میرزا ادیب
سلطان جمیل کے افسانوی مجموعے ’’کھویا ہوا آدمی‘‘ سے متعلق اپنی معروضات پیش کرنے سے پیشتر دو تین باتیں نسیم کے بارے میں عرض کردوں تو میرے قاری کواِن افسانوں کی تفہیم میں زیادہ مدد مل سکتی ہے اوروہ میری اِن معروضات کی روشنی میں جمیل نسیم کے فن کو سمجھنے کی کچھ سہولت حاصل کر سکے گا۔
سلطان جمیل نسیم کا تعلقافسانہ نگاروں کی جدید نسل سے ہے‘جدید تر نسل نہیں،ان کے ہاں جدید طرزِ احساس تو لازماَ ہے مگر انہوں نے اردو افسانے کی اُن روایات سے احتراز نہیں کیا جو منشی پریم چند سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہیں،سلطان جمیل کے یہاں اردو افسانے کے روایتی لوازم ایک توازن اور خوش اسلوبی کے ساتھ در آتے ہیں۔ وہ احساس کی بھول بھلیوں میں خود گم ہوکراپنے قاری کے ساتھ بھی یہی سلوک روا نہیں رکھتے‘ ابلاغ کے بنیادی تقاضے کو کہیں بھی نظر انداز نہیں کرتے بلکہ اُن افسانوں میں بھی جہاں اِن کا قاری افسانے کی چند سطریں پڑھنے کے بعد یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ افسانہ تجریدی نوعیت کا ہو گا افسانہ نگار جو کچھ کہنا چاہتا ہے اپنے پڑھنے والے تک پہنچا دیتا ہے۔
سلطان جمیل نسیم نے بیشتر کرداری افسانے لکھے ہیں۔وہ افسانے کے مرکزی کردار کے توسط سے اپنا تجربہ ضروری جزیات کے ساتھ حوالہء تحریرکرتے ہیں اگر چہ روداد ‘ماجرا‘واقعہ‘کچھ بھی کہہ لیں‘کردار سے الگ نہیں ہے۔ کردار اور ماجرا یا پلاٹ لازم و ملزوم ہوتے ہیں مگر افسانہ نگار یا پہلے پلاٹ کی بُنت کو کردارپر ترجیح دیتا ہے یا پہلے ایک خاص کردار اُس کے ذہن میں آتا ہے اور پھر وہ واقعہ کواس کردار کے ارد گرد اِس طرح پھیلادیتا ہے کہ کردار اِس واقعہ کے حوالے سے خود کو نمایاں کر دیتا ہے۔سلطان جمیل نسیم نے موخرالذکرانداز اپنایا ہے۔
تیسری بات میں یہ عرض کرونگا کہ ’’کھویا ہوا آدمی‘‘ کا مصنف ذہنی طور پر ترقی پسند ہے‘ اِس سے میری مراد یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہا ہے اورہے ۔ ممکن ہے اُس کبھی اِس تحریک کی تائید بھی نہ کی ہو۔ لیکن اُس کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ اُس کی ہمدردیاں کچلے ہوئے ‘گرے ہوئے پس ماندہ طبقے کے ساتھ ہیں اور یہ نتیجہ ہے اُس کے ترقی پسند ذہن کا․․․․اُس کے اکثر وبیشتر بلکہ کم و بیش تمام افسانوں کے مرکزی کردار غربت زدہ طبقے کے افراد ہوتے ہیں۔میرے محترم دوست شوکت صدیقی نے سلطان جمیل نسیم کے اِس مجموعے کے فلیپ پر لکھا ہے۔
’’سچ پوچھئے تو موضوع یا مرکزی خیال خود اپنی ہیئت اور تیکنک وضع کرتا ہے۔ ایسا نہیں
ہوتا کہ پہلے تکنیک وضع کرلی جائے اور اُس سانچے میں موضوع کو ڈھال کرافسانہ تخلیق
کر دیا جائے۔‘‘
شوکت نے بالکل درست بات لکھی ہے ہر موضوع اور مرکزی خیال اپنے اظہار کے لئے اپنی ہیئت ‘ سانچہ‘یا تکنک خود وضع کرتا ہے۔ کوئی بنا بنایا سانچہ استعمال ہو ہی نہیں سکتا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ہر مصنف کی اپنی ایک تخلیقی شخصیت ہوتی ہے اور یہ تخلیقی شخصیت اپنا ایک خاص اسلوبِ اظہار اپنا لیتی ہے اور وہ شخصیت اسی اسلوب اظہار سے اپنا تشخص قائم کرتی ہے،مگر یہ ایک وسیع تر سطح پر ہو تا ہے، اس سطح کے اندر بھی کئی سطحیں ہوتی ہیں اور ہر سطح کسی موضوع سے ہم آہنگ ہونے کی خاطر اپنے اندر مطلوبہ تبدیلی بروئے کار لاتی ہے۔
