اب اسی باب میں ایک سیاسی شخصیت ‘ سلطان ٹیپو کی وصیت ملاحظہ کیجیے جو جو اپنے سیاسی تجربے پر مبنی ایک فلسفیانہ نصیحت شاعرانہ انداز میں کرتی ہے:
تو رہ نورد شوق ہے‘ منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول!
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز! گرمی محفل نہ کر قبول!
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول!
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول!
تاریخی اشارات سے مملو یہ نظم تحریک آزادی اور تحفظ حریت کی جدوجہد کو ایک جہاد شوق کی شکل میں پیش کرتی ہے۔ جب پورے ہندوستان میں عقل کی غلامی قبول کر کے غیر ملکی سامراج کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا تھا سلطان ٹیپو اپنی جرات ایمانی اور اس سے پیدا ہونے والے جذبہ عشق کے بل پر انگریزوں اور ان کے حلیفوں کی متحدہ طاقت سے آخر وقت تک تنہا مقابلہ کرتا رہا‘ اس لیے کہ وہ حق پرست تھا‘ توحید کا علم بردار تھا‘ دین و دنیا کی تقسیم اور مذہب و سیاست کی تفریق اور خدا و بادشاہ کے درمیان شرک کا قائل نہ تھا۔ وہ روئے زمین پر خلافت آدم کا حامل تھا‘ اس دنیا میں حق کا کلمہ بلند کرنے والا تھا۔ نہ کہ دنیا کی پرستش کرنے والا‘ وہ اپنے عقیدے کے مطابق اس دنیا کو صرف راہ سفر سمجھتا تھا جب کہ اس کی منزل چرخ نیلی فام سے بھی پرے تھی اور دنیا کی کوئی دل فریبی ‘ حسن ظاہر کا کوئی عشوہ اس کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے سے روک نہ سکتا تھا‘ اپنے دام میں الجھا نہ سکتا تھا۔ اس کی ہستی وہ جوئے آب تھی جو بڑھ کر دریائے تند و تیز ہونا چاہتی تھی اور کسی ساحل پر ٹھہرنے کے لیے آمادہ نہ تھی وہ اقدام و عمل جرات و شجاعت‘ حرکت و ترقی اور آزاعدی و حریت کا ایک پیکر تھا۔ جس کے نقوش حیات زبان حال سے اپنے بعد آنے والوں کو صحیح طرز فکر اور صالح طرز عمل کی وصیت کر رہے تھے۔ یہ ولولہ خیز تخیل و رہ نور د شوق‘ منزل‘ لیلیٰ محمل جوئے آب‘ دریائے تند و تیز‘ ساحل‘ صنم کدہ کائنات‘ محفل گداز‘صبح ازل‘ جبرئیل‘ عقل کا غلام‘ دوئی پسند‘ لا شریک‘ اور حق و باطل کی تصویروں اور تلمیحوں استعاروں علامتوں اور پیکروں کے ذریعے منقش کیا گیا ہے۔ چنانچہ خالص وعظ کا مل شعر بن گیا ہے اور وصیت نامہ مرقع فن میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ جو ایک بے جان وصیت میں زندگی کی گرمی و تابانی پیداکرتا ہے۔ یہ فن کیمیا گری ہے جو اجزائے افکار کو تحلیل کر کے اشعار نظم میں ترکیب دیتی ہے اور پرانے مواد کو ایک نئی شکل میں مرتب کرتی ہے۔
چار مصرعوں کی یہ چھوٹی سی قطعہ نما نگینہ جیسی ایک نظم یہ ہے:
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے‘ مگر صاحب کتاب نہیں
(طالب علم)
ایک لفظ طوفاں کا پیکر بحر کی موجوں میں اضطراب کے فقدان کے پس منظر میں ابھرتا ہیل۔ اور اپنے مفہوم سے خوابیدہ ذہنوں میں تلاطم پیدا کر دیتا ہے۔ اسی تلاطم کے عالم میں شاعر‘ کتاب خواں اور صاحب کتاب کا تقابل کر کے ایک پیام طالب علم کو دیتا ہے ۔ پہلی تصویر ایک محسوس مظہر فطرت کی تھی‘ جبکہ دوسری تصویر ایک مجرد خیال کی‘ ایک طرف قدرت کا اشارہ دوسری طرف شریعت کا دقدرت پس منظر میں ہے۔ اور شریعت پیش منظر میں۔ اس تناظر میں ایک دقیق و لطیف نکتہ فکر لفظ کتاب سے متعلق ہے جو کسی بھی طالب علم کے لیے موضوع کے عین مطابق موزوں ترین پیکر خیال ہے۔ ا ب اسے غور کرنا ہے کہ کتاب خواں اور صاحب کتاب کے درمیان کیا فرق ہے ۔ اور اس فرق کی نسبت سے اس کی موجودہ و مطلوبہ زندگی میں کیا فرق؟ وہ جتنا غور کرے گا اس کی سمجھ میں خود بخود آتا جائے گا کہ اس فرق کو دور کرکے مقصود فراغ خاطر کسی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔
باب عورت میں عورت کے عنوان سے پہلی نظم اس طرح ہے:
وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کی سار سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در کمنوں
مکالمات فلاطوںنہ لکھ سکی لیکن
اس کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطون
تصویر کائنات کا رنگ تصویر نظم میں بھی جھلک رہا ہے ساز ہے قول محال کے طور پر ساز ہی سو ز دروں ۃے ۔ ثریا اور مشت خاک کے تقابل سے ابھرنے والا تصور ارتقاء ہے۔ مکالمات فلاطون اور شرار فلاطون کا موازنہ ہے پھر شرف کی تکرار ہے ۔ درج اور درمکنوں کی صوتی و معنوی رعایت ہے شعلے اور شرار کی نسبت ہے لیکن ان سب کا ماحصل عورت کے مقام کی بلندی لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے مخصوص حیاتیاتی کردار کی پردگی کا حسین و پر خیال توازن ہے۔ چند لفظوں اور چند تصویروں اور چند نکتوں کے ذریعے ایک نہایت پیچیدہ موضوع کو آئینہ دکھایا گیا ہے اور اس سلسلے میں شاعر کا خاص نقطہ نظر پردے پردے میں نمایاں بلکہ پردوں ہی کی وجہ سے جمیل تر نیز واضح تر ہے۔
یہ میناکاری‘ ادبیات فنون لطیفہ کے باب مین اوربھی بڑھ گئی ہے اور حسب ذیل نظمیں دامن دل اپنی طرف کھینچتی ہیں:
