جائیں گے اور میں کیوں جاؤ گی آپ کو چھوڑ ۔اچھا برا وقت تو سب پر آتا ہے ۔انسان کو بس صبر سے کام لینا چاہیئے اور آپ کو چھوڑ کر میں ہمارے بچے کی بھی مجرم نہیں بنا چاہتی۔”
ت۔تم سچ کہہ رہی ہو نایاب ۔میں۔۔۔باپ بننے والا ہوں۔
ازلان نے بے یقینی سے پوچھا۔
ہاں۔
نایاب نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا۔
یا اللہ تیرا شکر ہے۔
ازلان نے صرف اتنا ہی کہا۔
********************¬********
تین ہفتے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔
ازلان دیہان سے۔
نایاب نے ازلان سے کہا جو تھوڑا سا لڑکھڑایا تھا۔
ہاں میں ٹھیک ہوں۔بس آج کے لیئے اتنا کافی ہے میں تھک گیا ہوں۔
ازلان کی بات سن کر نایاب نے اسے چیئر پر بیٹھے میں مدد کی۔
نایاب کی محنت اور علاج سے ازلان اب کافی حد تک صحیح چل لیتا تھا۔
نایاب اسے روز شام میں گارڈن میں لا کر واک کرواتی تھی۔
آپ بیٹھیں میں چائے بنا کر آتی ہوں۔
نایاب کہہ کر اٹھنے لگی تو ازلان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر واپس بٹھادیا۔
میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
نایاب کی سوالیہ نظریں دیکھ کر ازلان نے کہا۔
جی بولیں۔
نایاب میں اپنی کی گئ ساری ذیادتی کی معافی مانگتا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کیا ہے تمھارے ساتھ اسکی کوئ معافی نہیں۔اس وقت تم نے میرا جتنا ساتھ دیا اگر تمھاری جگہ کوئ اور ہوتی تو کب کا مجھے چھوڑ کر چلی جاتی۔
میں تمھارا مجرم ہوں ۔میں نے تمھیں کبھی کوئ خوشی نہیں دی ۔پلیز مجھے معاف کر دو نایاب۔
ازلان اپنے ہاتھ جوڑے روتے ہوئے کہہ رہا تھا
اور نایاب نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
نایاب نے اسے نہیں روکا تھا وہ چاہتی تھی کہ ازلان اپنے دل کا سارا غبار نکال دے۔
کیا تم نے مجھے معاف کر دیا؟
ازلان نے پر امید لہجے میں پوچھا۔
میں نے آپ کو سچے دل سے معاف کیا ازلان۔میں نے آپ سے کبھی نفرت نہیں کی کیونکہ مجھے پتا تھا کہ یہ میرا آزمائش کا وقت ہے اور مجھے یقین تھا کہ میرا رب بڑا رحیم ہے وہ ایک نا ایک دن مجھ پر ضرور رحم کرے گا۔
نایاب نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا۔
تمھیں پتا ہے نایاب خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔جب وہ پڑتی ہے نا تو مجھ جیسوں کا غرور ٹوٹ جاتا ہے۔خدا کا شکر ہے اسنے مجھے میری اوقات یاد دلادی ورنہ میں اپنے غرور بہت آگے نکل جاتا۔
ازلان نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔
نایاب چپ چاپ ازلان کی باتیں سن رہی تھی۔
آپ بیٹھیں میں نماز پڑھ کر آتی ہوں۔
آذان کی آواز سن کر نایاب کھڑی ہو گئ تھی۔
نایاب ۔۔۔۔۔۔۔
جی۔
ازلان کی پکار پر نایاب واپس مڑی تھی۔
مجھے بھی نماز پڑھنی ہے۔
ازلان نے کہا۔
نایاب نے ازلان کو حیران نظروں سے دیکھا کیونکہ نایاب نے کبھی ازلان کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔
اب ایسے بھی مت دیکھو یار۔
ازلان نے بال کھجاتے ہوئے کہا۔
نہیں میں تو بس۔
نایاب تھوڑی شرمندہ ہوئ تھی۔
“جانتا ہو تم حیران ہو رہی ہو گی۔ میں نے کبھی اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن اب میں اپنے رب کو کبھی ناراض نہیں کروں گا۔”
چلیں ۔
نایاب نے مسکراتے ہوئے ازلان کا ہاتھ تھام کر اسے کھڑا کیا۔
********************¬********
چند سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔
یار پریشان مت ہو اللہ سب خیر کرے گا۔
ازلان نے پریشانی سے ٹہیلتے ارسلان کے کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
مبارک ہو بیٹی ہوئ ہے۔
اس سے پہلے ارسلان کچھ کہتا نرس نے باہر آکر کہا۔
بہت بہت مبارک ہو یار۔
ازلان نے فورا ارسلان کو گلے لگایا۔
خیر مبارک۔
ارسلان نے مسکراتے ہوئے کہا آخر اتنے صبر کے بعد اللہ نے اسے اس نعمت سے نوازہ تھا۔
میں مٹھائ لے کر آتا ہوں۔
ازلان کہہ کر وہاں سے چلا گیا ۔
ارسلان سامنے روم میں چلا گیا جہاں اسکی دو زندگیاں تھیں۔
********************¬*******
میری جان ۔۔۔۔۔۔
ارسلان نے کوٹ میں سوئی ہوئ سرخ و گلابی رنگ کی پری جیسی اپنی بیٹی کو گود میں لیتے ہوئے کہا۔
بہت بہت مبارک ہو۔
ارسلان نے نور کا ہاتھ تھاما۔
آپ کو بھی۔
نور نے مسکرا کر کہا۔
کیا میں اندر آسکتی ہوں۔
نایاب اپنے تین سال کے بیٹے حیدر کا ہاتھ پکڑے دروازہ میں کھڑی تھی۔
یہ بھی کوئ پوچھنے کی بات ہے۔
نور نے مسکراتے ہوئے کہا۔
باقی سب کہاں ہیں۔
نور نے پوچھا۔
چاچی اور پھوپھو شکرانے کے نفل ادا کرنے گئ ہیں اور چاچو پہنچنے والے ہیں۔
نایاب نے بتایا۔
لاؤ بھئ مجھے بھی دیکھادو آخر اکلوتی خالہ ہوں۔
نایاب نے تھوڑے روب سے اس چھوٹی سی گڑیا کو ارسلان کی گود سے لیا۔
ماما یہ تون ہے۔
(ماما یہ کون ہے۔)
حیدر نے نایاب کی گود میں لیٹی پری کی جانب اشارہ کیا۔
یہ آپکے انکل اور آنٹی کی گڑیا ہے۔
اس سے پہلے نایاب کچھ کہتی ازلان نے اندر آتے ہوئے کہا۔
نئ یہ تو میلی تلا پیالی ہے ۔اب تے یہ میلی گلیا ہے۔
(نہیں یہ تو میری طرح پیاری ہے۔اب سے یہ میری گڑیا ہے)۔
حیدر کی بات پر سب مسکرانے لگے اور کھڑکی سے چاند بھی ان کو دیکھ کر مسکرادیا۔
********************¬********
ختم شد۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...