ادھر گاوز میں تھرار ہی تھا بد نہادوں سے
ادھر اہل مدینہ بے خبر تھے ان ارادوں سے
وہی اک ملہمِ صادق، وہی اک دیدہ بینا
اسی کا قلب تھا جس پر تھا سارا حال آئینہ
اسے معلوم تھا آغاز و انجام اس چڑھائی کا
اس کا دل تھا جس میں درد تھا ساری خدائی کا
وہ سب کچھ جانتے ہیں جو اماں دیتے ہیں جانوں کو
خبر ہوتی ہے خونی بھیڑوں کی گلہ زبانوں کو
رسول اللہ نے اک دن مسلمانوں کو بلوایا
بٹھایا مسجدِ نبوی میں سب کو اور فرمایا
کہ دو جانب سے اٹھ کر جنگ کا طوفان آتا ہے،
قریشی فوج آتی ہے، ابو سفیان آتا ہے
ابو سفیان پلٹ آیا ہے لے کر شام کی دولت
قبائل میں یہ زر تقسیم کر دینے کی ہے نیت
اٹھائے گا قبائل کو تمہارے سر پہ لائے گا
مدینے پر قیامت ڈھائے گا فتنے اٹھائے گا
ادھر مکے سے لشکر چل چکا ہے لڑنے مرنے کو
تمہارے دین و امن صلح کے برباد کرنے کو
اٹھے ہیں اہل مکہ تاخت و تاراج کی خاطر
چلا آتا ہے باطل حق سے استمزاج کی خاطر
حلیفوں میں تمہارے ہیں یہودی اور کافر بھی
حمایت میں مسلمانوں کی ہیں کمزور و لاغر بھی
کرو قطع نظر اس سے کہ ان کا دین ہے کیسا
کہ دین و مذہب و ملت میں ہے اکراہ نازیبا
وہ عربانی بلندی پر ہیں یا پستی میں بستے ہیں
تمہارے دامنوں میں امن کی بستی میں بستے ہیں
بہت لوگ طرز غیر جانبدار رکھتے ہیں
بچارے بال بچے رکھتے ہیں گھر بار رکھتے ہیں
مدینے پر ہوا حملہ تو گھبرائیں گے بیچارے
جفا و ظلم کی چکی میں پس جائیں گے بیچارے
مسلمانوں پہ لازم ہے حمایت ان حلیفوں کی
مبادا آبرو بگڑے شریفوں کی ضعیفوں کی
قریش مکہ کی یورش کا باعث صرف مسلم ہیں
کہ اب تک باوجود ضعف، دین اللہ پہ قائم ہیں
وہ حق سے پھیر لینا چاہتے ہیں تم کو جبریہ
تمہیں پہ فرض ہے اس یورش بے جا کا دفعیتہ
اگر چہ مفلس و نادار ہو تعداد میں کم ہو
قریش مکہ سے سامان میں افراد میں کم ہو
مہاجر بے وطن ہیں بے نواز کچھ بھی نہیں رکھتے
غریب انصار بھی دل کے سوا کچھ نہیں رکھتے
سواری اور ہتھیاروں کی حالت بھی نہیں اچھی
گھروں میں بعض بیماروں کی حالت بھی نہیں اچھی
مسلمانوں مگر اس راہ میں اللہ کافی ہے
جہاد فی سبیل اللہ میں اللہ کافی ہے
تمہارا عندیہ کیا ہے لڑیں یا بند ہو بیٹھیں
چلیں میدان میں یا شہر کے پابند ہو بیٹھیں