’’جی! لڑکا کہاں ہے؟ اسے بھی بلوا دیجیے ہمیں دیر ہو رہی ہے۔‘‘ ایک گھنٹے میں امی نے کوئی دسویں بار یہ خواہش ظاہر کی تھی اور لڑکے کی ماں ہر بار کی طرح اس بار بھی پہلو بدلنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔
’’جی جی! دکان سے اُٹھ کر آنا تھا، میں نے کہا بھی تھا کہ مت جائو مگر شہباز بھی دن ضائع نہیں کرتا، بڑا محنتی ہے میرا بیٹا۔ کہنے لگا کہ جب مہمان آئیں تو فون کر دیں، میں آ جائوں گا۔ بس آنے والا ہو گا۔ اے زویا! بھائی کے نمبر پر فون کر کے پوچھو تو سہی کب تک آ رہا ہے؟‘‘ لڑکے کی والدہ کا لمبا چوڑا بیان جاری ہوا تھا ساتھ ہی انہوں نے اپنی دختر نیک اختر کو بھی مخاطب کیا۔
’’جی… جی… کیا کہا…؟‘‘ بیٹی صاحبہ والدہ ماجدہ کے فرمانِ شاہی سے یکسر انجان تھی اور کیوں نہ ہوتی محترمہ کی ساری توجہ اندر داخل ہونے کے بعد تو محترم عمر صاحب کی طرف مبذول تھی اور گاہے بگاہے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پاکستانی ہیروئنوں کو بھی شرمانے کی مات دے رہی تھی۔
’’واٹ از اے اسٹینڈر…‘‘ مریم کا حلق تک کڑوا ہو گیا ایک بے حد غصیلی نگاہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس عمر پر ڈالی، جو اس محترم کے مقابل راجہ اندر بنا بیٹھا تھا۔
’’کمینہ… اپنی اوقات دکھانے سے باز نہیں آئے گا…‘‘ اس کا دل جل کر خاک ہونے لگا۔
’’اے لو… میں نے کہا تھا کہ بھائی کو فون ملا اور پوچھ کب آ رہا ہے وہ۔‘‘ لڑکی فوراً سولہویں صدی کی ہیروئن کی طرح سر ہلاتی ایک مسکراتی نگاہ عمر پر ڈالتی باہر گئی تھی۔
مریم نے خاصی بیزار نگاہ لڑکے کی والدہ ماجدہ پر ڈالی۔ پتا نہیں باقی لوگوں کا کیا تجربہ تھا مگر اسے تو یہ فیملی انتہائی چیپ، اجڈ اور جاہل سی لگ رہی تھی اور یہ والدہ صاحبہ تو شکل سے ہی تیز طرار خاتون لگ رہی تھیں۔
’’بس کیا کروں ہمارا شہباز شرمیلا بھی تو بہت ہے نا۔ ایسے معاملات میں بڑا جھجکتا ہے۔‘‘ لڑکے کی والدہ نے مسکرا کر بیان جاری کیا تو لڑکے کی بھابی جو وہیں براجمان تھیں ان کے تیور بدلے اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑائیں۔ کسی کے خاک پلے نہ پڑا۔ بس تاثرات سے مریم نے یہی اندازہ لگایا کہ محترمہ ساس کے فرمان سے متفق نہیں اور اپنی ناپسندیدگی منہ بنا کر بڑبڑاہٹ کی صورت ظاہر کر رہی تھیں۔
مریم اس عام سے کمرے میں عام سے سجے سازو سامان کو دیکھ کر خاصی بیزار ہو چکی تھی۔ کہاں اس کی نرم و نازک سلجھی ہوئی نفیس عادات و اطوار کی نہایت پڑھی لکھی بہن اور کہاں یہ عام سے بھی کم درجے کے لوگ۔ اسے غربت سے انکار نہیں تھا وہ خود ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی فیملی تھی مگر لوگوں کا اخلاق و کردار اور سلیقہ و طریقہ بھی کوئی معیار ہوتا ہے، جس بیٹھک نما کمرے میں وہ لوگ اس وقت براجمان تھے۔ اس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ گویا مہینے بعد صفائی نصیب ہوتی ہو گی اس کو۔
