ایک اعلیٰ پائے کے افسانہ نگار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہونی چاہئے کہ وہ جب معمولی سے واقعہ کو بھی مس کرے تو وہ ایک جیتی جاگتی کہانی میں تبدیل ہو جائے۔سلطان جمیل نسیم کو قدرت کی طرف سے یہی خوبی ودیعت ہوئی ہے۔اِسی لئے ان کے افسانوں میں ’کہانی پن‘اپنی ساری جاذبیت اور تنوع کے ساتھ ابھرا ہے۔علامتی تجریدی افسانے کے اِ س دور میں جب کہانی محض ایک ہیولا سا بن رہی ہے‘سلطان جمیل نسیم نے کہانی واقعاتی بنیاد مہیا کی ہے مگر اِن کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کہانی کوواقعہ کی سپاٹ سطح پر رہنے نہیں دیا بلکہ اسے اوپر اٹھا کر اس میں ایک نئی معنویت سمودی ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ اردو افسانے کا مستقبل نہ تومحض واقعہ نگاری سے عبارت ہو گااور محض علامتی تجرید ی اندازِ اظہارسے بلکہ وہ اُس خاص ادب میں اُبھرے گا جس میں افسانہ ، واقعہ میں مضمراس کی معنوی پر چھائیں کو جلو میں لے کر بر آمد ہوتا ہے۔سلطان جمیل نسیم کی افسانہ نگاری کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اِس میں اردو افسانے کا یہ مستقبل لَو دینے لگا ہے۔
اردو افسانے کے ایوان میں سلطان جمیل نسیم ایک دھما کے کے ساتھ نہیں آئے بلکہ خراماں خراماں داخل ہوئے ہیں۔یہی آہستہ روی ان کے افسانوں کی گہرائی اور پختگی کاباعث بھی ہے۔میری دلی آرزو ہے کہ ان کی یہ آہستہ روی اسی طرح برقرار رہے تاکہ وہ شہابِ ثاقب کی طرح اُبھرنے اور بجھ جانے والوں کے بر عکس افسانے کے افق پر ایک روشن ستارے کی طرح چمکیں اور سدا چمکتے رہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا
سلطان جمیل نسیم کے اِ س افسانوی مجموعے(کھویا ہوا آدمی)میں اگرچہ ایک ہی کہانی کا نام ’’آسیب‘‘ ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی آسیب موجود ہے اور قاری بظاہر’’مٹھی بھر روشنی‘‘ کے سہارے’’گھر کاراستہ‘‘ڈھونڈتے ہوئے کسی نادیدہ سے ٹکراکربمشکل گرتے گرتے سنبھلتا ہے۔نئے آدمی کایہ روگ اب کافی پراناہو چکا ہے کہ جب تک وہ آنکھیں موند کرنہ چلے اُسے اپنا آس پاس نظر ہی نہیں ، آئے بھی کیسے اُسے کراچی سے چاند تک بھی جانا ہو‘ پھر بھی اپنے خون کے ماننددراصل اُسے سر سے پیر یا پیر سے سر تک ہی آنا ہو تا ہے۔اپنی منزلِ دروں میں ہی قدم اُٹھائے وہ نہ معلوم کن بیرونی اطراف کارُخ کئے ہو تا ہے، نہ معلوم اُسے کہا ں پہنچنا ہوتا ہے۔انسان کی اِس گمشدگی کا احساس سلطان جمیل نسیم کو بجا طور پریشان کئے ہوئے ہے اور میں اُس کی پریشان حالی میں اُس کا تعاقب کئے جانا چاہوں گا کیونکہ بے خبری کی یہ عجیب و غریب وارداتیں انسانی ضمیر کئی ایسی ٹوہوں کی حامل ہوتی ہیں جن کے بغیر جینابا خبر معلوم نہیں ہوتا۔ جوگندر پال
