وہ آسمان پر پرواز کرنے والے ہر جہاز کو حسرت و اُمید سے دیکھ رہی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے قصّے کہانیوں میں شاہزادیاں پرستان سے آنے والے گھوڑے پر سوار شاہزادے کا انتظار کرتی ہیں۔ ہر جہاز ہواؤں کا سینہ چیرتا ہوا گزر جاتا تھا۔ انتظار میں بیٹھی شہزادی کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ اس نے ایک ہی جھلک تو اپنے خوابوں کے شہزادے کو دیکھا تھا وہ تو برسوں سے خوابوں میں بسے اپنے شہزادے کو آنکھوں میں پوری طرح اُتار بھی نہیں پائی تھی کہ شاہزادہ ہواؤں کے دوش پر سوار ہو کر اپنا مستقبل روشن کرنے کے لئے اس کا حال تاریک کر کے سمندر پار چلا گیا تھا۔ اُسے پھر وہی تنہائی نصیب ہوئی تھی جو پہلے تھی لیکن یہ تنہائی پہلے سے زیادہ کربناک تھی کہ پہلے وہ منزل سے دور تھی اور اب منزل کو پا کر دور ہوئی تھی۔ سب کچھ پہلے جیسا تھا بلکہ پہلے سے زیادہ عیش و آرام تھا، ہر چیز موجود تھی لیکن ایک خلش تھی جو دل کو چھلنی کر رہی تھی۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد دیکھے ہوئے خوابوں کو وہ بھُلا دینا چاہتی تھی لیکن ہر خواب اُسے منھ چڑا رہا تھا۔ ہر یاد اس کے گرد منڈلا رہی تھی۔
انجم کے گڈّے سے اپنی گُڑیا کی شادی کرتے وقت ریما سے یہ شرط رکھی تھی کہ اُس کا گُڈّا ہمیشہ گڑیا کے پاس رہے گا۔ کبھی اُسے تنہا چھوڑ کر نہیں جائے گا اور اس شرط کے ساتھ اس نے اپنی گڑیا کو رخصت کر دیا تھا لیکن چند روز بعد ہی جب انجم کی بہن اُس کے گڈّے کو لے کر بمبئی چلی گئی تھی تو معصوم ریما گُڑیا کی تنہائی کے بارے میں سوچ کر بہت روئی تھی اور اس کے رونے پر سب ہی نے اس کا مذاق بنایا تھا۔ اُس کے ایک بھائی نے اُسے چڑاتے ہوئے کہا تھا۔
’’ہاں بھئی اب بے چاری گڑیا رانی کیا کریں گی۔ گڈّے راجہ تو گئے بمبئی، ہیرو بننے۔‘‘ اس بات پر جب ریما اپنے بھائی کو مارنے کے لئے دوڑتی تو دوسرے بھائی نے کہا ’’وہ تو بن جائے گا ہیرو۔ ایئرکنڈیشن مکان میں رہے گا۔ لمبی سی گاڑی میں گھومے گا، خوب عیش کرے گا اور گڑیا بے چاری ساس سسُر کی خدمت کرے گی، دن بھر گھر کے کام کرے گی، جھاڑو لگائے گی، برتن صاف کرے گی، گندے گندے کپڑے دھوئے گی، رات کو ساس کی ٹانگیں دبائے گی، بے چاری گڑیا۔‘‘
ریما چڑ کر ماں کو آواز دیتی:
’’امّاں دیکھئے یہ مجھے پریشان کر رہے ہیں۔ کیا کیا بکواس کر رہے ہیں۔‘‘
اس کی ماں حمایت کرتے ہوئے کہتی:
’’کیوں چڑا رہے ہو میری بچّی کو۔ اگر کسی نے سسرال میں گُڑیا کو پریشان کیا تو ہم گڑیا کو واپس اپنے گھر بلوا لیں گے۔ ابھی اس کا میکا سلامت ہے۔‘‘
ریما نے تحقیقانہ نگاہوں سے ماں کو دیکھا، یہ جاننے کے لئے کہ کیا ماں بھی تو مذاق میں شریک نہیں۔ لیکن ماں نے ریما کی دلجوئی کے سبب اپنی ہنسی پر قابو پا کر چہرے کو سنجیدہ بنا لیا تھا۔ ریما ماں کی سنجیدگی اور حمایت دیکھ کر خوش ہوئی اور ماں سے چمٹ کر کہنے لگی۔
