سورج کی روشنی درختوں کی شاخوں میں سے چھن چھن کر زمین پر پڑ رہی تھی-ہر طرف سے پرندوں کے چہچہانے کی آوازوں سے ماحول میں ایک شور برپا تھا-کچھ جنگلی جانور ندی سے پانی پی رہے تھے-سیال اور مارک لکڑیاں جلائے ناشتہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے-مایا خیمے کے پچھلے حصے میں کانوں میں واک مین لگائے ایکسرسائز کرنے میں مصروف تھی-مالا سو کر باہر آئی اور نیناں کی تلاش میں نگاہ دوڑائی جو خیمے میں نہیں تھی اور نہ ہی آس پاس دکھائی دے رہی تھی-وہ کچھ دیر اُسے اِدھر اُدھر تلاش کرتی رہی پھر غصے سے اُس پر دو حرف بھیج کر منہ دھونے لگی-دس منٹ گزر گئے مگر نیناں کو ہنوز غائب پا کر اُسے تشویش ہونے لگی-ناجانے وہ کہاں بھٹک رہی تھی-
مایا پسینے میں شرابور آئی تو مالا دوڑ کر اُس کے پاس پہنچی-وہ اب ٹاول سے اپنا منہ صاف کر رہی تھی-
“نیناں کدھر ہے؟ “- مالا نے انگریزی میں اُس سے سوال کیا-اُس کے لہجے میں بے چینی کا عنصر شامل تھا-
مایا نے ہاتھ روک کر اُس کو دیکھا اور پھر لاپرواہی سے بولی-
“آئی ڈونٹ نو۔۔۔۔”-
وہ کچھ ذیادہ ہی کھڑوس اور نک چڑی تھی-مالا نے دل ہی دل میں اُس پر لعنت بھیجی اور نیناں کو ڈھونڈنے کے لیے خود ہی نکل پڑی-پتہ نہیں وہ ایسے بنا بتائے کہاں چلی گئی تھی-
کچھ دیر اِدھر اُدھر ڈھونڈا مگر اُس کو نیناں کہیں بھی دکھائی نہ دی-اب تو پریشانی سے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے-وہ رو دینے کو ہو گئی-تبھی اُس نے مایا کو اپنی طرف آتے دیکھا-وہ شاید اُسی کے پیچھے آئی تھی-مالا کے جانے کے بعد اُس نے کچھ دیر دونوں کا انتظار کیا لیکن جب وہ نہ آئیں تو وہ اُن کے پیچھے ہی نکل پڑی-وہ جانتی تھی کہ وہ دونوں جنگل میں پہلی بار آئیں تھی اور راستوں کا بلکل علم نہیں تھا-اس لیے اگر گم ہو جاتیں تو اُن کو ہی مصیبت پڑنی تھی-
مایا کو دیکھ کر مالا کو کچھ ڈھارس ہوئی-
“نیناں ملی۔۔۔؟”- مایا نے انگریزی میں اُس سے سوال پوچھا-دھوپ اب تیز ہو چکی تھی-مالا نے اپنے دوپٹے کی مدد سے تھوڑا سا گھونگھٹ نکالا ہوا تھا تاکہ دھوپ چہرے پر نہ پڑے-جبکہ مایا نے دوپٹہ تو لیا نہیں تھا اس لیے وہ ہاتھ کا چھجہ بنائے دھوپ سے چہرے اور خاص طور پر آنکھوں کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی-
“نو۔۔۔۔”- مالا نے پریشانی سے جواب دیا-اُسے نیناں کی اور ذیادہ فکر ہونے لگی-وہ اتنی لاپرواہ تو نہیں تھی کہ بغیر بتائے کہیں چلی جاتی-
مایا نے اُسے اشارے سے اپنے پیچھے آنے کو کہا-وہ دونوں نیناں کو ڈھونڈتی ہوئی کافی دور آ نکلیں لیکن نیناں کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا-مالا تو اب باقاعدہ رونے لگ گئی-
“ڈونٹ وری۔۔۔۔”- مایا نے اُسے تسلی دی-وہ اب خود بھی ٹینشن میں آ چکی تھی-
