یعنی سلطان نے سوتیلے پن کے جتنے دکھ جھیلے اس سے کہیں زیادہ اس کا بیٹا جھیل رہا ہے۔ کاش ان کے ابا دوسرا نکاح کرنے سے پہلے سوچ لیتے تو آج حارش کا یہ حال نہ ہوتا اور نہ ہی ان کا بھائی جوانی میں اللہ کو پیاراہوتا۔ وہ جب سے حارش کے پاس سے آئے تھے اپنے کمرے میں بند تھے اور اگلی صبح ہی باہر آئے تھے۔ ناشتے پر سب انکا اترا چہرہ، سوجھی آنکھیں دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے۔
”کیا بات ہے فرمان! تیری طبیعت ٹھیک ہے بچے….؟ کل شام سے تو کمرے میں بند ہے اور اب آیا ہے۔ تیرا چہرہ اترا ہوا ہے تو رویا ہے کیا….؟“ اماں سے ان کی خاموشی برداشت نہیں ہوئی، باقی سب تو ہمت باندھ رہے تھے کچھ پوچھنے کی۔ انہوں نے کپ نیچے رکھا اور اماں کو دیکھنے لگے۔
”اماں! بعض اوقات ہمارے بڑوں کی، کی گئی چھوٹی سی غلطی ہماری نسل در نسل خمیازہ بھگتتی ہے۔“ ان کی بات کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
”کیا مسئلہ ہے….؟ آخر کیا وجہ ہے جس نے آپ کو اتنا اَپ سیٹ کر رکھا ہے۔“ شاید شریک حیات ہونے کے ناطے وہ ان کو اتنا دکھی دیکھ کر برداشت نہیں کر پا رہی تھیں۔
”عالیہ بیگم! ہمارے ابا نے جوکیا اس کی سزا ہم آج تک سہہ رہے ہیں، سلطان دنیا سے چلا گیا اور….“ ان کا لہجہ بھر آیا، ان کی بات پر سب ہی دکھی تو ہوئے تھے مگر آج اتنے سالوں بعد یہ قصہ؟ بابا کا یوں یکدم اَپ سیٹ ہونا…. ان کی آنکھیں گواہ تھیں ان کے رونے کی، لیکن کیوں؟ اب یہ باتیں یاد کر کے رونے کا کیا فائدہ تھا….؟
”باباجانی! ہم سمجھتے ہیں سب مگر اتنے سال بیت گئے اس بات کو، اب کیا حاصل یہ سب یاد کر کے خود کو ذہنی تکلیف دینے کا؟ چاچو کا دکھ دل میں ہے مگر آپ کیوں اب یہ باتیں ازسرنو سوچ سوچ کر خود کو دکھی کر رہے ہیں….؟“
”اس لیے بیٹا! جو دکھ سلطان نے جھیلے ہیں اب وہ دکھ اس کا بیٹا جھیل رہا ہے اور تمہیں پتہ ہے کہ اس بچے کا رشتوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ وہ خود کو تنہا بتاتا ہے حالانکہ اس کے پاس تمام رشتے ہیں لیکن چند سوتیلے رشتوں نے اس کو اتنی اذیتیں دیں کہ اس کا کائنات کے ہر رشتے سے بھرم اٹھ گیا،اور جانتے ہو کہ وہ کون ہے جو سلطان کا بیٹا ہے….؟ جس کے بارے میں آپ کو بتا رہا ہوں…. وہ حارش ہے…. حارش عالم…. جو ہمارا اپنا خون تھا اور ہم بے خبر تھے، جو دکھوں کے سمندر میں اکیلا ہاتھ پیر مارتا رہا اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوئی۔ مجھے کل پتا چلا کہ کیوں اسے دیکھ کر میرا دل مچلتا ہے، ظاہر ہے وہ خون ہے ہمارا، میرے بھائی کی نشانی۔“ یہ سب بتاتے ہوئے جہاں ان کا لہجہ بھر آیاتھا آنکھوں سے آنسو بھی ٹپک پڑے، اور دادی یہ سب سن کر بری طرح رو دیں۔
”میرے سلطان کا بیٹا یہاں میرے پاس رہتا رہا اور میںبے خبر رہی۔“
”حارش، سلطان چاچو کا بیٹا ہے“ یہ بات ان کے لیے بھی حیرت انگیز تھی۔
”جی بیٹا….“ بابانے انہیں حارش کے بارے میں ایک ایک بات بتائی تو سب ہی اشک بار ہو گئے۔
”اس لیے اس کے اندر اتنی تلخی ہے۔“ کاشف بولا۔
”ہوں…. اگر طلحہ اور اس کی مدر حارش کو نہ سنبھالتے تو جانے آج حارش کہاں ہوتا۔“
”تو مجھے لے چل حارش کے پاس۔“ دادی آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں۔
”اماں! میں نے ابھی حارش سے کوئی بات کی ہی نہیں، سچ تو یہ ہے کہ جب میں نے س کے اندر رشتے ناتوں کی طرف سے اتنی تلخی اور بدگمانی دیکھی تو میری ہمت ہی نہیں ہوئی کہ اس سے کوئی بات کہہ سکوں۔ وہ بھی تو اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے،اگر وہ میرے بتانے پر مجھ سے یہ سوال کر لیتا کہ آج تک ہم نے اس کی خبر کیوں نہیں لی تو ہم کیا جواب دیتے اسے؟“
”پر بابا! ہمیں تو علم نہیں تھا کہ سلطان چاچو کا بیٹا بھی تھااور اس میں ہمارا کیا قصور تھا۔“
”آپ صحیح کہہ رہے ہو بچے مگر جن حالات سے اس وقت حارش گزر رہا ہے وہ کبھی بھی ہمیں قبول نہیں کرے گا۔ اس وقت تو وہ اپنی سگی ماں سے بھی بدگمان ہے پھر بھلا….“
”بابا! آپ کو نہیں لگتا کہ اس سارے قصے میں واقعی چچی جان قصوروار ہیں، ان کی بے توجہی نے حارش کو بدگمان کیا، اگر وہ مضبوطی سے حارش کو تھامے رہتیں تو اس گھر میں اس کی اتنی تذلیل نہ ہوتی اور اگر وہ واقعی اس معاملے میں مجبور تھیں تو حارش کو اس کے اپنوں کے بارے میں سچائی بیان کرتیں تاکہ حارش کے دل میں ہمارے لیے کم از کم بدگمانی نہ ہوتی۔ آج اگر ہم اس کے پاس جاتے تو ہمیں یہ ڈر نہ ہوتا کہ وہ ہمیں اپنائے گا یا نہیں۔ حارش ٹھیک کہتا ہے سارا قصور شگفتہ چچی کا ہے۔“ حرمین کی فل فیور حارش کے ساتھ تھی۔
”بیٹا! ہو سکتا ہے حالات ایسے نہ ہوں کہ شگفتہ حارش کو سب بتا سکتی۔“
