سورج کی ٹھنڈی کرنیں صحن میں ایک طرف اُتر رہی تھیں دوسری طرف حسنہ چارپائی پر ٹانگیں چڑھائے بیٹھی مٹر چھیل رہی تھی۔۔۔۔سارہ تھکی ہاری دفتر سے لوٹی تھی۔۔۔احسن کی ما ما نے ایک دو دِن میں ہی گھر آنے کو کہا تھا وہ بہت ٹینشن میں تھی جب کے حسنہ صبح سے ہی خوشی میں گنگنائے جا رہی تھی ۔۔ شمع بیگم چندہ دینے نُور بیبی کے آستانے گئی تھیں۔۔۔
اپنی بھونڈی آواز بند کر حسنہ۔۔۔۔سارہ اُس کی مستقل گنگناہٹ سے چڑ گئی تھی۔۔
تم سے کس نے کہا تھا اتنا جھوٹ بولو کہ جھوٹ بھی خود کو سچ سمجھنے لگے۔۔۔آج تو حسنہ کا لہجہ ہی بدلا ہوا تھا۔۔
زبان بہت نہیں چل رہی تمھاری۔۔۔فراز کا رشتا کیا آیا پر پرزے نکل آئے تمھارے۔۔۔۔حد میں رہو سمجھیں نہ۔۔۔سارہ نے سارا غصّہ حسنہ پر نکالا۔۔۔۔
وہ تو صرف زرینہ سے نا امید تھی یہاں تو حسنہ کے تیور بھی بدلے ہوئے نظر آئے۔۔۔۔افّف اب کیا کروں گی میں۔۔۔وہ جلے پیر بلی کی طرح ادھر اُدھر چکر کاٹنے لگی۔۔۔
حسنہ اُسے نظر انداز کیے مٹر چھیلتی رہی۔۔۔۔
جا نم دیکھ لو مٹ گئی دوریاں
میں یہاں ہوں یہاں ہوں یہاں ہوں یہاں۔۔۔۔
وہ اب تیز آواز میں گا رہی تھی۔۔۔جبہی شہلا دروازے کے ساتھ ڈلا پردہ سرکا کر اندر آئی۔۔۔
کیا بات ہے بُہت خوش ہو۔۔۔شہلا نے طنز کیا۔۔۔
ہاں ہوں بہت خوش۔۔۔مگر یہاں تو جلنے والوں کی قطاریں لگ گئی ہیں۔۔۔۔حسنہ واقعی آج دسویں آسمان تک پہنچ گئی تھی۔۔۔۔
مجھ سے لات کھا کر فراز اتنا نیچے گرا کے سیدھا تمھارے صحن میں آ پہنچا۔۔۔۔شہلا بھی کہاں کم تھی۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔۔حسنہ نے حیرت سے اُسے دیکھا سارہ بھی چکر کاٹتے کاٹتے پاس ہی رک گئی۔۔۔۔
مطلب یہ کے جب میں نے بے عزت کر کے گھر سے نکالا تو وہ ماں بیٹا یہاں چلے آئے۔۔۔۔۔
سیدھی طرح بات کرو شہلا ۔۔۔پہلیاں بجھوانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔حسنہ کو غصّہ آیا تھا۔۔۔۔
چلو سنو پھر۔۔۔بس برداشت کر لینا۔۔۔پتہ چلا چھیپا کو بلوانا پڑے۔۔۔۔وہ طنزیہ ہنسی۔۔۔۔
ڈیٹ پر بلایا تھا فراز نے مجھے۔۔۔ پرپوز کیا ۔۔۔رشتا بھیجا۔۔۔اور جب میں نے انکار کیا تو یہاں ۔۔۔یہاں رشتا ڈال دیا۔۔۔۔شہلا نے حقارت سے حسنہ کی شکل دیکھی۔۔۔
