سورج نے زرا دیر پہلے بادلوں سے اپنا سر نکال کر پورے شہر کو مندی مندی آنکھوں سے دیکھا تھا۔اسکی سفید اور روپہلی کرنوں میں اب بھی آدھا شہر سویا معلوم ہو رہا تھا ۔ایسے میں سحر خیزی کی عادت والے لوگ اس میونسپل پارک میں چہل قدمی میں مصروف تھے ۔ان میں وہ بھی کانوں میں ائیر فون ٹھونسے، ہلکی جیکٹ کا ہُڈ سر پر چڑھائے جاگنگ ٹریک پر معمول سے دھیمی رفتار میں دوڑنے میں مشغول تھا۔پنڈلی کا زخم قدرے مندمل ہو چکا تھا ۔ان دنوں اسکی پوری توجہ صرف اپنے کام پر تھی۔کیس اسنے پروسیکیوٹر عبدالقیوم کے ہاتھوں میں چھوڑا ہوا تھا ۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس پر اسے جتنا کام کرنا تھا وہ کر چکا تھا اب مزید اس میں کچھ اضافہ کرنا اسکے بس سے باہر تھا۔اس وقت اسکی گہری بھوری آنکھوں میں بے حسی تھی۔جو اسکا ساتھ چھوڑ چکے تھے وہ ان لوگوں کی طرف کبھی مڑ کر نہ دیکھنے کا تہیہ کر چکا تھا۔وہ ایسا ہی تھا۔دیکھنے والوں کو وہ شاید بے نیاز یا بے حس لگا کرتا ہو مگر حقیقت یہی تھی کہ وہ کھونے کا دکھ دنیا پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا ۔اسے یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ ان لوگوں کے بغیر بھی زندگی گزار سکتا ہے ۔ورنہ سچ تو یہ تھا کہ اپنے آفس جانے پر پیشانی پر گرے بالوں والی لڑکی کی چمکتی آنکھیں اسے پریشان کئے رہتیں۔وہاں سے پریشان ہوتا تو اسٹیڈیم کی طرف چلا جاتا اور اسے اسٹیڈیم کی سیڑھیوں پر بیٹھے دو کم عمر لڑکے دکھائی دیتے جو اپنے سامنے ٹفن باکس کھولے اس میں سے کچھ کھا رہے ہوتے۔پھر خالی سیڑھیاں اسے احساس دلاتیں کہ اب افہام اسکی زندگی میں کہیں نہیں تھا۔وہاں کی وحشتوں سے گھبرا جاتا تو کار کا رخ بے اختیار شہر کی آبادی کو چھوڑ کر کچے راستے کی طرف ہو جاتا۔نشیب میں واقع لکڑیوں کے مکان سے کافی فاصلے پر اسکی کار دیر تک پارک رہتی۔ڈرائیونگ سیٹ سے ٹیک لگائے وہ اپنی بھوری آنکھیں وہاں جمائے رہتا۔پھر وہاں سے چلا آتا۔ان تین مقامات کے محور میں گردش کرتی زندگی میں بعض اوقات اسے اتنی اداسی محسوس ہوتی کہ اسکا دل چاہتا کہ وہ ان لوگوں سے چیخ چیخ کر کہے کہ اب بہت ہو گیا چلو واپس چلتے ہیں یا پھر اب وہ تھک گیا ہے ۔ان باتوں کو بھول کر آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔مگر نہ آگے نا پیچھے، زندگی بس وہیں رک گئی تھی ۔انجماد ہر چیز پر طاری ہو گیا تھا۔وقت پر، محبتوں پر اور جذبات پر….اسکا دل چاہتا کہ وہ کچھ دیر کے لئے بھول جائے کہ وہ حسن مجتبٰی ہے جسے آنسوؤں سے نفرت تھی اور ایک دفعہ ہی میں اپنے سارے نقصان پر رو لے۔
وہ دوڑتے دوڑتے لمحے کے لئے رکا۔ پھر سر جھٹک کر اپنے کپکپاتے لب بھینچے اور واپس دوڑنے لگا۔اس دفعہ کوئی اور بھی اسکی رفتار سے رفتار ملاتا ساتھ ساتھ دوڑنے لگا تھا۔دھیمے دھیمے تیز ہوتی سانسوں کے ساتھ وہ اسکے ساتھ دوڑتا جا رہا تھا۔حسن مجتبٰی نے اپنے کان میں لگا ائیر فون نکال لیا مگر رک کر گردن نہیں موڑی۔وہ جو بھی تھا اسکا وہم، گمان یا تصور یونہی اسکے ساتھ قدم سے قدم ملا رہا تھا ۔اسکا تیز ہوتا تنفس وہ محسوس بھی کر سکتا تھا ۔اسنے ایک نظر ساتھ دوڑتے سائے پر ڈالی اور دوبارہ سامنے دیکھنے لگا۔