اچھے اور کامیاب افسانے کی خوبی یہ ہے وہ قاری کے ذہن کو متاثر کرے۔ یہ اثر جتنا گہرا اور دیرپا ہو گا افسانہ اتنا ہی اچھا اور کامیاب قرار پائے گا۔ سلطان جمیل نسیم کے افسانوں کا یہ بنیادی وصف ہے ۔موضوع کے اعتبار سے اِن کے افسانے متنوع اور رنگا رنگ ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلوب اور ہیئت انہوں نے نت نئے تجربات کئے ہیں، یہ تجربات محض تجربے کی خاطر نہیں کئے گئے بلکہ موضوع کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر کئے گئے ہیں۔سچ پوچھئے تو موضوع یا مرکزی خیال خود اپنی ہیئت اور تیکنک وضع کرتا ہے ایسا نہیں ہوتا پہلے تیکنک وضع کرلی جائے اور اس سانچے میں موضوع کو ڈھال کرافسانہ تخلیق کردیا جائے، ہر چند کہ ایسی کوششیں کی جا چکی ہیں اور اُن کا سلسلہ ہنوز جاری ہے‘مگروقت اور تجربے نے ثابت کردیا کہ ایسے افسانے زیادہ عرصے زندہ نہ رہے۔نقش پر آب ثابت ہوئے،یہ بنیادی طور پراظہار و ابلاغ کا مسئلہ ہیوہ یہ ہے مرکزی خیال کس طور قاری تک پہنچایا جائے۔اور اِس طور پہنچایا جائے کہ وہ اس سے مسحور ہو جائے۔ اُس کے ذہن میں نئے دریچے کھل جائیں۔ خیالات میں بالیدگی اور نمو پیدا ہو۔سلطان جمیل نسیم کوچہء ادب میں نو وارد نہیں ہیں کم و بیش ربع صدیسے افسانے لکھ رہے ہیں۔وہ سلامت روی اور اعتدال سے آگے اور آگے بڑھتے رہے ہیں۔ ان کا ہر قدم اپنے فن کے ارتقا کی جانب بڑھا ہے۔اس طویل سفر میں کتنے ہی صبر آزمامراحل آئے مگر فن سے ان کی لگن متزلزل نہ ہوئی چنانچہ فنِ افسانہ نگاری میں آج وہ اُس مقام پر نظر آتے ہیں کہ ان کا شمار اردو کے جانے پہچانے اور نمایاں افسانہ نگاروں میں ہو تا ہے۔’کھویا ہوا آدمی‘‘ان کے افسانوں کا پہلا مجمو عہ ہے امید ہے ادبی حلقوں میں اسے قابلِ پذیرائی قرار دیا جائے گااور اس کا خیر مقدم اسی جوش و جذبے سے کیا جائے گا جس کا وہ مستحق ہے۔ شوکت صدیقی
’’سایہ سایہ دھوپ‘‘ میں شامل بائیس (۲۲) کہانیاں ہیں جو سلطان جمیل نسیم کے نادر اور بے سکون کر دینے والے فن سے متعارف کراتی ہیں۔وہ لفظ کے اصل معنی میں ایک داستان گو ہیں اور کہانی کوصفائی سے، اختصار سے‘ دلبستگی سے بیان کرنے کا ملکہ ان کو حاصل ہے۔ کہانی کی ابتدا ہی سے وہ پڑھنے والے کو کالرج کے قدیمTHE ANCIENT MARINERکی طرح اپنی گرفت لے لیتے ہیں اور اُس وقت تک اُسے آزاد نہیں کرتے جب تک کہانی ختم نہ ہو جائے۔ان کا ہاتھ بہت سبک ہے مگر بڑا کاریگر ہے۔وہ آرائشی نثر نگاری یا ارغوانی عبارت کا سہارالئے بغیر بڑے قدرتی ڈھنگ سے اپنی کہانی کا تانا بانا بنتے ہیں جس میں کوئی جھول نہیں ہوتا، نہ ہی قاری کے لئے دہچکا۔وہ تجریدی یا علامتی داستان گوئی کو حرام نہیں سمجھتے بشرطیکہ کہانی کا مفہوم ہی خبط ہوکر نہ رہ جائے مگر اِس مجموعہ کی بیشتر کہانیاں روایتی ہیں۔