” میں وعدہ کرتا ہوں، ہر کانٹے کو پھول میں بدل میں ڈالوں گا۔“
ایان پریقین لہجے میں مدھم سا بولا۔
وفا نے حیرت سے اسے دیکھا۔
” آپ وعدے کس یقین سے کر رہے ہیں، کیا آپ نے کل دیکھا ہے۔؟“
وفاسادگی سے بولتی ایان کو لاجواب کر گٸ تھی۔
” مجھے امیدوں سے نہیں ان کے ٹوٹنے سے خوف آتا ہے، میں خوابوں کو امیدوں کو اوقات کے پنجرے میں بند رکھتی ہوں، نہ اونچی اڑان بھر سکیں نہ آسمان سے پاتال میں گر کر چور چور ہو سکیں“
وفا کا لہجہ بہت ٹہرا ہوا تھا۔
ایان نے گہری خاموشی سے اسے دیکھا۔
” میرا سافٹ وٸیر مکمل ہو گیا ہے۔“
ایان نے ٹاپک بدل ڈالا، وہ وفا کو پریشان نہیں دیکھ پا رہا تھا۔
” بہت مبارک ہو۔“
وفا مسکراٸی تھی، لیکن اسکے رخساروں کےگہرے بھنور واضح نہیں ہوۓ تھے۔
” اوہنہہ۔۔۔۔۔۔دل سے کہو۔“
ایان نے سر نفی میں ہلا کر اسے دیکھا۔
وفا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
” ایسے کے تمہارے ڈمپل واضح ہو جاٸیں۔“
ایان رخساروں پر انگلی رکھتے ہوٸے بولا۔
وفا ہنس دی تھی، اسکے ڈمپل واضح ہوٸے تھے، جبکہ آنکھوں میں نمی اتر آٸی تھی۔
” چلو Vegan کھاتے ہیں۔“
ایان نے کہا۔
” آپ باہر نہیں جا سکتے مسٹر ملک۔۔۔۔“
وفا نے تشویش ناک لہجے میں کہا۔
” تم تو جا سکتی ہو نا، مسز ملک۔“
ایان شرارتی ہوا تھا۔
” اوکے۔“
وفا بیگ لیے باہر کی سمت بڑھنے لگی تھی۔
” ارے بے وقوف لڑکی۔۔۔۔۔ہوم ڈلیوری مل جاۓ گی۔“
ایان پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوٸے بولا۔
وفا خفیف ہوتی پلٹ آٸی۔
ایان نے موباٸل اٹھایا اور آرڈر پلیس کر دیا۔
تھوڑی دیر بعد راٸنہ بیگم نا سمجھی سے آٸس کریم پیک لیے ایان کے کمرے میں داخل ہوٸیں۔
وفا نے مسکرا کے انکے ہاتھ سے لی اور کچن میں جاکر کپس میں نکال لی۔
راٸنہ بیگم ایان پر برہم ہو رہیں تھیں۔
” میم۔“
وفا نے ڈش راٸنہ بیگم کے آگے کی۔
” میم نہیں مام بولو۔“
ایان نے سخت لہجے میں کہا، راٸنہ بیگم نے پھر غصہ دلا دیا تھا۔
” اس سے بہتر نوکرانیاں رکھ سکتی ہوں، یہ مجھے مام بولے گے۔“
راٸنہ بیگم نے ہاتھ مار کر کپ نیچے گرا دیا۔
وفا دو قدم پیچھے ہٹ گٸ۔
ایان کمبل ٹانگوں سے ہٹاتا غصے میں کھڑا ہونے لگا۔
وفا گھبرا کر ڈش رکھتی اسکی طرف بڑھی۔
ایان درد سے بلبلا کر رہ گیا تھا۔
” آپ نہیں چاہتیں میں اس گھر میں رہوں۔۔؟“
ایان درد کی شدت سے ضبط کی انتہا پر تھا۔
” مسٹر ملک پلیز بیٹھ جاٸیے۔“
وفا نے ایان ک زبردستی بٹھایا۔
” میں نہیں چاہتی یہ اس لڑکی اس گھرمیں رہے۔“
راٸنہ بیگم دوبدو بولیں تھیں۔
” وفا میری پیکنگ کرو، جہاں تمہاری عزت نہیں، وہاں میرارہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“
ایان گرجدار لہجے میں بولا تھا۔
راٸنہ بیگم نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا۔
” تمہیں سنا نہیں۔“
ایان دھاڑا تھا، وفا سہم کر الماری کی طرف بڑھی۔
” یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے۔“
راٸنہ بیگم سرد لہجے میں بولیں تھیں۔
وفا ایان کے کپڑے بیگ میں رکھنے لگی، اسکے شوز الگ بیگ میں رکھے، اور باقی چیزیں الگ رکھ دیں۔
