گاڑی تیزرفتاری سے ایک پیڑسے جا ٹکرائی- اسکا سر اسٹیرنگ سے جالگا- پیشانی سے سرخ گرم سیال کا فوارہ سا ابل پڑا- اسے لگا جیسے اسکے جسم کی ساری ہڈیاں ٹوٹ گئ ہںوں- جائےواردات پر مجمع لگ گیا- اس شور و ہنگامہ کے درمیان اس کے کانوں میں ایک ہںی آواز گونجی تھی-
“میں تمھیں برباد کردونگی”-
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا,دفتعتاَ ایک مانوس آواز اسکی سماعت میں اتری-
“شاہ زر “-
***
وہ اس کا تعاقب کرتی ہوئی کالج کے گیٹ تک پہنچ گئ –
اس نے پہلے اپنے کپڑوں پر پھر اس عمارت کی سمت دیکھا-
نفی میں گردن ہلاتے ہوئے وہ گیٹ سے پلٹ آئی-
شاہ زر اور اسکے دوست اپنی اپنی بائیکس پارک کرکےکلاس میں داخل ہںونے ہںی والے تھے کہ شاہ ذر نے اپنے دوستوں سے کہا۔
“آج رہنے دیتے ہیں لیکچر اٹینڈ کرنے کا موڈ نہیں ہںے”۔
” تمہارا کبھی موڈ ہںوتابھی ہںے لیکچر اٹینڈ کرنے کا”۔
سلمان نے شاہ ذز کو گھورا۔
تبھی آصف نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں گھماتے ہںوۓ شاہ ذر کو ٹہوکا مارا۔
“لو تمہاری بارہویں گلفرینڈ بھی آگیٔ”۔
سامنے سے آتی شخصیت کو دیکھ کر شاہ ذر نے زبردستی کی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجا لی۔
“What a pleasant surprise.
آج تم بھی Blackمیں ہواود میں بھی۔”
اتنا ہی کہنا تھا کہ رمشا اس پہ نہال ہںوگیٔ۔
“میں چاہںےکسی بھی رنگ کا لباس زیب تن کر لوں تمہیں ہمیشہ سوٹ(suite) کرتی ہںوں۔ہںم دونوں made for each other لگتے ہیں”
۔رمشا نے کہا۔
“ہاں ہاں اس سے پہلے والی کا بھی یہی خیال تھا۔”
سلمان نے برجستہ کہا۔
“شاہ چلو نہ کہیں لانگ ڈرایٔںو پر چلتے ہیں۔کافی عرصہ ہںو گیا ہم ساتھ آؤٹینگ پر نہیں گںٔے ہیں۔”
سلمان کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہںو ۓ رمشا نے سلسلہ کلام جوڑا تھا۔
“ارے یار تم سب کو ہںو کیا گیا ہںے۔سرعرفان آج لیکچر میں بہت اہم نکات ڈسکس کرنے والے ہیں۔I am sorry Dear پھر کبھی چلینگے۔لیکچر مس نہیں کرسکتے۔”
رمشا کی بات پر شاہ ذر اچھل پڑا۔
“مگر ابھی ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ”
سلمان کے بقیہ الفاظ منہ ہی میں رہ گںٔے تھے ۔شاہ ذر نے اسے کالر پکڑ کر گھسیٹا تھا-“Idiot” مرواؤگے کیا؟ کبھی موقع کی نزاکت کو سمجھ بھی لیا کرو۔
اس کے ساتھ لانگ ڈرایٔںو پر جانا کسی سزا کے مترادف ہے۔”
“تمھارے تو عیش ہیں دوست! کالج کی ساری حسینایں تم پر جان چھڑکتی ہے اور تم ہوکہ ان سے جان چھڑانے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہو ، گر تمہیں ان لڑکیوں میں زرا سے بھی دلچسپی نہیں ہے تو ان کو منہ ہی نہ لگایا کرو خوامخواہ ہر دوسرے دن کوئی نںئ حسیںنہ ہمارے گروپ میں گھسنے کی کوشش کرتی ہے اور جوں ہی تم ان سے مسکرا کر بات کرتے ہو وہ بے چاری تمہیں اپنا باۓفرینڈ سمجھنے لگ جاتی ہے۔ ہر دوسری حسیںنہ کا یہی خیال ہوتا ہے کہ وہ تم سے دوسروں کی نسبت زیادہ قریب ہے۔”
سلمان نے آہ بھری۔
،
” کیونکہ میرے یار گر میں ان لڑکیوں سے مسکرا کر بات نہ کروں تو ان کا دل ٹوٹ جائیگا اور جن لڑکیوں کا دل توڑا جاتا ہے وہ دل توڑنے والوں کی ہڈیاں تڑوادیتی ہیں اور مجھے اپنی ہڈیاں کافی سے زیادہ عزیز ہیں۔ اب کلاس میں چلو اپنے کمزور دماغ پر زیادہ زور نہ ڈالو۔”
شاہ ذر نے سلمان کے سر پر چپت لگائ تھی ۔وہ بس سر ہلا کر رہ گیا۔
*****
وہ جوں ہی دفتر میں داخل ہوئ عائشہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
،
” آج موسم کو اس انداز میں انجوائے کیا جا رہا ہے۔”
عائشہ کا اشارہ اس کے گیلے کپڑوں کی طرف تھا ۔ اس کی بات پر زرمین کو پتنگے لگ گئے۔
