ناول کے کردار فرضی ہیں جن کا حقیقت سے ہوئی تعلق نہیں ۔
سرخ گلابوں کی سیج پر بیٹھی آیت کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔اس کی شادی تھی آج مگر اس کے دل میں خوشی نامی کوئی چیز نہیں تھی۔اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر یہ آج اپنے خاندان کی روایت کی نظر ہوگئی تھی۔اس کی شادی ایک ایسی شادی تھی جس میں اس کی رضا مندی شامل نہیں تھی۔خود سے چھوٹے چھ سالہ کزن سے اس کا نکاح کر دیا گیا تھا۔آیت ڈاکٹر بن رہی تھی۔اس نے ہائوس جاب کرنی تھی ابھی جب بابا جانی نے اسے بلایا اور اسے علم ہوا کہ اس کا رشتہ ولید خان سے ہوگیا ہے ۔ولی اس سے چھ سال چھوٹا تھا اور ابھی اس کی عمر 19 برس تھی۔یہ وٹے سٹے میں شادی ہونا ان کے خاندان میں عام بات تھی۔آیت اپنے چچا زاد کے گھر آئی تھی تو اس کے بھائی شاہ بخت کی شادی مہر خان سے ہوئی تھی۔اس کا بھائی مہر خان کو بچپن سے پسند کرتا تھا۔وہ دونوں ہم عمر تھے۔مگر ان کے ہاں رسم تھی کہ وٹے سٹے میں شادی ہوتی جس گھر سے بہن لاتے وہاں بہن دیتے بھی تھے۔ولید بہت زیادہ بگڑا ہوا انسان تھا۔اس کی عمر 19 برس تھی مگر زمانے کی پر برائی اس میں موجود تھی۔چچی کی چلتی نہیں تھی چچا اور بابا جانی کے آگے۔چچا کا اکلوتا بیٹا تھا ولید اور شاہ بخت نے مستقبل میں بابا جانی کی جگہ دستار کی ذمہ داری سے انکار کر دیا تھا اس لیئے دستار کا حقدار بھی ولید ہی تھی۔شاہ بخت تو شادی کے فورا بعد ہی مہر کو شہر لے جانے والا تھا۔مہر بھی آیت کی طرح ہی ڈاکٹر بنی تھی مگر اس کی تعلیم ادھوری جس کی بدولت شاہ بخت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ شہر میں ہی اس کو مزید بڑھائے گا۔ شاہ بخت مہر کے معاملے میں بالکل خود غرض نہیں تھا مگر اپنی بہن کے معاملے میں خود غرض ثابت ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ولید مستقبل میں شاید اس کی بہن کے ساتھ اچھا رویہ نہ رکھے مگر اپنی خوشی کی خاطر اس نے اپنی بہن کی خوشیوں کی پرواہ نہیں کی اور اسے قربان کر دیا۔آیت نے بچپن سے بہت خواب سجائے تھے کہ یہ ہسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کرے گی اور اپنے گائوں میں ہی ڈاکٹر بن کر اپنے لوگوں کا علاج کرے گی مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ولید نے کمرے کا دروازہ کھولا اور یہ کمرے میں آیا۔ولید کی عمر اس کی ظاہری شخصیت سے ظاہر نہیں ہوتی تھی۔یہ عمر میی 25 سالہ آیت سے بڑا ہی لگتا تھا۔آیت بہت نازک سی خوبصورت سے کانچ کی گڑیا تھی۔ولید نے اپنی دستار اتار کر بیڈ پر رکھی اور آیت کے قریب آیا ۔
“تو کیسا لگ رہا ہے آیت ولید خان اس بیڈ پر بیٹھ کر میری سیج سجا کر۔”
ولید نے آیت کا گھوگھنٹ اس کے چہرے سے ہٹایا ۔اس وقت آیت بلکل ایک شہزادی کی طرح چمک رہی تھی۔سرخ لہنگا اور ہاتھ میں بچتی سرخ چوڑیاں اس پر بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔آنکھوں میں چمک تھی۔کبھی کبھی اس کی سہلیاں کہا کرتی تھی کہ یہ بلکل مانو بلی جیسی آنکھیں رکھتی ہے۔اس کی آنکھیں بھورے رنگ کی تھی اور بڑی بڑی خوبصورت۔چہرہ مادے کی مانند سفید تھا۔ولید بھی اسی ہی طرح خوبصورت تھا مگر شاید آیت کی زندگی میں وہ خوشی نہیں تھی جس کی وہ حقدار تھی۔