راٸنہ ملک اکاش کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کر چکیں تھیں۔
ایان ضبط سے آنکھیں میچے ہوٸے تھا، کمر کی چوٹ میں درد شدت اختیار کر رہا تھا۔
” مسٹر ملک آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی، پلیز ضد چھوڑٸیے اور لیٹ جاٸیے۔“
وفا نے التجا کی تھی۔
” نہیں۔۔۔۔۔۔“
ایان نے سختی سے کہا اور دونوں ہاتھ بیڈ پر رکھے ہوٸے تھے۔
” لیپ ٹاپ اور باقی چیزیں بھی سمیٹو۔۔۔۔“
آہستگی سے حکم دے رہا تھا۔
وفا نے پین کلر اور پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھایا، ایان نےجھکا سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
” یہ تکلیف تمہاری تکلیفوں سے زیادہ تکلیف دہ نہیں ہے وفا۔۔“
ایان مدھم لہجے میں بولنے لگا۔
” پلیز۔۔۔۔۔فیملی قسمت والوں کو ملتی ہے، میں نے ساری زندگی اسی خواہش میں گزاری ہے۔“
وفا اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتی ہوٸی ملتجی لہجے میں بولی تھی۔
ایان اسکے چہرے پر چھایا کرب محسوس کرچکا تھا۔
” میں نے خود سے ایک عہد کیا تھا وفا، مجھے اس عہد کا پاس رکھنا ہے۔“
ایان آہستگی سے بولا۔
وفا نے اسکا ہاتھ کھینچا اور پین کلر اسکی ہتھیلی پر رکھی اور زبردستی گلاس اسے تھمایا، ایان اسے دیکھتا رہا اور پین کلر لے لی۔
دروازہ کھلا اور اکاش ملک راٸنہ سمیت اندر داخل ہوٸے۔
وفا اٹھ کے ایک طرف ہو گٸ۔
” یہ میں کیا سن رہا ہوں۔“
اکاش ملک کا پارہ سوا نیزے کو چھو رہا تھا۔
” میں کسی سے بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔“
ایان اٹھنے لگا تھا، وفا نے بھاگ کر اسے سہارا دیا۔
” آپ اس لڑکی کو چھوڑنے کا کہتے ہیں، جو میرے گرنے سے ڈرتی ہے۔“
ایان وفا کے سہارے اکاش ملک کے سامنے کھڑا ہوا۔
” ڈیڈ میں چند جگہ اسکا سہارا بنا تھا،اور آج دیکھیےمیں اسکے سہارے کھڑا ہوں۔“
ایان نرمی سے مگر بے حد سنجیدگی سے بول رہا تھا۔
” میں وفا کو نہیں، لیکن اس گھر کو چھوڑ سکتا ہوں۔“
ایان کہہ کر لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھا اور وفا کے سہارے کمرے سے نکلا۔
” یہ آپ ٹھیک نہیں کر رہے، میں آپ کی منزل نہیں مسٹر ملک۔“
وفا اسکا چہرہ دیکھتے سنجیدگی سے بولی۔
ایان نے رک کر اسکی طرف دیکھا، پہلی بار ایک دوسرے کو اتنی قریب سے دیکھا تھا۔
وفا نے نظریں جھکا لی۔
” مجھے تمہارے بے وقت کے مشوروں سے شدید چڑ ہے وفا۔“
ایان سختی سے بولا تھا۔
” اور مجھے آپ کے بے وجہ غصے سے شدید چڑ ہے۔“
وفا منہ پھلا کے اسی کے انداز میں بولی، ایان نے ٹیکسی کو روکا اور بیٹھ گیا۔
” یہ تمہارا سامان۔۔۔۔جب عقل ٹھکانے آجاٸے تو واپس آجانا۔“
اکاش ملک اسکے بیگز دروازے کے باہر رکھتے ہوٸے غصے سے بولےاور دروازہ بند کردیا۔
ڈراٸیور نےبیگ گاڑی کی ڈگی میں رکھ دیے۔
وفا نا چاہتے ہوٸے بھی ایان کی گھوری پر بیٹھ گٸ۔
ٹیکسی بیرون کیلگری ایک خوبصورت اپارٹمنٹ ساٸٹ پر جا رکی۔
ایلیٹ کلاس اپارٹمنٹس بے حد خوبصورت تھے، بلند و بالا اپارٹمنٹ بلڈنگ آسمان کی بلندی کو چھوتی محسوس ہو رہیں تھیں۔
ڈراٸیور کوڈبل ٹپ دی اور سامان اوپر پہنچانے کا کہا۔
ایان وفا کے سہارے آہستہ آہستہ چلتا لفٹ کی طرف بڑھا۔
