فزا : اوففوہ ..۔۔
چلو اب پیچھا چھوڑو جانے دو۔
ہمیں سونا ہے!!
فزا سچ میں کافی نڈھال تھی اور سونا چاہتی تھی۔۔
صورب: میں ایسے نہیں جانے دونگا!!
صورب اٹل لہجہ لیئے فزا کو ہاتھ آگے پیچھے کر کے روکتے ہوئے فزا کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا۔۔
پہلے مجھے بتاؤ ۔۔
تم نے مجھے کیوں نہیں بتائی یہ بات؟
فزا : ارے کونسی بات ۔۔؟؟؟
فزا نے اب تواپنا سر ہی پیٹ لیا۔۔۔
کوئی بات نہیں ہے میرے بھائی۔۔۔
ابھی بتایا تو ہے چاچا کو کہ سامان ڈھونڈنے گئے تھے جنگل میں۔۔
فزا جھنجھلائی اور نکلنے کیلیئے دوبارہ کوشش کرنے لگی مگر صورب اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا۔۔۔
مجھ سے جھوٹ نہیں بولو۔۔
مجھے پتا ہے تم کہاں گئیں تھیں آدھی رات میں جنگل میں اکیلے تم نہیں جاسکتیں۔۔
سارے کام تو مجھ سے کرواتی ہو ۔۔۔!!
مجھے پکا پتا ہے کہ تمہاری کوئی چیز نہیں گمی ہے
بلکہ تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو ۔۔
دادا ابا بنتے بنتے آخر میں صورب کچھ لہرا سا گیا مگر کیوں؟؟۔۔۔
فزا اور بیہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور فزا تھوڑے پیار بھرے انداز میں بولی۔۔۔
صورب ہمیں جانے دو ۔۔
پلیز مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔
صورب : اچھا ۔۔
(لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے)..
تو میری نیند کیوں خراب کی اب میں نہیں جانے دونگا جب تک مجھے یہ نہیں بتاونگی کہ
میرے جی جا جی کیسے ہیں؟۔۔۔
صورب تھوڑا شرماتے ہوئے لہرایا ۔۔۔
صورب کی بات سنکر فزا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔
فزا: یہ۔۔۔؟
کیا؟؟؟؟
جی جا جی؟؟
بیہ نے حیرانی سے آنکھیں گھماتے ہوئے
صورب کو پکڑا ۔۔۔
ہیں ۔۔سچ میں تمہیں یہ کیوں لگا کہ یہ جی جوں سے ملنے گئی ہے۔۔
کیا تم اسے جانتے ہو؟؟
بیہ بڑی اکسائیٹڈ ہوئی جارہی تھی۔۔۔
فزا : چھوڑو اسے کیا بےوقوفانہ باتیں ہیں۔۔
فزا نے بیہ کو پیچھے کھینچ لیا۔۔
اور تم بھی کیا ہر بات پر مچل جاتی ہو کبھی دماغ بھی استعمال کر لیا کرو ۔۔
کوئی جی جا وی جا نہیں ہے چلو یہاں سے اور اب تم نے پریشان کیا نا تو تم سے بات نہیں کرونگی۔۔
سن لیا تم نے۔۔؟؟؟
فزا نہایت ہی غصے میں منہ پھلائے کھڑے صورب کو ڈانٹتی ہوئی اندر چلی گئی۔۔۔
صورب : مجھے میرے جی جا جی چاہیئے!!چئے چئے چئے۔۔
صورب بھی اسکے پیچھے پیچھے کمرے میں پہنچ گیا اور لگا اپنی فرمائش ریمکس دھن کے ساتھ سنانے۔۔۔
تارا :اففف کیا ہورہا ہے یہاں؟؟ ۔۔
(تارا نیند میں کسمسائی)
سکون سے سونے دو باہر جاکر لڑو نا ۔۔۔
صورب :ممم۔۔۔۔م۔۔۔ممم۔۔۔
تارا :اوو ہ ہ ہ ۔۔
کیوں میرے کان کے پاس سر الاپ رہے ہو ۔۔۔
تارا صورب کے سر سن سن کر پک چکی تھی۔۔۔
کیا چاہئیے؟؟
انتہائی کوفت بھرے انداز میں تکیہ پٹخ کر اٹھ بیٹھی۔۔۔
جی جا جی۔۔۔
صورب نے سڑ سر کرتے ہوئے اپنی فرمائش سنائی۔۔۔
آدھی رات میں اچانک خیریت؟؟؟
تارا جمائی لیتے ہوئے لہرائی۔۔
صورب :ہاں ۔۔۔
میرے جی جا جی سے ملنا ہے مجھے بھی ۔۔۔۔صورب ٹانگیں چلانے لگا۔۔۔
فزا : ارے یار کوئی جی جا وی جا نہیں ہیں۔۔
بس بکواس کررہا ہے یہ۔۔۔۔
اسے کیسے سمجھاووں۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟
اف۔۔فزا نے اپنا سر پکڑ لیا ۔۔
صورب :ہیں ۔۔ہیں ہیں۔۔
جھوٹ۔۔جھوٹ مت بولو مجھے سب پتا ہے۔۔
صورب دوبارہ مچلا۔۔
فزا :کیا کوئی جیلی ،،اسنیکس سمجھ رکھا ہے
اس نے کہ کھے گا اور اسے مل جائیگی۔۔۔
حد ہوتی ہے۔۔۔
فزا غصے سے اٹھنے لگی تو بیہ نے اسے واپس دھکا دیکر بٹھادیا۔۔۔
بیہ :رہنے دے یار بچہ ہے۔ ۔۔۔
تارا :ارے چل یار ۔۔۔
ایک منٹ ایک منٹ تو
بول کسے رہا ہے ۔مجھے یا اسے؟؟
۔۔۔تارا نے معاملہ سمجھنا چاہا۔۔۔
صورب :تمہیں کیوں بولونگا ۔۔۔
میں اپنی فزی سے بات کررہا ہوں۔۔صورب چلایا اور لال ناک رگڑنے لگا۔۔۔
تارا :اچھا..