“ولی میں نے کبھی تمہارے ساتھ کی تمنا نہیں کی۔یقین کرو میں نے بابا جانی کو بہت کہا کہ میں تم سے شادی نہیں کروں گی مگر وہ نہیں مانے ۔ولی تم جانتے ہو نہ ان کے آگے میری کبھی چل نہیں سکتی۔”
“بس آئندہ کے بعد میرے سامنے یہ بہانے مت کرنا آیت ۔تم جانتی ہو مجھے تمہیں دیکھ کر تمہارے بھائی کی شکل یاد آجاتی ہے جس نے میری بہن کو ہم سب کے خلاف کر دیا۔ہماری سالوں کی بنائی ہوئی عزت کا اس نے کوئی خیال نہ کیا۔شاہ بخت نے کیا سوچا تھا کہ میں تمہیں آج کی رات پھولوں کے ہار پہنائوں گا اور تمہارا استقبال کروں گا۔یہ اس کی بھول ہوگی میں ولید خان ہوں جو انسان میرے خاندان کی بیٹی کو ہمارے خلاف کر سکتا ہے میں اس کی بہن کو کیسے خوش رکھ سکتا ہوں ہاں۔”
ولید نے شدت سے آیت کے جبڑے پکڑے ۔آیت ولید کو ہمیشہ سے بچہ سمجھتی آئی تھی مگر آج اسے احساس ہوگیا تھا کہ ولید چاہے اس سے عمر میں چھوٹا ہے مگر وہ اس سے کئی زیادہ مضبوط ہے ۔
“ولی پلیز چھوڑو تم میرا یقین کرو میں نے کچھ بھی کچھ نہیں کہا۔ میں تو شہر میں رہتی تھی مجھے کچھ نہیں پتا۔”
ولید کی طرف سے پڑنے والے تھپڑ نے اس کی بولتی بند کر دی۔آیت آج کی رات اپنے شوہر سے یوں تھپڑ کھانا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
“آج کے بعد تم نے اگر مجھے آپ نہ کہہ کے بلایا تو زبان کاٹ دوں گا تمہاری۔خان کہا کرو مجھے ۔خبردار جو آج کے کبھی مجھے بچہ سمجھنے کی کوشش بھی کی تو۔میری بیوی ہو تم۔اور وہی مقام ہے تمہارا ۔ساری زندگی تمہیں میری بیوی بن کر ہی رہنا ہے۔میری ایک بات کان کھول کر سن لو ہمارے کمرے کی باتیں کہیں باہر نہیں جائیں گی۔مجھ سے بات کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا کہ میں تمہارا کیا لگتا ہوں۔مجھے میری بیوی صرف اپنے لیئے چاہئے ۔بھول جائو تمہارا کوئی میکہ تھا۔چاہے تمہارے ماں باپ ہمارے گھر کے ساتھ ہی رہتے ہیں مگر تمہارا سب سے آج کے بعد تعلق ختم۔بابا جانی سے بھی تم نہیں ملو گی آج کے بعد۔”
آیت نے روتے ہوئے ولید کو دیکھا جس کی آنکھوں کی وحشت اور سرد مہری نے اسے بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔
“اٹھو جاکر اپنے کپڑے تبدیل کرو ۔”
آیت ولید کی بات سنتے ہی اٹھا گئی ۔اس کے اٹھتے ہی پیل کی آواز فضا میں گونجی۔آیت فورا سے باتھ روم میں چلی گئی۔شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر اس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو نکلے۔اتنے آنسو شاید اس نے زندگی میں کبھی بہائے تھے۔بابا جانی کے ایک غلط فصیلے نے اس کی زندگی برباد کے کے رکھ دی تھی اور شاہ بخت کتنا خود غرض تھا اپنی خوشی کی خاطر اسے ایک ان چاہے رشتے میں قید کرگیا تھا۔اس حویلی میں شاید برسوں سے بیٹیوں کے ساتھ یہی ہوتا آیا تھا تو سب کے لیئے یہ ایک عام سے بات تھی۔کافی دیر تک جب یہ باتھ روم سے نہ نکلی تو ولید نے اسے باہر سے آواز دی۔
“اندر ہی رہنے کا ارداہ ہے یا باہر بھی آنا ہے تم نے۔”
آیت اپنے آنسو صاف کرتی باہر آئی۔اس کے چہرے پر ولید کی انگلیوں کے نشان تھے۔کالے رنگ کے سادے سے لباس میں یہ باہر آئی۔چہرے پر مٹا مٹا میک اپ تھا اور ہاتھوں میں سرخ چوڑیاں تھی جو اس کے لہنگے کے ساتھ تھی۔یہ اپنا تکیہ اٹھا کر صوفے پر جانے لگی تو لیٹے ہوئے ولید کی آواز اسے آئی۔