”بابا! ایسی صورت میں وہ آپ سے رابطہ کر سکتی تھیں۔ احسان چاچو سے رابطہ کر سکتی تھیں۔ وہ حارش کو اسی وقت ہمارے حوالے کردیتیں تو آج اس کا اعتبار نہ ٹوٹتا۔“ کاشف نے بھی حرمین کا ساتھ دیا۔
”بھلا ماں کب چاہے گی کہ اس کے کلیجے کا ٹکڑا اس کی نظروں سے دور رہے۔ شگفتہ کب اسے خود سے الگ کرنا چاہتی ہو گی۔“
”اور دادی! اب بھی تو وہ الگ ہی رہ رہی ہیں ناں! اب تو ان کا بیٹا ان کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔ اگر وہ اس وقت کوئی اچھا فیصلہ کر لیتیں تو آج کم از کم حارش کے دل میں ان کے لیے یہ بدگمانی نہ ہوتی۔“ حرمین نے کہا تو وہ خاموش سی ہو گئیں۔ وہ بھی تو کتنے عرصے اپنے بچوں سے دور رہی ترستی رہیں اپنی اولاد کی شکل کو بھی مگر آج وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہیں اور ان کے بچوں کے دلوں میں ان کے لیے پیار ہی پیار ہے۔ شاید یہ اس صبر کا پھل ہے کہ وہ اتنے سالوں ان کے لیے ترستی رہیں،روتی رہیں لیکن انہوں نے شوہر کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بس خاموشی سے وقت گزارتی رہیں۔ آخر اللہ نے ان کی سنی اور ان کے بچے ان کے پاس لوٹ آئے۔ سوائے سلطان کے۔ اس کے دنیا کے جانے کی خبر ان تک پہنچی تھی۔ ان کا سب سے لاڈلااور چھوٹا بیٹا جو صرف پانچ سال کا تھا جب اس کے ابا لے گئے تھے۔ اس دن کے بعد انہوں نے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا۔ اور دیکھا تو سفید کفن میں لپٹا چہرہ،اور اس کی بلکتی تڑپتی بیوہ…. یہ تو انہیں آج علم ہوا کہ سلطان کا بیٹا بھی تھا۔ سوئم سے اگلے دن جب فرمان اور احسان اپنے بھائی کی بیوہ کو لینے گئے تو پتا چلا کہ اس کے ماں باپ اسے اپنے گھر لے گئے ہیں اور اب انہیں حقیقت پتہ چلی تھی کہ اس ظالم عورت نے جس نے ان سے ان کے بچے چھین لیے تھے اس نے شگفتہ کو گھر سے نکال دیا تھا۔ اگر انہیں علم ہوتا کہ ان کا پوتا بھی ہے تو کہیں نہ کہیں سے اسے ضرور ڈھونڈ نکالتے۔ آج یہ انکشاف سن کر وہ برداشت نہیں کر پا رہی تھیں کہ فوراً جا کر حارش کو گلے لگا لیتیں۔
”فرمان! میں خود حارش سے بات کر لوں گی، تو مجھے اس کے پاس لے چل۔“
”اماں پلیز! آپ حوصلہ رکھیں۔ کچھ وقت دیں مجھے، ان شاءاللہ کوئی نہ کوئی حل تو نکلے گا۔ میں آج احسان سے مل کر بات کرتا ہوں، کوئی تو راستہ ہو گا ناں آخر۔“
”جی بابا! چاچو احسان سے بات کرنا بھی ضروری ہے۔ آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ حارش کے لیے یہ سب کچھ قبول کرنا بہت مشکل ہو گا۔“ کاشف بولا تو وہ بھی سر ہلانے لگے۔
ض……..ض……..ض
بڑی حیرت کی بات تھی ناں کہ آج جب وہ گھر لوٹا تو شام کا کھانا کچن میں بالکل تیار تھا۔ طلحہ اتنا اچھا بھی ہو سکتا ہے، اسے یقین نہیں تھا۔ وہ بڑے موڈمیں نہا کے فریش ہو کر صحن میں رکھی چیئر پر بیٹھ گیا، شاید طلحہ کہیں باہر گیا تھا۔ وہ انتظار کر رہا تھا، جب ایک نسوانی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔
”حارش بھائی!“ اس نے ادھر اُدھر دیکھا، پھر گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تو دیوار پر موجود لڑکی نظر آئی، ساتھ ہی ٹرے جس میں یقینا چائے کا کپ تھا۔
”حارش بھائی! یہ چائے لے لیں۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے یہ قطعی پسند نہیں تھا لیکن وہ انکل اور کاشف کے خلوص کے آگے بے بس ہو جاتا تھا۔
”دیکھیںپلیز…. آپ پریشان مت ہوا کریں۔ میں خود بنا لیتا۔“
”کوئی بات نہیں حارش بھائی! چائے بنانے سے ہمیں کیا پریشانی ہو گی۔“ وہ مسکرا کر بولی۔
”اور ہاں! آج کھانا کھانے کے بعد بتائیے گا ضرور کہ کھانا کیسا بنا تھا؟“ اس کی بات پر اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ یعنی کھانا طلحہ نے نہیں بنایا تھا۔
”آپ نے کھانا بنایا….؟ وہ طلحہ….“
”وہ طلحہ بھیا کاشف بھائی کے ساتھ کسی کام سے گئے ہیں، کاشف بھائی نے مجھے کہا تھا کھانا بنانے کا،اس لیے میں نے بنا دیا۔ آپ کو بُرا لگا، تو سوری۔“ اگر پہلے کی طرح وہ صرف پڑوسی ہوتے تو عمربھر بھی وہ حارش سے اتنی بات نہیں کرتی لیکن اب وہ جانتی تھی کہ وہ غیر نہیں اس کا سگا چچازاد بھائی ہے، جانے کیوں اس کا من چاہا حارش کی ہیلپ کرنے کا، سو اس نے کھانا بنا دیا، اور آتے ہی چائے بنا لائی۔“
”بُرا تو نہیں لگا لیکن پلیز…. ہمارے لیے فکر مت کیا کریں۔“ اس نے چائے کا کپ تھامتے ہوئے صرف ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی تھی، پھر رُخ موڑ گیا۔
”اینی وے، تھینک یو ویری مچ…. چائے اور کھانا دونوں کے لیے۔“ بہت تکلف تھا اس کے لہجے میں، حرمین نے اسے دیکھا، بظاہر وہ اس کے سامنے تھا مگر رُخ اس نے دوسری طرف کیا ہوا تھا، شاید اس لیے کہ حرمین پر نظر نہ پڑے۔
”آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ فوراً کہہ دیا کریں۔“
”بڑی مہربانی۔“ وہ چاہتا تھا کہ اب حرمین چلی جائے۔ شاید وہ بھی یہ سمجھ گئی تھی تب ہی فوراً دیوار سے پیچھے ہو گئی اور حارش نے سکھ کا سانس لیا۔ اسے اعتراض حرمین پر نہیں تھا مگر وہ نہیں چاہتا تھا محلے پڑوس کے کسی دوسرے گھر سے کوئی بھی شکایت یا بات سننے کو ملے۔ حالانکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا، فرمان انکل کے گھر سے کوئی خاتون اس سے مخاطب ہوئی ہو، وہ بھی یہ لڑکی۔ کتنے ماہ بیت گئے تھے، اس نے آج پہلی بار اس دوشیزہ کو دیکھا تھا۔ ورنہ کوئی کام ہوتا کاشف یا فرمان انکل خود ہی آتے تھے۔
”دو دن سے انکل نظر نہیں آئے تھے، اس دن وہ پپا کا نام سن کر کچھ اَپ سیٹ سے بھی ہوئے تھے، آخر کیوں….؟“ اس کا ذہن پھر الجھنے لگا تو اس نے سر جھٹکا اور اپنی چائے انجوائے کرنے لگا جو بہت مزیدار تھی۔
”چائے اتنی زبردست ہے تو یقینا کھانا بھی ٹیسٹی ہو گا۔“ اس نے دل میں سوچا اور طلحہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا، تاکہ پتہ چلے وہ کہاں ہے۔
ض……..ض……..ض
کتنا عجیب سا ماحول تھا اس وقت اس کے گھر کا، اتنے سارے لوگ تھے مگر سناٹا تھا، عجیب سی خاموشی تھی، ہر نظر اس پر تھی، ہر نظر میں پیار تھا، اپنا پن تھا، مگر کوئی اس سے پوچھتا اس کی کیا حالت تھی اس کے اندر کتنی توڑپھوڑ تھی۔
”ہم نے آپ کوایک ایک بات بتا دی ہے، آپ ذی شعور ہیں، سمجھدار ہیں، خود فیصلہ کریں کہ ہمارا کیا قصور ہے….؟ ہم قطعی لاعلم تھے اس بات سے کہ سلطان کی کوئی اولاد بھی ہے، ورنہ ہم نے جتنے دکھ جھیلے تھے بچے، ہم آپ کا بچپن کبھی ان دکھوں میں نہ گزرنے دیتے، اب ہمیں پتہ چلا ہے تو ہم آپ کو اپنانے کے لیے آئے ہیں، لینے آئے ہیں، آج سے آپ اکیلے نہیں ہیں، آپ کے پاس ہر رشتہ ہے، سچا اور خون کا، ان شاءاللہ آپ کو ہر رشتے سے پیار ہی ملے گا۔“
”لیکن اب کیا فائدہ…. اب مجھے ضرورت ہی نہیں رہی۔ میں نے تنہا جینا سیکھ لیا ہے۔ آپ خود بھی یہ بات جانتے ہوں گے کہ رشتے توجہ، محبت،احساس، ان سب کی بچپن میں زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور جب میں نے وہ عمر گزار لی تو اب تو میں اپنا خیال خود رکھ سکتا ہوں، اب مجھے کسی کی ضرورت….“ وہ یقینا بہت تلخ ہو رہا تھا۔ طلحہ نے اس کے ہاتھ پر دباﺅ دیا تو وہ نہ چاہتے ہوئے سر جھکا گیا اور خاموش ہو گیا۔
”اب تو مجھے سزا دے گا، پانچ سال کا تھا میرا سلطان جب تیرے دادا نے میری گود سے اٹھا کر اسے سوتیلی ماں کی گود میں ڈال دیا تھا اور میں عمر بھر ترستی رہی اپنے بچے کو دیکھنے کو، اور جب وہ سامنے آیا تو کیسے کفن میں لپٹا، خاموش…. میرا کلیجہ پھٹ گیا تھا اور اب جب مجھے تیری صورت میں اپنا سلطان مل گیا ہے تو اب تو میری سزا بڑھا دے۔ میں یوں ہی ترسی تڑپتی قبر میں چلی جاﺅں گی۔“ دادی بری طرح رو دیں۔ اس کے دل کو کچھ ہوا ضرور تھا، مگر جانے کیوں….؟ اس کے اندر عجیب سی سردمہری تھی، تمام حالات جاننے کے بعد بھی…. وہ جان گیا تھا کہ اس کے چچا، تایا سب بے قصور ہیں، مگر شاید حالات نے اس کا اعتبار کہیں کھو دیا تھا۔ وہ چاہ کر بھی کسی رشتے پر اعتبار نہیں کر پا رہا تھا۔ بہت سمجھانا چاہتا تھا وہ خود کو، لیکن اس کے اندر کی توڑپھوڑ اس وقت بہت زیادہ تھی کہ اسے اپنے اندر کے شور کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن دادی کو اس طرح روتا دیکھ کر وہ کچھ نرم پڑ گیا۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا، مجھے یقین ہے کہ آپ لوگوں نے جو کہا وہ سچ ہے مگر…. میں….“ جانے کیوں اس کی آواز اس کے اندر ہی کہیں گھٹ گئی، فرمان عالم نے اٹھ کر اسے خود سے بھینچ لیا۔
”کچھ مت بتاﺅ بیٹا! ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ تم پر اس وقت کیا بیت رہی ہوگی۔ بیٹا! ہماری بانہیں تمہارے لیے کھلی ہیں، تم جب چاہو آ کر سما جانا۔ پر بیٹا! تمہیں وقت چاہیے اپنے آپ کو سمجھانے کے لیے، منانے کے لیے، وہ تمہارا حق ہے، تم جتنا ٹائم لینا چاہتے ہو لے لو، بس اپنی دادی کے لیے دل میں تھوڑی گنجائش بنا لو۔“ ان کی بات پر وہ سر جھکا گیا۔ شاید ان کی بات کا مطلب سمجھ گیا تھا، تب ہی اس نے سر ہلایا۔ پھر احسان عالم نے اسے سینے سے لگا کر بہت پیار کیا، حتیٰ کہ وہ رو پڑے۔
”ہمیں معاف کر دینا بیٹا! انجانے میں سہی ہم بھی تمہارے قصوروار ہیں۔ کاش ہمیں علم ہو جاتا تو شاید آج ہمارے بیچ یہ فاصلے نہ ہوتے۔“ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ کیا کہے۔ بس خاموشی ہی خاموشی تھ۔ احسان عالم سے مل کر وہ دادی کے قدموں میں آ بیٹھا۔