“میں نے سی ای او کے عہدے سے ریزائن کر دیا ہے ۔” سائے نے خاموشی کا قفل توڑتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔
حسن مجتبٰی نے سر جھٹک کر جیسے اسکی بات کو زرا اہمیت نہ دی ۔
“میں واپس آ گیا ہوں ۔میں وہی ہوں تمہارا پھکڑ دوست جسکے پاس تمہارے علاوہ کوئی نہیں ہے ۔” سائے نے مزید سرگوشی کی مگر وہ یونہی جاگنگ ٹریک پر دوڑتا رہا۔سورج اب پوری طرح طلوع ہو چکا تھا ۔بال پسینے سے بھیگ کر پیشانی تک آ چکے تھے ۔
“اب رک جاؤ یار! میں تھک گیا ہوں ۔”اسکی سانس پھولنے لگی۔حسن مجتبٰی کی بھوری آنکھوں میں تیکھا پن در آیا اور اسنے غصے سے اپنے کندھے جھٹکے ۔
“میں نے بچپن میں اپنی دادی جان سے سنا تھا کہ اگر کوئی تمہارےساتھ جاگنگ کرتے ہوئے معافی مانگے تو اسے معاف کر دینا چاہیے ۔”اسنے ہانپتے ہوئے کہا تو اس دفعہ حسن رک گیا اور اسکے ساتھ دوڑتا افہام بھی رک کر اپنی سانسیں درست کرنے لگا۔
وہ چند لمحے آنکھیں سکیڑے، لب بھینچے اسے دیکھتا رہا ۔اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر افہام دھیرے سے مسکرایا۔مگر اسکے لبوں پر کوئی مسکراہٹ نہیں آئی تھی ۔اسکی بھوری آنکھوں میں غصہ ہلکورے لے رہا تھا ۔
“اتنے پیار سے کیوں دیکھ رہے ہو؟” افہام حیدر نے کہتے ہوئے اپنی مسکراہٹ میں مزید چاشنی شامل کی۔
پیشانی پر پڑے لا تعداد بلوں کے ساتھ حسن ایک قدم آگے آیا تھا اور ایک بھر پور ہاتھ افہام کے سینے پر رسید کیا۔وہ جو اس حملے کے لئے تیار نہیں تھا پیچھے کی جانب لڑکھڑا گیا تھا ۔
” میں نے فزیکل محبت کی اجازت بالکل نہیں دی ہے۔” افہام نے بوکھلا کر اسے دیکھا جسکا غصہ اب تک ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔حسن نے اسکا کالر تھامتے ہوئے ہلکے ہاتھوں سے اسکے کندھے پر مکا مارا۔ پھر وہ لگاتار لب بھینچ کر اپنے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتا اسے مارتا رہا۔اور افہام بالکل خاموشی سے اپنی آنکھوں میں نرمی لئے اسے دیکھ رہا تھا ۔پارک میں ٹہلتے لوگوں حیرانی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔انہیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہو رہی تھی کہ پٹنے والا تو خاموشی سے پٹ رہا ہے مگر مارنے والے کی آنکھوں میں آنسو تھے۔پھر انہیں مزید حیرانی تب ہوئی جب مار کھانے والے شخص نے مارنے والے کو اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔
“مجھے لگا….” حسن نے گہری سانس لے کر سسکیوں کا گلا گھونٹا. “مجھے لگا تھا کہ میں نے تمہیں کھو دیا ہے افہام حیدر!” اسنے بمشکل اپنے الفاظ مکمل کئے اور اسکا ضبط ٹوٹ گیا۔ وہ اسکے کندھے پر اپنی پیشانی جھکائے آنسوؤں کو نہیں روک پایا تھا۔وہ اب بھی نہ روتا تو شاید آنسوؤں کے بوجھ سے اسکا دل پھٹ چکا ہوتا ۔
