اس دن پھر وہ بےتحاشا روئی تھی اتنا کہ لگتا تھا کہ جیسے وہ بھی مر جائے گی تین دن تک تو اس کو یہ ہی نہیں پتا تھا کہ وہ کہاں ہے اس کے بہن بھائی کہاں ہیں اس کے گھر والوں کا کفن دفن کیسے ہوا اور جب تین دن بعد ہوش آیا تو اس کا دل پھٹنے لگا تھا ان چند دنوں میں وہ بہت تیزی سے بربادی کی طرف گھسیٹی گئی تھی
کیا وہ اب بھی زندہ تھی اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟
علی کے سب گھر والے آئے تھے اس کے پاس پر جس کا انتظار تھا وہ ہی نہیں آیا تھا
کبھی کبھی مرنے کے لیے ذہر کی ضرورت نہیں پڑتی حساس انسانوں کو تو لوگوں کے رویے ہی مار دیتے ہیں اور وہ موت زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے
۔ ————
وقار آفندی اور عطیہ کے انتقال کو ایک ماہ ہوگیا تھا اس دن کے بعد نہ پھپو نے آکے پوچھا نہ کسی چاچا نے۔۔۔۔۔ کیا رشتےدار اس طرح ہوتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟
کہ اپنے خونی رشتوں کو ہی نہ پوچھیں خونی رشتے بھی بھائی کے بچے
مامی تو انہی کے پاس رکی ہوئیں تھیں کیونکہ وہ لوگ ابھی چھوٹے تھے
اسے لگتا تھا جیسے وہ ایک تپتے صحرا میں آکھڑی ہوئی ہے
جہاں دور دور تک کوئی سایہ نظر نہیں آتا تھا ایک دم سے وہ بہت اکیلی ہوگئی تھی
محبت ہو بھی جائے تو
میرا یہ بخت ایسا ہے
جہاں پہ ہاتھ میں رکھ دوں
وہاں پہ درد بڑھ جائے
محبت سرد پڑ جائے۔۔۔۔۔۔
———
” وقار تو چلا گیا دنیا سے اب۔۔۔۔۔ جو دولت ملتی تھی نا وہ بھی ہاتھ سے چلی گئی اب تو۔۔۔۔۔ کاش کچھ ہمارے نام ہی کرکے چلا جاتا ہم بھی دعا دے دیتے” رابعہ کو تو افسوس ہی ہورہا تھا دولت کے ہاتھ سے چلے جانے کا۔۔۔۔۔ کہتے ہیں بھائی تو بہنوں کی جان ہوتے ہیں اور بہنیں تو انہیں خوش دیکھ کے ہی خوش رہتی ہیں ان پہ اپنی جان لٹانے سے بھی دریغ نہیں کرتیں پر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی تھی۔۔۔۔۔ یہاں بہنوں کو بھائ کے مرنے سے زیادہ بھائی کی دولت کے چلے جانے کا دکھ ہو رہا تھا
” اب کیا کہہ سکتے ہیں چھوڑیں اس بات کو۔۔۔۔۔ بچوں کی خیر خبر لے کر آئیں” ذرمینہ بولیں
” ارے چھوڑو جس مقصد کے لیے ہم وہاں جاتے تھے اب وہ مقصد ہی ختم ہو گیا ہے اب جا کے کیا کرنا وہاں” رابعہ جھٹ بولیں
” سب کچھ بچوں کے نام کروا کے گیا ہے” وہ پھر شروع ہوگئی تھیں
” ویسے میں نے ایک حل سوچا ہے اس کا جس سے ہمارے پاس پوری دولت آسکتی ہے ” کب سے چپ ہاشم نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
” کیا حل ہے جلدی بتاؤ” پھپو کی آنکھیں چمکیں
” کیوں نا ہم وقار کی بیٹی یشل کی شادی اپنے بچوں میں سے کسی سے کردیں”