’’ہاں امّاں یہ ٹھیک رہے گا، ہم گڑیا کو انجم کے گھر سے واپس بلالیں گے۔ میں ابھی انجم کے گھر جاتی ہوں۔‘‘
ماں نے اُسے روک کر کہا:
’’نہیں بیٹا، تم وہاں مت جاؤ۔ اب تو گڑیا کا گھر وہی ہے، تم نے اس کی شادی کی ہے۔‘‘
’’لیکن امّاں وہاں گڈا تو ہے نہیں۔ گڈّے کو بھی تو ہونا چاہئے، جیسے سلمیٰ اپی اور آصف بھائی شادی کے بعد ساتھ رہتے ہیں۔‘‘
ماں نے سمجھایا:
’’بیٹا تمہاری گڑیا کا گڈّا کام کرنے کے لئے بمبئی گیا ہے۔ بہت دن میں آئے گا، خوب روپیہ کمائے گا۔ پھر گڑیا کو لا کر دے گا، جیسے تمہارے زبیر چاچا عرب گئے ہیں۔‘‘
ریما ماں سے بڑی سنجیدگی سے بات کر رہی تھی اور ماں اسے بہلانے کی کوشش میں تھی۔
’’لیکن امّاں زبیر چاچا کو تو بہت دن ہو گئے اور چچی جان تو اب بڑھیا سی لگنے لگی ہیں۔ اگر گڈّا بھی اتنے دن بعد آیا تو میری گُڑیا تو بوڑھی ہو جائے گی۔‘‘
’’اچھا بابا رات کو بمبئی ٹیلی فون کر کے گڈّے کو فوراً بلا لیں گے۔ اب تم جا کر اپنا ہوم ورک کرو۔‘‘
…… اس نے پھر آسمان کی طرف دیکھا، ہوائی جہاز اس کے اوپر کاغذ کے نوٹ برساتا ہوا گزر گیا۔ شاید اس کا گڈّا اب سُپر اسٹار بن گیا ہے۔
وہ کالج کے گراونڈ سے گزر کر گیٹ کی طرف جا رہی تھی کہ کالج کے اندر داخل ہوتی ہوئی انجم نے اُسے آواز دی۔ ریما انجم کی آواز سن کر دوڑ پڑی اور بے اختیار اس سے لپٹ گئی۔ انجم ایک سال پہلے شادی کے بعد بھوپال چلی گئی تھی۔ وہ بہت خوش تھی اور اپنی خوشی میں ریما کو شریک کرنے کے لئے کالج چلی آئی تھی۔ پھر وہ دونوں سہیلیاں راز و نیاز کی باتوں میں محو ہو گئیں۔
انجم کہنے لگی:
’’میں نے بہت بڑی غلطی کی جو اپنے گڈّے کو بمبئی بھیج دیا‘‘
’’کیوں؟‘‘ ریما جو اب گڑیوں کی دنیا کی حد کو پار کر چکی تھی ہنس کر پوچھنے لگی:
’’اس لئے میری لاڈو کہ شادی کا لطف تو پہلے ہی سال میں ہے۔ اس وقت تک شوہر کی محبت صرف اور صرف بیوی کے لئے ہوتی ہے اور اس کے بعد تو محبت کے حق دار اس کے بچّے آ جاتے ہیں۔ محبت تقسیم ہو جاتی ہے۔ بیوی کی خواہشوں سے پہلے اولاد کی خواہشیں پوری کی جاتی ہیں۔‘‘
’’اب پتہ چلا تجھے کہ تیرے گڈّے کے جانے کے بعد میں کیوں روئی تھی۔ میری گڑیا تو انتظار میں بڑھیا ہو گئی‘‘۔ ریما نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا
دونوں سہیلیاں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ انجم بزرگانہ انداز میں مشورہ دیتے ہوئے کہنے لگی
’’دیکھ میری بنّو! اپنے گڈّے کو تو کہیں مت جانے دینا۔ ایک بار ہاتھ سے نکل گیا تو پھر پچھتاتی رہے گی۔ کہ ہائے وقت۔ ہائے وقت۔‘‘
’’ارے ایک بار آنے تو دے۔ پھر دیکھوں کہاں جاتا ہے۔ باندھ کے رکھوں گی۔‘‘
’’ہیں کہاں آج کل تیرے شاہزادہ خسرو پرویز؟
’’جائیں گے کہاں اپنے ہی گھر ہیں‘‘
’’تو بات پکی ہو گئی؟‘‘
’’100% پکّی‘‘
ریما اور انجم کی خوشگوار باتوں سے فضا میں خوشیاں بکھر گئیں ……
ریما نے پھر آسمان کی جانب دیکھا۔ ایک جہاز پھر زیورات کی بارش کرتا ہوا گزر گیا……