منشی پریم چند، راجندرسنگھ بیدی،سعادت حسن منٹو اور غلام عباس کی عظیم روایت میں لکھی ہوئی۔ اِن کی اثر انگیزی اور فنی پختگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عنوانی کہانی ’’سایہ سایہ دھوپ‘‘ دو پاگل عورتوں،ایک حرامی لڑکے اور ایک ڈسپلن قائم رکھنے والے وارڈن کی حیران کن کہانی ہے۔ اتنی اچھی‘ خالص کہانی میں نے اردو میں ایک مدت کے بعد پڑھی ہے۔ اس مجموعہ میں دوسری بھی بہت سی اور کہانیاں ہیں جو مجھے پسند آئیں۔ سلطان جمیل نسیم میرے لئے ایک نئی دریافت ہیں ایک نہایت خوش کن دریافت۔وہ ایک اوریجنل(original) تیز نظر اور دلچسپ کہانی لکھنے والے ہیں اور میں انہیں سلام کرتا ہوں․․․․․
محمد خالد اختر
او بھائی تیرے اندر تو ایک داستان گوسو رہا ہے جسے تُو کھویا ہوا آدمی کی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی لوریاں سنا کر اور سلارہا ہے تھپکیاں دے رہا ہے۔ ناول لکھ۔ تیرے پاس زبان ہے اور بیان کرنے کو آج کل کے حالات بھی پکار رہے ہیں جو سیاسی‘سماجی‘فوجی‘ ڈھونگی‘مذہبی بدماشیوں اپنی سیدھی سیدھی سچی سچی الجھاوے سے پاک زبان میں لکھ دے۔ یہ سب ایک بڑے ناول میں سمویا جا سکتا ہے مجھے تیری کتاب پڑھ کے یہی سوجھا کہ ناول کا مشورہ دوں۔ تو چل پتر۔ میرا کہا مان اور ہو جا شروع۔ ممتاز مفتی
’’کھویا ہوا آدمی‘‘ کے افسانے ہر لحاظ سے عمدہ اور دلکش ہیں۔ یہ افسانے زندہ مسائل پر زندہ افسانے ہیں۔
عرش صدیقی
آپ کی کہانیاں مجھے اچھی لگیں۔اِن میں روا یتی کہانی کے بر عکس اختصاراور ایجاز کی خوبیاں ہیں۔آپ نے ان کامواد ہم عصر معاشرے اور ارد گرد کی جیتی جاگتی زندگی سے کشید کیا ہے۔اِن میں ریڈایبلٹی ہے جو کسی کامیاب کہانی کی پہلی شرط ہوتی ہے ۔بعض علامتی انداز کی کہانیاں مثلاً’’کھویا ہوا آدمی‘‘ ’’خالی ہاتھ‘‘۔’’عذاب‘‘ اور ’’گھر کا راستہ‘‘نیا ذائقہ لئے ہوئے ہیں۔میں ایسی ہی علامتیں پسند کرتا ہوں جومعنی کا دائرہ وسیع کر دیں، تاثر میں شدت پیدا کردیں اور قاری کو بھٹکنے بھی نہ دیں۔شناخت۔جنریشن گیپ اور میرے لئے، حقیقت نگاری کے
اسلوب میں لکھی ہوئی نہایت عمدہ کہانیاں ہیں۔ مجموعی طور پر مجھے آپ کی سب ہی کہانیاں کامیاب اور اچھی معلوم ہوئی ہیں۔تنوع نہ صرف آپ کے موضوعات میں ہے بلکہ آپ کا اسٹائل بھی جامد نہیں ہے اور یہ بڑی بات ہے۔
محمد منشا یاد
