(Last Updated On: )
سنو کہ چارۂ ہجراں کا سال آ ہی گیا
مئے نہال میں دم بھر جمال آ ہی گیا
جو کھل اٹھی ہے تمنا براہِ دیدہ و دل
دیارِ حسن کا مالک طلال آ ہی گیا
دعا سے ٹل ہی گیا وہ عذابِ ہجرِ حرام
نوید ہو کہ یہ وصلِ حلال آ ہی گیا
سبک سبک سی لگن تھی رخِ سحر کی بھی
تو حرف حرف غزل پر کمال آ ہی گیا
پھر اِس سے پہلے بھرم ٹوٹتا مرے دل کا
انا پرستوں پہ آخر زوال آ ہی گیا
روش کے پہلو میں کچھ ننھے ننھے پودوں پر
ہماری آنکھ جو برسی جمال آ ہی گیا
نہا رہا ہوں تصور کی چاندنی میں منیبؔ
“ہزار دھیان کو ٹالا خیال آ ہی گیا”
***
بات بے بات وہ بگڑتے ہیں
اصل میں روشنی سے ڈرتے ہیں
قافلے دردِ دل والے پھولوں کے
آپ کے نام ہم بھی کرتے ہیں
***