سارہ زور سے ہنسی تھی کوئی اور وقت ہوتا تو وہ حسنہ کا ساتھ دیتی مگر آج حسنہ کے رویے نے اُسے بد ظن کر دیا تھا۔۔۔۔۔
فراز اور تم۔۔۔۔
تم نے ہی پھنسایا ہوگا بیچارے کو۔۔۔امّاں ٹھیک کہتی ہیں تمھاری امّاں نے تمھیں پیدا کر کے محلّے میں چھوڑ دیا۔۔۔آوارہ۔۔۔۔گلے میں پھندے کی طرح دوپٹہ ڈالے بال کھول کر گھومنے سے تم کوئی سشمیتا نہیں بن جاؤ گی۔۔۔فراز کو اپنی اداؤں میں پھنسا کر اب بد نام کر تے ہوئے شرم آنی چاہیے۔۔۔۔ حسنہ نے شہلا کے بخیے اُدھیڑ دئیے۔۔۔
بیچارہ فراز۔۔۔۔شہلا کا منہ کھلا۔۔۔
جب شادی کے بعد آدھی روٹی توڑ کر کھانے کو دے گا نہ جب پتہ چلے گا تمھیں ۔۔۔۔ جب گول گپے کے دو ٹکڑے کرے گا نہ۔۔۔ تمھیں شہلا کی باتیں یاد آئیں گی۔۔۔شہلا آدھی چاٹ والا دکھ زندگی بھر نہیں بھول سکتی تھی۔۔
حسنہ کے سر سے شہلا کی باتیں گزر گئیں۔۔۔اُسے اس وقت صرف فراز نظر آ رہا تھا۔۔۔
اُٹھو نکلو یہاں سے ابھی کے ابھی۔۔۔سب جانتی ہوں میں۔۔۔آگ لگی ہوگی تمھیں اور تمھاری امّاں کو۔۔۔اتنا اچھا لڑکا جو مل گیا مجھے۔۔۔۔حسنہ نے اُسے باہر کا راستہ دکھایا۔۔۔۔
جسے تم لڑکا کہہ رہی ہو نہ وہ بتیس سال کا مرد ہے۔۔۔شوق سے کرو شادی ۔۔۔جلتی ہے میری جوتی۔۔۔۔مگر یاد رکھنا آدھی چاٹ کی پلیٹ جب جب سامنے آئے گی نہ تمھیں شہلا ضرور یاد آئے گی۔۔۔۔شہلا تن فن کرتی نکل گئی۔۔۔۔
یہ کیا کہہ کر گئی ہے ۔۔۔فراز سے پوچھنا چاہئے ہمیں۔۔۔سارہ اُس کی باتوں میں اُلجھ گئی تھی۔۔۔۔
چھوڑ اس کمبخت کو۔۔۔دل جلانے آئی تھی بس۔۔۔۔ہضم نہیں ہو رہا ہوگا نا اس سے۔۔۔۔حسنہ کو فراز پر ذیادہ بھروسہ تھا۔۔۔
سارہ نے بھی تائید کی۔۔۔۔
آمنہ کو گھر واپس آئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی عطیہ اور تائی امّاں اوپر ہی چلی آئیں۔۔۔
کیا تحفہ دیا ایاز نے۔۔۔عطیہ نے آنے کا مقصد عیاں کیا۔۔۔
آمنہ کی زبان تالو سے چپک گئی۔۔۔
بتاؤ بھی۔۔۔تائی امّاں سے بھی رہا نا گیا۔۔
جی تائی امّاں وہ ایاز نے ۔۔۔چار لاکھ دیئے ہیں۔۔۔آمنہ نے بات گھما کر بیان کی۔۔۔
ہینننن۔۔۔۔عطیہ اور تائی امّاں کا منہ کھلا رہ گیا۔۔۔
دکھا ذرا جھوٹی۔۔۔عطیہ کو یقین نہ آیا۔۔۔
اتنا پیسہ لے کر کون گھومتا ہے پاگل۔۔۔اکاؤنٹ میں رکھا ہے۔۔۔۔آمنہ نے اُسی کا مذاق اڑایا۔۔۔
کہیں ایاز نے تمھیں اُلو تو نہیں بنایا۔۔۔۔تائی امّاں کو شک ہوا۔۔۔