” دماغ خراب ہوگیا ہے تمھارا۔ مجھے بارش کے موسم سے انتہائ نفرت ہے اول تو گھر سے نکلنا ہی محال ہو جاتا ہے اور اگر گھر سے نکل بھی جاؤ تو سڑک پر جا بجا موجود کیچڑ سے لبا لب گڈھوں کو دیکھ کر مجھے اپنی قسمت پر رونا آتا ہے۔نجانے کونسی منحوس گھڑی تھی جب وہ عیاش بائیک سوار کی بائیک کا منحوس پہییہ اس گڈھے پر سے گزرا تھا۔ اس سے قبل کہ میں اپنا بچاؤ کر پاتی پلک جھپکتے ہی سارا کیچڑ مجھ پر آگیا۔
اگر وہ شریف ہوتا تو اول تو گڈھوں پر سے بائیک اتنی تیز رفتاری سے نہ چلاتا دوم فرض کرلیا کہ وہ جلدی میں تھا اسلیے بے دھیانی میں اس سے یہ بھول ہوگئ مگر کسی راہ چلتے پر کیچڑ اچھالنے کے باوجود معزرت کرنا تو دور اسنے مڑ کر دیکھنا تک گوارہ نہ کیا حالانکہ میں نے اسے آواز بھی دی تھی۔ مگر اللّٰہ نے میرے ساتھ دیا اور اسی وقت اس کی بائیک سے ایک نوٹ بک گری ۔میں نے فوراً سے پیشتر اسے اٹھایا اس بدتمیز کے نام کی تلاش میں نظر دوڑائ مگر یقین کرو عائشہ اس میں نام پتہ تو دور سوائے چند عمارتوں کی اسکیچس کے علاؤہ کچھ بھی نہ تھا ۔وہ کسی بھی لحاظ سے اسٹوڈنٹ کی نوٹ بک نہیں معلوم رہی تھی، بس نوٹ بک کے ایک کونے میں کالج کا اسٹیمپ نظر آگیا جو واحد میرے کام کی چیز تھا۔ پھر کیا تھا میں نے رکشا پکڑا اور فوراً سے پہلے وہاں پہنچ گئ چند بائیک سوار گیٹ کہ باہر ہی بائیک روکے کھڑے تھے ان میں وہ بھی تھا ۔ اس کالج کی چمکتی عمارت کے اندر میں ایسی حالت میں داخل ہونے کی ہمت نہ کر پائ ایسی حالت میں اس عیاش کو سبق سکھانا تو دور میری بے عزتی ہوجاتی اسلیے واپس آگئ ۔
بائیک پر سوار ہوکر سڑکوں پر دندناتے پھرنے والے عیاشوں کو کیا خبر کہ سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کیا مسائل ہوتے ہیں۔ خیر میرے کپڑوں کی یہ حالت نہ ہوتی تو نہ بھولنے والاسبق سکھادیتی میں اس بدتمیز کو تم تو جانتی ہو کہ
” زری کوئ کام ادھورا نہیں چھوڑتی۔”
اس نے کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے بات مکمل کی۔
،” ویسے تمھاری داد دینی ہوگی جو تم اس حلیے میں دفتر چلی آئی ۔”
عائشہ نے مسکرا تے ہوئے اس کی کپڑوں کی سمت دیکھا۔
” سنو عائشہ میں ایک ابھرتی ہوئی رپورٹر ہوں مستقبل کے افق پر چمکتا ہوا ستارہ ہوں۔ ہم صحافیوں کے ساتھ اس قسم کے حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ بارش ہو طوفان ہو یا کڑکتی دھوپ خبر لانا ہمارا کام بھی ہے اور مقصد بھی ہمیں یہ ہر حال میں
انجام دینا چاہیے۔کیچڑ تو بہت معمولی سی بات ہے،اگر میں خدا نخواستہ خون میں لت پت بھی ہوجاؤں تب بھی خبر لیے بنا نہیں لوٹونگی۔”
اس نے تقریر پیش کی ۔
“بس بس آج کے لیے اتنی تقریر کافی ہے باقی کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھو۔ زری میری مانو تو زرا زرا سی بات پر ہائپر ( مشتعل) ہونا بند کر دوں میں جانتی ہوں کہ تم صحیح کے ساتھ رہنا چاہتی ہو اور غلط کو روکنا چاہتی ہو اسلیے تم نے صحافت کے پیشہ کو چنا، مگر اس پورے ملک میں غلطی کرکے غلطی نہ تسلیم کرنے والوں کو سدھارنے کی ذمہ داری تمھاری نہیں ہیں۔”
عائشہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
” میری جگہ کوئ اور ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا”۔
زرمین نے منہ پھلا لیا۔
” نہیں تمھاری جگہ کوئ بھی نارمل انسان ہوتا تو سیدھے گھر جاتا اور کیچڑ سے نجات حاصل کرتا مگر ہم دونوں جانتے ہیں کہ تم نارمل نہیں ہوں تم ایک جنونی رپورٹر ہو ۔سچ کی علمبردار “۔
عائشہ کی بات پر وہ دونوں ایک ساتھ ہنس پڑیں۔
” اب جلدی سے جاکر اپنا حلیہ درست کرو۔”
عائشہ کی بات پر اسنے اثبات میں گردن ہلادی۔
******
وہ سیٹی بجاتا ہںو گھر میں داخل ہںوا۔اچانک ہںی اسے اپنی سیٹی اور قدم دونوں ہںی کو بریک لگا نا پڑا تھا۔
گھر کے سبھی افراد داںٔنیگ ٹیبل کے اطراف اپنی اپنی نشست پر براجمان اسی کی طرف متوجہ تھے سواۓراشد صاحب کے۔
” عالیہ اس سے کہہ دو یہ گھر ہںے کوںٔی ہوٹل نہیں،جوجب مرضی ہںو گھر میں “کوئی ” داخل ہںو اور جب مرضی ہںو گھر سے نکل جائے۔
یہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہںے اور اس گھر کے ہر فرد کا یہ فرض ہیں کہ وہ اس فعل کو اسی وقت انجام دے جب اسے ہںونا چاہںٔیے”۔
راشد صاحب کی بات پر عالیہ بیگم نے اپنی گردن یوں جھکالی جیسے یہ طعنہ انہیں کو مارا گیا ہںو۔
“سوری ڈیڈ”۔
وہ سرعت سے اپنی نشست پر بیٹھ گیا ۔گویا وہ جانتا ہی نہ ہںوکہ “کوںٔی” کا لفظ کس شخص کےلیے استعمال کیا گیا ہے۔اس کےلیے تو یہ روزانہ کا معمول تھا۔
حسب معمول اشعر رات کے کھانے کے بعد اس کے کمرے میں داخل ہںوا۔شاہ زر بخوبی واقف تھا کے وہ کیا کہنے آئے ہیں۔اس کے قریب بیٹھتے ہںی اشعر نے شاہ ذر کے ہاتھ سے سمارٹ فون چھین لیا۔
“افوہ!بھاںٔی اب کیا ہںوگیا گیم کھیلنے میں کوںٔی خرابی ہںے کیا”؟
وہ چڑ ساگیا۔
“سنو شاہ ذر تمہیں اس گھر میں جتنی آزادی حاصل ہںے اس کا صحیح استعمال کرنا سیکھو۔تم بخوبی واقف ہںو کے ڈیڈ کو تمھارا سب سے آخر میں گھر آنا قطعاً پسند نہیں ہںے ۔وہ گھر کے سبھی افراد کے ساتھ کھانا کھانا پسند کرتے ہیں۔ باوجود اس کہ تم روزانہ دیر سے کیوں آتے ہںو”۔
“بھاںٔی آپ تو جانتے ہیں کہ فرینڈس کے ساتھ دیری ہںو جاتی ہںے۔
ایسے میں ڈیڈ کو اتنا ماںٔینڈ کرنے کی کیا ضرورت ہںے۔اس گھر کے سارے افراد واقف ہںے کے میں روزانہ ڈنر کرکے گھر لوٹتا ہںوں،اس کے باوجود ڈیڈ کی خوشی کی خاطر سب کے ساتھ کھانے میں شریک ہںوتا ہںوں۔مگر ڈیڈ کو یہ سب دیکھاںٔی ہںی نہیں دیتا انہیں میری فکر ہی نہیں ہے۔ ان کا مقصدحیات بس یہی ہے کہ میں وقت پر گھر آؤں ،مسٹر پرفیکٹ کی طرح اٹھوں، بیٹھوں اور بس ۔
میں ایک بات کلیر کردینا چاہتا ہوں کہ مجھے مماز بوائے( mama’s boy )کی طرح رات 9 بجے ہی گھر پہںنچ کر سو جانا قطعاً پسند نہیں ہے۔”
اشعر اس کی بات پر کھل کر مسکرایا تھا۔
سنو شاہ ذر،ڈیڈ کو تمھاری فکر ہںے بلکہ یوں کہاں جاسکتا ہںے کہ ڈیڈ کو سب سے زیادہ تمھاری ہی فکر ہںے۔
انہیں ہمہ وقت یہی ڈر لگا رہتا ہںے کے تم بری صحبت میں نہ پڑ جاؤ۔تم جانتے ہںوں کے ہماری فیمیلی میں تمھارے سبھی کزنس تمھارے ساتھ ہی پلے بڑھے ہیں مگر ان میں سے کسی ایک کے بھی عادات واطوار تمھارے جیسے نہیں ہیں۔یہی وجہ ہںے کہ ڈیڈ تمھارے لیے پریشان رہتے ہںے۔”
“او گاڈ بھاںٔی آپ تو سیرس ہںو گںٔے۔بعذ اوقات مجھے لگتا ہںے کے آپ کی مسٹر پرفیکٹ والی امیج کی وجہ سے میری کول امیج خراب ہںوتی جارہی ہںے۔باۓ گاڈ بھاںٔی میں آپ کی طرح نہیں بن سکتا۔”
شاہ ذر نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
“تمہیں مسٹر پرفیکٹ بننے کی کوںٔی ضرورت نہیں ہںے ۔تم جیسے یہ ہںو ویسے ہی ٹھیک ہںو ۔میں سمجھ سکتا ہںو تم لاںٔف کو انجواۓ کرنا چاہتے ہںو بس تمہیں اپنی حدوں کا خیال ہںونا چاہںیے”۔
اشعر اپنے سابقہ انداز میں گویا ہںوا۔
“Ok Brother
میں کل سے جلدی گھر آنے کی کوشش کرونگا۔اب تو موڈ میں آجائیے۔آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں”۔
اس نےڈرنے کی ایکٹینگ کی تھی۔
“میں تم سے ناراض ہںو سکتا ہںوں بھلا”۔
اشعر نے اسکے بال بگاڑتے ہںوۓ کہا۔
“Ok Good Night
صبح ناشتے کےلیے وقت پر پہنچ جائیےگا”۔
شاہ زر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اشعر نے کمرے سے نکلتے ہںوۓ مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
“میری بلی مجھی کو میاؤں”۔
اور شاہ ذر قہقہ مار کر ہنس پڑا۔
******”
راشد صاحب کے والد آرمی آفیسر تھے۔ راشد صاحب کے علاوہ ان کے اور تین بیٹے تھے۔اسد آفریدی،ماجد آفریدی،اور وقار آفریدی۔ابھی راشد صاحب بیس برس کے بھی نہ ہوئے تھے کہ ایک سڑک حادثہ میں ان کے والد اور والدہ خالق حقیقی سے جا ملے۔
کم عمری میں ہی سب سے بڑا ہونے کے ناتے ساری زمہ داریوں کا بوجھ ان کے کاندھوں پر آن
پڑا ۔ آرمی آفیسر بننے میں انہیں دلچسپی نہ تھی ۔ان کا رجحان بزنس کی طرف تھا۔ دولت کی کمی نہ تھی اسی لیے انہوں نے بزنس میں تقدیر آزمانے کا فیصلہ لیا۔