افہام نے نرمی سے اسکے کندھے تھپکے اور اس سے الگ ہوتے ہوئے اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھا جن میں اب بھی آنسوؤں کے نمکین قطرے چمک رہے تھے ۔افہام کا دل سکڑ کر رہ گیا ۔اسنے اپنے دوست کو رلایا تھا۔وہ اپنے بھائی کی تکلیف کی وجہ بنا تھا۔
“ہم ایک دوسرے کو کبھی کھو سکتے ہیں کیا؟” اسنے کہا ۔وہ بھی اپنی آنکھوں کی نمی نہیں چھپا سکا تھا۔
وہ ایسے ہی تھے۔ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرنے والے اور پاگلوں کی طرح ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے ۔ افہام نے معافی نہیں مانگی تھی نا اسکے سامنے اپنے فعل پر شرمندگی ظاہر کی تھی ۔حسن نے بھی اس سے وضاحت طلب نہیں کی اور نا ہی اس سے کوئی سوال کیا۔کیونکہ ان دونوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ گزر چکی باتوں کو بلا وجہ کریدنے سے خواہ مخواہ دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ انکے لئے بس اتنا کافی تھا کہ انہوں نے اپنے درمیان موجود دوستی کے مقدس رشتے کو واپس پا لیا ہے ۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ دونوں پارک کی بینچ پر بیٹھے تھے اور انکے ہاتھ میں ٹھنڈے جوس کا کین تھا۔
“میں جویریہ آنٹی کو کورٹ میں گواہی دینے کے لئے تیار کرنے کی کوشش کرونگا۔” افہام نے جوس کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے کہا ۔
“وہ نہیں مانینگی ۔وہ میری پھپو ہیں اور میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔”
“اگر تم انہیں کنونس کرو تو شاید مان جائیں ۔”
“تم جانتے ہو کہ وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتیں ۔”اسنے بے دلی سے کہا۔
” تمہیں معلوم ہے وکی۔ بچپن میں ایک دو دفعہ میرے انہیں ممانی کہنے پر انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا اور وہ مجھے حمزہ کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیتی تھیں تب سے مجھے ان سے اور انکے بیٹے سے بہت نفرت ہو گئی تھی ۔وہ تھیں بھی ایسی۔بہت سخت دل سی.. مجھے ان سے خوف آتا تھا ۔لیکن اب میں سوچتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں یا تم انکے غم اور انکی اٹھائی اذیت کو کبھی نہیں سمجھ سکتے ۔کسی اپنے کو اپنی آنکھوں کے سامنے بے دردی سے مرتے دیکھنا اور پھر ساری عمر قاتل کے گھر پر اسکی بیوی بن کر رہنا کتنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے اسکا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ۔وہ ساری عمر بس حمزہ کا خیال کر کے خاموش رہی ہیں ۔اسکے کھو دینے کے خوف سے انہوں نے ماموں کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی ہے ۔انہیں تھوڑا وقت دو۔انہیں یہ سمجھنے کے لئے وقت دو کہ مجرم کو سزا ملنا ضروری ہے ۔”
افہام کے کہنے پر اسنے سمجھ کر اپنا سر ہلا دیا ۔
