احمد ہمیش(کراچی)
بہار کے دنوں کی ایک شام تھی
گلی کے موڑ سے گزر رہی تھی زندگی
تو کیا دیکھتے ہیں کہ گل مہرکے جھرمٹ میں
نصف جھلک دیتی اور نصف چھپ جاتی
ایک حُسن بخش وتاب ناک لڑکی
گرد وپیش سے بے نیاز
ہاتھوں میں کوئی کتاب تھامے پڑھتی ہوئی
محبتوں کے شعلہ رنگ خواب میں رچی بسی
اور ابھی دمک رہی تھی جھُٹ پٹے کی روشنی
یعنی گزرتے ہوئے دن کی دھوپ رنگ روشنی باقی تھی
اور عجیب بات کہ شاعری کی اس گزرگاہ پر
میرے سوا کوئی نہیں گزر رہا تھا
چہل پہل تو سرے سے تھی ہی نہیں
تبھی میری نظر اس مکان پر پڑی
جس کے طویل صحن کی باڑ کو
گُل مہر کی شعلہ رنگی نے
نصف ڈھانپ رکھا تھا
گویا دوآتشہ سماں ایک عجیب منظر بنارہا تھا
اور درونِ منظر وہ لڑکی
صحن کے سبزہ پر خراماں قدم تھی
ایسے میں صرف ایک پل اس نے مجھے اور میں نے اسے
دھیان کے کسی نامعلوم حصہ میں دیکھا
مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ گہری ہوتی ہوئی شام کاحصہ بننے
شائد مکان کے بھیتر چلی گئی
اور شام تھی کہ حسرتوں کے موڑ پر ہی ڈھل گئی
طلب کی جانکنی لئے اندھیری رات آگئی
اندھیری رات نے مجھ سے پوچھا
کون ہو تم
میں نے کہا……میں
اُس نے کہا ……مت کہو کہ……میں
اس ’’میں ‘‘نے ہی تمہیں غالب کی طرح ڈبودیا
’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘
اور غالب سے پہلے شیکسپیر نے کہا تھا
To be or not to be
that is the question
پھر یوں ہوا کہ عورت کے اعضا سے شائد
زمین پر
موسموں کے ماہ وسال اور
رات ودن کے کارواں گزرتے رہے
اور ان کے درمیان زلزلے آئے تو
آدمی سے کہنے لگے کہ یہ تم ہی ہو اور تمہاری فتنہ سامانیاں
سیلاب آئے تو آدمی سے کہنے لگے
کہ یہ تم ہی ہو
یاہزاروں سال سے بہتے آئے مظلومین کی آنکھوں
کے آنسو ہیں
کون کس پر الزام رکھے کون کسے دوشی ٹھہرائے!
کس نے کہا ،کس سے کہا،کس نے سنا!
آواز نے آواز کو پکارا
یا آواز تھی ہی نہیں
کوئی سماعت تھی ہی نہیں
آخر میر صاحب اور ان کے آئینہ خانہ دل پر کیا گزری!
منہ کہاں تھا اور دیواریں کہاں تھیں!
پھر کبھی زمین پر
بہارکے دنوں کی شام تو ہوئی نہیں