”آئی ایم سوری دادی! میں آپ سے آپ کا بیٹا کبھی نہیں چھینوں گا۔“ اس نے کہا تو دادی نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھام کر چوم لیا۔
”جیتا رہ میرا بچہ۔“ کتنا سکون سا ملا تھا ان کی گود میں، دل بھر آیا تھا مگر اس نے خود کو مضبوط کیا ہوا تھا۔ کتنا وقت وہ اس کے پاس بیٹھے اسے مناتے رہے۔
”حارش! تم بے شک ہمیں اپنا نہ سمجھو مگر تم ہماری اولاد ہو،اور بڑے ہونے کے ناتے ہم تمہیں کہہ رہے ہیں، ہمارے گھر کے دروازے تمہارے لیے کھلے ہیں، تم ہمارے ساتھ رہو، ہمارے پاس۔“
”تھینک یو انکل مگر….“
”آج کے بعد مجھے بابا کہا کرو کاشف کی طرح۔“ انہوں نے درمیان میں ٹوک دا۔
”دراصل فاصلہ ہی کتنا ہے مجھے کسی بھی چیز کی ضرورت ہوئی تو میں ضرور آﺅں گا۔ آپ لوگ پلیزمجھے وہاں جانے پر مجبور مت کریں، دادی پلیز…. صرف ایک دیوار کا تو فاصلہ ہے، جب آپ بلائیں گی میں آ جاﺅں گا، لیکن….“ وہ جانتے تھے اتنی جلدی سب کچھ ٹھیک نہیں ہو گا تو انہوں نے بھی زبردستی نہیں کی۔
”جیسے تو خوش…. بس بیٹا! تیرے دل میں اگر ہمارے لیے کوئی گلہ شکوہ ہے تو بتا دے۔“
”نہیں دادی! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا، سب مطمئن تھے اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ حارش کے دل میں کوئی شکوہ نہیں رہا تب اٹھ کر گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد اس کے اندر پھر سناٹے اترنے لگے۔ طلحہ اس کی کیفیت اچھی طرح سمجھ رہاتھا۔
”حارش! تو خوش ہے ناں؟“ اس نے کریدا۔
”پتہ نہیں طلحہ….“ وہ بولا اور طلحہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ کتنی دیر خاموشی رہی تھی دونوں کے درمیان۔ طلحہ کو محسوس ہوا کہ وہ رو رہا تھا۔
”حارش۔“ اس نے پکارا مگر جواب ندارد تھا۔ پھر دوبارہ اس نے بھی نہیں چھیڑا اور خاموشی سے اس کے گھنے بالوں میں انگلیا ںپھیرنے لگا۔ حارش بہت مضبوط اعصاب رکھتا تھا۔ یہ وہ جانتا تھا۔ بہت چھوٹاتھا تب سے اس نے دیکھا تھا حارش کو روتے ہوئے، اس کے بعد حالات کیسے بھی گزرے وہ کبھی کمزور نہیں پڑا تھا، لیکن آج….
ض……..ض……..ض
وہ صبح اٹھا تو ناشتہ تیار ملا تھا۔ اب تو وہ حرمین کو منع بھی نہیں کر سکتا تھا، مگر اسے اب بھی یہ اچھا نہیں لگتا تھا، کیونکہ شروع سے ہی اسے اپنے کام خود کرنے کی عادت تھی۔ آفس جانے سے پہلے دادی کا پیغام آ گیا کہ ان سے مل کر جایا کرو۔ اب صبح صبح کسی کے گھر جانا، لیکن وہ کسی کا نہیں اس کے سگے تایا کا گھر تھا۔ خیر وہ تیار ہو کر طلحہ کے پاس آیا، جو سستی کا مارا اب تک نہانے بھی نہیں گیا تھا۔
”طلحہ! میں ذرا ادھر جا رہا ہوں دادی نے بلوایا ہے۔“ حیرت کی بات تھی اس نے کسی سے گلے شکوے نہیں کیے تھے، مگر اتنے سارے رشتے ملنے پر بھی اس کے اندر کی خوشی مفقود تھی۔ ہاں وہ خاموش تھا اور ہر بات مان رہا تھا، شاید یہ خون کی ہی کشش تھی۔
”طلحہ! تو نے آفس نہیں جانا، اب فٹافٹ اٹھ کھڑا ہو ورنہ پھر آتے رہنا رکشے سے۔“ یہ دھمکی کافی تھی، کیونکہ طلحہ رکشے وغیرہ سے جانے سے بہت چڑتا تھا، اور اس کی موٹر سائیکل ایک بار پھر ڈاکٹر کے پاس زیرعلاج تھی۔ وہ فوراً اٹھ کر واش روم میں گھس گیا اور حارش مسکراتا ہوا باہر نکل گیا…. بیل بجا کے باہر کھڑا تھا، کاشف نے دروازہ کھولا تو سامنے اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔ شیک ہینڈ کیا۔
”تم دروازے پر کیوں کھڑے ہو، اندر آ جاتے۔“ بہت اپنائیت سے وہ بولا تو جواباً وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا اور اس کے ساتھ اندر آ گیا، جہاں سب ناشتہ کر رہے تھے۔
”السلام علیکم!“ اس نے قدرے زور سے سلام کیا۔ دادی اسے دیکھ کربہت خوش ہو گئی تھیں۔
”وعلیکم السلام! جیتے رہو، خوش رہو۔“ وہ ان کے قریب آ گیا۔
”ادھر میرے پاس آجا، نرمین! بھیا کے لیے ناشتہ لے آ بچے۔“
”دادی میں ناشتہ کر چکا ہوں۔“ وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
”چائے لے لو۔“
”نہیں آنٹی…. پلیز…. میں ناشتہ کر چکا ہوں۔“ اس نے منع کر دیا
عالیہ سمجھ سکتی تھیں ابھی کچھ وقت لگے گا اس کو گھلنے ملنے میں، وہ مسکرا دیں۔
”جیسے تمہاری مرضی۔“ وہ کچھ دیر بیٹھا مگر بالکل خاموش۔ ان میں سے کوئی بات کرتا تو جواب دے دیتا ورنہ پھر خاموش۔
”دادی میں چلوں….؟ آفس جانا ہے۔“
”میرے ساتھ نکل جانا۔“ کاشف نے آفر کی۔
’نہیں یار! وہ طلحہ کو بھی ڈراپ کرنا ہے، اس کی بائیک خراب ہے۔“ اس نے سہولت سے منع کر دیا اور سب کو سلام کرتا واپس گھر آ گیا جہاں طلحہ مکمل تیار بیٹھا چائے پی رہا تھا۔
”چلیں….؟“
”ہاں! میں تیار ہوں۔“ حارش نے خاموشی سے بائیک نکالی، طلحہ دروازہ بند کرتا آ گیا۔
”چابی….؟“
”یار! تم لے آﺅ۔“ حارش بولا۔ وہ فقط اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا، ابھی دروازے تک پہنچا تھا تبھی تیزی سے حرمین باہر نکلی۔
