صارم اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا ۔پورے گھر کی طرح وہ بھی وہ ساری باتیں سوچ رہا تھا جو آج نور اللہ صاحب نےکہی تھیں اور اب باقی سب کی طرح اسے بھی آگے کی فکر ہورہی تھی کہ اب کیا ہوگا؟
اچانک ہی صائم چلتے’چلتے رکا۔
اسے کوئی خیال آیا تھا ۔
“جب بھی دل چاہے بس دل سے یاد کرنا ،میں حاضر ہوجاؤں گا۔”کسی کی نرم آواز کی گونج نے دھیان پہ دستک دی تھی۔
صارم ایک گہری سانس لے کے رہ گیا۔وہ ایک جن زادے سے ملاقات کیسے کرے؟پہلی بار تو چلو اتفاق تھا لیکن اب کی بار سوچ سمجھ کے یہ فیصلہ کرنا۔
سوچ کے ہی صارم کو پسینہ آگیا تھا اور دل کی دھڑکن الگ تیز ہوئی تھی۔
“اپنے گھر کیلئے انسان بہت کچھ کرتا ہے،تم ایک ملاقات نہیں کرسکتے۔”آئینے میں صارم کا عکس اس سے مخاطب تھا۔
وہ سوچ میں پڑگیا۔زندگی ویسے ہی اتنے ناقابل یقین مناظر دکھارہی تھی تو کیا ایک اور کی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی۔
یقیناً ہاں!
“میں اپنے اور گھر والوں کیلئے جو کچھ کرسکا کروں گا۔”صارم کہہ کے وضو کرنے بڑھ گیا تھا۔
وضو کرنے کے بعد اس نے نوراللہ صاحب کے بتائے ہوئے وظائف کئے اور بیڈ پہ بیٹھ کے آنکھیں بند کر لیں۔
“دوست!”اس نے پوری شدت سے یاد کیا تھا۔
“اتنا کچھ کیوں کررہے ہو دوست؟کم از کم میں تو تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔”کسی کی نرم ،مانوس جانی پہچانی آواز سنائی دی تھی۔
صارم نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔سامنے ہی فاختئی رنگ کے سوٹ میں ملبوس عامر کرسی پہ بیٹھا تھا ۔
“لیکن تمہارے قبیلے والے تو نقصان پہنچا رہے ہیں نا۔”صارم نے جھٹ سے کہا۔
“اور وجہ تم جا نتے ہو،بغیر وجہ کے کچھ نہیں ہوتا۔”اسکی سرخ آنکھیں ایک پل کو صارم کی جانب اٹھی تھیں۔
“ہم مداوا کرنے کو تیار ہیں۔”صارم اسکی نگاہوں کی تپش سے کانپ گیا تھا اس لئے لفظوں میں لرزش سی در آئی۔
“بیکار ہی ہے۔”عامر بڑبڑایا۔
“مطلب؟کیا تم کچھ نہیں کرسکتے۔”صارم نے آس سے پوچھا۔
“میں حقیقت میں ہوں کسی دیو مالائی داستان کا جن نہیں ہوں صارم،ہماری دنیا کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔تمہارے کہنے سے بھی پہلے میں نے اپنے دادا جان سے بات کی تھی لیکن وہ جنات نہیں مانتے۔انکے گھر کا ایک’ ایک جن تمہارے خاندان کے پیچھے ہے اور تو اور وہ بچی مریم بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے کیونکہ وہ ننھا جن زادہ اسکا لاڈلا بھائی ہے۔بہنوں سے بھائی کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔”عامر نے تفصیل بتائی تھی۔
“کون مریم؟”صارم تو اس پہ ہی چونک گیا تھا۔
“وہ بچی جو تمہارے بھائی اور بھابھی کے گھر دکھائی دیتی ہے۔”
“تو کیا ہم ساری زندگی ایسے ہی رہیں گے؟”صارم کچھ رنج اور کچھ غصے سے بولا تھا۔
“نہیں آزاد ہوجاؤ گے لیکن قید کی خواہش دل میں رہے گی۔”عامر نے بےخیالی میں کہا۔اسی پل کھڑکی کے پٹ زور دار آواز کے ساتھ کھل کے بند ہوئے تھے۔