سلطان جمیل نسیم اُن قابلِ ذکر افسانہ نگاروں میں سے ہیں جو ’کہانی‘اور ’افسانہ‘ کے فرق کی بابت شعوری ہوئے بغیر اپنی کاوشوں میں مگن ہیں۔ وہ پہلے سے طے شدہ مفروضات کی عینک سے ہم عصری حقیقتوں کامشاہدہ نہیں کرتے، شاید یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ وہ ہیئت کے بارے میں متشددہونے کے کے بجائے اُسے اپنے مواد پر چھوڑ دیتے ہیں۔سلطان جمیل نسیم کے افسانوں میں حقیقت پسندی ‘ اشاریت پسندی اور علائم نگاری کی تیکنک ا پنی ضرورت کے مطابق نظر آتی ہے۔وہ انسانی زندگی کے قابلِ مطالعہ رُخ کو اپنی آنکھوں اور ذہن سے بیک وقت دیکھتے ہیں۔صرف یہی اِن کا وصف خاص نہیں ہے بلکہ ان کی انفرادیت کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مشاہدہ ہی میں مطالعہ اور محاکمہ کے عناصر کچھ اِس طرح پرو دیتے ہیں کہ ان کی تخلیقات میں کہانی کا حسن بھی باقی رہتا ہے اوراِس کے ساتھ افسانہ نگار مجہول غیر جانب داری کے الزام سے بھی بَری الزمہ ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹرمحمد علی صدیقی
سلطان جمیل نسیم کے بارے میں یہ بات میں لکھ چکا ہوں کہ وہ ۵۰ کی دہائی سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے افسانے یوں تو پاک وہند کے تمام ہی اہم رسائل شائع ہوئے ہیں لیکن زیادہ تر تخلیقات ’’سیپ‘‘ ہی میں اشاعت پذیر ہوئی ہیں۔سلطان جمیل نسیم کے فن یا اُن کی تخلیقات کے بارے میں یہ بات واضح طور کہی جاسکتی ہے کہ اُن کے افسانوں میں شہری زندگی کی بیشمار تصویریں مختلف زاویوں اور نو بہ نو رنگوں کے ساتھ اِس طرح بیان ہوتی ہیں کہ قاری سے مکالمہ کرنے لگتی ہیں اور یہ میرے نزدیک اِس بات کی بھی دلیل ہیں کہ انہوں نے ذاتی تشہیر پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے اپنے فن کو مرکزِ فکر و نظر بنائے رکھا ہے۔اگر چہ سلطان جمیل نسیم کے فن پر ایم اے کی سطح پر کئی مقالے تحریر کئے جا چکے ہیں ،حال ہی میں جناب اکرام بریلوی نے سلطان جمیل نسیم کے افسانوں کو موضوع بنایا ہے۔ ایک بزرگ ناول نگار اورنقاد کی جانب سے اپنے عہد کے ایک اہم افسانہ نگار کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کے ساتھ دوسرے ناقدین کو اپنے عہد کے افسانے کی طرف توجہ مبذول کرانے کی ایک سعئی کامیاب بھی کہی جا سکتی ہے۔
نسیم درانی
آپ کے پاس حسنِ تحریر بھی اور سلیقہء تالیف بھی اور پھریہ بھی ہے کہ مطالعے، مشاہدے اور جذبات کی خوبصورت آمیزش آپ کو اُس ذہنی الجھن کا شکار نہیں ہونے دیتی جو موجو دہ دَور کے افسانہ نویسوں کاخاصہ بن چکی ہے یعنی ایک بیمار داخلیت۔آپ باہر کی دنیا میں سانس لینے کے عادی ہیں اِسی لئے آپ کے کرداروں میں جان ہے اور تحریر کی دلچسپی آخیر تک برقرار رہتی ہے۔ابہام کے بہانے جو ادب عوام کے سامنے آج کل پیش کیاجا رہا ہے وہ صرف مصنف کو تو خوش رکھ سکتا ہے کہ انسانی کردار کی گہرائیوں اتر نے کی صعوبتیں برداشت کئے بغیر اپنی علمیت کا لوہا پڑھنے والے(یا پڑھنے کابہانہ کرنے والے) سے منوالیں لیکن ایسا ادب میرا خیال ہے ہمارے معاشرے میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے گا۔ مجھے آپ سے ایسی کوئی شکایت نہیں․․․․․․ ڈاکٹر حسن منظر
