مشفق خواجہ
(سلطان جمیل نسیم کے پہلے افسانوی مجموعہ’’ کھویا ہوا آدمی‘‘ کا دیباچہ)
یہ ۱۹۵۹ء کی بات ہے، بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم نے اردو یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں صوبہ سندھ کا دورہ کیا، میں بھی ان کے ساتھ تھا۔حیدرآباد‘ نواب شاہ ‘میرپور خاص‘اور سکھر میں ہم نے کئی روز گزارے۔ میں اس سفر کی خوشگوار یادیں لے کر کراچی واپس آگیااور اُن میں ایک یادسلطان جمیل کی تھی جنسے میری پہلی ملاقات حیدرآباد میں ہوئی اور پھر وہ نواب شاہ اور میرپور خاص میں ہمارے ساتھ تھے۔اِس سفر کے دوران میرا زیادہ وقت سلطان جمیل کے ساتھ گزرا۔اِس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ’’قافلہء اردو‘‘ میں وہی ایک میرے ہم عمر تھے‘اور جب وہ ہم مذاق اورخیال بھی نکلے تو مجھے اُن کے قریب رہنا اور انہیں اپنے قریب رکھنا اچھا لگنے لگا۔جب بھی موقع ملتا ہم دونوں الگ بیٹھ کر دنیا بھر کی باتیں کرتے ۔ان باتوں کا سلسلہ ختم ہونے ہی میں نہ آتا تھاہماری خواہش ہوتی تھی کہ جب بھی موقع ملے بزرگوں کی محفل سے اُٹھ کر کہیں الگ جا بیٹھیں۔یہ موقع عموماََاُس وقت ملتا تھا جب بابائے اردو کے اعزاز میں کوئی مشاعرہ منعقدہوتا تھا۔میں اور سلطان جمیل نظریں بچا کرمشاعرہ گاہ سے باہر نکل جاتے اور اُس وقت لوٹتے جب بابائے اردو کی تقریر شروع ہونے والی ہوتی۔
ہم دونوں ادب میں نو وارد تھے میری گرہ میں چند غزلیں تھیں اور سلطان جمیل نسیم کی گرہ میں چند افسانے۔
ہم ادب کے حوالے سے بھی باتیں کرتے تھے لیکن زیادہ تر باتیں ہم نے ایک دوسرے کے بارے میں کیں، اور اِس طرح ایک دوسرے کے بارے میں اتنا جان لیا کہ جب جدا ہوئے تو یہ محسوس ہوایسے ہم نے ایک عمر ساتھ گزاری ہو۔گزشتہ پچیس برسوں میں سلطان جمیل کو میں نے دُور سے بھی دیکھا اور قریب سے بھی۔دُور سے اِس طرح کہ وہ حیدرآباد میں تھے اور میں کراچی میں۔اور اب ہم دونوں میں ملاقات کا واحد ذریعہ مراسلت تھی جو بڑی تیز رفتاری سے ہوتی رہی۔جب وہ کراچی آگئے تو مراسلت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
سلطان جمیل کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد حضرت صبا اکبر آبادی ہیں جنکی غزل گوئی اور مرثیہ نگاری ہمارے ادبی سرمائے کا ایک وقیع حصہ ہے اور جنہوں نے کئی نسلوں کی ذہنی تربیت کی ہے۔نانا رعنا اکبرآبادی تھے۔ان کے علاوہ اِس خاندان میں متعدد اہلِ علم و ادب گزرے ہیں۔ ایسے ماحول میں آنکھیں کھولنے کے بعد ادب سے دلچسپی لینا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ سلطان جمیل نسیم نے اپنی خاندانی روایات کے مطابق ابتداََشاعری سے دلچسپی لی، کچھ شعر بھی کہے لیکن انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ ان کا اصل میدان شاعری نہیں افسانہ نگاری ہے۔ سلطان جمیل یوں تو تیس برس سے لکھ رہے ہیں ۔۱۹۵۳ء میں انہوں نے پہلی کہانی لکھی تھی ۔ان کا مجموعہ اب سے بہت پہلے آجانا چاہئے تھابلکہ اب تک کئی مجموعے شائع ہو جانے چاہئے تھے لیکن انھوں نے اشاعت سے زیادہ لکھنے پڑھنے پر توجہ دی۔اسی وجہ سے ان کے بیشتر افسانوں نے گزشتہ دس پندرہ برسوں میں پڑھنے والوں کی توجہ اپنی اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔اسی زمانے میں ان کی بہترین کہانیاں شائع ہوئی ہیں۔زیرِ نظر مجموعے’’کھویا ہوا آدمی‘‘ میں چھبیس افسانے شامل ہیں۔
اِن افسانوں کی پہلی خصوصیت جو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔وہ اِن کا لائق مطالعہ ہونا ہے۔یہ بات میں نے اس لئے کہی ہے کہ آج کل کے بیشتر افسانے سب کچھ ہونے کے باوجودلائق مطالعہ نہیں ہوتے۔ لکھنے والے دعویٰ تواِس کا کرتے ہیں کہ ساری دنیا کا سراغ ان کے افسانوں میں مل جائے گا لیکن صورت حال یہ ہے کہ اُن کے مافی الضمیر کا سراغ بھی مشکل سے ملتا ہے۔افسانے سے کہانی کو خارج کرنے کے رجحان کی وجہ سے افسانہ اب افسانہ نہیں رہا پڑھنے والوں کی آزمائش بن گیا ہے۔کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ افسانہ ایک تشکیل ہے جو کسی احساس کی بھی ہو سکتی ہے اور واقعہ کی بھی۔لیکن عملاَکسی واقعہ کو بنیاد بنائے بغیر احساس کی تشکیل کا تصورافسانے کی ہیئت کے لئے ناموزوں ہے اِ س کے لئے اور بہت سے میدان پڑے ہیں وہاں آپ احساس کی تشکیل کا جادو جگایئے۔افسانے سے اس کا بنیادی وصف یعنی کہانی پن چھیننے کی کیا ضرورت ہے۔اسی احساس کی تشکیل کے مفروضے نے بعض جدید افسانہ نگاروں کو گمراہ کیا ہے اور اُن کے افسانے نثری نظم سے ملتی جلتی کوئی چیز بن گئے ہیں اور یہیں سے جدید افسانے میں وہ وصف پیدا ہوا ہے جو اُسے لائق مطالعہ نہیں رہنے دیتا۔احساس کی تشکیل کے مفروضہ تصور نے جدید افسانے کو لسانی اعتبار سے بھی خاصا نقصان پہنچا یا ہے۔ زبان اب ذریعہ اظہار نہیں رہی، اخفائے مطالب کا ذریعہ بن گئی ہے اور وہ بھی اِس طرح کہ الفاظ اپنی معنویت کھو دیتے ہیں۔یہ تسلیم کہ ادب میں الفاظ کی معنویت ما ورائے لغت بھی ہوتی ہے لیکن الفاظ کو نئے معنوں میں برتنے کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ پرانے اور مروج معنوں سے لکھنے والے کو واقفیت ہو۔زبان کے معاملے میں سلطان جمیل نسیم کے ہاں اِس قسم کے ’’تجدد‘‘یا’’ اجتہاد‘‘ کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔اِس کے با وجود اُن کی زبان نئے عہد کی زبان ہے جس میں لفظ کا پیرہن خیال کے پیکر پرنہایت موزوں نظر آتاہے بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ سلطان جمیل نسیم نے اپنے افسانوں کی بنت میں زبان کو ایک ایسے عنصر کی حیثیت سے استعمال کیا ہے جس سے افسانے میں تہہ داری کا وصف پیدا ہو تا ہے اور اُسے بیانِ واقعہ کی سطح سے اوپر اُٹھا دیتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ سلطان جمیل نسیم کے افسانے اردو افسانے کی روایت سے الگ نہیں ہیں لیکن انہیں روایتی افسانہ نگاری کے زمرے میں شامل نہیں کہا جاسکتا۔