” مجھے تمہیں کچھ اور بھی دینا تھا۔”افہام نے اپنی جیب سے ایک لفافہ نکالا تھا اور حسن کو وہ لفافہ پہچاننے میں لمحے سے بھی کم وقت لگا تھا۔
” یہ مجھے الماس نے بھیجا تھا ۔اسنے کہا ہے کہ میں تم سے کہوں کہ وہ تمہارے ساتھ اپنی دوستی کے رشتے کو دوبارہ قائم کرنا چاہتی ہے ۔”اسنے لفافہ بڑھایا اور ساتھ ہی الماس کا پیغام پہنچایا۔
اسنے گہری سانس لے کر لفافے کو دیکھا مگر اسے لینے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا ۔
” اسے رکھ لو یار! تمہارا کیس اور زیادہ مضبوط ہو جائیگا۔اور میں صرف اسلئے نہیں کہہ رہا کہ اس سے کیس میں مدد ملیگی بلکہ اسلئے کہ کسی نے بہت مان سے مجھ سے التجا کی ہے کہ میں ٹوٹے اعتبار کے تعلق کو دوبارہ جوڑنے میں مدد کروں۔” اسنے پر زور لہجے میں کہا تو اسنے لفافہ اسکے ہاتھ سے لے لیا تھا۔
” آج شام کو مصروف تو نہیں ہو؟ “حسن نے پوچھا۔جواباََ افہام نے نفی میں سر ہلایا۔
” ممی آج دوپہر کو واپس آ رہی ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ چکن پلاؤ پکائینگی اور پری بھی تمہیں یاد کر رہی تھی۔”
” اور….”
“اور….” وہ لمحے کو ہچکچایا۔”اور آج میں بہت خوش ہوں اسلئے آج کا دن تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ۔” اسنے کہا۔
اسکے اعتراف پر افہام مسکرایا تھا۔” میں آؤنگا ۔اور تمہاری ممی کا چکن پلاؤ کھانے کے لئے میں اپنے مصروف ترین شیڈول سے بھی وقت نکال سکتا ہوں ۔”
تب ہی حسن کا موبائل بجنے لگا۔موبائل پر انابہ کالنگ کے الفاظ نے اسکی بھوری آنکھوں میں روشنی بھر دی۔وہ جوس کے کین کو بینچ پر رکھتا موبائل کان سے لگا چکا تھا ۔افہام حیدر نے اسکے چہرے پر پھیلتے جذبوں کے خوبصورت رنگ اور ہونٹوں پر اتری دلکش مسکراہٹ کو دیکھا ۔
افہام کے دل پر اترا سکون اسکے چہرے سے بھی عیاں تھا ۔ایک بوجھ تھا جو اسنے اپنے دل سے اتار پھینکا تھا۔ایک سچی خوشی کا احساس تھا جو اسے اپنے حصار میں لے رہا تھا ۔وہ ایسا ہی تھا۔جن سے محبت کرتا انکی خوشی میں خوش ہو جاتا۔اسلئے اپنی فطرت کے خلاف فیصلہ کرنے کے بعد وہ زیادہ دن اس پر قائم نہیں رہ پایا تھا۔
انسان خاک سے بنا پتلا ہوتا ہے جو زندگی میں ہزار غلطیاں اور خطائیں کرتا ہے ۔اکثر خود غرضی میں کئی فیصلے لے لیتا ہے ۔غلطی کرنا اتنا غلط نہیں ہوتا جتنا اپنی غلطی پر اڑے رہنا غلط ہوتا ہے ۔غلطی نہ کرنا اچھا ہوتا ہے مگر غلطی کرنے کے بعد اسکا مداوا کرنا بہت اچھا ہوتا ہے۔
– – – – – – – – – – –
کمرہ عدالت میں موت کا سا سناٹا پسرا تھا ۔معزز جج کریم یزدانی کے خلاف فیصلہ سنا کر اٹھ رہے تھے ۔ اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔کٹہرے میں کھڑے کریم یزدانی کا چہرہ سیاہ ہو چکا تھا اور وہ نفرت سے پہلی نشست پر بیٹھے حسن مجتبٰی کو دیکھ رہے تھے ۔