مایا کا ارادہ اب واپس جانے کا تھا تاکہ وہ مارک اور سیال کو بھی سئچوئشن سے آگاہ کرے-وہ دونوں ایک درخت کے نیچے کھڑی تھیں-مالا نے اپنا ہاتھ درخت کی ایک شاخ پہ رکھا ہوا تھا-وہ دل ہی دل میں نیناں کی خیروعافیت کی دعائیں مانگ رہی تھی-تبھی اچانک اُسے محسوس ہوا جیسے اُسے کے بازو پہ کوئی سافٹ سی چیز رینگ رہی ہو-اُس نے بے دیہانی میں ہی دیکھا تو آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹنے کے قریب ہوگئیں کیونکہ ایک دو تین انچ لمبا سانپ اُس کے بازو کے گرد لپٹا ہوا تھا جو شاید پہلے درخت کی ٹہنی پر تھا اور اُس کا رنگ بلکل درخت کی ٹہنی جیسا تھا اس لیے وہ اُسے نہیں دیکھ پائی تھی-
وہ خوف سے بلکل زرد پڑ گئی-مایا کی بھی نظر پڑ چکی تھی-
“او مائی گاڈ۔۔۔۔”- وہ چلاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہوئی-مایا ساکت کھڑی اپنا بازو دیکھ رہی تھی جس پر سانپ رینگ رہا تھا-اُس میں اتنے ہمت نہیں تھی کہ وہ اُسے دور جھٹک دیتی-چیخیں اُس کی گلے میں ہی دب گئیں-
مایا چلا چلا کر اُسے سانپ کو دور پھینکنے کے لیے کہہ رہی تھی مگر وہ تو جیسے ہر چیز سے بیگانہ ہو چکی تھی-تبھی کسی نے آچانک آکر ایک جھٹکے سے سانپ کو پکڑ کر اُس سے دور پھینکا-مالا کو ایک دم ہوش آیا-
وہ کوئی لڑکا تھا جس نے یہ کیا تھا-مالا آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھ رہی تھی-
“تم ٹھیک ہو۔۔۔؟”- اُس نے اردو میں پوچھا تو وہ بمشکل سر ہلا پائی-
مایا اُس کے پاس آئی-اُس نے مالا کو اپنے ساتھ لگا لیا-وہ بہت ڈری ہوئی تھی جبکہ مالا کا تو کاٹو بدن میں لہو نہیں والا حال تھا-
“تھینک یو۔۔۔”- مایا نے اُس لڑکے کا شکریہ ادا کیا جس پر وہ ہلکا سا مسکرا دیا-اُس کی نگاہیں بے چینی سے مالا کے چہرے پر تھیں جو آنکھیں موندے مایا کے گلے لگی لمبے لمبے سانس لے رہی تھی-
اُس لڑکے کے ساتھ دو اور لڑکے بھی تھے-اُن تینوں نے ایک لکڑی کی مدد سے سانپ کو مارا-
مالا اب کسی حد تک خود کو کمپوز کر چکی تھی-مایا نے اُسے پانی پلایا-وہ لڑکا اب بھی اُس کی طرف دیوانہ وار نگاہوں سے دیکھ رہا تھا-اُسے صرف ایک ہی بات کا انتظار تھا کہ کب وہ اُسے دیکھے گی-
مایا اُسے ساتھ لے کر واپسی کی طرف چل دی-وہ نیم جاں سی اُس کے ساتھ چلنے لگی-یچھے وہ بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا-اُس کی آنکھوں میں عجیب سے تاثرات تھے-تبھی وہ مڑی تھی-دونوں کی نگاہیں ملیں-مالا کی روح تک کانپ اُٹھی-اُس کی آنکھیں بلکل ویسی تھیں جیسی اُس نے خواب میں دیکھی تھیں-وہ اُس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو نگاہوں میں اُتار رہا تھا-اُس کے ہونٹ سختی سے آپس میں پیوست تھے-مالا ساکت کھڑی اُس کی مقناطیسی آنکھوں میں دیکھے جا رہی تھی-کوئی تو قوت تھی جو اُسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی-کچھ تو تھا جو غیر معمولی تھا-تبھی وہ ہلکا سا مسکرایا تھا-وہ ایک دم ایک انجانے خوف کے زیر اثر آ گئی-اُس نے اپنا چہرہ آگے کر لیا اور تیز تیز قدموں سے مایا کے پیچھے تقریباً دوڑنے لگی-دل زور زور سے دھڑک رہا تھا-کچھ تو تھا جو اُس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا-آخر وہ کون تھا؟جو اُس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تھا-اس سارے واقعے میں وہ نیناں کو مکمل طور پر فراموش کر چکی تھی-