اور میں کون ہوں پڑوسی۔۔۔؟؟
(تارا نے اسکے کان مروڑے)
بھائی تو میرا ہے اور بول تو فزا سے رہا ہے اور میں سمجھ رہی تھی کہ میرا بھائی مجھ سے فرمائش کررہا ہے اور دیکھو میں نے تھوڑا سا پلان بھی بنالیا تھا اسکی فرمائش پوری کرنے کا مگر یہ تو کہیں اور ہی لگا ہوا ہے۔۔۔
تارا کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا تھا
اب اس سے مزید اپنی آنکھیں کھلی رکھنا
دشوار ہورہا تھا اور وہ بار بار پیچھے کی طرف لڑھک رہی تھی۔۔۔
میری بہن فزی ہے تم نہیں۔۔۔
صورب نے تارا کو منہ چڑایا۔۔
تارا :ہاں ہاں وہیں رہو مجھے بھی
فضول کا سامان جمع کرنے کا کوئی شوق نہیں ۔۔۔
یہ کھ کر تارا نے ایک زبردست
دھموکا صورب کو رسید کیا ۔۔
جس کے نتیجے میں صورب کی دہائیاں بلند ہونے لگی اور اس سے پہلے کہ بڑوں سے ڈانٹ پڑتی فزا سب چھوڑ چھاڑ کر اٹھی اور صورب کو چپ کرانے لگی اور اسطرح معاملہ رفع دفع ہوگیا۔۔۔
اوئئئئے۔۔۔۔ہرش گاڑی کے اچانک رکنے پرنہایت کوفت کا شکار ہوگیا۔۔
دلاور :
کیا ہوا ؟؟؟
ہرش: گاڑی رک گئی ہے جناب اتر جائیے
لگتا ہے ٹھیک کرنی پڑے گی ۔۔
ابھی تو چیک کرکے آئے تھے پھر بھی ۔۔؟
ڈیم۔۔
ہرش نے گھما کر کار کو ایک لات رسید کی۔۔۔
یار یہ تو دھواں چھوڑ رہی ہے۔۔۔
دلاور انجن میں سر دیئے دیئے بولا۔۔۔
پانی پانی ۔۔۔ہوگا؟؟؟
ہاں میں تو جیب میں رکھ کر گھومتا ہوں۔۔۔
لے ۔۔۔یہ رہی جیب۔۔۔
ہرش کی مسخریاں دیکھ کر دلاور دوبارہ تپنے لگا۔۔
تو کبھی تو سیریس ہوجایا کر۔۔۔
اب پانی کہاں سے لائینگے یہاں تو نیچے جانا پڑے گا۔۔۔
دلاور پہاڑ کی چوٹی کے کنارے پر کھڑے ہوکر نیچے کی طرف دیکھ کر بولا۔۔
ہرش: نیور۔۔۔
وہاں۔۔پور پیپل سے ہیلپ ۔۔۔؟
نیور۔۔
دیکھ بھائی تجھے جو کرنا ہے تو کر ۔۔میں یہاں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔۔
ہرش نوابانہ انداز میں گاڑی پر پھیل کر لیٹ گیا۔۔۔
دلاور: آدھی رات کو گاڑی خراب۔۔
ابھی تو مشکل ہے صبح ہی کچھ کر پائینگے۔۔
دلاور نے نیچے اندھیرے میں ڈوبے گاوں
کو دیکھ کر ٹھنڈی اہ بھری۔۔۔
اچھا ہے۔۔
ہرش: کیا ۔۔۔؟؟؟
کیا اچھا ہے۔۔ہرش ایک دم سیدھا ہوا ۔۔۔
بھائی ایسا مت کر مجھے عادت نہیں ہے اپنے بیڈ کے علاؤہ بنا ایسی کو دیکھے سونے کی۔۔
رات گاڑی میں گزارنے کے خیال سے ہرش
کی ساری نوابی اڑن چھو ہوگئی تھی۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔
یہ رہی کار ۔۔۔اور وہ رہاں تیراپور لوگوں کا ٹچہ ولیج جا ہیلپ لے ا۔۔۔
جب تک میں کمر سیدھی کرلوں۔۔