عبدالقیوم نے قریب آ کر اسکا شانہ تھپتھپایا تو حسن نے مشکور نگاہوں سے انہیں دیکھا. انکی بدولت ہی وہ اپنے باپ کے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچا پایا تھا۔انکی وجہ سے انیس سالوں بعد فہد ندیم کو انصاف ملا تھا۔
حسن نے ایک گہری سانس لے کر اپنے ساتھ بیٹھی ماں کے کندھے پر سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں ۔آج وہ خود کو پر سکون اور ہلکا محسوس کر رہا تھا ۔جیسے اسکے اندر برسوں کی جلتی آگ آج ٹھنڈی ہو گئی تھی ۔بائیں جانب بیٹھے افہام نے دھیرے سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ اسکی جانب مڑا۔
“مبارک ہو وکی! آج تمہاری جنگ ختم ہوئی اور اسکا انجام تمہاری فتح پر ہوا ہے ۔”
اسنے بھیگتی آنکھوں سے اپنا سر ہلایا۔”اگر تم نہ ہوتے تو میرے لئے یہاں تک آنا بہت مشکل تھا۔” اسکے لہجے میں افہام کے لئے ازلی محبت تھی۔افہام آہستہ سے مسکرا دیا۔
“دیکھو جویریہ آنٹی تم سے ملے بغیر جا رہی ہیں ۔تم انکے پاس جاؤ میں ثمرین آنٹی کو لے کر گھر چلا جا رہا ہوں ۔” اسنے آخری نشست کی طرف اسکی توجہ مبذول کرائی جہاں سے اٹھ کر جویریہ باہر جا رہی تھی ۔
وہ تیزی سے اٹھ کر باہر کی طرف بڑھا۔
– – – – – – – – – –
وہ تیز قدموں سے چلتی اپنی کار کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں ڈرائیور اسکا انتظار کر رہا تھا ۔وہ اس وقت وکی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔اگر وہ اسکے سامنے آ جاتا تو وہ اپنا سالوں کا باندھا ضبط ایک پل میں کھو دیتی۔اور اس دن کی ملاقات کے بعد وہ اس سے نظریں نہیں ملانا چاہتی تھی۔وہ اسکے بارے میں کیا سوچتا ہوگا؟ اسے یہی لگتا ہوگا کہ اسکی پھپو نے محض اپنے مفاد اور خود غرضی کی وجہ سے اسکا ساتھ نہیں دیا تھا ۔وہ اس دن اپنے اور اسکے درمیان موجود سالوں کے فاصلے کو پاٹنے آیا تھا مگر اسنے کس بے مروتی سے اس سے اپنا کوئی بھی رشتہ نہ ہونے کا اعلان کیا تھا ۔یہ احساس جرم اسے بے چین کئے جا رہا تھا ۔
“پھپو!” یکدم اسنے اپنے عقب سے کسی کی ملائمت بھری آواز سنی۔اسکے قدم زنجیر ہوئے مگر اسنے مڑنے کی کوشش نہیں کی ۔اسنے اسے بالکل اپنے پیچھے محسوس کیا ۔
“پھپو! آپ مجھ سے ملے بغیر جا رہی تھیں؟” اسنے کہا ۔
جویریہ کی آنکھیں بے اختیار نم ہونے لگیں ۔
“یاد ہے آپ نے ایک دفعہ مجھ سے کہا تھا کہ وہ کون سا ایسا دن ہوگا جب آپ میری جیت پر فخر کر پائینگی؟ کیا آج آپ کو مجھ پر فخر محسوس ہو رہا ہے؟” وہ اسے بھولی باتیں یاد دلانے لگا۔
جویریہ نے نمی اب اپنے چہرے پر محسوس کی۔وہ آہستہ سے مڑی اور اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔وہ چھوٹا سا بچہ اب اسکے قد سے بہت اونچا ہو گیا تھا ۔اسنے اپنا کپکپاتا ہاتھ اسکے شانے پر رکھا اور بے حد محبت سے اسکے بازوؤں پر اپنے ہاتھ پھیرے۔اسکے بال جیل کی مدد سے سیٹ کئے ہوئے تھے اور بھوری آنکھیں اس پر جمی تھیں ۔پلین سفید شرٹ اور سیاہ جینز میں وہ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔جویریہ کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔اور اسکے سامنے پھولے پھولے گالوں اور چہرے پر معصومیت کا تاثر لئے دس سالہ وکی ابھرا تھا ۔سامنے کھڑا حسن مجتبٰی اُس وکی سے بہت مختلف تھا۔بس جو واحد چیز ان دونوں میں مماثلت رکھتی تھی تو وہ تھی ان بھوری آنکھوں میں موجود جویریہ کے لئے پر خلوص اور بے ریا محبت۔