” تو اس سے کیا ہو گا پوری دولت اس کے پاس تھوڑی ہے اس کے ابھی ایک بہن اور ایک بھائی موجود ہے اور بھائی کا حصہ بہنوں سے زیادہ ہوتا ہے” رابعہ بد مزا ہوئیں تو انعم بھی فورا بولیں
” وہ تو ابھی چھوٹے ہیں اور یشل کی دولت تو ہاتھ میں آہی جائے گی ہمارے۔۔۔۔۔ باقی کی ہم اسے سے زبردستی ہتھیا لیں گے”
” ہاں جیسے وہ فورا دے دی ہمیں ہونہہ۔۔۔۔۔ یہ آج کل کے بچے بہت تیز ہیں ایک نمبر کے ڈھیٹ”
” تبھی تو ہم یشل کا انتخاب کررہے ہیں۔۔۔۔۔ اس میں اور لوگوں کی طرح چالاکی نہیں ہے جس رخ پہ موڑیں گے مڑ جائے گی۔۔۔۔۔ اور ذرا سا ٹارچر کریں گے تو اس کے بہن بھائی خود اپنا حصہ بھی ہمیں دے دیں گے” سمیہ بولیں
” مجھے تو یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا ہے ہم یتیموں کا حق کھا کے اچھا نہیں کریں گے ہاشم” زرمینہ کو ڈر لگ رہا تھا
” ارے کچھ نہیں ہوتا ہم بھی ضرورت مند ہیں اور ویسے بھی ہم اس دولت کے بدلے ایک یتیم کا گھر بھی تو بسا
رہے ہیں نا تو اس کے عوض اگر کچھ لے لیں گے تو کچھ نہیں جائے گا” رابعہ بولیں تو زرمینہ خاموش ہوگئیں
” ارے یشل کو بہو بنائے گا کون؟” انعم بولیں
“ارے میری بھتیجی ہے میں اسے اپنے معیز سے لے لوں گی” رابعہ فورا بولیں ” دولت آنے کی ابتداء میرے گھر سے ہی ہونی چاہیے کیونکہ میں بڑی ہوں تم سب سے” رابعہ نے فورا جتا کے واضح کیا کہ وہ بڑی ہیں ارسلان جو ان کے پاس کسی کام سے آیا تھا اس نے ان کا لفظ لفظ سنا تھا۔
——–
رات کا تیسرا پہر تھا علی کو کسی طور قرار نہیں تھا
پتا نہیں کیسی ہو گی وہ۔۔۔۔؟؟؟ اس کے پیرنٹس کے انتقال کی خبر ملی تھی اسے پر وہ نہیں گیا
وہ اس سے ہر رشتہ توڑ آیا تھا اسے ڈر تھا کہ اگر اس حالت میں اسے دیکھا تو وہ برداشت نہیں کرپائے گا بےبس ہوجائے گا اسے دیکھ کر۔۔۔۔۔ بہت چاہنے کے باوجود وہ نہ گیا آج ایک ماہ ہوگیا تھا ان کے انتقال کو۔۔۔۔۔ اس کا دل بے چین تھا
وہ پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن بے سود۔۔۔۔۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پہ پڑا اپنا سیل اٹھایا اور فون کی گیلری میں گیا
وہ سارا دن سوچتا تھا کہ وہ اسے بھول جائے گا وہ اپنے دوستوں میں زیادہ رہنے لگا تھا ان کے ساتھ ہنستا مسکراتا خوش نظر آنے کی کوشش کرتا۔۔۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو بےحد مصروف کرلیا وہ اپنے آپ کو ایک لمحہ بھی فری نہ رہنے دیتا
لیکن ان سب کے باوجود ۔۔۔۔۔ جب وہ رات کو سونے کے لیے لیٹتا تو ایک بار ضرور اپنے سیل کی گیلری میں جاتا جہاں پہ اس نے اس کی بہت سی یادیں سنبھالی ہوئیں تھیں
وہ چاہ کر بھی ان یادوں کو مٹا نہیں پایا تھا یہ یادیں اس کے جینے کا اثاثہ تھیں تب اس کا دل بے اختیار کہتا تھا