”خیریت طلحہ بھیا۔“
”حرمین! یہ چابی اور ہاں شام میں زبردست سی بریانی ہوجائے تو…. مزہ آ جائے۔“
”ضرور بھیا۔“ وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ چابی اس نے اپنے ہینڈبیگ میں ڈال لی۔ حارش حیرت سے طلحہ کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کی فرسٹ کزن تھی لیکن حقیقت یہ تھی وہ اس کا نام تک نہیں جانتا تھا اور طلحہ اس کے ساتھ کتنی اپنائیت سے بات کر رہا تھا۔
”یہ کیا فرمائشی پروگرام چل رہا تھا….؟“
”یار! دادی اماں نے سختی سے منع کر دیا ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی بھی کوکنگ نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے تم ہرگز بھی روز ان کی طرف کھانا پسند نہیں کرو گے اس لیے اس مسئلے کا حل یہ حل نکلا کہ شام کا کھانا حرمین آ کے بنا دیا کرے گی، صبح میں ناشتہ وہ گھر سے بنا کر بھیج دے گی۔“
”لیکن طلحہ! میں اپنی ذات کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہیں دے سکتا۔ روز وہ بےچاری ہمارے باعث پریشان ہو، جب ایک کام ہم خود کر سکتے ہیں۔“
”یہ بات مجھے مت سمجھاﺅ، دادی سے کہنا۔ اب چل دیر ہو رہی ہے۔“ طلحہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”پتہ نہیں یہ کب سدھرے گا۔“
ض……..ض……..ض
کتنا پیارا اور اپناپن تھا اس کے چاروں طرف، لیکن وہ جیسے بالکل ہی بے نیاز بنا ہوا تھا۔ بقول طلحہ کے حارش عالم اپنے اندر کی اَنااور بدگمانی نکال کر دیکھو، آنکھیں کھولو، تمہارے چاروں طرف رب نے خوشیاں بکھیر دی ہیں۔ مگر اسے تو شاید خوشیوں میں رہنے کی عادت ہی نہیں رہی تھی۔ لیکن اب اسے شام میں گھر آنا اچھا لگنے لگا تھا۔ پہلے آتا تو سناٹا استقبال کرتا تھا، مگر اب دادی کی آواز اور حرمین، نرمین کی ہنسی، شور اور ان کے ساتھ طلحہ بھی شامل ہو جاتا تو گھر میں اتنی آوازیں رونق بن جاتیں۔ اس کے اندر کا انسان یہ ہی گھر تو چاہتا تھا۔ آواز، شور، اپناپن، خیال رکھنے والے بڑے، چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر خوش ہونے والے بہن بھائی، یہ ہنسی مذاق ایک دوسرے کے لیے پیار، ایک دوسرے کی ضرورت کا دھیان، اور اس کے پاس اب سب کچھ تھا، تو اس کے اندر کا وہ انسان مر چکا تھا۔ وہ ان کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتا تھا مگر ان میں گھل مل نہیں سکتا تھا۔ ایک عجیب سا تناﺅ اور سردمہری تھی اس میں، جو سب محسوس کرتے تھے مگر برا نہیں مناتے تھے۔ اب اسے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے بھی پریشان نہیں ہونا پڑتا تھا۔ ہر کام ہر چیز تیار ملتی۔
طلحہ کتنا اچھا تھا۔ وہ ان سب لوگوں میں یوں شامل ہو گیا تھا جیسے شروع سے ان کا حصہ ہو۔ نرمین، حرمین، کاشف سب کے ساتھ گہری دوستی کر لی تھی اس نے، بس وہ ہی کٹا کٹا رہتا تھا۔
اب بھی وہ گھر لوٹا تو سب صحن میں ہی تھے۔ دادی لیٹی ہوئی تھیں۔ حرمین، کاشف، طلحہ اور نرمین بیڈمنٹن کھیل رہے تھے۔ خوب شور کیا ہوا تھا اور دادی ہنگامے سے تنگ ہونے کے بجائے انجوائے کر رہی تھیں۔ طلحہ اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ وہ بھی ہلکے سے مسکرا کر اندر آ گیا۔ فریش ہو کر دوبارہ آیا۔ وہ سب کھیل بند کر چکے تھے اور اب سب آرام سے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
”بس تھک گئے….؟“ وہ طلحہ کے پاس آ کے بیٹھ گیا۔
”نہیں یار! وہ حرمین کا خیال تھا کہ تم تھکے ہوئے آئے ہو اور ہمارے شور سے ڈسٹرب ہو جاﺅ گے اور ویسے بھی ہم تمہارے منتظر تھے کہ تم آﺅ تو ہمیں بھی چائے نصیب ہو۔“ طلحہ ہنستے ہوئے بولا۔
”میں نے کب کہا کہ تم میرا انتظار کرو۔“
”مجھے پتا ہے تو آدم بیزار ہے مگر حرمین کا خیال تھا کہ تمہارے آنے کے بعد سب مل کر چائے انجوائے کریں گے۔“ اس نے کہا تو حارش اسے گھور کر رہ گیا۔ تبھی حرمین سب کے لیے چائے لے آئی، ساتھ اسنیکس وغیرہ بھی تھے۔
”واہ…….. اللہ تمہارے جیسی بہن ہر بھائی کو دے۔“ طلحہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی، وہ مسکرادی۔
”تھینک یو بھیا۔“ حارش نے غیرارادی نظر اس پر ڈالی تھی۔ وہ دادی کے برابر میں بیٹھی چائے پی رہی تھی ساتھ ہی طلحہ کی باتوں پر مسکرا رہی تھی۔ سرخ پرنٹڈ لان کے سوٹ میں چمکتی دمکتی رنگت اور پُرکشش نقوش، اس لمحے جانے کیوں وہ حارش کو بے پناہ اچھی لگی تھی کہ اس کو خود علم نہ ہوا وہ کب تک اسے دیکھتا رہا۔ وہ تو حرمین نے اسے دیکھا تو وہ قدرے شرمندہ ہو کر سر جھکا گیا۔
”دادی! میں گھر جا رہی ہوں۔ کوئی کام ہو تو بلا لیجئے گا۔“ وہ کپ سمیٹ کر کچن میں رکھ آئی تھی اور اب دادی کے سامنے کھڑی تھی۔