دلاور نے مزے سے گاڑی پر پھیلتے ہوئے ہرش کی دیکھتے ہوئے گردن ہلائی۔۔
گو۔۔۔برو؟
دیکھ لونگا تجھے چل جگہ دے تھوڑی ۔۔
کیا خود پھیل کر بیٹھا ہوا ہے مجھے بھی جگہ دے ۔۔۔
ہرش نے دلاور کو کھسکا کر جگہ بنائی اور دونوں صبح ہونے کا انتظار کرنے لگے۔۔۔
سورج کی کرنیں چہرے پر پڑیں تو اسکی گرماہٹ سے فزا کی آنکھ کھل گئی۔۔
اوہ صبح ہوگئی۔۔۔اب مجھے گھر جانا ہوگا مگررر۔۔۔
فزی یہ لو کھاو۔۔۔
اچانک پیچھے سے آواز سنائی دی تو فزا نے گردن موڑ کر دیکھا تو صورب اپنا دودھ کا گلاس ٹیبل پر رکھ رہا تھا۔۔۔
یہ اتنا بڑا گلاس !!
اسکے سامنے تو جگ بھی چھوٹا لگے گا ۔۔۔
میں کیسے پیونگی اتنا سارا ۔۔؟؟
فزا کو تو گلاس دیکھ کر ہی الجھن ہونے لگی۔۔
صورب: ہاں نا پہلے تم پی لو ۔۔
فر میں پی لونگا سارا ۔۔۔
ہی ہی ہی۔۔۔
صورب دانت نکالتے ہوئے ہنسا تو فزا کو اسکی چالاکی پر ہنسی اگئی۔۔۔
اچھا سنو ۔۔!!
مجھے تمہیں ایک بات بتانی ہے۔۔
فزا صورب کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے بولی۔۔
صورب: ہوں۔۔۔
فزا :اچھا دیکھو رات میں جو بھی کہا تھا میں نے وہ سب سچ تھا۔۔۔
مم۔۔
صورب نے کچھ کہنا چاہا تو فزا نے اسے روک دیا۔۔۔
تم خود سوچو اتنی بڑی بات میں صورب سے چھپا سکتی ہوں بھلا۔۔
بتاو۔۔؟؟؟
فزا صورب کو غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔
صورب نے سر جھکایا ،،
فزا کو دیکھا پھر تھوڑا سوچنے کے بعد مسکرایا اور گردن نفی میں ہلادی۔۔۔
صورب:نہیں۔۔۔
میری فزی ۔۔۔اور اسکی گردن سے لپٹ گیا۔۔
فزا: ہاہا ہا ۔۔
گڈ ۔۔
چلو دودھ پی لیں ورنہ ۔۔۔بلی اجائےگی۔۔۔
فزا نے اٹھتی ہوئی تارا کی طرف اشارہ کیا تو دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔۔۔
فزا ہینڈ فری لگائے گانے سن رہی تھی کہ اچانک اسکی نظر سامنے رکھے لیپ ٹاپ پر پڑی جسے رکھ کر وہ بھول ہی گئی تھی۔۔
اوہ۔۔۔
اسے کیسے بھول گئی۔۔
دیکھیں تو کس کا لیپ ٹاپ ہے۔۔؟
فزا ہینڈز فری سائیڈ پر رکھتی اٹھی اور
لیپ ٹاپ اٹھالیا۔۔۔
بس کوئی پاس ورڈ نہیں ہو ورنہ کیسے پتا لگاونگی کہ کون ہے اسکا اصل مالک۔۔۔
فزا نے لیپ ٹاپ صاف کیا اور اسے کھول کر کلک کیا تو اچانک ایک نوجوان لڑکے کی پک اسکرین پر جگمگائیں اور نیچے کوئی نام بھی لکھا تھا دور سے دیکھنے پر کچھ خاص دکھائی نہیں دے رہا تھا تو فزا نے لیپ ٹاپ اٹھایا اور کونے میں لکھے نام کی اسپیلنگ غور سے پڑھنے لگی اور کچھ ہی دیر میں ایک نام اس کے لبوں سے نکلا۔۔
“ہرش زالی”۔۔