وہ دونون چونک پڑے تھے۔
عامر نے خوفزدہ نگاہوں سے سامنے دیکھا۔
“مجھے یہ نہیں کہنا چاہئے تھا۔”وہ بڑبڑایا تھا۔
“تم کیا کہہ رہے ہو؟میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔”صارم کو اسکی بات سمجھ نہیں آئی تھی۔
“وقت سے پہلے باتوں کو سمجھنے کا یہی اثر ہوتا ہے۔”عامر نے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا تھا۔
“جنات بھی فلسفہ بولتے ہیں’حیرت ہے۔”صارم نے طنز بالکل نہیں کیا تھا۔
“ہم بھی اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں میرے دوست۔”عامر نے اطمینان سے کہا تھا۔
“اوہ!کیا تم مٹھائی کھانا پسند کرو گے۔”صارم نےکہتے ہوئے ڈراز سے خشک مٹھائی کا ڈبہ نکالا۔اکثر رات کو اسے میٹھے کی طلب ہوتی تھی تو وہ اپنے کمرے میں خشک مٹھائی ضرور رکھتا تھا۔
“کیوں نہیں میرے دوست اور شاید یہ آخری مٹھائی ہو جو مجھے کھانی نصیب ہورہی ہے ۔تمہاری دکان کی!”عامر ڈبے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے افسردگی سے بولا تھا۔
“کیوں؟کیا اب تم لوگ ہماری دکان پہ نہیں آؤ گے؟صارم نے پریشانی سے پوچھا۔
“نہیں دوست!تمہارے ہاں کی مٹھائی کا ذائقہ تو بچپن سے ہم سب کی زبانوں پہ ہے ۔بابا جان بھی آئیں گے لیکن میں نہیں،اب ہم شاید ہی ملیں۔”
“کیا تم کہیں جارہے ہو؟”
“ہاں!مجھے سمندر پار کرنا ہے کل۔”عامر نے بوجھل انداز میں بتایا۔
کمرے میں الم ناک سی خاموشی طاری ہوگئی۔
“اس سے کیا ہوتا ہے؟”صارم نے کچھ دیر کے بعد پوچھا۔
“دوسری جگہ چلے جاناجیسے تم لوگ باہر ملک جاتے ہو۔”
“کیا یہ سب مجھ سے دوستی کرنے کا نتیجہ ہے؟”
صارم کےپوچھنے پہ عامر نے صرف سر ہلایا تھا۔
“انسان اور جنات دو الگ مخلوق ہیں۔ان میں دوستی نہیں ہوسکتی۔”عامر کے والد’عثمان صاحب نے خاصی سختی سے اسے وارن کیا تھا۔
“تم نے مجھ سے دوستی کی کیوں؟”
“تم مجھے اچھے لگے۔تمہاری صاف گوئی اور اپنے خاندان کیلئے پروا کرنا مجھے پسند آیا۔”عامر نے صاف گوئی سے کہا تھا۔
“تواب واقعی ہم نہیں ملیں گے؟”حالانکہ عامرسے اسکی یہ دوسری ملاقات تھی لیکن پھر بھی صارم کی ایسی حالت ہورہی تھی جیسے وہ اسے بچپن سے جانتا ہو۔
عامر نے جھکی ہوئی نگاہیں اٹھائیں۔صارم کے وجود میں پھریری سی دوڑ گئی۔
شعلوں کی لپک کے ساتھ ان میں شبنم کی نمی بھی تھی۔
“کچھ نہیں کہہ سکتا،میں پابند ہوں۔”وہ بےبسی سے بولا۔
صارم کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گیا۔
“آخری ملاقات کا تحفہ سمجھ لو انہیں۔”کچھ دیر بعد وہ لوٹا تو اسکے ہاتھ میں مٹھائی کے ڈبے تھے۔
“شکریہ!دوست،میں بھی تمہارے لئے کچھ کرسکوں گا۔یہ رومال رکھ لو،جب میری یاد آئے تو اسے دیکھ لینا۔”عامر نے اسکی جانب سفید سلک کا نرم و ملائم،روئی کے گالوں کی مانند ہلکا سا رومال بڑھایا تھا۔
صارم نے اسے تھاما ۔رومال میں بھینی’بھینی سی مہک تھی۔
“الوداع!اے دوست۔میں تم سب کیلئے کچھ نہ کچھ کروں گا۔”عامر کہتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھا۔