نہیں نہیں تائی امّاں۔۔۔میں نے خود کہا اُن سے کے اکاؤنٹ میں رکھ دیں حالات ٹھیک نہیں۔۔۔آمنہ نے سب کو مطمئن کروایا۔۔۔
عطیہ کو آمنہ کی قسمت پر رشک آنے لگا۔۔۔ایاز خوبصورت بھی تھا مالدار بھی۔۔۔اور آمنہ سے محبت بھی کرتا تھا ۔۔۔ وہ ایاز کا موازنہ ذیشان سے کر رہی تھی۔۔۔ذیشان اُسے صرف رکشا کے جھٹکے ہی دے سکتا تھا اُس کا دل خراب ہوا وہ واپس زینہ اتر گئی۔۔۔
تائی امّاں کا مزید آمنہ سے پوچھ گچھ کا ارادہ تھا۔۔۔۔
فراز اور حسنہ کی شادی سادگی سے کرنے کا ارادہ کیا گیا۔۔۔
شمس بیگم پھول لئے آئی تھیں۔۔۔فراز بھی ساتھ تھا۔۔۔
آپا بھابیوں کو بھی بتا دیں کیا رشتے کا۔۔۔شمع بیگم خوشی سے نہال تھیں۔۔۔
پاگل ہوئی ہو کیا۔۔۔جل کر راکھ ہو جائیں گی دونوں۔۔۔بس شادی سے دو دِن پہلے دعوت دے دیں گے۔۔جیسے اُنہوں نے آمنہ کی شادی کی دی۔۔۔۔
ہاں مگر بھائی اپنے ہیں اُنھیں ضرور ابھی فون کر کے بتاتی ھوں۔۔۔شمس بیگم نے بھابیوں کو سائڈ لگایا۔۔۔
زرینہ چہرے پر معصومیت سجائے بیٹھی رہی۔۔۔وہیں دل میں خود خبر پھیلانے کا پکّا ارادہ کر لیا تھا سب سے پہلے چھوٹی مامی کو ہی بتانا تھا۔۔۔
حسنہ سر پر گلابی دوپٹہ اوڑھے شرماتے ہوئے ادھر اُدھر گھوم رہی تھی۔۔۔۔فراز نے سانولی رنگت پر گہرے کلیجی رنگ کا کرتا پہنا ہوا تھا۔۔۔شہلا نے اُس کا غرور توڑ دیا تھا۔۔۔جبھي آج اُس کی نظریں حسنہ پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔
مصدق کو زرینہ نے کسی معاملے میں بولنے نہیں دیا تھا۔۔۔مبادا کہیں شادی کے اخراجات کا زمہ ہی نہ مل جائے۔۔۔۔
سارہ ایک طرف پریشان بیٹھی تھی کسی نے اُسے نوٹس نہیں کیا تھا۔۔۔۔وہ اپنی جھوٹ کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھی۔۔۔۔اُس نے احسن کو سچائی بتانے کا فیصلہ کر لیا وہ مزید زرینہ کی خوش آمد نہیں کرنے والی تھی۔۔۔
گلشن کے فون پر ریحان کی آنکھ کھلی تھی ۔۔رات کے ایک بجے گلشن کی آواز سن کر اُس کا دم نکلا تھا۔۔۔گلشن سے پڑنی والی ڈنڈیاں اُسے آج بھی یاد تھیں۔۔۔
سو گئے تھے کیا۔۔۔گلشن کی کرخت آواز نے مزید اُس کے اوسان خطا کیے۔۔۔
نن ۔۔ نہیں۔۔۔۔۔وہ گھبراہٹ میں جھوٹ بول گیا۔۔۔۔
یہ جھوٹ بولنے والی عادت گئی نہیں تمھاری۔۔۔گلشن ابھی بھی وہی گلشن تھی۔۔۔