” تم کچھ بھی کرلو وہ تمہارے دل میں اپنی پوری آ ب و تاب کے ساتھ موجود ہے تمہارا دل ویران نہیں تنہارا دل اب بھی آباد ہے” اور اس بات پہ ہر بار کی طرح وہ سر جھٹک لیتا تھا اور ابھی بھی اس نے ایسا ہی کیا تھا۔
———–
” اوہ مائے گاڈ اتنا بڑا دھوکا۔۔۔۔۔ یہ لوگ اتنے بےحس ہیں کہ بھائی سے زیادہ فکر انہیں دولت کی ہے۔۔۔۔۔ نہیں میں اور ان لوگوں کی زندگی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا ماما بابا کے بعد ایک وہی تو میرے اپنے ہیں۔۔۔۔۔ مجھے ہر حال میں انہیں پروٹیکٹ کرنا ہے اس بھائی نام کا مان مجھے ہی رکھنا ہے” وہ وہیں سے پلٹا تھا۔
۔ ———-
“آپی ہوم ورک کروا دیں” مصطفٰی نے اس سے آکے کہا
” ہوں ہاں۔۔ جاؤ لے آؤ کروا دیتی ہوں” وہ چونکی مصطفٰی اپنا بیگ لینے چلا گیا
مامی بھی اپنے گھر چلی گئیں تھیں کب تک رکتیں وہ بھی انہیں بھی تو اپنا گھر دیکھنا تھا اب وہ تینوں اس بڑے سے گھر میں اکیلے ہوتے تھے رات کو سوتے ہوئے بھی مصطفٰی کو ڈر لگتا ڈر تو اسے بھی لگتا تھا پر وہ ظاہر نہیں کرتی تھی کیونکہ اب ان کی زندگی یہ ہی تھی اب انہیں اپنی زندگی سے سمجھوتہ کرنا تھا
اس نے سر جھٹکا اتنے میں مصطفٰی بھی اپنا بیگ لے آیا وہ اسے ہوم ورک کروانے لگی مشعل اپنے روم میں تھی اتنے میں ارسلان بھائی چلے آئے
” ارسلان بھائی آپ۔۔۔۔۔” یشل چونکی
” ہاں گڑیا تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے”
” اچھا رکیں میں آپ کے لیے چائے بنواتی ہوں” وہ اٹھنے لگی تو وہ بولے
” نہیں گڑیا جلدی میں ہوں میں مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے”
” کیا بات ہے بھائی” یشل بولی
” ہے کچھ بات۔۔۔۔۔” وہ مصطفٰی کے سامنے بولنے سے اوائیڈ کررہے تھے
” مصطفٰی مشعل آپی کو بولو وہ آپ کا ہوم ورک لرادیتی ہے” یشل نے مصطفٰی کو وہاں سے اٹھایا
” جی اب کہیں بھائی” یشل بولی تو ارسلان نے ساری بات اسے بتا دی یشل تو ہقابقا رہ گئی یہ سن کے
” ارسلان بھائی یہ آپ کو کیسے پتا چلا” کچھ دیر بعد وہ بولی تو لہجے میں دکھ سا تھا
” میں آج کسی کام سے وہاں گیا تھا تب سنا۔۔۔۔۔ یقین نہیں آرہا نا۔۔۔۔۔ مجھے بھی نہیں آیا تھا پر ایسا ہی ہے”
” میں۔۔ میں منع کردوں گی انہیں یہ شادی نہیں کروں گی” یشل کی آواز لڑکھڑائی
” یشل دیکھو گڑیا ہمارے پاس کوئی نہیں ہے جو ہمارے حق میں بولے۔۔ جو تھے وہ چلے گئے۔۔ انہیں پتا ہے اب تم لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے تو وہ اپنی مرضی بھی کر جائے گے لوگ بہت بےحس ہیں یشل”
” تو میں کیا کروں ارسلان بھائی مجھے سمجھ نہیں آرہی ” وہ رونے والی ہورہی تھی