“میں نے تمہیں اجازت دی کے تم وہاں جاکر سوجائو۔میں نے تمہیں پہلے ہی باور کروا دیا تھا کہ میں تمہارا شوہر ہوں اور پھر اب یہ سب باتیں تمہیں زیب نہیں دیتی۔چپ چاپ بستر پر آجائو۔”
آیت خاموشی سے بستر پر آئی اور لیٹ گئی۔اس نے اپنے اور ولی کے درمیان میں فاصلہ رکھا تھا۔ولی نے اسے اپنی طرف کھینچا ۔
“میری بیوی ہو تم اور آئندہ کے بعد صرف اپنے اس دماغ میں ایک یہی چیز رکھنا۔”
آیت کو نہیں پتا تھا کہ رات کا اختتام کب ہوا۔رات روتے روتے اس کی آنکھ لگی تھی ۔بقول ولید کے آیت کے قریب آنا ایک شوہر کے ناطے اس کا حق تھا۔اپنا حق لے کر وہ بڑے سکون سے سو رہا تھا جب کہ آیت کے آنسو ولی کے بازو پر ہی گر رہے تھے جس پر اس کا سر تھا۔یہ کروٹ بھی نہیں بدل سکتی تھی کیونکہ ولید نے اسکے فرار کے سارے دروازے بند کر رکھے تھے۔
__________________
دوازہ بجنے کی آواز سے آیت ہی آنکھ کھل گئی تھی . اس کے ساتھ ولید نہیں تھا۔آیت اٹھی تو اسے باتھ روم سے ولی نکلتا ہوا نظر آیا۔ملازمہ انہیں بلانے آئی تھی ناشتے کے لیئے۔
“بات سنو میری ہماری شادی ہوئی ہے تو اس لیئے یہ کالے لباس مت پہنانا۔ابھی زندہ ہوں میں جس دن مر گیا اس دن یہ لباس پہن لینا بے شک ۔اٹھو اور تیار ہو ۔نیچے کسی کو بھی کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
ولید اپنے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے آیت کو بولا۔آیت تیار ہوکر باہر آئی تو ولید اسی کا انتظار کر رہا تھا۔دونوں اکٹھے نیچے گئے تھے۔آج حویلی میں سب ہی آئے ہوئے تھے۔مہر شاہ بخت بہت کے پہلو میں بیٹھی ہوئی کھلکھلا رہی تھی جبکہ شاہ بخت بار بار اسے کچھ نہ کچھ اٹھا کر دے رہا تھا۔ولید بابا جانی کی کرسی کے دائیں طرف بیٹھا ساتھ ہی آیت بھی بیٹھ گئی۔اس لمحے آیت نے سبز رنگ کا خوبصورت شیشوں کے کام والا فراک پہنا رکھا تھا۔ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں تھی۔ولید نے صبح ہی منہ دیکھائی کے لیئے لایا ہوا سونے کا سیٹ اسے دیا تھا جو اس لمحے اس کے گلے کی زینت تھا۔اس کے چہرے پر ایک ویرانی سے چھائی ہوئی تھی جبکہ دوسری طرف مہر بہت خوش تھی ۔اس کے ایک ایک انداز سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ خوش ہے۔شاہ بخت نے ایک بار بھی بہن سے نہیں پوچھا تھا کہ آیا وہ ٹھیک ہے یا نہیں ۔بابا جانی کی نظر آیت پر ہی تھی۔
“ولی بیٹا آج شام تم لوگوں کا ولیمہ ہے تو کچھ دیر کے لیئے آیت کو اپنے تایا کے پورشن میں بھیج دو۔”
“نہیں بابا جانی آیت کہیں نہیں جائے گی۔اب یہی اس کا گھر ہے۔مجھے ہرگز نہیں پسند کہ میں گھر پر موجود ہوں اور میری بیوی مجھے چھوڑ کر کہیں جائے. “
چچی جو آیت کی حالت دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ آیت کے ساتھ ان کے بیٹے کا رویہ اچھا نہیں ہے وہ بیٹے کو ٹوکتے ہوئے بولی۔
“آیت نے ساتھ ہی تو جانا ہے بڑا اس نے کہیں بہت دور جانا ہے۔”
” میں نے ایک بار کہہ دیا نہ مورے کے یہ کہیں نہیں جائے گی۔”
آیت کی والدہ کو یہ بات اچھی نہیں لگی تھی مگر گھر کے داماد کے سامنے وہ کیا کہہ سکتی تھی ۔شاہ بخت بھی ولید کی حمایت میں بوکا۔