نہایت ہی کم عرصہ میں اپنی انتھک محنت کی بدولت وہ کافی کامیاب بزنس مین بن گئے۔ان کے بعد ان کے تینوں بھائیوں کی تعلیم ، شادیاں پھر بچے الغرض زندگی کے کئ ماہ وسال مصروف و پر سکون گزر گئے۔ اور اب راشد صاحب اور ان کے تینوں بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ” آفریدی ولا” میں رہائش پذیر ہیں۔
راشد صاحب زندگی نظم وضبط اور اصولوں کے ساتھ گزارنے کے قائل تھے۔ اور اس کی جھلک اس گھر میں صاف دکھائی دیتی تھی۔ یہ عادت انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔
” آفریدی ولا” میں ہر کام وقت کے حساب سے انجام دیا جاتا۔گھر کی سبھی خواتین آپس میں مل جل کر رہتیں۔گھر کا ہر فرد پنج وقتہ نمازی تھا ۔سوائے شاہ زر کہ۔
شاہزر راشد صاحب کا دوسرا بیٹا ہے۔وہ راشد صاحب کی شادی کے آٹھ سال بعد دنیا میں آیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ راشد صاحب سمیت گھر کے دوسرے افراد اسے دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ محبت کرتے تھے۔ راشد صاحب کا خیال تھا کہ بے جا لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیاہے۔
راشد صاحب اور شاہ زر کی شخصیت میں تضاد تھا۔شاہ زر آزاد خیال تھا نظم و ضبط اور اصولوں کے ساتھ زندگی گزارنا اسے پسند نہ تھا۔ سوائے شاہ زر کے گھر کے باقی لڑکوں نے کم عمری سے ہی اپنے آبائی بزنس میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا تھا۔ سبھی اپنی اپنی جماعت کے ذہین طلباء میں سے تھے۔
اس کے بر عکس شاہ زر بچپن ہی سے کھیل کود اور ڈھیر سارے دوست بنانے کا شوقین تھا۔بزںس سے بھی اسے کوئ لگاؤ نہ تھا۔جب بھی اس سے بزنس میں ہاتھ آزمانے کا مشورہ دیا جاتا وہ پڑھائی کا بہانہ بنا لیتا۔
اس کی شخصیت کے بگاڑ کا ذمہ دار راشد صاحب کچھ حد تک خود کو بھی گردانتے تھے۔اس صورت حال میں بھی انہیں امید تھی کہ ایک نہ ایک دن وہ سدھر جائے گا۔
*****
وہ روز کی نسبت وقت سے پہلے دفتر پہنچ گئ۔حسب توقع عائشہ حیران ہوئ تھئ۔
” آج سورج مغرب سے طلوع ہوا ہے کیا؟”
” ہم م.. م …میں نے سوچا کیوں نہ آج جلدی پہنچ کر دفتر کی رونق بڑھائ جائے۔”
اس نے کالر سے نادیدہ گرد جھاڑتے ہوئے کہا۔
” بس کرو اب زیادہ اتراؤ نہیں ۔سنو کل کے اخبار میں راشد صاحب کی کامیابی کا خاص الخاص ذکر کرنا ہے چونکہ تم سر زیدی کی خاص رپورٹر ہو اسی لیے انہوں نے اس نہایت ہی اہم آرٹیکل کی ذمہ داری بھی
تمہیں سونپی ہے۔”
عائشہ نے اس کو کمپیوٹر کی اسکرین کی طرف متوجہ کیا جہاں ایک تصویر اور راشد صاحب کے متعلق کچھ معلومات جگمگا رہی تھی۔
” اوہ! تو یہ جناب ہیں راشد صاحب شکلاً تو کافی مہذب اور بارعب معلوم ہوتے ہیں۔”
اسنے بغور راشد صاحب کی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“ہاں تم نے بلکل درست اندازہ لگایا،راشد صاحب اس شہر کی سب سے مشہور ہستیوں میں سے ہیں۔
اور جانتی ہو ان کا بڑا بیٹا کافی ہینڈسم اور مہذب ہے ۔اشعر آفریدی ، مسٹر پرفیکٹ ان کا دوسرا نام ہے۔”
عائشہ نے راشد صاحب کی تعریف چھوڑ سیدھے ان کے بیٹے پر چھلانگ لگائی۔
” راشد صاحب کے بیٹے کے کامیاب اور ہینڈسم ہونے کا تم سے کیا تعلق ہے ۔تم اس قدر کیوں چہک رہی ہو۔ وہ تو شادی شدہ ہے ناں۔”
اس نے عائشہ کو حقیقت کا کڑوا جام پلایا۔
” تم نا زری جب بھی بولتی ہو فضول ہی بولتی ہو ۔اللہ نہ کرے میں کسی شادی شدہ مرد کے متعلق سوچوں، اگر سوچنا ہی ہے تو میں راشد صاحب کے چھوٹے بیٹے شاہزر آفریدی کے متعلق سوچونگی۔وہ تو لاکھوں میں ایک ہے۔”
عائشہ نے چہک کر کہا۔
” اب یہ موصوف کون ہیں۔؟” زری نے ناک چڑھائی۔
” کیا تم شاہ زر آفریدی کو نہیں جانتی؟”
عائشہ صدمہ کے مارے چیخ پڑی۔ ”
مجھ سے کونسا ایسا جرم سرزد ہو گیا جو تم چیخ رہی ہو۔”