”برتن میں آ کے دھو لوں گی، کھانا تیار ہے۔“ وہ ساری تفصیل بتا رہی تھی۔ طلحہ اور کاشف کے ساتھ باتیں کرتا حارش اس کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دے رہا تھا۔
”دادی! صبح میری چھٹی ہے، میں صبح کر دوں گی۔ اب میں جاﺅں….؟“ دادی نے اسے کوئی کام کہا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ بہت انجوائے کرتی یہاں کام کرتے ہوئے مگر حارش کے آنے کے بعد جانے کیوں وہ بھاگنے کی کرتی۔ اسے لگتا کہ حارش کو ان کا آنا پسند نہیں ہے،اور یہ بات وہ شدت سے محسوس کرتی تھی۔ کتنے دن گزرنے کے بعد بھی حارش کا رویہ ان کے ساتھ بہت روکھا اور سرد سا تھا۔ یہ بات حرمین عالم محسوس کرتی تھی تب ہی اس کی کوشش ہوتی کہ حارش کے آنے سے قبل وہ کام مکمل کر لے، حالانکہ طلحہ بھیا کے ساتھ ان کا وقت بہت اچھا گزرتا تھا۔ وہ بالکل اپنے سگے بھائیوں کی طرح ان میں گھل مل گئے تھے۔
”حرمین بہنا! میرا کام کر دیا ہے ناں۔“ وہ جانے لگی تو طلحہ نے پکار لیا۔
”رات میں کروں گی، آپ بے فکر رہیں۔“
”کاشف! لگتا ہے حرمین کچھ بھول رہی ہے۔“ طلحہ نے کاشف کو مخاطب کیا۔ حرمین نے بھی نہ سمجھتے ہوئے کاشف کو دیکھا جو سر ہلا رہا تھا۔
”کیا کاشف بھائی! بتائیں ناں۔“
”رات میں طلحہ سے آئس کریم کھانی ہے۔ کیونکہ یہ کل تم سے شرط ہارا تھا، اور تم خود ہی بھول گئیں۔“ اس نے سر پر ہاتھ مارا۔
”جناب اب یاد ا گیا، میں جلدی جلدی کام ختم کرتی ہوں، آپ تیار رہیں۔ جان نہیں بچے گی آپ کی۔“
”یار کاشف! وہ اچھا خاصا بھول گئی تھی، تم نے لازمی میرا خرچہ کرانا تھا۔“ طلحہ نے کاشف کو گھورا۔
”ابھی سے ڈر گئے آپ بھیا! ابھی حنا بھابی کو تو آنے دیں گھر میں، پھر دیکھیے گا۔“
”حنا بھابی….؟“ حارش نے قدرے چونک کر طلحہ کو دیکھا، وہ یکدم گڑبڑا گیا۔
”اچھا تم ابھی کام کرو جا کے۔“ اسے پتہ تھا کہ اب اس کی خیر نہیں، کیونکہ حارش اس تمام معاملے سے قطعی انجان تھا۔ وہ طلحہ کو گھورنے میں مصروف تھا جب حرمین اور کاشف باہر نکل گئے۔
”یہ کیا چکر ہے ڈفر، اور یہ مجھ سے کیا رازداری؟“
”نہیں یار! بس وہ حرمین اور نرمین نے میرے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے، مجھے بھی اچھی لگی۔ میں نے سوچا، کیا دل توڑوں ان معصوم لڑکیوں کے سو….“ اس نے بات بعد میں مکمل کی تھی، حارش پہلے اس پر حملہ کر چکاتھا۔
”بھیا چلیں ناں پلیز آپ…. بہت مزہ آئے گا۔“ نرمین نے اس کاہاتھ پکڑ کر لاڈ سے کہا مگر وہ اٹھا نہیں، البتہ حرمین خاموش کھڑی تھی۔ طلحہ نے بھی زور دیا۔ اس کا ایک ہی موقف تھا کہ اس کے سر میں درد ہے۔ سب کے کہنے کے باوجود وہ نہیں مانا۔ سو وہ چپ ہو گئے لیکن جب وہ سب باہر نکل رہے تھے تو ایک لمحے کے لیے وہ رکی تھی۔
”آپ ہمیں اچھا نہیں سمجھتے ناں اس لیے آپ کو ہمارے ساتھ رہنا بھی پسند نہیں۔ لیکن اگر آپ ہمارے ساتھ چلتے تو ہمیں بہت اچھا لگتا۔“ وہ کہنے کے بعد اس کے تاثرات دیکھنے کوٹھہری نہیں، فوراً باہر نکل گئی اور حارش بعد میں جانے کیوں خود سے الجھتا رہا۔ سکون نہ آیا تو آ کے دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ وہ اسے بے کل ٹہلتا تو دیکھ رہی تھیں اور جب وہ ان کی گود میں سر رکھ کے لیٹا تو جان گئیں کہ وہ کچھ پریشان ہے۔
”حارش بچے! کیا بات ہے….؟“ یعنی دادی اس کی بے کلی محسوس کر گئی تھیں۔ وہ خود کو اتنا عیاں کر گیا تھا۔
”دادی! کچھ نہیں بس سر میں در دہے۔“ اس نے پھر وہی بہانہ بنایا۔
”اچھا…. اٹھ ذرا۔“ دادی نے اسے اٹھایا پھر اٹھ کر تیل لائیں اور اس کے سر کی مالش کرنے لگیں۔ مالش سے ذہنی سکون ملا تھا مگر دل میں جو بے کلی سی چھائی تھی، وہ کم نہ ہوئی اور وہ حد سے سوا ہوئی۔ جب طلحہ اکیلا لوٹا باقی سب باہر سے گھر چلے گئے۔ طلحہ بھی جتنا خوش گیا تھا اتنا ہی خاموش لوٹا تھا۔ اور آتے ہی وہ اپنے بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ چونکہ گرمیاں تھیں اور وہ دونوں صحن میں ہی چارپائیاں ڈال کر سوتے تھے، وہ بھی اس کے ساتھ ہی دوسری چارپائی پر آ لیٹا۔ دادی نماز ادا کر رہی تھیں۔ اس نے دیکھا طلحہ خاموش تھا۔
”طلحہ ! تو خفا ہے….؟“ ظاہر ہے وہ جانتا تھا اسے اچھی طرح۔
”تجھے کیا پرواہ…. تو سو جا آرام سے….“ یعنی وہ شدید خفا تھا تبھی اس کی طرف سے کروٹ بدل لی۔ اس کے اندر کی ہلچل شدت اختیار کر گئی۔ ایک وہ دھان پان سی لڑکی اسے الجھا گئی تھی اور اب طلحہ اتنا شدید خفا ہو گیا تھا بھلا اسے نیند کہاں آنی تھی۔ وہ اٹھ کر طلحہ کی چارپائی پر آ بیٹھا۔
”طلحہ! تو ناراض ہو تو مجھے نیند کب آتی ہے، تجھے پتہ تو ہے پھر بھی۔“
”لیکن تجھے اب میری ضرورت کب ہے، تجھے تو صرف خود سے پیار ہے، آج ٹریٹ میں نے دی تھی، میری خاطر بھی تو نہیں گیا ناں۔“ وہ بھی اسی بات پر خفا تھا۔