نگاہ‘ شاع امید‘ نگاہ شوق‘ نسیم و شبنم‘ فنون لطیفہ‘ صبح چمن۔
نگاہ صرف چار اشعار میں ایک جلوہ فطرت کو اس خوب صورتی سے منقش کرتی ہے۔
نگاہ
بہار و قافلہ لالہ ہائے صحرائی
شباب و مستی و ذوق و سرور و رعنائی
اندھری رات میں چشمگیں ستاروں کی
یہ بحر ! یہ فلک نیلگوں کی پہنائی
سفر عروس قمر کا عماری شب میں
طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی
نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں
کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی
یہ کئی جلوئوں کا ایک جلوہ ہے‘ اس لیے کہ سب جلوے ایک دوسرے میں سموئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اور ان کا عکاس ایک ایک مصرع‘ ایک ایک ترکیب‘ ایک ایک لفظ حسن فطرت کی ایک ایک ادا کا آئینہ دار ہے ۔ پہلے مصرع میں فقط دو الفاظ ہیں ایک لفظ مفرود بہار‘ دوسرے قافلہ ہائے صحرائی کی توالی اضافات والی ترکیب بس ان دو لفظوں کا اثر یہ ہے کہ تاثرات کی ایک دنیا سج گئی ہے۔
شباب مستی‘ و ذوق و سرور و رعنائی
پہلا مصرع تصویر بہار ہے اور دوسرا تاثیر بہار‘ تیسرے مصرعے میں منظر مختلف ہے اندھیری رات میں چشمگیں ستاروں کی میں جبکہ چوتھا مصرع اسی تصویر کی وسعت و عمق میں بے پناہ اضافہ اس ایمائی بیان سے کرتا ہے:
یہ بحر ! یہ فلک نیلگوں کی پہنائی
اس سے ایک طرف بحر کی ہول ناکی کا تصور ابھرتاہے تو دوسری طرف فلک کی نیلگونی کا حسن یہ گویا اندھیری رات اور ستاروں کی چشمکوں کی تعبیر و تفسیر ہے۔ جس سے شب تاریک میں وسیع و عریض آسمان پر بزم انجم کا یہ بیک وقت جمیل و مہیب پیکر تیار ہوتا ہے۔ بعد کا منظر چاند اور سورج کے آسمان پر نکلنے اور چمکنے کا ہے دونوں کا انداز رونمائی ڈرامائی ہے‘ عروس قمر کے سفر کے لیے عماری شب کا پیکر ہے اور طلوع مہر کے ساتھ ہی سپہر مینائی پر ایک سکوت تجسس و احترام طاری ہو جاتا ہے۔
یہ چند نظارے ہیں فطرت کے جمال وزیبائی کے اور ہر شخص بہ آسانی ‘ بے خرچ بلاقیمت‘ بلا زحمت ان پر نگاہ ڈال سکتا ہے۔ یعنی سارا معاملہ نگاہ کا ہے ورنہ بہارولالہ‘ شب و تار فلک نیلگوں ‘ بزم انجم عروس قمر اور طلوع مہر کے نظارے تو عام ہیں اس طرح حسن فطرت کی منظر نگاری میں بھی زور دیدہ وری اور شق نظارہ پر ہے مناظر قدرت کی طرف انسان کے رویے پرہے اس کے ذوق مشاہد ہ و مطالعہ پر ہے۔
نگاہ شوق
اب ایک دوسری نظم میں نگاہ شوق کی کارفرمائی ملاحظہ کیجیے:
یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کہ ذرہ ذرہ میں ہے ذوق آشکارائی
کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں
نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی
اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند
ہوئے جہاں میں سزاوار کارفرمائی
اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی
اسی نگاہ سے ہر ذرہ کو جنوں میرا
سکھا رہا ہے راہ و رسم دشت پیمائی
نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو
ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی
جو نگاہ شوق پچھلی نظم میں مناظر قدرت کے لیے درکار تھی‘ اب وہی مظاہر حیات کے لیے مطلوب ہے۔ اور اگر کسی کو بد ذوق کو یہ نگاہ میسر نہیں تو اس کا وجود قلب و نظر کی رسوائی ہے جبکہ اگر نگاہ میسر ہو تو ذرہ ذرہ‘ رہ و سم و شت پیمائی ‘ کے لیے بے چین ہو اٹھے اور اپنی نمود و ترقی کے لیے عرصہ حیات میں بے انتہا جدوجہد کرنے لگے۔ اقبال اپنے کلام سے لوگوں میںیہی نگاہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے یے ان کے دل میں ایک جنوں ہے اور ایک عمر کی نے نوازی کے بعد وہ اب اتنا عام ہو رہا ہے کہ واقعی ان کے قوم کے ریگ زار کا ہر ذرہ دشت پیمائی حیات کی رسم و راہ سیکھ رہا ہے ۔ یا کم از کم انہیں خود ایک ایسی نگاہ شوق میسر آ گئی ہے کہ جس کی بدولت وہ لوگوں میں سعی و جدوجہد کا ذوق عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ بہرحال کار جہاں سیکھنے اور چلانے کے لیے اس نگاہ شوق کا حصول ضروری ہے ۔ جس کے بغیر انسان کے کردار میں نہ تو قاہری و جباری کا جلال پیدا ہو ستکا ہے۔ نہ دلیری و رعنائی‘ کا جمال اور نہ محکوم قوم کے فرزند‘ جہاں میں سزاوار کارفرمائی ہو سکتے ہیں۔ یہ نکتہ نظم کے ابتدائی دو اشعار میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ کائنات کے ذرہ ذرہ میں ذوق آشکار ائی لہٰذا اگر نگاہ شوق شریک بینائی ‘ ہو جائے یعنی بصارت کے ساتھ بصیرت بھی شامل ہوجائے تو کاروبار جہاں اپنے ظاہر سے مختلف کچھ اور ہی نظر آنے لگے۔ اس تمہید کے عد وہ خیالات ہیں جنہیں ابھی بیان کیا گیاہے۔ غور کیاجائے تو نگاہ شق کے یہ دونوں ابتدائی و تمہیدی اشعار نگاہ کے آخری شعر کی توسیع معلوم ہوں گے اور زیر نظر نظم کے دیگر اشعار ابتدائی تمہید کی تفصیل و تشریح نظر آئیں گے اس لیے کہ پہلی نظم کی نگاہ درحقیقت یہی دوسری نظم کی نگاہ شو ق ہے اور جو نگاہ مناظر قدرت سے لطف اندوز ہونے کے لیے درکار ہے۔ وہی مظاہر قدرت سے مستفید ہونے کے لیے مطلوب ہے۔