” اللّٰہ تم پر رحم کرے زری، اس شہر میں ہوتے ہوئے اور تو اور ایک لڑکی ہوتے ہوئےشاہ زرسے انجان رہنا جرم ہی ہے ۔وہی تو ہے ہزاروں دلوں کی دھڑکن ،رفتار کا بادشاہ،کراٹے چیمپیئن،Indian institute of business میں سب سے زیادہ مقبول شاہ زر آفریدی۔ لڑکیاں دیوانی ہیں اسکی ۔ بائیکس ریس میں اب تک کوئ اسے ہرا نہیں پایا یے۔”
عائشہ شاہ زر کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر ہی رہی تھی کہ حسین ان کی ڈیسک کے قریب آگیا ۔
” اوہ ، اچھا عائشہ تو کیا تم زری کو یہ نہیں بتاؤگی کہ وہ ایک عیاش آوارہ صفت لڑکا ہے ۔وہ اپنے بھائی اور باپ کی عزت کو پانی میں ڈوبونے پر بضد ہے۔
ہر ہفتے نئ لڑکی کو ساتھ گھمانا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے تم یقین نہیں کروگی زری کہ اس کالج کی دو لڑکیاں ایک دوسرے سے اس قدر نفرت کرنے لگی تھی کہ ایک نے دوسری کو زہر دے کر جان سے مار ڈالنے کی تک کوشش کی تھی اور اسکی وجہ تھا شاہ زر۔ اکثر اوقات شاہ زر کے گروپ اور دوسرے گروپ کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی خبریں سننے میں آتی ہیں۔اس انسٹیٹیوٹ کے پرنسپل ،اساتزہ سبھی کالج کے بگڑتے ماحول کو لیکر فکرمند ہیں ۔راشد صاحب اس انسٹیٹیوٹ کے ٹرسٹی ہیں۔ ان کی عزت و رتبے کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی غلطیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔”
” یہ بیڈ پبلیسیٹی bad publicity ہے ۔وہ لوگ جلتے ہیں اس کی شہرت سے اسی لیے اس کے خلاف ایسی افواہیں اڑاتے ہیں ۔”
حسین کی تقریر کے دوران گردن جھکا کر بیٹھی عائشہ منہ ہی منہ میں بد بدائ اس کی بات پر زری نے اسے گھورا تھا۔
” میں مانتی ہوں کہ راشد صاحب شریف النفس اور عزت دار شخصیت ہیں جبکہ انکا بیٹا انکے بلکل برعکس ہے ۔کالج کے اساتذہ اور پرنسپل کو چاہیے کہ اسے اپنی والد کی نیک نامی کا ایڈوانٹیج لینے کا موقع نہ دیں ۔ یہ دوسرے اسٹوڈنٹس کے ساتھ ناانصافی ہے۔اگر اس سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو اسے بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو باقی اسٹوڈنٹس کے لیے مقرر ہے۔”
وہ پرجوش ہوکر بولی۔
” تم صورت حال کو سمجھ نہیں پا رہی ہو ۔ راشد صاحب کے بہت احسانات ہیں اس شہر پر یہاں پر بسے لوگو ں پر۔ایک شخص جو ہر گھڑی دوسروں کی مدد اور فلاح کے متعلق سوچتا ہے ان کی مدد کرتا ہے ایسے شخص کے بیٹے کی غلطیوں کو نظر انداز کر دینا ہی بہتر ہے۔
وہ کالج اس کے کئ افراد راشد صاحب کے قرض دار ہیں۔وہ لوگ ان کے احسانوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔انکے بیٹے کی غلطیوں کو نظر انداز کر یہ لوگ ان کے احسانوں کے بوجھ کو اتارنے کی سعی کررہے ہیں۔ ”
حسین کی بات پر وہ خاموش ہو گئی۔وہ جانتی تھی حسین ایک سمجھ دار لڑکا ہے ۔
وہ اکثر اوقات اسے دنیا کے طور طریقے زمانے کی اونچ نیچ کے متعلق سمجھایا کر تا تھا۔حسین کا خیال تھاکہ وہ ایک جزباتی لڑکی ہے جو معمولی باتوں پر جوش میں آجاتی ہے وہ کافی حد تک درست بھی تھا۔
*****
پورے آدھے گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد گھر پہنچتے ہی اسنے دائی ماں کو اپنا منتظر پایا۔اسے دیکھتے ہی وہ کھل اٹھیں۔
“آگئ میری چڑیا اب جلدی سے ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھا لو ،آج تمھاری پسندیدہ آلو کی سبزی اور پوریاں بنائ ہیں میں نے۔”
“دائی ماں آپ نے کھانا کھا لیا۔؟”
اس نے سوال کیا۔
“نہیں میری بچی میں نے سوچا تم آجاؤ گی تب ساتھ ہی کھائیں گے۔”
دائی ماں نے نظر چراتے ہوئے کہا۔انہیں ڈر تھا کہ وہ ناراض ہو جائے گی۔
” اف ! دائی ماں آپ اس قدر لا پرواہی کیوں برتتی ہیں اپنے کھانے کو لیکر ،آپ جانتی بھی ہیں کہ وقت پر کھانا نہ کھانا آپ کی صحت کے لیے مضر ہے۔
اپنی صحت کی کوںٔی فکر نہیں ہںے آپ کو۔روزانہ میرے انتظار میں وقت کیوں ضاںٔع کرتی ہیں آپ”۔