“بہت اسمارٹ ہو گئے ہو تم! یاد ہے بچپن میں کتنے گول مٹول سے ہوتے تھے؟” اسنے روتے ہوئے ہنسنے کی کوشش کی اور آنسو اور زیادہ تیزی سے باہر آئے تھے۔
“اگر آج….” آنسو سے الفاظ گیلے ہونے لگے۔”اگر آج بھائی ہوتے تو….” بھیگتے قطروں اور جذبات نے الفاظ کی راہ حائل کر دی ۔” وہ ہوتے تو تمہیں خود سے زیادہ کامیاب دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔”اسنے آنسوؤں سے جنگ لڑ کر الفاظ مکمل کئے۔
“پھپو! آپ خوش تو رہتیں ہیں نا؟ آپ پریشان تو نہیں ہیں؟ آپ کو یزدانی مینشن میں کوئی تکلیف تو نہیں ہے نا؟” اسنے آہستہ سے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا تھا ۔
جواباََ اسنے نفی میں اپنا سر ہلا دیا.
” وکی! “اسنے گیلے لہجے میں اسے پکارا ۔
“جی پھپو!” سعادتمندی سے کہا ۔
” مجھے معاف کر دو میں نے اس دن بغیر کچھ سوچے سمجھے تمہیں بہت برا بھلا کہا تھا اور تم سے ڈھنگ سے بات بھی نہیں کی۔اور میں نے بھائی کو انصاف دلانے کے لئے لڑنے کی کوشش بھی نہیں کی نا ہی تمہارا ساتھ دیا۔”
“معافی تو مجھے مانگنی چاہیے پھپو ۔میں نے آپکی کی سچویشن کا اندازہ لگائے بغیر آپ کو اپنی سائڈ آنے کو کہا اور آپ سے فضول ناراض بھی ہو گیا ۔میں نے یہ سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی کہ آپ میرا ساتھ کیوں نہیں دے رہی ہیں ۔میں خواہ مخواہ اموشنل ہو گیا تھا کہ آپ میرے بجائے اپنے بیٹے کے ساتھ کیوں کھڑی ہونا چاہتی ہیں ۔”اسنے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔
” وکی! ان پرانی باتوں کو چھوڑ کر ہمیں اب آگے بڑھنا چاہیے ۔ان باتوں کو دہرانے سے سالوں کی اذیت ایک ساتھ یاد آ جاتی ہے ۔ویسے بھی ہم نے ایک دوسرے کے بغیر بہت عرصہ گزار لیا ہے ۔اس باقی بچے وقت میں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار وقت گزارنا چاہیے ۔” اسنے کہا تھا۔
اسکی بات پر وکی نے اثبات میں اپنا سر ہلایا اور وہ تھوڑا سا جھکا۔جویریہ نے اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے نرمی سے اسکی پیشانی چومی اور ہمیشہ کی طرح اسکے نرم بالوں پر اپنا ہاتھ پھیرا تھا۔
” میرے ساتھ گھر چلینگی؟ ممی اور پری بھی آپ کا انتظار کر رہی ہیں ۔”
“نہیں۔” اسنے نفی میں سر ہلایا. “حمزہ گھر پر اکیلا ہے۔اتنی جلدی وہ رشتوں کی باریکیوں کو نہیں سمجھ پائیگا۔ہم دونوں کو تھوڑا سا وقت دو۔میں اسے لے کر جلد ہی تمہارے پاس آؤنگی۔”
حسن مجتبٰی نے سمجھ کر اپنا سر ہلا دیا ۔” چلیں میں آپ کو آپ کی کار تک چھوڑ دیتا ہوں ۔”
وہ دونوں دور کھڑی کار کی جانب بڑھ گئے تھے ۔
– – – – – – – –