” آپ اتنے ضدی کیوں ہیں۔؟“
وفا اسے ففتھ فلور کا بٹن پریس کرتے دیکھ کر بولی۔
” وراثت میں ملی ہے۔“
ایان ملک ہنسا تھا۔
وفا نے گھوری سے نوازا۔
ففتھ فلورپر داٸیں جانب چلتے ہوٸے تیسرے اپارٹمنٹ کے سامنے رک کر ایان نے کیز نکالیں اور وفا کو دیں۔
وفا نے لاک کھولا اور اسے اندر لے آٸی، اپارٹمنٹ انتہاٸی شاندار تھا۔
ہر چیز سفید کپڑوں سے ڈھکی ہوٸی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عینا نے تیاری پکڑی اور نٸ جاب پر نکل گٸ۔
ایان کے شفٹ ہونے کی خبر اسے جی جان سے جلا گٸ تھی۔
سیڑھیاں چڑھتی باس کے کمرے میں آ گٸ۔
باس سگریٹ ہاتھ میں سگریٹ تھامے کش لگا رہی تھی۔
عینا نے ناگواری سے سگریٹ کے دھویں کو دیکھا اور پھر باس کو۔
” بالاج ناٸک کے ہاٹلز اور مال کی پوری ڈیٹیل چاہیے۔“
باس اسکے منہ پر دھویں کے مرغولے چھوڑتی ہوٸی بولی اور اسکے گرد گھومنے لگی۔
” ایک ایک چیز۔۔۔۔ایک ایک پواٸنٹ، سب کچھ میرے سامنے ہو۔“
اسکے لہجے میں حکم تھا، غرور تھا۔
” ییس باس۔“
عینا نے سر اثبات میں ہلایا اور باہر آ کر رکا سانس بحال کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفانے اندر آکر ایان کو صوفے پر بٹھایا اور پنکھا چلا کر چادریں اتار دیں، ہلکی پھلکی صفاٸی کر دی۔
ایان اسے محویت سے دیکھ رہا تھا۔
” تم میرے پاس نہیں رہ سکتی۔“
ایان کی آواز نے اسکے قدم جکڑےتھے۔
” آپ غلطی پر ہیں۔“
وفا نے رخ اسکی طرف موڑا تھا۔
” یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔“
ایان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
” میں آپکے سوالات کے جواب دینے کی پابند نہیں ہوں۔“
وفا سنجیدگی سے بولی تھی۔
” مت بھولو تم میرے نکاح میں ہو۔“
ایان نے پیپر میرج کہنے کی بجاۓ نکاح کہنا مناسب سمجھا۔
” یاد ہے، آپ نے کہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔“
وفا بولی ہی تھی کہ۔
” میری باتیں حدیث تو نہیں ہیں، کہ بدلی نا جا سکیں۔“
ایان سکون سے بولتا اسکے الجھن آمیز چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
” اگر میں اپنی بات سے مکرتی تو ۔۔۔۔۔؟“
وفا ہاتھ سینے پر باندھے اسکے سامنے کھڑی تھی۔
” تو مکر جاٶ ناں، میں تو اب بھی چاہتا ہوں، تم مکر جاٶ۔“
ایان کا سکون اسے الجھن میں ڈال رہا تھا۔
” مجھ پر کیے احسانوں کابدلے مجھے اس بوجھ تلے نا دباٸیں کہ آپ نے مجھے ہمدردی کی خاطر اپنا لیا۔“
وفا تھک کر سامنے صوفے پر گری تھی۔
” تم ہمدردی کے قابل ہو کیا، ہاتھ پیر تمہارے سلامت ہیں، دیکھ بول سکتی ہو، پھر تم ہمدردی کے قابل کیسے ہوٸی۔“
ایان کے پاس آج اسکے ہر سوال کا جواب تھا۔
” پھر مجھ پر کیے احسانوں کا اتنا بڑا بدلہ نہ لیں۔“
وفا رو دینے کو تھی۔
” سمجھدار لڑکی سے بھی بے وقوفی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔“
ایان نے گویا نٸ تحقیق کی تھی۔
” میری زندگی کا فیصلہ آپ نہیں لے سکتے۔“
وفا نے سنجیدگی بھرے غصے سے کہا۔
” تم یہ حق میرے نام کر چکی ہو۔“
ایان اسکی حالت پر محظوظ ہوا۔
” میری مت ماری گٸ تھی۔“
وفا نے خود کو کوسا۔
” اور اب میری بھی مت مار دی ہے۔“