“جب تک میری چڑیا کھانا نہیں کھاۓگی میری حلق سے نوالہ کیسے اترے گا”۔
دائی ماں نے حسب معمول باتیں بنانا شروع کردیں۔
انکی ضد کے آگے وہ ہار مان چکی تھی۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی کل کاںٔنات تھیں۔وہ محض پانچ سال کی تھی جب اس شہر میں کسی وبا کے پھیل جانے سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے اور ان
میں زرمین کے والدین بھی شامل تھے۔دائی ماں زرمین کے گھر کی سب سے پرانی ملازمہ تھی۔انہیں گھر کے فرد کی طرح ہںی عزت واحترام دیاجاتا تھا۔زرمین کے ماں باپ کی ناگہانی موت کے بعد اس کے خاندان کے کسی بھی فرد نے اسکی پرورش کےلیئے ہاتھ نہ بڑھایا ۔ان حالات میں دائی ماں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
اس کے والدین متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ اپنی بیٹی کے لئیے بینک میں چند لاکھ روپوں کے علاوہ کچھ نہ چھوڑ سکے۔دائی ماں نے وہ پیسہ زرمین کی پرورش اور پڑھائی میں استعمال کیا۔
زندگی کو بہتر بنانے کی خاطر دائی ماں دوسروں کے گھروں میں بطور خانساماں ملازمت کیا کرتی تھیں۔زرمین کو ان کا دوسروں کے گھر ملازمت کرنا پسند نہ تھا۔اسی لیے پڑھائی مکمل ہوتے ہی اس نے جاب کر لی اور دائی ماں کو کام کرنے سے روک دیا۔اور اب وہ اپنی دائی ماں کے ساتھ حیدرآباد کے گنجان آبادی والے چھوٹے سے علاقہ میں اپنے دو کمروں پر مشتمل گھر میں رہائش پزید تھی۔
***
وہ دفتر سے باہر نکلی ہی تھی دفعتا اسکی نظر سڑک کے کنارے کھڑی Lamborghini پر پڑی۔اسکی بھنویں تن گئیں۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہںوئے کار کےنزدیک پہنچی۔
کار کی کھڑکیاں بند تھیں۔اندر کوئی دھیمی دھیمی میوزک کے ساتھ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔
اس نے کھڑکی کی کانچ کو پیٹ پیٹ کر اندر براجمان شخص کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔”Excuse me Mister کیا آپ کے علم میں نہیں ہںے کے جہاں No parking کا بورڈ لگاہںوا ہںو وہاں گاڑی کھڑی کرنا ممنوع ہںے”۔
اس نے باآواز بلند کہا۔مگر مخالف پر اسکا کوئی خاص اثر دیکھائی نہیں دیا۔کھڑکی ہنوز بند تھی۔کار میں بیٹھے اس شخص کی اس حرکت پر اسکا خون کھول اٹھا ۔اتنا تو وہ سمجھ ہںی چکی ہیں تھی کے وہ قصدا اسےنظر انداز کررہاہںے۔
“آپ کو میری بات سنائی نہیں دے رہی یہ آپ سننا نہیں چاہ رہںے”۔
اس نے پوری جان سے کھڑکی کو پیٹ ڈالا۔قریبا پانچ منٹ بعد کار کی کھڑکی ذرا سی کھلی تھی اور اس جھری میں سے پانچ سو کا نوٹ باہر آیا تھا۔
“اس پانچ سو کے نوٹ کو ہںوا میں لہرانے کا کیا مطلب ہںے”۔
وہ چٹخ کر بولی۔
“کون stupid ہںے جو بھری دوپہر میں Disturb کررہاہںے۔”
کار کی کھڑکی پوری طرح سے کھل چکی تھی،ڈرائیونگ سیٹ پرلیٹنے کے انداز میں بیٹھے ہںوئے شخص نے اپنے چہرے سےپی کیپ ہٹاتے ہںوئے اکتاہٹ سے کہا۔
سیکینڈ سے بھی کم وقت لگا تھا اسے مقابل کو پہچاننے میں۔
“اوہ!تو یہ آپ ہیں۔اگر مجھے خبر ہںوتی کےآپ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہیں، تو میں کھڑکی کا شیشہ پیٹنے کے بجائے توڑنا بہتر سمجھتی۔
کیونکہ میں جانتی ہںوں کہ آپ اونچا سنتے ہیں”۔
زرمین نے تنفر بھری نگاہ سے اسے دیکھا۔
“یوں تو مجھے شہر کی کافی لڑکیاں جانتی ہیں۔مگرآپ ان سب سے مختلف ثابت ہںوئی ہیں۔
کیونکہ انہیں تومحض میری خوبیوں کا احساس ہںے لیکن آپ پہلی لڑکی ہیں جسے مجھ میں خامی نظر آئی ہںے۔ویسے آپ کو کب اندازہ ہںوا کے میں اونچا سنتا ہںوں”۔
اس نے طنزیہ لہجے میں استفار کیا۔
“میں آپ کے سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی۔میں آ پ سے محض ایک سوال کرنا چاہتی ہںوں کے راہ چلتے راہگیروں پر کیچڑ اچھالنا ، No Parking Area میں گاڑی پارک کرنا اس کے علاوہ اور کون کون سے شوق رکھتے ہیں آپ”؟
زرمین کی بات پر مقابل کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
