(Last Updated On: )
سُناؤں گا تُمہیں اے دوست میں فُرصت سے حال اپنا
مہِینہ چین سے گزرا، نہ دِن، گھنٹہ نہ سال اپنا
تُمہارے ہِجر و حِرماں سے کہُوں کیا حال کیسا ہے
سمجھ لِیجے کہ ہونے کو ہے اب تو اِنتقال اپنا
نہِیں ہوتا تو ہم کب کا جُھلس کر راکھ ہو جاتے
ہمارے کام آیا دیکھ لو یہ اعتدال اپنا
تُمہاری آنکھ سے آنسُو تو کیا خُوں بھی رواں ہو گا
کہو تو شعر گوئی میں دِکھا دیں وہ کمال اپنا
بہت مقبُول ہوتی جا رہی ہے دِل زدگاں میں
ہماری شاعری، اب تو فسُوں بھی بے مثال اپنا
غُرُور اِک عارضہ جِس کا تدارُک ہی نہِیں مُمکِن
لگا اِک بار یہ جِس کو سمجھ لے وہ زوال اپنا
کرِشمہ وقت میں رکھا گیا ہے زخم بھرنے کا
لگے جو گھاؤ تو حسرتؔ، بنے خُود اِندمال اپنا