”طلحہ! میں کیا کروں بہت سمجھاتا ہوں خود کو مگر پھر دل ہے کہ مانتا نہیں۔ میں سب لوگوں میں بیٹھ کر تمہاری طرح ہنسنا بولنا چاہتا ہوں مگر جانے کیا چیز مجھے ایسا نہیں کرنے دیتی۔“
”تمہاری خودساختہ اَنا، حارش! جو کچھ بھی تمہارا ماضی رہا ہے اسے اللہ کا امتحان سمجھ کر آنے والی خوشیوں کو ویلکم کہو۔ تم نے خود ہی ان خوشیوں سے خود کو دور رکھا ہوا ہے۔ تجھے پتہ ہے آج تیرے رویہ کی وجہ سے حرمین بہت ہرٹ ہوئی ہے۔ وہ بہت حساس ہے اسے پہلے ہی وہم تھا کہ تیرا رویہ ان کے ساتھ اچھا نہیں اور تو نے وہاں نہ جا کر اس کا بہت دل دکھایا ہے۔“ طلحہ کی باتوں نے اس کا دل اور بے کل سا کر دیا۔ وہ چپ چاپ اٹھ کر اپنے بستر پر آ لیٹا، مگر ساری رات اسے نیند نہیں آئی، جانے کیوں….؟ اور صبح جب ناشتہ نرمین نے بنایا تو اسے لگا کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ وہ بھوکا بغیر ناشتے کے آفس چلا گیا۔ یہ بات طلحہ نے نوٹ کی تھی۔ شام کو اسے یقین تھا کہ ٹیسٹی سی چائے اس کی ساری تھکن اُتار دے گی مگر آج چائے میں وہ مزہ نہیں تھا۔ پھر کھانا بھی اچھا نہیں لگا۔ وہ تو اسے بعد میں پتہ چلا کہ آج حرمین نہیں آئی تھی۔ نرمین نے کھانا بنایا تھا۔ کئی دن گزر گئے اسے حرمین نظر نہیں آئی تھی تو آج وہ سیدھا شام میں ان کی طرف آیا تھا۔ وہ بابا کے ساتھ ہی بیٹھی اخبار دیکھ رہی تھی۔ لیمن لان کے سوٹ میں وہ دمکتی رنگت اور پُرکشش نقوش لیے، بال کاندھوں پر کھلے پڑے تھے، خوبصورت سی ہیئرکٹنگ اس پر سُوٹ کر رہی تھی۔ اس نے سلام کیا تو وہ چونک گئی۔ بابا اسے دیکھ کر خوش ہو گئے۔
”ارے میرا بیٹا آیا ہے، آﺅ بچے بیٹھو۔“ ان کی گرمجوشی اسے شرمندہ سی کر گئی۔ کتنے دن بعد مل رہا تھا وہ ان سے۔
”کیسے ہیں آپ بابا….؟“ اس کے منہ سے بابا سن کر انہیں بہت اچھا لگا تھا، حیرت حرمین کو ہوئی تھی۔
”اچھا ہوں…. حرمین! جاﺅ بیٹا اچھی سی چائے لاﺅ، حارش آفس سے آیا ہے، تھکن اُتر جائے گی۔“ اس کے ہاتھ کی چائے کی وجہ سے تو وہ آیا تھا۔ اس نے فوراً حرمین کو دیکھا، وہ دوپٹہ ٹھیک کرتی اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔ وہ بابا کے ساتھ باتوں میں لگ گیا۔ ڈور بیل بجی تو بابا اٹھ کر باہر دیکھنے چلے گئے تبھی وہ چائے لے آئی۔ اسے چائے کا کپ تھما کر وہ باہر کو دیکھنے لگی۔
”بابا کہاں گئے ہیں….؟“
”باہر شاید کوئی آیا تھا ان سے ملنے۔“
”اچھا….“ وہ بابا کی چائے رکھ کر جانے لگی تو حارش نے پکارا۔
”حرمین! تم خفا ہو….؟“ حارش کا لہجہ اور رویہ اتنا اچھا! بہت حیرت سے مڑ کر اس نے دیکھا، وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”کیوں بھلا….؟“ وہ مسکرائی۔
”پھر کئی دن سے گھر کیوں نہیں آئیں….؟“
”بس ویسے ہی….“ وہ سر جھکا گئی، گویا اس نے محسوس کیا تھا۔
”آئی نو…. تم میرے اس رات نہ جانے پر خفا ہو۔“
”حارش بھائی! میں خفا نہیں ہوں، بس مجھے لگا کہ آپ کو ہمارا آنا پسند نہیں تو میں نہیں گئی۔“
”ایسا نہیں ہے حرمین! بس مجھے شاید وقت لگے گا خود کو چینج کرنے میں، ساری عمر تنہا رہا ہوں ناں! اب ایکدم اتنا بڑی چینج دیکھو…. آئی ایم سوری اگر تم میرے رویے سے ہرٹ ہوئی ہو، یہ رویہ میری نیچر کا حصہ ہے۔ ارادتاً ایسا نہیں کرتا میں۔ ہو سکتا ہے تم لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے میں خود کو بدل سکوں۔ پلیز آئندہ میری کسی بھی بات کو دل پر مت لینا، میری عادت سمجھ کر اِگنور کر دینا پلیز….“
”حارش بھائی پلیز…. آپ کیوں اتنی وضاحتیں دے رہے ہیں، میں خفا نہیں ہو۔“ وہ خجل سی ہو گئی۔
”سچ کہوں، تمہارے ہاتھ کی چائے اور کھانے کو مِس کر رہا تھا کئی دن سے۔ آئندہ بابا مجھ سے غلطی ہو بھی جائے تو یہ سزا مت دینا۔ صرف تمہارے ہاتھ سے بنی چائے پینے آیا تھا میں۔ تھینک یو سو مچ، اور مجھے امید ہے صبح مجھے یہ ہی مزیدار چائے ملے گی۔“
”حارش بھائی! آپ بھی بس….“ جانے کیوں اس کا چہرہ تپش سی محسوس کرنے لگا۔ حارش کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو گیا۔ بابا آئے تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”میں چلتا ہوں۔“ حرمین بابا کے لیے دوسری چائے لے آئی تھی کہ وہ ٹھنڈی ہو چکی تھی۔
”حارش بھائی! کھانا نہیں کھائیں گے….؟“ اس کے لبوں کی مسکراہٹ سے حارش عالم پر عجیب سی کیفیت چھائی تھی جسے وہ کنٹرول کر گیا۔
”ضرور کھاتا، مگر آج مجھے کہیں جانا ہے، میں یہ ہی بتانے آیا تھا بابا! میں لیٹ ہو جاﺅں گا۔ ہمارے باس نے پارٹی ارینج کی ہے اور مجھے وہاں جانا ہے۔“
”کوئی بات نہیں، یہ سب زندگی کا حصہ ہے۔“ بابا نے مسکرا کر کہا۔ اس نے ایک بھرپور نگاہ حرمین پر ڈالی اور اللہ حافظ کہتا باہر نکل گیا۔
ض……..ض…….