“اوہ!تو وہ آپ ہیں۔
تو اس روز میری گستاخ بائیک کے ذریعے
اچھالے ہںوئے کیچڑ کا شکار آپ ہںوئی تھیں۔
دراصل اس روز اس قدر موسلادھار بارش میں سڑک پر جا بجا موجود گڈھوں کا اندازہ لگانا ناممکن تھا۔ایسے میں جونہی میری بائیک گڈھے سے گزری کیچڑ ہںوا میں اچھلا اور آپ اس کے زد میں آگئیں۔
عموماً ایسی حالت میں مجھے آپ سے سوری کرنا چاہیے تھا، لیکن آپ ہی بتائیں ایسا کرنے سے کیا آپ کے کپڑے صاف ہںو جاتے؟ نہیں نا؟
خوامخواہ آپ کا اور میرا وقت برباد ہںوتا اس لیئے میں اپنے راستے ہںو لیا۔اس روز میں کافی جلدی میں تھا۔
یہی وجہ تھی کہ نہ تو میں رکا اور نہ ہی مڑ کر آپ کی طرف دیکھا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اونچا سنتا ہںوں یا اس روز میں نے آپ کی آواز نہیں سنی تھی”۔
اس کا انداز قابلِ دید تھا۔وہ جل کر رہ گئی۔
“آپ کے طرزِ تخاطب سے تو آپ مہذب معلوم ہںوتے ہیں۔اپنا ہی نہیں دوسروں کا وقت برباد نہ ہںو اس کے متعلق بھی سوچتے ہیں اور اتنا ہی نہیں آپ کے خیالات بھی کافی مختلف ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہےکہ آپ No parking zone میں گاڑی پارک کرکے نیند کے مزے لوٹنا پسند کرتے ہیں۔
مگر میں آپ کو یاد دلادوں کہ یہاں گاڑی پارک کرنا قانوناً جرم ہںے”۔
زرمین نے برداشت کی حدوں کو چھوتے ہںوئے کہا۔
“اطلاع دینے کےلئے شکریہ میں ٹرافک رولز سے بخوبی واقف ہںوں۔قانون تو بنتے ہی ہیں توڑے جانے کے لیے۔
قانون توڑنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہںے۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہںے کہ غیر قانونی پارکنگ کا جرمانہ سو دو سو روپئوں سے زیادہ نہ ہںوگا اور
میری شرافت تو دیکھیں میں جرمانہ ادا کرنے کےلئے تیار بھی ہںوں مگر آپ قبول نہیں کررہیں
غالباً آپ یہاں کی ٹرافک حوالدار نہیں ہیں۔”
اس نے طنزاً زرمین کواوپر سے نیچے دیکھتے ہوئے کہا۔
اسکی بات سنتے ہی وہ طیش میں آگئی۔
” غالباً نہیں یقیناً میں ٹرافک حوالدار نہیں ہںوں اگر ہںوتی ”
تو آپ فوراً سے پیشتر یہ نوٹ میرے ہاتھ سے چھین لیتی۔”
اس نے زرمین کا جملہ بیچ سے ہی اچک لیا۔
” کسی سرکاری ملازم کو سرعام رشوت دیتے ہوئے آپکو شرم نہیں آتی”۔
زرمین نے افسوسناک لہجے میں کہا۔
“جب انہیں رشوت لینے میں شرم نہیں محسوس نہیں ہوتی تو مجھے دینے میں کیوں آئےگی”۔
اس نے اور بھی افسوسناک لہجے میں کہا۔
“اس سے قبل کہ آپ مجھے قانون کے متعلق مزید معلومات فراہم کریں، میں آپ کو بتادوں کہ مجھے کہیں پہنچنا ہںے اگر میں اسی طرح آپ سے محوگفتگو رہا تو یقیناً late ہںو جاؤنگا۔مگر سچ کہوں تو آپ جیسی شخصیتوں کو دیکھکر احساس ہوتا ہے کہ ملک کی ترقی میں کن لوگوں کا ہاتھ ہے۔Good bye “۔
پیشانی تک اپنا ہاتھ لےجاکر دو انگلیوں سے سلوٹ کا اشارہ کرتے ہوے وہ اپنی کار زن سے اڑا لے گیا۔
وہ صبرو تحمل کا مجسمہ بنی کھڑی رہ گئ۔
****
اگلی صبح وہ جیسے ہی دفتر پہنچی بغیر کسی سے بات کیئے وہ کچھ لکھنے میں مصروف ہو گئی۔
قریبا 15 منٹ بعد عائشہ کی قوت برداشت جواب دے گئی۔
” یہ علی الصبح کونسا جنون سوار ہے تم پر۔ کیا لکھ رہی ہو ہمیں بھی تو پتہ چلے۔”
اس کہ جواب میں زرمین نے اسے گزشتہ واقعہ من وعن سنا ڈالا۔اس کی زبان کے ساتھ ساتھ قلم بھی تیزی سے چل رہی تھی ۔
قریبا آدھے گھنٹے کے بعد آرٹیکل کو اختتام تک پہنچا کر اس نے ٹھنڈی سانس لی۔
” ہمارے ملک میں یہ سب بہت عام ہو گیا ہے زری ۔چھوٹے ملازمین سے لیکر بڑے عہدوں پر فائز افسران تک رشوت خور ہیں۔ ملک کے ہر کونے میں کرپشن کا بول بالا ہے۔اور ان سبھی کا ایمان خراب کرنے میں سب سے اہم رول ان رئیس زادوں کا ہوتا ہے۔”
عائشہ نے تاسف سے کہا۔