نگاہ مشرق ہے تو فن بھی عام ہے شاعری جس طرح فطرت کے جمال و زیبائی کی ہوتی ہے ااسی طرح کائنات کے ضمیر کی اقبال جمال فطرت اور ضمیر کائنات دونوں کے راز داں ادا شناس اور نغمہ پرداز ہیں۔ ان کے فن کی فکر کا مواد دونوں ہی مظاہر حقیقت ہیں‘ دونوں کے فنی برتائو میں فرق صرف یہ ہے کہ فطرت کے پیکر اپنی عکاسی براہ راست کرتے ہیں‘ جبکہ کائنات کی تصویریں فطرت یا حیات کے دوسرے پیکروں کے ذریعے بالواسطہ منقش ہوتی ہیں حسن دونوں میں ۃے لیکن حسن کے اس تنوع سے لطف اندوز ہونے کے لیے نگاہ چاہیے نگاہ شوق! اس نگاہ سے دیکھا جائے تو نگاہ شوق میں ذوق آشنائی کاروبار جہاں شریک بینائی‘ سزاوار کارفرمائی رہ و رسم ‘ دشت پیمائی‘ اور خود نگاہ شوق جیسی خوبصورت اور خیال انگیز ترکیبیںہیں۔ صرف چھ اشعار ہیں نگاہ کا استعمال چھ بار ہوا ہے۔ جس میں دوبارہ نگاہ شوق کی ترکیب کے ساتھ‘ موضوع و عنوان کے ایک جز بمعنی کل کی یہ تکرار ہے تو مفہوم مرکزی پر زور دینے کے لیے مگرا س سے موسیقی کا آہنگ بھی پیدا ہوتا ہے جو تراکیب کے رنگ کے ساتھ مل کر بہت نظم میں چستی و زبیائی پیدا کرتا ہے۔
نسیم و شبنم
’’نسیم و شبنم ایک مختصر سا خوبصورت مکالمہ ہے:
نسیم
انجم کی فضا تک نہ ہوئی میری رسائی
کرتی رہی میں پیرہن لالہ و گل چاک
مجبور ہوئی جاتی ہوں میں ترک وطن پر
بے ذوق ہیں بلبل کی نواہائے طربناک
دونوں سے کیا ہے تجھے تقدیر نے محرم
خاک چمن اچھی کہ سرا پردہ افلاک
شبنم
کھینچیں نہ اگر تجھ کو چمن کے خس و خاشاک
گلشن بھی ہے اک سر سرا پردہ افلاک
نسیم و شبنم کی اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ زندگی کی شان اور اس کا مقام کس ہستی اور اس کے دائرہ کار کی نوعیت پر نہیں‘ اس کے ذہن و کردار کے رویے پر منحصر ہے۔ نسیم چمن اگر خس و خاشاک میں الجھنے کی بجائے گل و لالہ کے اوراق اور بلبل کی نوائے طربناک‘ پر اپنی توجہ مرکوز رکھے تو سراسر پردہ افلاک اسے گلشن میں ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے حصول کے لیے ترک چمن کر کے افلاک میں پرواز کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ جو وجود جس عالم میں پیدا کیا گیا ہے اس کا مرکز عمل اسی عالم میں ہے۔ اور اگر وہ اپنا رویہ درست رکھے تو اسی عالم میں اپنے عمل سے زندگی کی ساری بلندیاں حاصل کر سکتا ہے نظم کی تصویریں فطرت کا پیکر جمال مرتب کرتی ہیں۔ لیکن شاعر کا مقصد اس پیکر جمال سے سرسراپردہ افلاک تک پہنچتا ہے ۔ ورنہ فطرت کے پیکر جمال کی حیثیت بھی چمن کے خس و خاشاک سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔ نظم کا تمثیلی ہیولا مع کردار و مکالمہ کے صرف ایک خیال کو مجسم کرنے کے لیے ہے اور اس تجسیم میں کارگر ثابت ہوا ہے۔
صبح چمن
ایسا ہی ایک تمثیلی مکالمہ صبح چمن میں ہے
پھول
شاید تو سمجھتی تھی وطن دور ہے تیرا
اے قاصد افلاک! نہیں دور نہیں ہے
شبنم
ہوتا ہے مگر محبت پرواز سے روشن
یہ نکتہ کہ گردوں سے زمیں دور نہیں ہے
صبح
مانند سحر صحن گلستان میں قدم رکھ
آئے تہ پا گوہر شبنم تو نہ ٹوٹے
ہو کہ وہ بیاباں سے ہم آغوش لیکن
ہاتھوں سے ترے دامن افلاک نہ چھوٹے
یہ حسن فطرت کا ایک منظر نامہ ہے۔ جس میں تین مناظر قدرت کی نقش آرائی ہے‘ پھول شبنم اور دونوں کو صحن چمن اور اپنے دامن میں سمیٹنے والی صبح تینوں مظاہر اپنا اپنا پیام اشاروں اور استعاروں میں بلکہ خود ہی اشارات و استعارات بن کر دیتے ہیں پھول سمجھتا ہے کہ فلک سے چمن تک نظر آنے والا فاصلہ زیادہ نہیں‘ شبنم کی اس تائید کرتے ہوئے اس فاصلے کو طے کرنے کے لیے محنت کی شرط لگاتی ہے جس کا مجسم نمونہ خود اس کی محنت پرواز ہے صبح اپنی لطیف شخصیت کے حسین پیچ و خم کھولتی ہوئی بڑا نازک سا نہایت باریک بلند اور عمیق پیام دیتی ہے۔ اس قدرتی پیام سے طلوع سحر بڑی رنگین و زرین اور نادر و نفیس تصویر رونما ہوتی ہے۔ اس تصویر کے ایمائی نقوش پر غور کرنے سے یہ منظر ابھرتا ہے کہ صبح فضائے عالم میں بڑی آہستگی اور خموشی سے اس نزاکت کے ساتھ نمودار ہوتی ہے کہ باغ کے پھولوں پر چمکتے ہوئے شبنم کے موتی اس کے قدموں تلے آ کر ٹوٹتے نہیں بلکہ اس کی نرم خرامی کے ساتھ اس کا صبیح چہرہ اپنے نور سے انہیں اور چمکا دیتا ہے۔ اور وہ طلوع آفتاب تک گویا آغوش سحر میں یا کیف صبح پر مچلتے رہتے ہیں۔ پھر یہ صبح روئے زمین کے تمام کوہ و بیاباں سے ہم آغوش ہوتی ہے۔ مگر ان سے لپٹ کر نہیں رہ جاتی چند ہی لمحات کے بعد اپنے مسکن افلاک کی طرف لوٹ آتی ہے۔ اس لیے کہ دامن افلاک کبھی اس کے ہاتھوں سے نہیں چھوٹتا وہ ان کی بلندیوں پر رہتی ہے وہیں سے اترتی ہے اور وہیں واپس چلی جاتی ہے روز آتی ہے اور روز جاتی ہے۔ لہٰذا گردوں اور زمین کے درمیان پھول کا بتایا ہوا مختصر فاصلہ شبنم کی محنت پرواز سے طے ہوتا ہے تو اس پربہارو پر خیال منظر کا موقع و محل وہ نازک اندام ‘ نازک خرام اور نازک خیال صبح ہے جو ایک طرف گوہر شبنم کی تابانی کی محافظ ہے تو دوسری طرف کوہ و بیاباں کی صلابت و وسعت کی نگہ داری ہے مگر شبنم کی نرمی سے کوہ و بیاباں کی سختی تک کوہ ایک بلندی سے جمع کرتی ہے ۔ اس لیے کہ وہ بلندی کی مخلوق ہے۔ رفیع الاصل ہے خواہ اس کا ظہور و عمل ہماری نگاہوں کے سامنے زمین کی پستی میں ہی ہوتا ہے۔ صبح چمن کی ایسی لطیف و بلیغ تصویر کشی اتنے مختصر سے سانچے میں ایجاز کا اعجاز ہے۔