تبھی اس زویا نامی لڑکی کے ساتھ ایک لڑکا اندر داخل ہوا تھا۔ لمبا قد، خاصا بھاری جسم اور لمبی مونچھوں والا چہرہ۔ مریم منہ کھولے حیرت سے اس ’’نیو انٹری‘‘ کو دیکھ رہی تھی۔
’’السلام علیکم!‘‘ خاصا شرما کر اس کے اور امی کی طرف دیکھ کر وہ اب ابو اور عمر سے ہاتھ ملا رہا تھا۔
مریم نے سختی سے منہ بند کر لیا۔ وہ اب آنکھیں پھاڑے صرف لڑکے کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ چہرے پر بڑی بڑی مونچھوں کے علاوہ موٹی موٹی سرخ آنکھیں بھی تھیں۔ اس کے ذہن میں اپنی سوہنی سی فوزیہ آ گئی۔
کہاں وہ فوزیہ پھولوں کی ڈالی کی مانند لچکیلی پیاری اور کہاں یہ موٹا تازہ گھنی مونچھوں اور سرخ آنکھوں والا بدمعاش ٹائپ مرد۔ اسے اپنی سوچ سے ہی جھرجھری آ گئی تھی۔
’’ہائے امی! ہم کیا اس بدمعاش کو دیکھنے آئے ہیں؟‘‘ اس نے امی کے کان میں سرگوشی کی۔
’’چپ…‘‘ انہوں نے گھور کر اسے دیکھا، اس نے منہ بنا لیا۔
یہ اس کی ماں کی اضافی خوبی تھی کہ وہ خامیاں ہمیشہ اپنی اولاد میں ہی دیکھتی تھیں۔ باقی تو ساری دنیا ہی انہیں بے عیب نظر آتی تھی۔ کوئی بھی موقع ہو وہ اپنی ہی اولاد کو جھڑک دیتی تھیں۔ خاص طور پر ان موقعوں پر مریم کو ان کی یہ خوبی سراسر نا انصافی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے خاصی بگڑی صورت لیے ابو اور پھر عمر کی شکل دیکھی، وہاں بھی واضح ناگواری تھی۔ مریم کو اپنا دل کچھ ٹھہرتا محسوس ہوا۔
’’چلو کوئی تو میرا ہم نوا بھی ہے نا۔‘‘ اُس نے خود کو تسلی دی۔
’’یہ میرا بیٹا شہباز ہے۔‘‘ لڑکے کی والدہ نے کہا۔
’’کیا یہ لڑکا ہے؟ میرا مطلب ہے جن کو دیکھنے ہم آئے ہیں یہ وہی شہباز صاحب ہیں؟ حیرت ہے، میں تو سمجھی تھی کہ یہ کوئی چچا یا کوئی بڑے بھائی ہوں گے۔‘‘ وہ شروع ہو چکی تھی لڑکے کی بہن، ماں اور وہ لڑکا خود جزبز ہو گیا تھا مگر امی بھی پہلو بدل کر رہ گئی تھیں، انہوں نے اسے گھور کر دیکھا بھی تھا مگر اسے کب پروا تھی جبکہ اس کی بات پر عمر کے ہونٹوں پر ایک دم مسکراہٹ مچلی تھی۔
’’کیا مطلب ہے آپ کا جی! یہی ہمارے بھائی شہباز ہیں۔‘‘ عمر کی مسکراہٹ پر وہ زویا نامی لڑکی خاصا بُرا مان گئی تھی، مریم کے دل پر گویا ٹھنڈ سی پڑ گئی تھی۔
’’کیا ایجوکیشن ہے آپ کی بیٹا!‘‘ دوسرا سوال ابو کی طرف سے ہوا تھا۔
’’اس نے خیر سے ایم اے…‘‘
’’ایم اے نہیں خالی میٹرک کیا ہوا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ ابو کے جواب میں لڑکے کی والدہ ماجدہ غلط بیانی کرتیں اس لڑکے کی بھابی فوراً بولی تھیں۔ نجانے بیچاری نے کس جنم کا بدلہ لیا تھا۔ لڑکے کی ماں، بہن اور خود لڑکا حیرت سے اپنی بھابی کو دیکھ رہے تھے۔ انہیں شاید اپنی بھابی سے اتنی دیدہ دلیری کی توقع نہ تھی۔
’’او مائی گاڈ…‘‘ مریم تو حیرت سے گنگ رہ گئی تھی۔
’’مگر ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ لڑکا ماسٹرز کر چکا ہے۔‘‘ ابو نے ہی کہا تھا۔