” میرا خیال ہے بابا جانی کہ ولید بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اب آیت کا یہی گھر ہے تو اسے یہاں ہی رہنا ہے جب بابا اور ماں کو اس سے ملنا ہوگا تو وہ خود یہاں آجایا کریں گے۔”آیت کو معلوم تھا اس کے بھائی کا یہی جواب ہوگا اس لیئے اس نے کسی سے زیادہ توقع کی ہی نہیں تھی۔ناشتہ ختم ہوا تو آیت کے کمرے میں آئی ۔ملازمہ آیت کے کمرے کو صاف کر گئی تھی۔
“ارے آیت تمہیں پتا ہے مجھے تو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ شاہ بخت اتنے رومینٹک ہوں گے۔انہوں نے مجھے رات اس بات کا احساس دلایا ہے کہ وہ میری ہر خواہش پوری کر سکتے ہیں۔سچ میں میں بہت خوش قسمت ہوں آیت۔تم سنائو رات کیسی گزری۔ولید نے کوئی تحفہ دیا۔”
آیت نے اپنی آنکھوں میں نمی پیچھے دکھیلی ۔
“یہ سیٹ جو میں نے پہنا ہے یہ یہ ولید نے ہی دیا پے۔”
“ارے یعنی ہمارا چھوٹا بڑا ہوگیا ہے۔ویسے ایک بات کیوں آیت مجھے تمہارا بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہیے اگر تم نہ ہوتی تو شاید شاہ بخت کے ساتھ میری شادی نہ ہو پاتی۔”
” سب ٹھیک ہے مہر میں کسی بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی امید ہے کہ تم بھی مجھے بار بار کسی چیز کیلئے فورس نہیں کرو گی۔”
” اتنی بھی بے وفا مت بنو تم جانتی ہو نا کہ ہم لوگ بھابھی اور نند بننے سے پہلے آپس میں دوست ہیں۔”
” مخلص دوست کبھی اپنے دوست کی خوشیوں کو برباد کرکے اپنی زندگی کی خوشیوں کا محل اس پر نہیں بناتے۔”
” اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے تمہاری شادی ولید سے ہوئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم بہت زیادہ خوش رہو گی. اس حویلی میں راج کرو گی تم آخر کو دستار بھی ولی کی ہے۔”
” خوشیوں کی بات بعد میں آتی ہے سب سے پہلے تو کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ مجھ سے کتنا چھوٹا ہے۔ چھ برس۔ مستقبل کیا ہوگا ہمارا جب وہ جوان ہو گا تو میں شاید اس کے برابر لگ ہی نہ پاؤں۔ اس کے دل میں اگر کوئی اور آگیا تو۔”
“تمہیں کس نے کہہ دیا آیت ولید خان کے تمہارے بغیر میں کسی لڑکی سے شادی کروں گا۔وہ کیا ہے نہ میرے ساتھ رہ کر مجھے ایک ہی لڑکی برداشت کر سکتی ہے اور وہ تم ہو۔”
مہر نے دروازے میں دیکھا جہاں ولید کھڑا تھا۔
“تم باہر جائو مہر مجھے میری بیوی سے کچھ باتیں کرنی ہیں ۔”
مہر ان دونوں کو اکیلا چھوڑ کر چلی گئی۔
ولید آیت کے پاس آیا اور اس کے بال زور سے تھامے ۔
“تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارے بغیر میں کسی لڑکی کو دیکھوں گا۔یہ تمہاری بھول ہے آیت ولید خان۔ساری زندگی تمہیں ٹرپائوں گا میں۔تمہیں خان بیگم بنا دیا تھا میں نے کل ہی۔بابا جانی جانتے ہیں ۔مگر یہ مت سمجھنا کہ میں نے سخت محبت یا عشق میں تمہیں خان بیگم بنایا ہے تمہیں ساری عمر سزا دینے کو میں نے خان بیگم بنایا ہے ۔ساری عمر اس حویلی میں رہو گی تم۔”
ولید نے آیت کے بالوں پر گرفت سخت گی۔آیت کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔
“اپنا یہ رونا دھونا بعد میں کرنا میرے ساتھ تم کل ہی جا رہی ہو گھومنے ۔منع کرنے کی ہمت مت کرنا۔میں چاہتا ہوں تمہیں پل پل کی اذیت دے کر مجھے سکون حاصل ہو۔”
آیت بے آواز روتی رہی مگر بولی کچھ نہیں تھی۔وہ اسے چھوڑ کر باہر چلا گیا جبکہ آیت اپنی خوشیوں کی بربادی پر سوائے آنسو بہانے کے اور کر بھی کیا سکتی تھی۔
______________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...