” تم لوگ ایسا کرو یہ ملک چھوڑ دو” ارسلان بھائی بولے ” اور اپنی نئی زندگی کی شروعات کرو۔۔۔۔ یہاں رہو گی تو یادیں تم لوگوں کو آگے بڑھنے نہیں دیں گی۔۔ تمہارے پاس اب صرف یہ دو تمہارے اپنے بچے ہیں تم ان کے مسقبل کا سوچو یشل” وپ اسے سمجھانے لگے
” پر ہم جائیں گے کہاں ؟؟؟” یشل بولی
” میرا ایک دوست ہے اس کے پیرنٹس ہیں امریکہ میں تم ان کے پاس چلی جاؤ ویسے بھی میرا دوست ان کے ساتھ نہیں رہتا ہے کچھ دن وہاں رہ لینا میں ان سے بات کرلوں گا پھر جب گھر کا انتظام ہو جائے تو اپنے گھر میں شفٹ ہو جانا”
” پر بھائی ایک انجان ملک میں وہاں کے لوگ سب اجنبی سا ہوگا ہم کیسے۔۔۔۔۔۔” اس بے بات ادھوری چھوڑی
” یشل اس شناسا ملک کے لوگوں نے کیا دیا تمہیں۔۔۔۔۔ کچھ نہیں نا تو ایک بار انجان لوگوں کو بھی آزمالو ”
وہ خاموش رہی
” میں انکل آنتی سے بات کرلوں گا انکل ڈاکٹر ہیں وہاں اور آنٹی ایک اسٹور چلاتی ہیں بہت اچھے ہیں وہ لوگ آئم شیور تمہیں بھی وہ لوگ پسند آئیں گے” ارسلان بھائی اسے ان لوگوں کے بارے میں بتارہے تھے اور وہ سن رہی تھی
———
اس وقت وہ کراچی ائیر پورٹ پہ کھڑی تھی ہیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ملک کو خیرآباد کہنے کے لیے۔۔۔۔۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے کتنی ہی اچھی بری یادیں تھیں یہاں۔۔۔۔۔ ماں باپ بین بھائی کی قبریں تھیں۔۔۔۔۔ وہ تھا جسے اس نے خود سے زیادہ چاہا تھا۔۔۔۔۔ سب چھوڑ کے جا رہی تھی وہ
علی کے گھر والے سب اس سے رابطے میں تھے پر ایک وہی تھا جو بےحس بن گیا تھا
“یہاں سے جاتے ہوئے تم سے غصہ نہیں ہوں میں۔۔۔۔۔بس ایک مایوسی سی ہے تم سے کہ تم مجھے سمجھ ہی نہیں پائے یا شاید میں ہی نہیں سمجھ پائی تمہیں۔۔۔۔۔محبتیں یوں ہی پروان نہیں چڑھتیں علی۔۔ بھروسہ لینا پڑتا ہے۔۔ بھروسہ دینا پڑتا ہے۔۔۔ خیر اللٰہ حافظ جاؤ آزاد کیا” وہ سوچوں کے گرداب میں گم تھی کہ اس کی فلائیٹ کی اناؤسمنٹ ہوئی تو وہ چونکی
تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنی زندگی کا یہ باب بند کرکے چلی گئی تھی جہاز لینڈ کر چکا تھا
جاؤ آزاد کیا تم کو
اپنی یادوں سے
اپنی باتوں سے
اپنی آنکھوں سے
اپنے خوابوں سے
اپنی سوچوں سے
اپنے جذبوں سے
سنو !!! آزاد ہو تم اب
سنو!!! خوش ہی رہنا تم اب
سنو یہ دعویٰ تو نہیں لیکن
تمہیں میں یاد آؤں گی کہ
شاید پھر رلاؤں گی
لیکن
پریشان مت ہونا
جو میرا خیال آئے تو
اسے بےدردی سے جھٹک دینا
کہ شاید اتنا حق بھی نہیں ہے تم پہ
اب سنو!!! آزاد ہو تم اب
سنو تم خوش ہی رہنا اب۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...