’’فنون لطیفہ‘‘ اس فن و ادب و شعر کی بڑی خیال انگیز ترجمانی ہے جو ایسی حسین پر معنی تصویریں مرتب کر کے فکر و فن کی فصاحت و بلاغت کا کمال دکھاتا ہے‘ دل انساں کو لبھاتا اور ذہن انساں کو کچھ سکھاتا ہے۔
فنون لطیفہ
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نسیاں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیںرکھتا وہ ہنر کیا
پہلے شعر میں ایک اصولی بیان تمام فنون لطیفہ کے متعلق ہے ۔ وہ یہ کہ ذوق نظر کے ساتھ حقیقت بینی بھی ضروری ہے ۔ ورنہ وسیلہ عمل بے نشانیہ مقصد ہوگا۔ اس کے بعد تمام اشعار میں اس نکتے کی تشریح و توسیع و تفصیل مسلسل شاعرانہ پیکروں اور مکمل فنی رنگ و آہنگ کے ساتھ کی گئی ہے۔ ذو ق نظر کے ساتھ حقیقت بینی اس لیے ضروری ہے کہ اسی سے فن میں پایداری پیدا ہوتی ہے ورنہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر ‘ سے زیادہ فن کی آ ب و تاب باقی نہ رہے گی‘ اور بہ ظاہر خوبصورت سے خوبصورت نمونہ فن بچوں کا کھلونا بن کر رہ جائے گا۔ اور کھلونے ہی کی طرح جلد ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ لہٰذا سوز زحیات ابدی کے حصول کے لیے ذوق نظر کے ساتھ ساتھ شے کی حقیقت کو دیکھنا بھی لازمی ہے۔ پھر پائیدار و استوار فن سلاتا نہیںجگاتا ہے۔ دباتانہیں ابھارتا ہے خواہ قیمتی و درخشاں گوہر ہو یا اس کا لطیف و حسین صدف‘ اس کی شان یہ ہونی چاہیے کہ دریا کی سطح پر قطرہ نسیاں بن کر ٹپکے تو اس کی تہوں میں اتر کر دل دریا میں ایک تلاطم بھی پیدا کرے۔ ورنہ بغیر تموج کے وہ اس میں اتر سکتا ہے نہ صدف میں پڑ سکتا ہے۔ نہ موتی بن سکتا ہے۔ اس طرح شاعر او رموسیقار کی ہستی چمن حیات کے لیے باد سحر کی ہے اور اگر باد سحر افسردہ ہو تو پورا چمن پژمردہ ہو جائے گا لہٰذا چمن حیات کی رونق و تازگی روح افزا ہو ائوں سے ہے جاں افزا نغموں سے ہے چنانچہ اگر فن جاں افزا ہو تو قوموں کے عروج کا باعث ہو سکتا ہے۔ اور وہی جاں بخش ہنر مندی دکھا سکتا ہے۔ جو ضرب کلیمی کے معجزے سے منسوب ہے جس نے ایک پوری قوم کو غلامی و غرقابی سے بچا کر تاریخ کے طویل ادوار میں کرامت و فضیلت کے مقام پر فائز کر دیا۔
شعاع امید
فن کا یہی نقطہ نظر اور نمونہ کمال ضرب کلیم کی بہترین نظم شعاع امید میں بروئے اظہار آیا ہے۔ یہ ایک تمثیلی نظم ہے جس کے تین حصے ہیں پہلے حصے میں سورج اپنی شعاعوں کو پیغام دیتا ہے:
سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیا ہے عجب چیز! کبھی صبح کبھی شام
مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں
بڑھتی ہی چلی آتی ہے بے مہری ایام
نے ریت کے ذروں پہ چمکے میں ہے راحت
نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام
پھر میرے تجلی کدہ دل میں سما جائو
چھوڑو چمنستاں دیبا بان و در و بام
یہ ایک پیام ناامیدی ہے اور ا س میں بے مہر ی ایام ‘ سے شکست خوردگی کا احساس ہے‘ بہ ظاہر تو یہ گویا انسان کی طرف سے قد کی مایوسی ہے۔ اس لیے کہ مکالمہ اور اس کو ادا کرنے والا کردار سورج… ایک مظہر قدرت ہے اور س نے خطاب بھی ایک مظہر قدرت اپنی شعاعوں کو کیا ہے یعنی تکلم اور مخاطب دونوں دراصل ایک ہی مظہر قدرت کے دو رخ ہیں ایک گل اور سرچشمے کا دوسرا جزا اور سرچشمے سے جاری ہوکر بہنے والی امواج کا لیکن یہ مظہر قدرت درحقیقت ایک استعارہ و علامت ہے خالق و انسان کی اور سورج فی الواقع آفتاب حیات ہے جبکہ تمام انسان شعاع آفتاب ہیں۔ آفتاب نے آفاق عالم کو منور کرنے کے لیے اپنی شعاعوں کو پہنائے فضا میں بکھیر دیا ہے۔ لیکن دیا کی تاریکی دور نہ ہوئی یہ خطہ بے نور تاریک ہی رہا۔ لہٰذا اب آفتاب اپنی کرنوں کو روئے زمین سے واپس بلا لینا چاہتا ہے تاکہ وہ ایک ناقابل تنویر دائرہ ہستی میں اپنا مزید وقت اور جوہر ضائع نہ کریں بلکہ خود اپنے آپ کو ضائع ہونے سے بچا لیں اور سعی لاحاصل سے باز آ کر اپنی راحت کا سامان کریں۔ خیال کی ندرت اور تصویر کی تازگی واضح ہے۔
دوسرا حصہ شعاعوں کے جواب پر مشتمل ہے:
آفاق کے ہر گوشہ سے اٹھتی ہیں شعاعیں
بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش
اک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش
مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم
لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش
منبع نور سے نکل کر آفاق میں پھیلی ہوئی شعاعوں کااس چستی کے ساتھ اثبات میں جواب دینا ایک لائق غور واقعہ ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب اپنی کرنوں کو سمیٹنے کے لیے جتنا بے چین ہے کرنیں خود ہی سمٹ جانے کے لیے اتنی ہی بے قرار ہیں‘ چنانچہ ادھر پیغام واپسی آیا نہیں کہ ادھر سے اس پر بلا تاخیر‘ بے محابا اور بے تحاشا عمل شروع ہو گیا۔ مغرب و مشرق دونوں ہی افقوں پر صدیوں سے تھکی ہاری شعاعیں ناامید ہو کر اور اپنے دائرہ عمل سے بھاگ کر اپنے مرکز وجود کی طرف لوٹنے لگتی ہیں۔ اور ہر خطے کی کرنیں فریاد کرتی جاتی ہیں کہ اب روشنی نہ مغرب میں ممکن ہے نہ مشرق میں گرچہ اس مایوسی کے اسباب مختلف ہیں مغربی افق پر سائنس اور صنعت کے تصورات و آلات نے دھند اور دھواں پھیلا دیا ہے جو روز بہ روز ہ بہ تہ دبیز سے دبیزہوتا جا رہا ہے جبکہ مشرق میں ابھی ذہنوں پر تاریکی کے اتنے پردے نہیں پڑے ہیں اور لوگوں میں ذوق نظر باقی ہے‘ مگر اس خطے میں زندگی اور اس کا جوش و خروش ہی غائب ہے غلامی اور پسماندگی نے اس کی رونق حیات چھین لی ہے۔ لہٰذا کسی بھی افق پر چمکنے کا کوئی حاصل نہیں معلوم ہوتا چنانچہ کرنیں بے تاب ہو کر مہرجہاں تاب کے سینہ روشن میں چھپ جانا چاہتی ہیں۔ تاکہ تاریکی و خموشی کے بڑھتے ہوئے سایوں سے نکل کر ان کی اپنی روشنی و زندگی کی کسی نہ کسی شکل میں سلامت رہے۔ اپنے منبع و مرکز کی طرف شعاعوں کی یہ بے تابانہ پرواز ایک منظر تخلیق کرتی ہے اور اس منظر کے پس منظر کی بھی یاد دلاتی ہے۔ یہ دونوں مناظر مرکب ہو کر ایک خیال پیکر مرتب کرتے ہیں۔
آفتا ب اور شعاعوں کے درمیان مکالموں کے مذکور بالا دونوں حصے دراصل تمہید ہیں تیسرے حصے کی جو شعاعوں میں سے صرف ایک شعاع اور آفتاب کے مابین مکالمے پر مشتمل ہے یہی وہ نقطہ عروج ہے جس تک پہنچنے کے لیے نظم کا ارتقائے خیال اب تک دو حصوں میں ہوا ہے۔ آفتاب او رعالم شعاعوں کے مکالمے اور دونوںکے پیغام و جواب کے عمل و رد عمل کے بعد بہ ظاہر واقعہ مکمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ لیکن ٹھیک اس لمحہ اختتام پر ایک بالکل نیا‘ انوکھا اور چونکا دینے والا اقدام کرنوں ہی میں سے ایک خاص کرن کی جانب سے ہوتا ہے اور پورا منظر یکایک بدل کر رہ جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ واقعے کی تکمیل تو اب ہو گی چنانچہ ایک شدید تجسس کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ور اس عالم میں بڑے ناز وانداز کے ساتھ ایک منفرد شعاع اپنے درد اور عزم کا ایک ولولہ انگیز اظہار کرتی ہے:
اک شوخ کرن‘ شوخ مثال نگہ حور
آرام سے فارغ صفت جوہر سیماب
بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو
جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب
چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو
جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گران خواب
خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز
اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب
چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن
یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ در ناب
اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی
جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں
محفل کا وہی ساز ہے بیگانہ مضراب
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب
مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
یہ چند اشعار اقبال کے تصورات فکر اور تصاویر فن کا عطر ہیں۔ ان میں فطرت وطن مشرق اسلام اور آفاق سبھی کے عناصر جمع ہو کر مرکب ہو گئے ہیں اور ان عناصر سے ابھرنے والے اشارات استعارات ‘ تلمیحات اور علامات نہایت پر خیال و پر اثر پیکر تراشتے ہیں جن کی متحرک نمود ایک محیط آہنگ نغمہ ابھارتی ہے الفاظ و صوات و معانی ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے ہیں۔ بلکہ باہم پیوستہ ہو کر ظہور پذیر ہوئے ہیں۔
تمثیل کی کردار نگاری ملاحظہ ہو کہ اول تو آفتاب کی دعوت وصال کا انکار کرنے والی کرن کو فطری طور پر شوخ کہا گیا ہے جس کے چند در چند معانی و مضمرات ہیں اور سب یہاں مضمر و مطلوب ہیں۔ خواہ وہ گستاخی کا مفہوم ہو یا تیزی و طراری اور بے تابی و بے قراری یا ناز و انداز کا پھر اس شوخی کو نگہ حور سے تشبیہہ دے کر اس کی رعنائی و زیبائی میں بے پناہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سب صرف ایک مصرعے کے چند لفظوں میں کیا گیا اس کے دوسرے مصرعے میں آرام سے فارغ کی بلیغ توصیف کے ساتھ صف جوہر سیماب کی تشبیہ سے نگہ حور کی طرح کرن کی بے تابی عمل میں ایک برقی رو دوڑا دی گئی ہے ۔ اس طرح فقط دو مصرعوں میں ایک منفرد و ممتاز کردار کی غیر معمولی شخصیت کو ایک غیر معمولی مکالمے کے لیے مکمل طور پر تیار کر دیا گیا ۔ چنانچہ بالکل اپین مخصوص شخصیت اور کردار کے مطابق یہ شوخ کرن اپنے منبع نور۔ آفتاب عالم تاب۔ کے ساتھ نہایت جرات آمیز تاب سخن کا اظہار کرتی ہے۔ سب سے پہلے وہ ادب کے ساتھ رخصت تنویر طلب کرتی ہے اور اس وقت تک کے لیے جب مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب نہ ہو جائے پھر وہ مشق میں اپنا دائرہ کار اور مرکز عمل بڑی حقیقت پسندی نیز درد مندی کے ساتھ متعین کرتی ہے۔ وہ اپنا کام ہند کی تاریک فضا میں کرنا چاہتی ہے۔ اور اپنی بھلائی ہوئی روشنی و بیداری سے اس خطہ ارض کے مردان گراں خواب کو جگادینا چاہتی ہے چنانچہ وہ اپنے وطن یا مرکز ہندوستان کی وہ خصوصیت بتاتی ہے جس کی بنا پر اس نے اپنی تنویر کے لیے اس کا انتخاب کیا ہے وہ کہتی ہے کہ خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب اس خاک کی رفعت کا عالم یہ ہے کہ اس سے چشم مہ و پرویں بھی روشن ہے اور اس کا خزف ریزہ درناب ہے۔ اس سے وہ غواص معانی اٹھے ہیں جن کی تیراکی کے سامنے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب‘ یہ خاک کبھی ایک ایسے گرم نوا ساز کی طرح تھی جس کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں‘ لیکن آج محفل انسانیت کا روہی ساز ہے بیگانہ مضڑاب دنیا کے میدان عمل میں اب ہندوستان کی غفلت و نکہت کا عالم یہ ہے کہ یہاں کی دو بڑی ملتوں میں ہندوئوں کا نمائندہ‘ برہمن بت خانے کے دروازے پر پڑا سو رہا ہے اور مسلمان تہ محڑاب مسجد میں بیٹھا تقدیر کو روتا ہے ۔ اس صور ت حال میں آفتاب عالم تاب کی شوخ ہندوستانی کرن کی تہیہ کرتی ہے۔
مشرق سے ہو بے زار مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
یہ بڑا زبردست عزم ہے اور بڑی کٹھن مہم ہے تمام دوسری شعاعوں نے نظم کے دوسرے حصے میں سورج سے کہہ دیا تھا کہ مشرق و مغرب کہیں بھی اجالا ممکن نہیں لیکن ہندوستان کی شوخ و شنگ کرن مشرق و مغرب ہر جگہ شب کو سحر کرنے کا منصوبہ باندھتی اور حوصلہ دکھاتی ہے۔ یہ کرن کون ہے اور تنہا بار امانت اٹحائے رہنے پر کیوں بضد ہے۔ یہ کرن اقبال کے سوا کوئی اور نہیں! رہا ان کامنصوبہ و حوصلہ تو یہ کوئی نئی بات ان کے ساتھ نہیں۔ ’’شکوہ‘‘ کے آخری چار بند اسی عزم و مہم پر مشتمل ہیں جن کی نشان دہی شعاع امید کے آخری حصے میں ہوئی ہے۔
بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول میں غماز چمن
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتیاں پھول کی جڑ جڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں
قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی
لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزاجینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں
کتنے بے تاب ہیں جو ہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں
چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادہ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خم ہے تو کیا حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو مجازی ہے مری
یہی بلبل تنہا جو شکوہ میں محو ترنم تھا حالانکہ عہد گل ختم ہو چکا تھا۔ ساز چمن ٹوٹ چکا تھا زمزمہ پرواز چمن ڈالیوں سے اڑ چکے تھے۔ قمریاں شاخ صنوبر سے گریزا ں ہو چکی تھیں پھولوں کی پتیاںجھڑ چکی تھیں باغ کی پرانی روشیں ویراں ہو چکی تھیں اور ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں ہو چکی تھیں۔ وہی اب شعاع امید میں اک شوخ کرن ہے جو رخصت تنویر کی طالب ہے جب کہ بے مہری ایام بڑھتی ہی چلی جاتی ہے نہ ریت کے ذروں پر چمکنے میں راحت ہے نہ مثل صبا فوطف گل و لالہ میں آرام اور سورج کی دعوت پر آفاق کے ہر گوشہ سے شعاعیں اٹھ اٹھ کر چمنستان و بیابان و دروبام سب چھوڑ دیتی ہیں اور خورشید سے ہم آغوش ہو جاتی ہیں۔ صرف تصویروں کا فرق ہے شکوہ میں گلستاں و بلبل کے پیکر ہیں اور شعاع امید میں آفاق و شعاع آفتاب کے لیکن تصور ایک ہی ہے۔ بانگ درا کی طویل نظم میں بلبل تنہا کی نوا کو بانگ درا بنانے کی آرزو ہے اور ضرب کلیم کی مختصر نظم میں اک شوخ کرن کو شعاع امید بنانے کی تمنا یہ ایک آرزو اسی عنوان سے بانگ درا کی ایک ابتدائی نظم میں بھی ظاہر ہو چکی ہے۔ جس میں حسن فطرت کی مرقع نگاری کا خاتمہ ان پیامی اشعار پر ہوا:
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو‘ نالہ مری دعا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
تصویر درد کا چوتھا بند بھی ایسے ہی پر عزم جذبات کا اظہار کرتا ہے:
ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا
لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے
تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا
چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے‘ تو اس مشکل کو حل کر کے چھوڑوں گا
مجھے اے ہم نشیں ! رہنے دے شغل سینہ کاوی میں
کہ میں داغ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا
دکھا دوں گا جہاں کو جو میری آنکھوں نے دیکھا ہے
تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا
جو ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے
زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے
’’شمع اور شاعر‘‘ کے پہلے بند کی تمنا بھی اس سلسلے میں یاد آتی ہے:
دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش
گیسوئے تواز پر پروانہ وارد کاشانہ
درجہاں مثل چراغ لالہ و صحرا ستم
نے نصیب محفلے‘ نے قسمت کاشانہ
مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ
می طپد صد جلوہ در جان امل فرسود من
برنمی خیزد ازیں محفل دل دیوانہ
از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی؟
کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی
شعاع امید‘ کے عزم و آرزو کی یہ تھوڑی سی تفصیل میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ یہ موضوع پیام اقال کا محرک اور ان کے کلام کا مقصود ہے لیکن ہمیں موجودہ بحث میں دیکھنا یہ ہے کہ اپنی فکری قوت محرکہ کو شاعر نے کس طرح اپنی ذہنی ارتقا کے ہر دور میں فن کے متنوع رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس معاملے میں الفاظ و تصاویر سے بہت کی ترکیب و تعمیر تک کی جمالیات کو مکمل طور پر ملحوظ رکھا ہے ۔ زیر نظر نظم شعاع امید کی تمثیل ہے جس میں شعاع کو ایک علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کی تشریح میں اس کے بہتیرے تلازمات و مناسبات اور مضمرات و اشارات کا ذکر کیا گیا ہے ‘ تین کردار ہیں‘ تین مکالمے ہیں‘ تینوں کے انداز جدا‘ مگر سب کی اصل ایک تنوع کے باوجد یہ وحدت فکر وحدت تاثر پیدا کرتی ہے۔ جس سے مرکزی نقطہ خیال‘ پر بے پناہ زور پڑتا ہے اور شاعر کا مقصد خالص فنی وسائل کے زبردست ارتکاز سے ہوتا ہے‘ اس مقصد میں عملی حقیقت پسندی اور اصولی آفاقیت کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہے ‘ یہ ترتیب‘ یہ ترکیب‘ یہ تنظیم ‘ یہ ارتکاز ایک بہت بڑی فن کاری کا فطری کامیاب اور موثر اسلوب ہے ۔ یہی اقبال کا طرز شاعری ہے اور اپنے کمالات کے سبب دنیا کا بہترین طرز شاعری ہے ۔ عظیم ترین شاعرانہ فن کاری کا نمونہ کامل ہے۔
اقبال کا فنی سانچہ اور شاعرانہ مزاج اتنا پختہ ہے کہ سیاسی مسائل حتیٰ کہ عصر حاضر کی سیاست طاقت کے واقعات‘ پر بھی جب وہ اپنے خاص موقف اور انداز نظر سے اظہار خیال کرتے ہیں تو ان کے شدید سے شدید ذاتی جذبات بھی فن کے سانچے اور شاعرانہ مزاج پر کوئی خراش نہیںڈالتے اور ان میں کوئی رخنہ نہیں پیدا کرتے ہیں اقبال کا ذہن اتنا شاعرانہ اور ملکہ فن اتنا راسخ ہے کہ بالعموم سنگین سے سنگین موضوع بھی استعارات کے رنگ اور نغمات کے آہنگ میں ڈوب کر ہی اشعار میں ابھرتا ہے۔ اس بلاغت نظام کلام کی صرف تین مثالیں ہیں اور میں ضرب کلیم جیسے بے حد متین و دقیق مجموعے سے دیتا ہوں:
ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام ابی سینیا ‘ مسولینی
پہلی نظم میں مغرب کی سرمایہ دارانہ و مستبدانہ سیاست کے تباہ کن استحصال کا جائزہ عالم مشرق کی سطح پر لیا گیا ہے اوراس مقصد کے لیے ایک ایک شعر میں ہندوستان کے ہندو اور مسلمان پھر عرب اور افغان کا جائزہ لیا گیا ہے اور پانچویں شعر میں مرکز مشرق کی حیثیت سے حرم کے متعلق ایک تبصرہ کر کے چھٹے شعر میں تبصرہ نگار شاعر کے بارے میں ایک بات تصویر موضوع کے نقوش میں آخری نقش کے طور پر درج کی گئی ہے‘ تصویر کا ہر نقش رنگین ہونے کے ساتھ ساتھ واضح یا واضح ہونے کے ساتھ ساتھ رنگین بھی ہے۔ یہی اس نقش کی شوخی ہے تیکھا پن ہے اور بحیثیت مجموعی ہیبت نظم کا بانکپن ہے۔
دوسری نظم تین بندوں کا مثلث ہے جس میں ایک دلخراش حقیقت تھمے ہوئے جذبات اور دبے ہوئے احساسات کے ساتھ آہستہ آہستہ بیان کی گئی ہے پہلے بند میں یورپ‘ دوسرے میں تہذیب‘ تیسرے میں کلیسا کی نقاشی ہے اور آخری بند کی ٹیپ میں خاتمہ نظم کا یہ مصرع موضوع کی سنگینی اور نظم کی تاثیر پر حرف آخر ہے۔
پیر کلیسیا! یہ حقیقت ہے دلخراش
ان چند لفظوں کا فنی وقار بحر خیالات کے تلاطم کو ایک قطرے میں بند کر دیتا ہے ۔
تیسری نظم عصر حاضر کی ایک انتہائی متنازعہ سیاسی شخصیت اور اس کے تاریخی کردار کو مع اس کے ماحول کے نہایت مبصرانہ انداز سے فنی طور پر منقش و منقح کرتی ہے۔ آمر اطالیہ اپنی خوں آشامیوں کے بعد‘ اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں‘ سے جو جذباتی خطاب کرتا ہے اس کی شاعری کے چند نقوش ملاحظہ ہوں:
یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں
راجدھانی ہے مگر باقی نہ راجہ ہے نہ راج
آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے
اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج
تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لوٹی کشت دہقاں! تم نے لوٹے تخت و تاج