ایان اسے چڑتا دیکھ کر ہنسا تھا۔
” آپ سمجھ نہیں رہے مسٹر ملک۔۔۔۔۔۔”
وفا الجھی تھی۔
” میں کچھ سمجھنا بھی نہیں چاہتا، ہاں تمہیں اتنا وقت ضرور دے سکتا ہوں، تمہاری منزل تک تمہیں وقت دے سکتا ہوں،آر یا پار ہونے کے بعد تمہیں ہمارے رشتے کو قبول کرنا ہوگا۔“
ایان سنجیدگی سے متفصل لہجے میں بولا۔
” آپ کتنے دھڑلے سے مجھ پر رعب جما رہے ہیں۔“
وفا اسکے مشورے پر بھنویں سکیڑ کر بولی۔
” میرا حق ہے۔“
ایان نے ٹیک لگا لی۔
وہ اسکے چہرے کے اتار چڑھاٶ سے محظوظ ہو رہا تھا۔
” تمہیں تو ڈھنگ سے انکار کرنا بھی نہیں آتا وفا۔“
ایان سادگی سے نارمل لہجے میں بولاتھا۔
” مجھے کمرے تک چھوڑ کر آٶ، اور ہاں اس کمرے میں شفٹ ہو جاٶ، یہ میرا حکم ہے۔“
ایان اپنی ٹیون میں آتے ہوٸے بولا۔
وفا نے ناراض نظر اسکے چہرے پر ڈالی اور بڑھ کے اسے سہارا دیا۔
ایان کوبیڈ پر لیٹا کر کمبل اوڑھایا اور کمرے سے نکل آٸی۔
سامنے کمرے میں کی بھی وہی سیٹنگ تھی، وفا نے الماری کھولی تو کمبل پڑا ہوا تھا، اس نے الماری بند کی اور ایان کے بیگ گھسیٹتی کمرے میں داخل ہوٸی وہ آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا ہوا تھا، وفا نے اسکے کپڑے اور چیزیں ہینگ کیں اور جوتے سیٹ کر کے مڑی تو ایان اسے دیکھ رہا تھا۔
” ہاٶ سویٹ۔“
وہ مبہم مسکراہٹ لیے شریر ہوا۔
وفا نےگھوری سے نوازا۔
کھڑکی سے باہر دیکھتے سامنے کی بلڈنگ پر سورج کی کرنیں شیشوں سے ٹکراتی روشنی پیدا کر رہیں تھی، دوپہر کے وقت سورج کی کرنوں کا راج اپنے عروج پر تھا۔
” کھانے میں کیا بناٶں، مطلب کچن میں تو کچھ ہو گا نہیں۔“
وفا سادگی سے بولی۔
” میرا موباٸل دو، کسی ہیلپر کا بندو بست کرتا ہوں۔“
ایان نے کہا تو اس نے ہال میں صوفے سے اسکا موباٸل لا دیا۔
ایان نے اپارٹمنٹس کے آفس کال کی اور ارجنٹ ورکر ہاٸیر کر لی۔
وفا نے اسے لسٹ بنادی اور کچن کا سامان منگوا لیا۔
کھانے سے فراغت پاٸی اور ایان کو میڈیسن دے دی۔
ایان دوا کے زیر اثر نیند کی گہری وادی میں چلا گیا، وفا کھڑکی میں آگٸ، شام کی سرخی سورج کی کرنوں کی تیزگی کو مات دینے لگی تھی، سرمٸی بادل نیلگوں آسمان پر دوبارہ سے چادر اوڑھنے لگے تھے،آج دوسرا دن وہ ایان ملک کی ہمراہی میں گزار چکی تھی۔
شام کے لیے ہیلپر کو سوپ بنانے کا آرڈر دے کر وہ ایان ملک کے کمرے کی طرف بڑھی، وہ جاگ چکا تھا۔
” میں جاٶں۔؟“
وفا بیگ لیے اجازت طلب نظروں سے ایان کو دیکھتی بولی۔
ایان نے خاموشی سے اسے دیکھا۔
” رات کو مجھے آپکی ضرورت محسوس ہوٸی پھر۔۔۔۔۔؟“
ایان سادگی سے بولا۔
” آپ کے لیے اپنا گھر چھوڑ کے آیاہوں۔“
ایان نے رخ موڑتے ہوٸے کہا۔
” میں نے منع کیا تھا آپکو۔۔۔۔“
وفا نے زور دیتے ہوٸے کہا اور پلٹ گٸ۔
سامنے والے کمرے میں بیڈ پر بیٹھتےہوٸے ایان کے متعلق سوچوں نےگھیر لیا۔
وفا نے سر جھٹک کر سوچیں بھگاٸیں اور الماری سے کمبل نکالے بیڈ پر لیٹ گٸ۔
ایان نے افسردگی سےبند دروازے کو دیکھا۔
” کیا تھا جو رک جاتی تو۔۔۔۔۔“
غصیلے لہجے میں بولا اور آنکھیں موندے ان پر بازو دھر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...