“الوداع!”صارم کا ہاتھ بےساختہ ہی بلند ہوا تھا۔
جو کچھ عامر کرنے والا تھا اگر صارم کو خبر ہوجاتی تو شاید وہ اسے روک لیتا۔
٭٭٭٭٭
صبح روشنی کی آنکھ کھلی تو سر انتہائی بھاری محسوس ہورہا تھا۔پوری رات اس نے روتے روتے گزاری تھی۔
ثانیہ نے اسے اچھی خاصی سنائی تھیں اور صائم کو لے کے اسی وقت گھر واپس چلی گئی تھیں۔
“انسان کو اتنے بڑے بول نہیں بولنے چاہئیں۔انسان اپنے ہر لفظ اور عمل کا مکافات عمل رکھتا ہے۔”نور اللہ صاحب نے جاتے جاتے افسوس سے کہا تھا۔
“روشنی اٹھ جاؤ اب۔دادی انتظار کررہی ہیں وظیفے کیلئے۔”سلطانہ نے کھڑکیوں سے پردے ہٹاتے ہوئے کہا۔
باہر ابھی نیم تاریکی تھی لیکن ٹھنڈی ہوا کے جھونکے راستہ ملتے ہی اندر داخل ہوئے تھے۔
“جی امی!”وہ بھاری آواز میں کہتے ہوئے اٹھی تھی۔
٭٭٭٭٭
“پورے یقین کے ساتھ یہ وظائف پڑھو اور اللہ سے بہتری کی دعا مانگو۔”فرحانہ بیگم نے اسکے سامنے کاغذ رکھتے ہوئے تلقین کی تھی۔
روشنی نے دھندلی نگاہوں کے ساتھ کاغذ کو دیکھا اور پھر سر ہلاتے ہوئے تسبیح تھام لی تھی۔
انکے ہاتھ میں صرف دعا اور دوا تھی۔
دوسری طرف نوراللہ صاحب اپنی پوری کوشش کررہے تھے۔
دن یونہی گزرتے جارہے تھے۔دوسری طرف سے خاموشی تھی ۔کوئی غیر معمولی واقعہ اب رونما نہیں ہوا تھا۔
لیکن اس سب کے بعد جو واقعہ رونما ہوا تھا اس نے ان سب کی زندگیوں کا نقشہ بدل دیا تھا۔
٭٭٭٭٭
نور اللہ صاحب نے ان سب کو سختی سے ہدایت کی تھی کہ سب باوضور رہیں اور انکے بتائے گئے وظیفے کو مدت مکمل ہونے تک پڑھتے رہیں۔خود وہ ایک چلہ کاٹ رہے تھے جس کے بعد انہوں نے بہتری کی نوی کی امید تھی۔
گھر کا ایک ‘ایک فرد اس ہدایت پہ عمل کررہا تھا سوائے اس ایک کے ‘جس نے کبھی اس گھر کو اپنا گھر نہیں سمجھا تھا۔
٭٭٭٭٭
“ثانیہ!تم نے آج کا وظیفہ نہیں پڑھا۔”صائم نے اس سے پوچھا تھا۔
“فار گاڈ سیک صائم!میں تھک گئی ہوں۔روز ایک نیا حکم سن کے،مجھ سے نہیں ہوتا۔تمہاری بہن کا کیا ہم کیوں بھگت رہے ہیں؟”ثانیہ غصے سے پھٹ پڑی تھی۔
“فالتو باتیں مت کرو۔روشنی کی پرسنل ان ٹینشن نہیں رہی ہے اس میں۔”صائم نے روشنی کا دفاع کیا تھا۔
“ہاں!ہاں میں نے رزق کی بےحرمتی کی تھی ۔میں نے اس جن زادے کو ٹھوکر ماری تھی نا جو یہ سب ہمارے گھر میں ہورہا تھا۔وہ تو شکر ہے اس بچی سے جان چھٹی ۔”ثانیہ بھڑک کے بولی تھی۔
“تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے،چاہے تمہارے بھلے کی ہی کیوں نہ ہو۔”صائم چڑ گیا تھا۔
“ہاں تو مت کرو!مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے ہر وقت تسبیح ہاتھ میں رکھنے کا۔”وہ تڑخ کے بولی تھی۔
صائم غصے کے مارے وہاں سے اٹھ کے اوپر چھت پہ چلا آیا تھا۔
چھت خالی پڑی تھی اور ہوا بند تھی جیسے حبس کا عالم تھا۔دھوپ الگ پھیکی پڑی ہوئی تھی۔
صائم نے ادھر’ادھر نظر ڈالی۔
سامنے دکھائی دیتے نیم کے گھنے پیڑ کی وہ شاخ آج بھی جھول رہی تھی۔
“کمال ہے!ہوا تو بند ہے۔”صائم بڑبڑاتا ہوا آگے ہوا تھا ۔
اور!