’’جی رشتہ کروانے والی نے جھوٹ بول دیا ہو گا؟‘‘ مریم انہیں یہ نہ کہہ سکی کہ ابھی وہ خود جھوٹ بولنے والی تھیں اگر ان کی بہو درمیان میں نہ بولتی۔ ابو نے عمر کو اور اس نے ابو کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ ’’اب بولو۔‘‘
’’آج کل میٹرک کو کون پوچھتا ہے، ہمیں تو ایم اے ہی بتایا گیا تھا، آج کل تو جمعدار کی پوسٹ کے لیے بھی کم از کم بی اے لوگ آ رہے ہیں۔‘‘ اس نے غصے سے کہا تو امی نے جہاں اسے گھور کر دیکھا تھا، وہیں عمر ہنس دیا تھا۔ ابو محض دیکھ کر رہ گئے، ان لوگوں کی غلط بیانی پر مریم کاری ایکشن اتنا غلط بھی نہ تھا۔
’’معاف کرنا بیٹی! جب اتنے ہی اچھے رشتے مل رہے تھے تو کوئی بی اے پاس ہی دیکھ لیتیں۔‘‘ لڑکے کی والدہ کے جواب پر ایک منٹ کو تو سبھی ہکاّبکا رہ گئے تھے۔
’’دیکھیں خاتون! ناراض ہونے کی ضرورت نہیں، اصولی بات ہے تعلیم حسب نسب یہ سب دنیاوی معیار ہیں، اصل چیز تو انسان کا کردار اور اخلاق ہے۔ ہمیں یہی بتایا گیا تھا کہ بچے (لڑکے) کی تعلیم ماسٹرز ہے اور ہم اسی لیے آئے تھے۔‘‘ خاتونِ خانہ کی ناراضی پر ابو جی نے رسانیت سے کہا تو وہ پہلو بدل کر رہ گئیں۔
’’مگر وقت کے بدلتے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم کی اہمیت سے انکار بھی تو نہیں کیا جا سکتا چچا جان!‘‘ عمر نے کہا تو مریم کو لگا اس کے سینے میں ٹھنڈ پڑ گئی ہے۔ لڑکے اور اس کی بہن کے زاویے بڑی بُری طرح بدلے تھے جبکہ لڑکے کی بھابی خوش نظر آ رہی تھیں۔
’’بیٹا! آپ کیا کاروبار کرتے ہیں؟‘‘ ابو جی نے براہِ راست لڑکے سے پوچھا جبکہ اس کی اماں پہلے ہی تیور بدل چکی تھیں بھنا کر بولیں۔
’’کیوں آپ لوگوں کو رشتہ کروانے والی خالہ نے کچھ نہیں بتایا؟‘‘
’’بتایا تو اس نے بہت کچھ ہے، جس طرح تعلیمی معیار میٹرک ہو سکتا ہے، کپڑے کی پانچ ذاتی دکانوں کے مالکان سے کرائے کی دکان کے مالک نکل آئیں تو؟‘‘ مریم نے پھر خاصا بھنا کر کہا تھا۔ اب کے امی ابو ایک طرف عمر نے بھی اسے گھورا۔
’’تم چپ نہیں رہ سکتیں؟‘‘ امی نے فوراً لتاڑا تھا۔
’’یہ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ ہماری کوئی پانچ دکانیں نہیں ہیں، صرف ایک ہی کپڑے کی دکان ہے جو یہ اور میرے میاں مل کر چلاتے ہیں۔ آپ کو رشتہ کروانے والی نے جو بھی معلومات دیں وہ غلط دی ہیں۔ ہمارا ایک ذاتی گھر ہے، رشتہ کروانے والی میرے میاں کے تایا کے گھر آتی جاتی ہے۔ ہاں ان کا بیٹا ماسٹر ہے اور ان کی پانچ ذاتی دکانیں ہیں۔ ہو سکتا ہے ادھر کی غلط معلومات ادھر منتقل ہو گئی ہوں۔‘‘ لڑکے کی بھابی نے بڑی سہولت سے ساری صورتحال واضح کی تھی اور امی اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئی تھیں۔ ان کا جی چاہا کہ خالہ خیرن ان کے سامنے آ جائے تو وہ اس کو اچھی خاصی سنا کر فارغ کریں۔