”بچے! اپنی ماں سے بدگمان مت ہونا۔ وہ بےچاری مجبور ہے لیکن اس کاکلیجہ بھی پھٹتا ہے تیرے ساتھ سب کا رویہ دیکھ کر۔“ پھوپو اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔
”آج تک میرے ساتھ جو بھی زیادتی ہوئی ہے انہی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اگر وہ ایک بار بھی میری سائیڈ لیتیں تو شاید وہ لوگ مجھے اس طرح نہ دھتکارتے۔ انہوں نے تو ہمیشہ دوسروں کی غلطی پر بھی مجھے مارا ہے۔ پھر بھی آپ ان کی سائیڈ لے رہی ہیں۔“ وہ اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتا تھا۔ پھوپھو کو لگا فی الوقت اسے سمجھانا بے کار ہے کیونکہ اس کے زخم ابھی تازے تھے۔
وہ اعظم علی کی کزن تھیں مگر جس دن سے شگفتہ بیاہ کر اعظم کے گھر آئی تھیں وہ اس معصوم بچے پر ہونے والے ہر ظلم کو دیکھ رہی تھیں۔ شگفتہ جب بچوں میں مصروف ہو کر حارش کی طرف سے بالکل ہی لاپرواہ ہو گئیںتو انہوں نے اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا۔ حارش کو بھی ان کی محبت بے غرض اور پُرخلوص لگی تو وہ ان سے اٹیچ ہو گیا۔ وہ اسکول کے بعد پھپھو کے پاس آ جاتا۔ سارا دن یہیں گزارتا، طلحہ کے ساتھ کھیل کر، اس کے ساتھ بیٹھ کر ہوم ورک کر لیتا۔ شام کو گھر آ کر سو جاتا۔ اکثر وہ کھانا بھی پھپھو کی طرف ہی کھا لیتا تھا۔ اگر پھوپھو نہ ہوتیں تو جس طرح اس کی مما اس کی ذات سے لاپرواہ ہو گئی تھیں یا تو وہ مر جاتا ورنہ پھر غلط ہاتھوں میں چلا جاتا، لیکن پھوپھو کی ماں جیسی محبت نے اس کی ذات کا اعتماد کھونے نہ دیا۔ وہ دن بدن ان کے اور طلحہ کے قریب ہوتا چلا گیا۔
جب وہ آٹھویں میں تھا تو اس نے اسکول کے ساتھ ساتھ شام میں الیکٹریشن کی شاپ پر جانا شروع کر دیا۔ کچھ اس کا انٹرسٹ تھا کہ وہ الیکٹریکل انجنیئر بننا چاہتا تھا، کچھ ا س کی ضرورت، کیونکہ اعظم علی پر مزید بوجھ بن کر اپنی زندگی مزید برباد کرنا نہیں چاہتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی چیزیں اپنی پاکٹ منی سے جو دکان سے ہر ہفتے ملتی تھی خریدنا شروع کر دیں اور اب جبکہ وہ میٹرک میں تھا تو اچھا خاصا کام بھی سیکھ چکا تھا۔ وہ اب بھی شام میں اسی شاپ پر کام کرتا تھا۔ اب اس کی پاکٹ منی بھی بڑھ چکی تھی۔ سو اسے لگا کہ اب وہ خود اپنا خرچ اٹھا سکتا تھا، اس لیے وہ اپنی مما کا گھر چھوڑ کر پھوپھو کے پاس آ گیا۔
طلحہ اس کے مستقل آنے سے بہت خوش تھا۔ اب وہ صبح میں مل کر اسکول جاتے۔ پھر شام میں اکٹھے کام پر۔ چونکہ پھپھو بیوہ تھیں اور وہ خود سیکنڈری اسکول میں ٹیچر تھیں، طلحہ بھی چاہتا تھا وہ اپنی مما کے ساتھ مل کر کام کرے۔ دونوں کا وقت اچھا گزر جاتا۔ ساتھ ہاتھ میں ہنر بھی آ گیا تھا، اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا انہیں اچھا لگتا تھا۔ وقت اسی طرح گزرتا چلا گیا۔ اس کی مما، پھپھو کے گھر آ جاتی تھیں کبھی کبھار اس سے ملنے۔ لیکن اس کے دل پر اب گہری گرد چھا چکی تھی۔ وہ اپنی مما سے بہت دور جا چکا تھا۔ اسے اب ان کی آنکھوں کی نمی ڈھونگ اور ان کا پیار محض ڈرامہ لگتا تھا۔
کتنے سال یوں ہی بیت گئے۔ وہ دونوں تعلیم مکمل کر کے اب پروفیشنل لائف اسٹارٹ کر چکے تھے اور اپنی پسندیدہ جاب پا کر وہ بہت خوش بھی تھے۔ طلحہ ہر قدم پر اس کے ساتھ تھا۔ ان دونوں نے اپنی الیکٹریشن شاپ بنا رکھی تھی۔ جاب سے پہلے ہی، سو جاب کے بعد بھی وہ اکثر شام کا وقت وہیں گزارتے کہ بے کاری سے بہتر کارگزاری،اور اس طرح وہ کافی پیسہ سیو کر لیتا تھا۔ پھوپھو تقریبا۱ اس کی ساری پے منٹ سیو کرتی تھیں۔ دوکان سے ہی وہ اپنی ضرورت پوری کر لیتا تھا۔ یوں جلد ہی اس نے اتنے پیسے کر لیے کہ اپنا خود کا گھر خرید سکے۔ اب وہ اسی کوشش میں تھا۔ انہی دنوں اچانک پھپھو کی طبیعت خرب ہوگئی۔ ہائی بلڈپریشر کی وہ مریضہ تو تھیں لیکن اچانک ان کا بی پی بہت ہائی ہو گیا۔ وہ فوراً ہسپتال لے گئے مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ پھپھو کے دماغ کی رگ پھٹ چکی تھی، جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی ہار بیٹھیں۔ اس دن حارش کو لگا کہ اب وہ بالکل تنہا رہ گیا ہے۔ یتیم ہو گیا ہے۔ لیکن طلحہ کی حالت اس سے بھی بری تھی۔ وہ بھی تنہا ہو گیا تھا۔ ان دونوں نے ہی اب ایک دوسرے کو سنبھالنا تھا، کیونکہ اس دنیا میں ان کا ایک دوسرے کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
کافی وقت لگا تھا انہیں خود کو سنبھالنے میں۔ مگر وقت نے آخر انہیں سنبھال ہی لیا۔ وہ دونوں تھے اور زندگی کا ایک نیا سفر۔ پھوپھو کے بغیر گھر کھانے کو آتا تھا۔ اب اس گھر میں دل نہ لگتا اس لیے دوسرے علاقے میں گھر خرید لیا اور وہاں شفٹ ہو گئے۔ دکان بھی ختم کر دی۔ اب صرف جاب تھی اور گھر کے کام۔ شام میں دونوں اکٹھے ہوتے تو الٹی سیدھی گپیں، گانے اور مذاق کر لیتے جس سے زندگی تھوڑی سہل ہو گئی تھی اور نئے گھر میں بھی ان کا من لگ گیا تھا۔ آخر زندگی کو تو گزارنا تھا تو وہ ہنسی خوشی سہی۔
ض……..ض……..ض