ضرب کلیم کی اس نظم مسولینی ‘ کا موازنہ بال جبریل کی نظم مسولینی کے ساتھ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ پہلی نظم منتخب شخصیت کی شاعرانہ کردار نگاری کا باب اول ہے۔ اور دوسری نظم باب دوم اور دونوں مل کر ایک مکمل مرقع فن مرتب کرتی ہیں‘ اس تقابلی مطالعے سے اقبال کے نظام فن کی وسعت اور اس کے متنوع پہلوئوں کے درمیان توازن کا اندازہ ہوتا ہے‘ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسلوب فن کاری کی یکسانی‘ ہمواری اور استواری کا سراغ ملتا ہے۔ پہلی نظم کے تین اشعار درج ذیل ہیں تاکہ انہیں دوسری نظم کے مذکور بالا تین اشعار کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے:
چشم پیران کہن میں زندگانی کا فروغ
نوجواں تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب
یہ محبت کی حرارت! یہ تمنا یہ نمود
فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیر حجاب
نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے
زحمہ در کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب
دونوںبیانات میں فرق جو کچھ ہے متکلم اور اس کے موقف کا ہے‘ پہلے اقتباس میں متکلم اور موقف مسولینی ہی سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ دوسرے اقتباس میں ان کا تعلق شاعر سے ہے‘ حالانکہ دونوں کا موضوع مشترک ہے‘ یہ ایک فطری امر ہے اوراس سے اقبال کی فن کارانہ حقیقت پسندی اور مہارت کا ثبوت ملتا ہے جب وہ مسولینی کی زبان سے اس کے خیالات کی ترجمانی کراتے ہیں تو ایک آواز سے کام لیتے ہیں۔ اور جب خود اس کے کمالات کی شرح کرتے ہیں تو دوسری آواز سے کام لیتے ہیں۔ لیکن یہ صرف تیور کا فرق ہے جبکہ اسلوب سخن دونوں حالتوں میں ایک ہی ہے اور وہ اقبال کا معروف و معین طرز و انداز ہے۔ شعریت معرفت سے لبریز ‘ لطیف اور دبیز نکتہ آفریں اور دل کشا‘ یہ موضوعاتی نظم نگاری کی حدود میں تمثیل کا اعلیٰ معیار ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ضرب کلیم جیسے مفکرانہ و فلسفیانہ مجموعہ کلام میں بھی چھوٹی بڑی متعدد نظمیںد انہی فن محاسن کی حامل ہیں جو بال جبریل کی شہرہ آفاق منظومات میں پائے جاتے ہیں اور فرق جو کچھ ہے حجم اور پیمانے کا ہے‘ اس سے اقبال کے ہموار رسوخ فن اور استوار ملکہ شعری کا ثبوت ملتاہے اور معلوم ہوتا ہے کہ بانگ درا کی فطری و پیامی شاعری سے جو جذبہ فن اور سلیقہ نر نمودار ہوتا تھا وہ مجموعہ بہ مجموعہ قائم رہتا ہے اور دوسرے مجموعے میں اپنے اوج کمال پر پہنچ کر بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ بعد کے مجموعوں میں جاری رہتا ہے۔
ارمغان حجاز
اقبال کی فن کاری شروع ہی سے لطیف و نفیس رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دقیق و باریک ہوتی گئی۔ ایک طرف لطافت و نفاست اور دوسری طرف وقت و باریکی کا امتزاج بانگ درا کے مختلف حصوں سے شروع ہو کر بال جبریل میں اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ جس کے بعد لطافت ونفاست کے عناصر کی موجودگی میں بھی وقت اور باریکی کے عناصر بڑھتے جاتے ہیں اور ضرب کلیم میں اپنے شباب پر نظر آتے ہیں‘ یہاں تک کہ آخری مجموعہ کلام ارمغان حجاز میں اس شباب کے چند اشعار اس طرح نگاہوں کے سامنے آتے ہیں کہ تمثیل کا وہ عنصر جو ابتدا سے اقبال کی شاعری میں کارفرما رہا تھا بہت زیادہ نمایاں اور غالب ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس مجموعے کے معدودے چند نظموں میں بیشتر قابل ذکر تخلیقات باضابطہ تمثیلی ہئیت میں ہیں مثلاً
ابلیس کی مجلس شوریٰ تصویر و مصور‘ عالم برزخ۔
دوسری دو قابل ذکر نظمیں بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو اور آواز غیب بھی ڈرامائیت سے خالی نہیں۔
آواز غیب
’’آواز غیب‘‘ چھوٹی سی سات اشعار کی نظم ہے۔ اس میں اقبال کے معلوم و معروف افکار کا اظہار دقیق انداز میں ہوا ہے۔ لیکن چند مصرعوں میں تصویریں چمک اٹھتی ہیں او ر ترسیل خیال میں لطافت پیدا کرتی ہیںاور باریکی تخیل کو روشن کرتی ہیں۔ دوسری شعر لیجیے:
کس طرح ہوا کند ترا نشتر تحقیق؟
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر پاک
نشتر تحقیق جیسی چیز سے ستاروں کے جگر چاک کرنے کی بات کلم اقبال کی امتیازی فن کاری ہے‘ تیسرا اور چوتھا شعر بھی دیکھیے۔
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلام خس و خاشاک
مہرومہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں؟
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک؟
ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار‘ کے منصب و مقام کی تشریح‘ شعلہ خس و خاشاک مہر و مہ و انجم و افلاک کے پیکروں کی جاتی ہے‘ اور اس طرح فلسفیانہ تخیل کو استعارے کے ریشمی غلاف میں لپیٹ دیا جاتا ہے نظم کے باقی اشعار کی عام راست اندازی کے باوجود سات میں تین اشعار کے استعارات اور دیگر اشعار میں بھی جو ہر ادراک جہاں بیں نگہ پاک‘ اور آئینہ ضمیری‘ کی تراکیب مل کر ہئیت نظم کا ایک فنی سانچہ مرتب کرتی ہے۔