’’چلیں غلط فہمی ہی سہی مگر غلط بات تو ہوئی نا؟ بیٹیوں کے والدین ضرور ہیں ہم مگر معلومات تو درست فراہم کرتے۔ خدانخواستہ کسی کی بیٹی برباد ہو جائے رشتہ کروانے والیوں کا کیا جاتا ہے وہ تو پیسے لے کر ایک طرف ہو جاتی ہیں۔ بہت غلط بات ہے یہ تو…‘‘ عمر خاصی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
’’تو ہم نے کون سا جھوٹ بولا ہے، رشتہ کروانے والی نے ادھر سے اُدھر لگائی بجھائی کی ہو گی، اپنا پیسہ کھرا کرنے کو۔‘‘ عمر کے جواب پر لڑکے کی والدہ ہاتھ نچا کر گویا ہوئیں تو اس نے غصے سے انہیں دیکھ کر امی اور پھر ابو کو مخاطب کیا۔
’’امی ابو چلیں اب… بہت دل گھبرا رہا ہے میرا یہاں۔‘‘ وہ اب ایک پل بھی ایسے لوگوں میں بیٹھنے کی روادار نہ تھی، ایک دم اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
’’بہن جی! کہا سنا معاف کریں، رشتہ ہونا نہ ہونا مقدروں کی بات ہے۔ دل پر مت لیجیے گا، اجازت دیجیے اب ہمیں۔‘‘ ابو کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوئے تو امی اور عمر نے بھی ان کی تقلید کی۔ وہ فوراً اپنی چادر درست کرتے باہر نکل آئی تھی تبھی عمر باہر نکلا تو لڑکے کی بہن بھی انگلیاں مروڑتی پیچھے تک آئی تھی۔ مریم نے کھا جانے والی نظروں سے دونوں کو دیکھا۔
’’لگتا ہے بہت موڈ خراب ہو چکا ہے محترمہ کا۔‘‘ وہ قریب آ کر بولا تھا۔
وہ بُری طرح خار کھائے ہوئے تھی اوپر سے اس لڑکی کا عمر کے ساتھ رویہ، وہ اندر تک جل بھن گئی تھی۔
’’بات نہیں کرو مجھ سے۔‘‘ وہ آواز دبا کر پھنکاری تھی، عمر مسکرا دیا اور بغور اسے دیکھا۔ وہ سرخ چہرہ لیے خاصے غصیلے انداز میں اسی طرف دیکھ رہی تھی، جہاں امی، ابو، لڑکے کی والدہ اور بھابی سے الوداعی کلمات کہہ رہے تھے، قریب ہی وہ لڑکی کھڑی تھی جو اَب بھی عمر کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے گویا آنکھوں ہی آنکھوں میں نثار ہو جانے کا ارادہ ہے، عمر نے سٹپٹا کر مریم کو دیکھا، وہ خاصے تیکھے تیور لیے متوجہ تھی۔
’’غصہ تمہیں ان لوگوں پر تھا تو مجھ ناتواں پر کیوں اُتار رہی ہو۔‘‘ اُس نے پھر چھیڑا۔ وہ ایک سلگتی نگاہ ڈال کر امی ابو کے قریب آنے پر ان کے ساتھ گھر سے باہر نکل آئی تھی۔ جبکہ عمر بھی ایک گہری سانس خارج کرتا پیچھے ہو لیا تھا۔
’’کیا ضرورت تھی یہ سب بکواس کرنے کی۔ ذرا بھی ماں باپ کی پروا نہیں۔ جو دل میں آتا ہے بول دیتی ہو، اسی لیے تو میں تمہیں کہیں بھی ساتھ لے جانے کے حق میں نہیں ہوتی۔ ایک دوسرے لوگوں کی لڑکیاں ہیں ماں کی آنکھ کا اشارہ سمجھ جاتی ہیں، جدھر ماں کھڑا کر دے کبھی اولاد ہلتی تک نہیں۔ ایک میری اولاد ہے مرتی مر جائوں پر کسی پر اثر تک نہیں ہوتا۔‘‘ امی کی برداشت بس ان لوگوں کے گھر سے نکلنے تک تھی، ارد گرد کی پروا کیے بغیر ایک دم برس پڑی تھیں کہ اس نے منہ بنا کر ابو اور پھر قریب آتے عمر کو دیکھا۔