پھر لمحوں کا کھیل تھا۔
کسی نادیدہ قوت نے اسے بالوں سے پکڑ کے نیچے کی جانب پھینکا تھا۔
صائم کی آخری چیخ دل دہلا دینے والی تھی۔
٭٭٭٭٭
نور اللہ صاحب اپنے مخصوص گوشے میں موجود منہمک تھے کہ اچانک انکے پورے وجود کو ایک زور دار جھٹکا لگا تھا۔
انہوں نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔
“یا اللہ!”وہ فوراً سے پیشتر اٹھے تھے۔
“اب ہم کبھی بھی انہیں تنگ نہیں کریں گے۔ہمارا بدلہ مکمل ہوا۔”انکے کھینچے گئے حصار کے باہر سرخ گلاب کے ساتھ یہ تحریر موجود تھی۔
٭٭٭٭٭
“کمال صاحب!آپ کے گھر میں کس نے یہ کوتاہی برتی ہے کہ ہمیں نقصان پہنچ گیا۔”نور اللہ صاحب نے پہلی فرصت میں انہیں فون کیا تھا۔
“کیا مطلب؟”کمال صاحب کے ہاتھوں سے تسبیح چھوٹ کے نیچے جا گری تھی۔
“آپ کے گھر میں کچھ تو ہوا ہے۔”نور اللہ صاحب کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ صارم دوڑتا ہوا دکان میں داخل ہوا تھا۔
“بابا!صائم بھیا چھت سے گر گئے ہیں۔”اس نے پریشانی کے عالم میں اطلاع دی ۔
کمال صاحب اپنی جگہ ڈھے گئے تھے۔
٭٭٭٭٭
ثانیہ کا رو رو کے برا حال تھا۔صائم کو فورا آئی سو شفٹ کیا گیا تھا۔چھت کی اونچائی اتنی نہیں تھی لیکن بہرحال اونچائی’اونچائی ہی ہوتی ہے۔
چار گھنٹے ہوگئے تھے ان سب کو اسپتال میں جمع ہوئے۔نور اللہ صاحب بھی انکے ساتھ تھے اور وہ مسلسل کچھ نہ کچھ پڑھے جارہے تھے ۔ایک ‘دو دفعہ انہوں نے ثانیہ کو بھی غضبناک نگاہوں سے گھورا تھا جو روشنی کو اب بھی طعنے دینے سے باز نہیں آرہی تھی۔
“ناعاقبت اندیش لڑکی!”وہ بڑبڑا کے رہ گئے تھے۔
٭٭٭٭٭
“ثانیہ تم نے وظائف میں ناغہ کیا تھا؟کیا تھا ناں؟”نور اللہ صاحب اپنی مخصوص بارعب آواز میں پوچھ رہے تھے۔
ثانیہ کو ایک جھٹکا لگا اور اس نے نگاہیں جھکا لیں۔
“جی!”اسکی آواز جیسے کھائی سے آئی تھی۔
“اور پھر بھی تم روشنی کو طعنے دئیے جارہی ہو جو پابندی سے وہی کررہی تھی جو ہم نے کہا۔صائم کو یہ سزا صرف روشنی کا بھائی ہونے کی وجہ سے نہیں ملی بلکہ تمہاری غفلت نے انکا کام آسان کردیا۔انہیں صائم اس حصار سے باہر ملا تو انہوں نے اس سے بدلہ لے لیا۔بیوقوف!لڑکی اپنے ہی ہاتھوں تم نےاپنا شوہر گنوایا۔”نور اللہ صاحب کے الفاظ نہیں برچھیاں تھیں جو ان سب کی سماعتوں میں اتری تھیں۔
وظائف جب شروع کئے جاتے ہیں تو پابندی سے جاری رکھنے ہوتے ورنہ ناغہ کرنے کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔یہی حال بالکل ان وظائف سے بھی مشروط ہے جو بلا اجازت اپنی مرضی سے شروع کردئیے جاتے ہیں۔
“میرا بیٹا!بچ تو جائے گا نا۔”سلطانہ بیگم آبدیدہ ہوگئی تھیں۔
“اللہ سے دعا کریں بہن۔”نور اللہ صاحب اور کیا کہتے۔
٭٭٭٭٭
“یہ زندہ بچ تو گئے ہیں لیکن انکا نارمل زندگی کی طرف واپس آنا نہایت مشکل ہے۔”ڈاکٹر نے صاف’صاف کہا تھا۔