کسی تحریر کا روایت سے منسلک ہونا اور روایتی ہونا دو مختلف چیزیں ہیں یہ افسانے اردو افسانے کی روایت سے الگ اس لئے نہیں ہیں کہ ان میں اِس فن کی بنیاد یعنی کہانی سے کنارہ کشی نہیں کی گئی ۔یہ وہی روایت ہے جو پریم چند سے ہوتی ہوئی کرشن چندر،بیدی، منٹو اور غلام عباس کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہے۔سلطان جمیل کے افسانوں کو روایتی ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اِن میں کہانی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔اور اِس بہت کچھ میں لکھنے والے کا اسلوب،کردار نگاری اور ماحول کی تصویر کشی کے علاوہ اچھے افسانے کی تمام خوبیان گنوائی جا سکتی ہیں۔میں صرف ایک چیز کی طرف اشارہ کروں گاکہ روایتی افسانے میں عموماَواقعات کردار کی تشکیل کرتے ہیں لیکن سلطان جمیل کے ہاں کردار مختلف ذہنی رویوں کے اظہار کی علامت ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ بات یوں کہی جا سکتی ہے کہ سلطان جمیل نسیم کے کردار معاشرے کے مختلف طبقات کی نمائندگی نہیں کرتے ‘بلکہ اِن طبقات کے باہمی تعلق سے جو ذہنی روّیے تشکیل پاتے ہیں اُن کی عکاسی کرتے ہیں اِن کے بیشتر افسانوں کا بنیادی کردار صیغہ واحدمتکلم ہے۔یہ روّیہ فرد اور فرد کے تعلق سے بھی ہے اور فرد اور معاشرے کے تعلق سے بھی۔سلطان جمیل نسیم نے اِنہیں روّیوں اور اِنہیں تعلقات کو دیکھا ،سمجھا اور پرکھا ہے۔کہیں وہ کامیاب ہوئے ہیں اور کہیں ناکام۔ کامیابی بھی اُن کی اپنی ہے اور ناکامی بھی اِن کی اپنی کہ انہوں نے عام روش سے ہٹ کر اپنا راستہ تلاش کرنے کی کو شش کی ہے اور اِس قسم کی کوشش کرنے والے خود ناکام ہوں یا کامیاب‘ بعد میں آنے والوں کی مشکلوں کو کسی حد تک آسان ضرور کر دیتے ہیں۔اِس سے زیادہ مجھے کچھ کہنے کی اِس لئے ضرورت نہیں کہ میں ایک دوست کی کتاب پر اپنی رائے لکھ رہا ہوں کوئی تنقیدی مقدمہ نہیں لکھ رہا جس کی مجھ میں صلاحیت ہے نہ اہلیت۔
’’کھویا ہوا آدمی‘‘آپ کی عنایت سے تین چار دن پہلے مجھے مل گیاتھااب تک پانچ افسانے پڑھ چکا ہوں،اگر رسید بھیجنے کی عجلت نہ ہوتی تب شاید پوری کتاب پڑھنے کے بعد یہ سطریں لکھتاآپ کے افسانوں میں نازک سماجی مسائل کو فنی سلیقے کے ساتھ سمویا گیا ہے۔اِن میں بنیادی طور پر عبوری معاشرے کی اقدار کی
تصویر کشی ہوئی ہے۔ کہانیوں کے پلاٹ‘کردار‘اور علامتیں عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ان سے معاشرتی حقیقت نگاری کی روایت کو تقویت ملی ہے،آپ کے اسلوب کی تازہ کاری اورموضوعات کے تنوع نے
بھی بڑی کشش پیدا کی ہے۔ شفیق الرحمن