’’کیا ہو گیا ہے؟ وقت اور جگہ تو دیکھ لیا کرو۔‘‘ ابو نے ٹوکا تو امی نے زبان دانتوں تلے دبا لی۔ عمر نے اس کے آنسو دیکھے تو ایک دم ترس سا آ گیا۔ وہ اتنی غلط بھی نہ تھی اسے خود ان لوگوں کی دروغ گوئی پر غصہ آ رہا تھا نجانے کیسے برداشت کیے بیٹھا رہا تھا۔
’’کچھ نہیں ہوتا چچی جان! سب لڑکیاں اس عمر میں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ویسے بھی یہ لوگ تھے ہی کم لیول کے اخلاقی تنزلی کا شکار۔ مریم کا رویہ اتنا غلط تو نہیں، مجھے تو حیرت ہو رہی ہے رشتہ کروانے والی نے بھی کیا جھوٹ بولا؟ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔‘‘ اس کی مثال پر ابو ہنس دئیے تھے۔ وہ جو منہ بنائے کھڑی تھی وہ بھی مسکرا دی۔
’’کیا کریں بیٹا جی! لوگوں کی جھوٹی نمود اور نمائش نے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔جھوٹ، لالچ نے اصل اقدار بھلا دی ہیں لوگوں کو۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے، آج کل کے دور میں ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھا جا رہا ہے اور ہم جیسے سفید پوش لوگ اپنا بھرم رکھنے کے چکر میں نجانے کیا کچھ سہہ جاتے ہیں۔ قحط الرجال پڑ گیا ہے اصل میں، اصل سچے اور حقیقی لوگ نایاب ہو گئے ہیں بیٹا جی! کیا کریں یہی المیہ ہے ہمارے اس دور کا۔ جو جتنا جھوٹا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہے آج کے دور میں، دنیا اسی کو کہتے ہیں، چلنا پڑ رہا ہے اس دنیا کے ساتھ۔‘‘ ابو سنجیدہ ہو کر بولے تو پھر دل کی بات کہتے چلے گئے۔ ان کے لہجے میں ایک تھکن سی آ ٹھہری تو اس دُکھ نے امی اور عمر کے ساتھ ساتھ مریم کے دل کو بھی آ لیا۔
’’چلنا نہیں، اسی سڑک پر کھڑے رہنا ہے کیا؟‘‘ مریم کی آواز پر ابو نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
’’آپ لوگ رُکیں، میں رکشا کا بندوبست کرتا ہوں۔‘‘ عمر کو بھی فوراً اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا تھا۔ وہ اپنی بائیک پر ہی تھا، جبکہ یہ لوگ رکشا میں آئے تھے۔
’’تمہیں پہلے ہی بہت تکلیف دی بیٹا! تمہیں تو اپنے کسی ضروری کام سے بھی جانا تھا؟ بہت وقت ضائع کر دیا تمہارا، فکر نہیں کرو ہم چلے جائیں گے۔‘‘ ابو نے منع کیا۔
’’تکلیف کیسی؟ حق بنتا ہے آپ کا… میں بھی آپ کا اتنا ہی بیٹا ہوں جتنا وقار ہے، میں رکشا دیکھتا ہوں۔‘‘ وہ ابو کا کندھا تھپتھپا کر چلا گیا۔
’’بڑا لائق بچہ ہے ماشاء اللہ۔‘‘ امی کے لہجے میں ایک حسرت سی تھی، ابو اور مریم چونکے۔
’’اللہ ترقی دے، بہت سعادت مند ہے۔‘‘ ابو ہنس دئیے تھے جبکہ مریم نے بغور امی کو دیکھا۔
’’آپ بھائی صاحب سے بات تو کریں، اتنے عرصے سے ہم خوار ہو رہے ہیں۔ سو گھر چھاننا پڑ رہے ہیں، ماشاء اللہ سمجھدار ہے، نوکری کرتا ہے اچھا کما رہا ہے۔‘‘
ہم نے بھی تو بھائی صاحب کی عندلیب لی ہے، وہ ہمارا بھی خیال کریں۔‘‘ امی کے لہجے میں عجیب سا تاثر تھا، ابو ایک دم سنجیدہ ہو گئے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...