“مطلب؟”فرحانہ بیگم دہل کے بولی تھیں۔
“مطلب یہ کہ یہ نہ اب بول سکتے ہیں اور نہ کسی کی سن سکتے ہیں۔ایک ڈمی کی طرح ہیں یہ اب۔”
“نہیں!ایسا نہیں ہوسکتا۔بھیا!پلیز آنکھیں کھولو۔”روشنی تڑپ کے آگے بڑھی تھی۔
اسکا لاڈلا’بڑا بھائی جو روشنی پہ جان دیتا تھا۔آج اسکی وجہ سے وہ اس حال میں تھا کہ نہ زندوں میں تھا اور نہ ہی مردوں میں رہا تھا۔
“انہیں پیچھے کریں۔مریض کے سامنے سے ہٹائیں انہیں۔”ڈاکٹر نے نرس کو کہا تھا۔
نرس اسے بازو سے تھام کے باہر ویٹنگ ایریا میں لے آئی تھی۔
روشنی بےجان قدموں کے ساتھ چئیر پہ بیٹھی تھی۔
“صائم بھیا!”اسکا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
“اب تمہیں کبھی سرخ گلاب نہیں ملے گا۔اب تمہیں پتا چلے گا کہ بھائی کی تکلیف ہوتی کیا ہے۔”کسی کی آواز روشنی کے کانوں میں گونجی تھی۔
روشنی دنیا ومافہیا سے بےخبر ہو کے نیچے گری تھی۔
٭٭٭٭٭
اس دن کے بعد سےپھر کسی نے روشنی کے کمرے میں سرخ گلاب نہیں دیکھا ہے۔
صائم کبھی ٹھیک نہ ہوسکا اور ثانیہ کا ذہنی توازن خراب ہوچکا ہے،اسے یہ احساس چین نہیں لینے دیتا کہ وہ اپنے شوہر کی معذوری کی وجہ ہے۔وہ گھنٹوں کونوں میں خاموشی سے بیٹھی رہتی ہے یا پھر لان میں پائی جاتی ہے جہاں ہر طرف اس نے گلاب کے پودے اگا رکھے ہیں اور گلابوں کے کنج میں بیٹھ کے وہ ترتیب سے سارے گلاب چنتی ہے اور پھر انہیں مٹی میں دفن کردیتی ہے۔
فرحانہ بیگم اس دنیا میں نہیں ہیں ۔سلطانہ بیگم اور کمال صاحب نور اللہ صاحب سے کچھ وظائف کی اجازت لینے کے بعد اب پابندی سےان پہ قائم ہیں۔
صارم اب کمال صاحب کا پورا کاروبار سنبھالتا ہے۔اسکی شادی ہوچکی ہے اور وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ گھر کے اوپری پورشن میں مقیم ہے۔
آج بھی اسے عامر کی یاد ستاتی ہے تو وہ اس ریشمی رومال کو اپنے ساتھ ہی رکھتا ہے اور کبھی’کبھی اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اور بھی اسکے ساتھ ہے۔
صارم کی بیوی اکثر اس سے کہتی ہے کہ ہمارے کمرے میں کبھی کبھی بہت اچھی خوشبو آتی ہے۔
صارم اسکا راز جانتا ہے لیکن چپ رہتا ہے۔
روشنی نے آج تک شادی نہیں کی ہے۔اب وہ مکمل ٹھیک ہے ۔وہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ایک نجی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے فرائض سر انجام دے رہی ہے اور گھر میں صائم اور ثانیہ کی ذمہ داری اس نے سنبھال رکھی ہے۔
کیونکہ وہ جانتی ہے کہ آج اگر صائم اس حال میں ہے تو اسکی وجہ وہ ہے۔
روشنی کو سرخ گلابوں سے نفرت ہے یہ اور بات ہے کہ لوگ اس گلی کو اب”سرخ گلاب والی گلی”کہہ کے پکارتے ہیں۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...