پورا دن اُس کا ٹینشن میں گزرا-نیناں خود ہی واپس آگئی تھی-وہ گئی تو مارننگ واک کے لیے تھی مگر جنگل میں راستہ بھٹک گئی تھی اور پھر کافی خوار ہونے کے بعد بالاآخر وہ واپس آنے میں کامیاب ہو ہی گئی تھی-
مالا کی حالت دیکھ کر اُسے یہی لگا تھا کہ وہ اُس غیر موجودگی سے پریشان ہو گئی تھی-
رات کو سب نے ساتھ میں کھانا کھایا-آج مایا بھی اُن کے ساتھ بیٹھی تھی-وہ لوگ خیمے سے کچھ فاصلے پر بیٹھے تھے-مارک اور سیال ندی پر گیے ہوئے تھے-مایا اور نیناں آپس میں باتیں کر رہی تھیں-جبکہ وہ چپ چاپ اُن کی باتیں سن رہی تھی-تبھی نیناں نے مایا سے ایک سوال پوچھا-
“مایا اس جنگل کی سب سے خاص بات کیا ہے؟ “-
نیناں کی بات پر مالا بھی پُر تجسس ہوئی-
“میں ذیادہ تو نہیں جانتی لیکن میں نے اس جنگل کی ہسٹری میں پڑھا تھا کہ یہاں سالوں پہلے ویمپائر ہوا کرتے تھے جو لوگوں کا خون پیتے تھے”- مایا کی بات پر مالا کی حالت غیر ہونے لگی-کل رات والا خواب اُس کے دماغ میں چلنے لگا-جبکہ اُس کے برعکس نیناں نے دلچسپی سے سنا اور مزید سوال پوچھنے لگی-
“یہ ویمپائر کیا ہوتا ہے؟ “-
خون کی تلاش میں سرگرداں انسان کو عام زبان میں ویمپائر، خون آشام، ڈریکولا یا پھر خونخوار انسان کہتے ہیں-کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ رات کو نکل کر لوگوں کا خون پیتے ہیں-اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ مرنے کے بعد قبروں سے نکل کر آجاتے ہیں اور پھر انسانی خون پیتے ہیں لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کچھ زندہ انسان بھی لوگوں کا خون پیتے ہیں-افریقہ کی قدیم تاریخ میں یہ بات بہت عام ہے کہ جو انسان مرنے کے بعد واپس آتا ہے وہ پھر زندہ رہنے کے لیے انسانی خون پیتا ہے بلکہ جنوب مشرقی افریقہ میں ایک ملک ہے ملاوی وہاں اکثر ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں کچھ لوگ انسانی خون پیتے ہیں-ویمپائرز کے بارے میں یہ تصور بھی عام رہا ہے کہ یہ لوگ انسانی خون پی کر زندہ رہتے ہیں اور جس کا خون پیتے ہیں وہ بھی ویمپائر بن جاتا ہے”- مایا نے ساری تفصیل انگلش میں اُن کے گوش گزار دی-
نیناں کے لیے یہ سب بہت دلچسپ تھا لیکن مالا یہ سب سن کر ڈر سے کانپ رہی تھی-اگر اُسے وہ خواب نہ آیا ہوتا تو شاید وہ یہ سب مزاق میں لیتی مگر اب تو مایا کی ہر ہر بات سچ لگ رہی تھی-
“ہم واپس کب جائیں گے؟ “- اُس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے پوچھا تو دونوں چونکیں-حیرت سے اُسے دیکھا-
“اتنی جلدی کیوں جائیں-ابھی کل ہی تو ہم آئے ہیں-میرا تو ابھی تین چار دن تک جانے کا کوئی پلان نہیں ہے”- نیناں نے اُس کی حالت دیکھے بغیر کہا تو وہ آگے سے کچھ بول ہی نہ سکی-کچھ دیر بعد وہ اُٹھ کر خیمے کے اندر چلی گئی جبکہ نیناں اور مایا ویمپائر کی مزید ہسٹری ڈسکس کرنے لگیں-
{______________}