“محض اظہار تاسف سے کچھ نہیں بدلے گا ۔ان رئیس زادوں کو سبق سکھانے کا بیڑہ کسی نہ کسی کو اٹھانا ہی ہوگا تو کیوں نہ ہم ہی اسکا آغاز کریں۔مجھے یقین ہے اس قسم کی خبروں کے ساتھ ان رئیس زادوں کی تصویر ہی کیوں نہ چھپ جائے انہیں کوئ فرق نہیں پڑے گا البتہ ان کے والدین کو بہت فرق پڑےگا۔سوسائٹی میں اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیئے یہ لوگ کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔
اس لیئے اول تووہ اپنے عیاش بچوں کی لگا م کسینگیں۔ ”
اس نے موبائل عائشہ کی آنکھوں کے سامنے لہرایا کسی کار کی نمبر پلیٹ کی تصویر کو دیکھ عائشہ چیخ پڑی۔
“یہ تصوير تم نے کب کھینچی “۔
”زری کوي کام ادھورا نہیں چھوڑ تی۔“
وہ فاتحانہ انداز میں مسکرائی۔
صبح کے ۱۰ بجے اپنی نیند پوری کر کے وہ کمرے سے باہر نکلا تبھی اس کی نظر ہال میں لگے مجمع پر پڑی مجمع کی توجہ کا مرکز تھی “مزنی”۔ مزنی شاہ ذر کے چھوٹے تایا اسد آفریدی کی چھوٹی بیٹی تھی ۔ شاہ ویز اور شاہ میر کی پیدائش کے پانچ سال بعد وہ دنیا میں آئ تھی۔وقار آفریدی کے دو بیٹے ہیں زین اور مدثر جبکہ ماجد آفریدی کا اںک ہی بیٹا ہے شارق۔ اسد آفریدی کے علاوہ ان کے کسی بھی بھاںٔی کی حصے میں بیٹی نام کی نعمت نہ آئی تھی۔ چنانچہ مزنی گھر بھر کی لاڈلی تھی۔اس کی بات کبھی ٹالی نہیں جاتی ۔یوں تو وہ سبھی کزنس کے لیے خاص تھی ،مگر شاہ ذر اور مزنی کو ایک جان دو قالب کہا جاتا تھا۔جیسی انڈرسٹینگ مزنی کی شاہ زر کے ساتھ تھی ویسی کسی اور کزن کے ساتھ نہ تھی۔
سارے گھر کی لاڈلی ہونے کے باوجود وہ ان سب سے دور ہاسٹل میں رہ کر اپنی پڑھائی مکمل کر رہی تھی کیونکہ مزنی کی بچپن سے لیکر جوان ہونے تک ایک ہی خواہش تھی ،اور وہ تھی ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کرنا ۔اس گھر میں اس کی ہر خواہش منہ سے ادا ہونے سے قبل ہی پوری کر دی جاتی۔ اس کا خیال تھا کہ سوائے ہاسٹل کی زندگی کہ وہ تقریبا سب کچھ experienceکر چکی ہے۔ اور اس کی اس ضد کے آگے آفریدی ولا کے مکینوں کو ہار ماننا پڑی تھی۔
اس کی خواہش ایک طرف اور گھر والوں کی محبت ایک طرف تھی۔ جب بھی سب سے دوری برداشت کے باہر ہوجاتی وہ فورا سے پیشتر گھر پہنچ جاتی۔
” اسلام وعلیکم بھاںٔی کیسے ہیں آپ ؟”۔
شاہ زر کو اپنی سمت آتا دیکھ وہ کھل کر مسکرائ ۔
“فرسٹ کلاس ,،تم اپنی سناؤ۔”
وہ بالوں میں انگلیاں پھیرتا مزنی کے عین مقابل صوفہ پر بیٹھ گیا۔
“آپ سب کے بغیر میرا بلکل
من نہیں لگتا وہاں , بے انتہاں یاد آتی ہے آپ سب کی۔”
اس نے منہ لٹکا کر کہا۔اس کی بات پر سبھی خواتین کی آنکھیں آنسوؤں سے لبالب بھر گئیں۔اس کےبر عکس سبھی مرد حضرات نے بمشکل اپنی بے ساختہ ہنسی روکی تھی۔
“مزنی اول تو تم ہر چوتھے روز یہاں حاضر ہوتی ہںو۔
دوم ان چار دونوں کے درمیان تمھاری تائیوں کے چکر تمھارے ہاسٹل کی طرف لگتے رہتے ہیں۔مجھے تو لگتا ہے یہ آمد و رخصتی کا کھیل کھیلنا ہی تمھارا مقصد تھا اسی لیے تم نے گھر سے محض چند کلومیٹر کی دوری پر واقع ہاسٹل ہی کا انتخاب کیا۔”
شاہ زر کی بات پر سبھی خواتین کھسیا گئیں مگر مزنی پر اس کا کوئ اثر نہ ہںوا۔ اس نے شرمندہ ہںونا سیکھا ہی نہ تھا۔
” اور سناؤ زین فون تو کرتا ہںے نہ بلاناغہ تمہیں”۔
مزنی کا منہ پھلا دیکھ کر شاہ زر نے بات بدل دی۔
” آپ کو مجھ سے زیادہ زین کی فکر لگی رہتی ہے ۔”
زین کے ذکر پر مزنی جھینپ گئ۔زین اور مزنی کی بات بچپن ہی سے طئے تھی ۔اسی لیے تایازاد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مزنی کا منگیتر بھی تھا۔گذشتہ کچھ ماہ سے وہ بزنس کے سلسلہ میں مللک سے باہر تھا۔
” اس بے چارے کی فکر تو ہوگی نا اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے جارہا ہے ۔تم سے شادی کرنےکی ہمت کرنا کوئ عام بات تو نہیں ہے۔”
شاہ زر نے اسے مزید چڑھایا۔
“اس کی بات پر مزنی نے اسے کشن دے مارا جسے کمال مہارت سے کیچ کر لیا گیا ان دونوں کی نوک جھونک پر سبھی افراد ہنس دئیے ۔
****