نن۔۔۔نہیں۔۔۔بس ابھی آنکھ لگی تھی جھوٹ نہیں کہا۔۔۔ریحان اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
تم خوش ہو نہ اس رشتے سے۔۔۔۔عجیب دھمکی آمیز لہجے میں پوچھا گیا۔۔۔۔
ہاں۔۔ہاں خوش ہوں۔۔۔۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بول گیا۔۔۔
اچھی بات ہے۔۔۔۔عمر کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا یوں بھی کچھ ہی سال بڑی ہوں تم سے بس۔۔۔۔گلشن نے جتایا۔۔۔
کچھ سال۔۔۔کم از کم پندرہ سال۔۔۔۔دل کی آواز دل میں ہی رہ گئی۔۔۔
رُخصتی جلدی لو۔۔۔یہی کہنا تھا بس۔۔۔۔حکم دیتی وہ آج بھی ریحان کو اپنی فزکس کی اُستانی ہی لگی جیسے کسی ہوم ورک کی آخری تاریخ دی ہو۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔اس سے آگے کچھ کہنے کی ہمت اُس میں نہ تھی۔۔۔۔
گلشن نے جواب سن کر فون کاٹ دیا۔۔۔۔
ریحان کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔۔۔آگے آنے والی پوری زندگی یونہی تابعداری میں گذرنے والی تھی۔۔۔وہ تکیے میں منہ دیے پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔۔
کون کہتا ہے مرد روتے نہیں۔۔۔۔ریحان کی سسکیوں سے پاس سوئے ذیشان کی آنکھ کھل گئی تھی۔۔۔
آدھی رات کو کیوں زنانیوں کی طرح سسک رہا ہے۔۔۔وہ تپ کر بولا۔۔۔
تو کیا کروں پھر۔۔۔۔ریحان کی ناک سرخ ہو گئی۔۔۔
سو جا فلہال ۔۔۔صبح اٹھ کر کرتے ہیں کچھ۔۔۔بنا مسئلہ جانے ذیشان واپس سو گیا تھا۔۔۔
ریحان کا دل چاہا اُس کا ہی گلا گھونٹ دے۔۔۔۔
احسن ۔۔۔سارہ ہمت کر کے لنچ ٹائم میں اُس کے روم میں چلی آئی۔۔
ہاں آ جاؤ۔۔۔احسن لنچ شروع ہی کر رہا تھا۔۔۔
احسن وہ میرا گھر نہیں۔۔۔۔۔سارہ آہستگی سے بولی۔۔۔
ہاں سارا مجھے پتہ ہے۔۔۔۔احسن نے محبت سے کہا۔۔۔
کیا کیا پتہ ہے آپکو۔۔۔۔سارا کے پسینے چھوٹ گئے۔۔۔۔
تمہارا گھر تو وُہ ہوگا نہ جہاں میری دلہن بن کر آؤ گی۔۔۔احسن کچھ اور ہی سمجھا تھا۔۔۔۔
نہیں احسن میرا کہنے کا مطلب تھا میں ماڈل کالونی میں نہیں رہتی۔۔۔۔وہ گھر ہمارا نہیں۔۔۔میں قائد آباد میں رہتی ہوں پٹریوں کے ساتھ والے علاقے میں۔۔۔۔سارہ نے بمب پھوڑ دیا۔۔۔۔
کیا مطلب سارہ۔۔۔تو وہ گھر۔۔۔۔احسن نے کھانا سائڈ میں کیا۔۔۔
وہ زرینہ بھابی کا گھر ہے۔۔۔۔سارہ کی آنکھوں میں انسو جھلملانے لگے۔۔۔۔