سب افسردہ تھے لیکن اس افسردگی میں خوشی شامل تھی۔ ریما سسرال کے لئے رخصت ہو رہی تھی۔ اسے اپنا گھر اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کو چھوڑنے کا دکھ تھا لیکن اپنا گھر بسنے کی خوشی بھی تھی۔ پرویز اس کی اپنی پسند تھا اور اس کی پسند کا سب نے لحاظ کیا تھا۔
ابھی اس کے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ بھی پھیکا نہیں پڑا تھا کہ پرویز نے دور دیس سمندر کے اس پار جانے کی اجازت مانگی کہ وہاں نوٹوں کا انبار اور سونے کے پہاڑ تھے۔ ریما نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا اس کے ہاتھ مہندی کے رنگ سے ابھی تک سرخ ہو رہے تھے۔ لیکن وہ پرویز کو روک نہ سکی۔
اس کا گڈا بمبئی چلا گیا تھا، سُپر اسٹار بننے کے لئے۔
آسمان پر بجلی چمکی، چاروں طرف روشنی ہوئی اور پھر اندھیرا ہو گیا۔ ریما اپنی گڑیا کی طرح تنہا رہ گئی، بس ہوا یہ کہ گھر بدل گیا۔ پہلے ان کے ساتھ تھی جنھوں نے اُسے جنم دیا اور اب اُن کے ساتھ جنھوں نے اُسے اپنا لیا۔
وقت ٹھہرا نہیں۔ گزرتا گیا اور اس گزرتے وقت نے اس کی تنہائی کے سمندر میں اولاد کا پھول ڈال کر سطح آب کو متحرک کر دیا۔ دور دیس میں پرو یز بھی خوش ہوا کہ ہر باغبان خوش ہوتا ہے جب درختوں پر پھل آتے ہیں لیکن وہ آ نہیں سکا کہ ابھی سونے کے پہاڑ میں مقناطیسی چمک باقی تھی۔
آسمان کی طرف جہازوں کی پرواز دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ اس کے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ بالکل اُڑ گیا تھا۔ اس کی سیج کے پھول سوکھ گئے تھے۔ اور جب ریما نے سنا کہ اس کا گڈا سُپراسٹار بن کر واپس آ رہا ہے تو بہت خوش ہوئی کہ اس نے ابھی کوئی خوشی دیکھی ہی نہیں تھی۔ وہ تو صرف خوشی کے قریب ہو کر گزری تھی۔ اُسے ایک بار پھر محسوس ہوا کہ اس کا شاہزادہ پرستان سے اُسے لینے کے لئے آ رہا ہے۔ اُسے ایک بار پھر دلہن بننے کا احساس ہوا۔ اس نے دولہا کی راہ میں پلکیں بچھا دیں۔
اور پھر آسمان سے گزر نے والے جہازوں میں سے ایک جہاز اس کے گھر میں اُتر آیا۔ اُس نے دیکھا کہ اس کا شاہزادہ آہستہ آہستہ جہاز کی سیڑھیوں سے نیچے اُترا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ پرویز سب سے پہلے اس کے پاس آئے گا۔ اس کی باہیں پرویز کو پانے کے لئے بے قرار ہوئیں لیکن پرویز اس کے قریب نہیں آیا۔ ریما نے محسوس کیا کہ اس کی نگاہیں کسی کو تلاش کر رہی ہیں۔ وہ سمجھ گئی۔ وہ اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہا تھا کہ جسے اس نے ابھی تک دیکھا نہیں تھا۔ ریما کو انجم کی بات یاد آئی۔ محبت تقسیم ہو چکی تھی۔ پرویز نے بے اختیار اپنے بیٹے کو اپنی باہوں میں بھر کر پیار کیا۔ ریما اپنی جگہ اپنی باہیں پھیلائے کھڑی رہ گئی۔ ایک اور ہوائی جہاز کاغذ کے نوٹ اور زیورات برساتا ہوا اس کے اوپر سے گزر گیا۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...