سلطان جمیل نسیم کے جتنے افسانے میں ابتک پڑھ چکا ہوں اُن میں’’میں آئینہ ہوں‘‘ تازہ ترین مجموعہ ہے۔ سلطان جمیل نسیم کے فنِ افسانہ نگاری میں متخیلہ کا کردار یا لوازم اِن کے معاصر افسانہ نگاروں سے فائق ہے کہ اِس میں اِن کی امیجری کے خدو خال نمایاں اور شوخ ہیں۔ سترہ افسانوں کے اِ س مجموعے میں عہد بہ عہد کے معاشرتی عوامل کا ارتقائی عکس بھی ہے اور اِ ن کے شعور کے ارتقاء کو بھی افسانوں کے بین السطور میں پڑھا جا سکتا ہے۔ ان کی متخیلہ میں ڈرامے کی کیفیت بھی آشکارہ ہے مگر خوشی کی بات ہے کہ ڈرامائیت میں ملوث ڈرامے کی بات نہیں بلکہ نہایت آہستہ روی‘شائستگی‘ اور دھیمے انداز میں قاری پر اِ س نکتے کو منکشف کرانے کا ہنر انہیں معلوم ہے جو انہیں کامیاب افسانہ نگاروں کی صفِ اول میں جگہ دیتا ہے۔اصل میں متخیلہ کی تخلیقی تمازت سے لے کر فنکارانہ چابکدستی کے مراحل کو وہ جس خوش اسلوبی سے طے کر جاتے ہیں اسے صاحبانِ بصیرت ہی سمجھ کر داد دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر آغا سہیل
سلطان جمیل نسیم نظر اور نظریہ کے درمیان ایک نقطہء اتصال ہے ۔اس کے افسانے شعور اور وجدان ہم آہنگی سے جنم لیتے ہیں وہ اپنے تخلیقی سفر میں نہ اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے انکار کرتا ہے اور نہ تجربہ اور مشاہدہ کے دوش بدوش بصیرت کی نظر نہ آنے والی لہر سے بے تعلق ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اِس کے افسانے ایک خوشگوار احساسِ تحیرّ کے ساتھ ہمیں زندگی کے بارے میں سنجیدہ غور و فکر کی طرف بھی مائل کرتے ہیں۔ ہمارے میں ایک سچے اور کامیاب افسانہ نگار کا مقصد اس کے سوا کچھ اور ہے بھی نہیں۔ احمد ہمدانی
فنکار اپنے ذہن کی تنہائیوں میں زندہ رہتا ہے۔اُس کے پاؤں اپنی دھرتی سے جڑے ہوتے ہیں۔سلطان جمیل نسیم کا افسانوی مجموعہ ’’ایک شام کاقصہ‘‘پڑھ کر احساس ہوا کہ وہ فکشن کے بجائےFactual Fictionمیں یقین رکھتا ہے۔اس نے اپنے معاشرے کے تہذیبی، طبقاتی،معاشی،سیاسی اور تاریخی تضادات کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے،بلکہ اپنی تخلیقات کا خام مواد بھی وہیں سے حاصل کیا ہے، پھر اُسے اپنی کہانیوں میں سموتے وقت خود سے انگنت جنگیں لڑی ہیں، اپنا خون جلایا ہے تب کہیں ’’ایک شام کا قصہ‘‘ اپنے رنگ روپ میں سنور کر منظر عام پر آیا ہے، گو اِس مجموعے کی تمام کہانیاں یک موضوعی ہیں لیکن ایک ہی موضوع پہلودر پہلو لکھنا انتہائی مشکل کام ہے۔قد آور ادیب بھی میدان چھوڑ جاتے ہیں لیکن سلطان جمیل نسیم نے اپنی تخلیقی زبان ، پختہ کرافٹ،بلند تخیل، منطقی جزیات اور فنی صلاحیتوں کے ساتھ اپنے افسانوں کونہایت کامیابی سے لکھا ہے۔ جتندر بلو