سلطان جمیل نسیم کے یہاں تیکنک کا خاصا تنوع نظر آتا ہے۔ انہوں نے جو موضوع بھی اختیار کیا ہیاُس کے لئے تیکنک بھی ایسی اختیار کی ہے جو اُس موضوع سے داخلی طور پر بھی مطابقت رکھتی ہے۔’’گھر کاراستہ‘‘ کی تیکنک ’’گواہی‘‘ کی تیکنک سے مختلف ہے۔’’آگ اور سمندر‘‘ کے فنی عناصر’’ خوابوں کا سفر‘‘ کے فنی لوازم سے الگ تھلگ ہیں۔جہاں تک میں اندازہ لگا سکا ہوں‘میری دانست میں ہمارا یہ جدید افسانہ نگارہجومِ خلائق سے ایک کردار کا انتخاب کرتا ہے۔انتخاب اِس لئے کرتا ہے کہ ہجوم میں وہی کردار اُسے ’ہانٹ‘ کرتارہا ہے یا کر رہا ہے، پھر جب یہ کرداراُس کے ذہن کی گہرائیوں میں اتر کراُسے اپنی اہمیت پوری طرح واضح کر دیتا ہے تو افسانہ نگارسوچتا ہے کہ میں کس طرح اِسے اپنی گرفت میں لاؤں کہ یہ اپنی مکمل شخصیت کے ساتھ میرے قاری سے اپنا تعارف کرانے کے قابل ہو جائے۔اور اِس سوچ سے تخلیقی عمل شروع ہو جاتا ہے جو ایک افسانے پر منتج ہو تا ہے۔یہ کردار افسانہ نگار کے شعور میں سفر کرتا رہا ہے اِس لئے وہ خود باہر آنے کے لئے مصنف کے ذہن کے دروازے کھول لیتا ہے۔یہی تیکنک کا مر حلہ تشکیل پاتا ہے۔
’’کھویا ہوا آدمی ‘‘ کے ابتدائی صفحے پر جناب صبا اکبرآبادی کا ایک شعر درج ہے
کونین تلاش میں رواں ہے کھویا ہوا آدمی کہا ں ہے
یہاں سے ایک یہ بات اور ذہن میں آتی ہے کہ افسانہ نگار نے اُس کھوئے ہوئے آدمی کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو کونین کی تلاش میں رواں ہے،پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ ایسا تو نہیں کہ افسانہ نگار نے استعارۃََایک ایسے آدمی کی ذہنی کیفیات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے جو زندگی کی سچی قدروں کا راستہ بھول کر گمراہیوں کے جنگل میں بھٹک رہا ہو۔؟ یا کیا یہ کھویا ہوا آدمی خود اپنی ہی تلاش میں سرگرداں ہے۔ْ
سلطان جمیل نسیم کے ہاں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں ۔ اِس مجموعے میں کم از کم تین ایسے افسانے شامل ہیں جو اِن پہلوؤں کی نشان دھی کرتے ہیں۔ پہلا افسانہ ہے’’ گھر کا راستہ‘‘․․․․بظاہر ایک شخص اپنے گھر کی تلاش میں جہد آزما ہے۔یہ گھر اُس شے سے عبارت نہیں ہے جو اینٹوں‘مٹی اور گارے کے امتزاج سے صورت پذیر ہوتی ہے اور جسے ہم گھر یا مکان کہتے ہیں۔یہ گھر استعارہ ہے اُس شخص کی اپنی ذات کا، وہ اپنی ذات سے بچھڑ گیا ہے اور اُسے ڈھونڈرہاہے۔دوسرے دو افسانے ہیں،’’ کھویا ہوا آدمی‘‘ اور ’’ سنگ زادوں کی بستی میں‘‘اول الذکر افسانے میں مصنف نے کمال ذہانت کا ثبوت دیا ہے‘ کنواں‘رسی‘کنویں کی گہرائی کنویں کے اوپر کھڑے ہوئے لوگوں کا خاموش اضطراب‘اِن سب عناصر سے ایک ایسی تصویر بنتی ہے جو موجودہ انسانوں کی سعی و جستجو کے رنگ دکھاتی ہے۔یہ رنگ سب کچھ ہیں اور پھر کچھ بھی نہیں ہیں۔یہ سعی و جستجو رائیگاں بھی جاتی ہے اور ثمر آور بھی ثابت ہوتی ہے۔مائیکل جوزف اِن رنگوں کی داخلی کیفیتوں سے آشنا ہے اس لئے وہ اپنی جگہ مطمئن ہے۔
’’سنگ زادوں کی بستی میں‘‘ بے گھری اور بے دری کا ایک تصور افسانہ نگار نے الفاظ کی معنوی صداقت یا صداقت انگیز معنویت سے محرومی کے ذریعہ واضح کیا ہے۔ یہی اِس خیال افروز افسانے کا موضوع ہے۔’’خالی ہاتھ‘‘ایک فکر انگیز علامتی افسانہ ہے۔بظاہرلوگ اپنے گھر چھوڑ کر مغرب کی طرف بھاگ رہے ہیں ڈالر کے لئے یادرہم کے لئے ․․․․مصنف نے کمال ہنر مندی سے یہ بات واضح کی ہے درہم یا ڈالر کی پہلی قیمت بے گھری ہے۔کھویا ہوا آدمی ۔محض کھویا ہوا آدمی نہیں ہے۔ ایک سچائی ہے ۔ انسان نے صرف ایک سچائی کھو کر بہت کچھ کھو دیا ہے․․․․مگر ابھی اس کے پاس وہ متاعِ بے بہا موجود ہے جسے عظمت و وقارِ حیات کہا جاتا ہے۔
’’میرے لئے‘‘ یہ ایک بڑا موثر افسانہ ہے مگر ممکن ہے بعض قارئین اسے موضوع کے اعتبار سے متنازع قرار دیں ایک ماں اپنی بیٹی کی عزت و آبرو بچانے کے لئے جس ایثار کا مظاہرہ کرتی ہے وہ ان کی نظروں مستحسن نہ سمجھا جائے۔ مگر یہاں اِس بات پر غور کرنا ہو گا کہ اگر ایک ماں ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہوتی ہے جس سے افروز کی ماں دوچار ہوئی ہے تو اُس کا ماں ہونے کے حوالے سے‘ کیا ردِ عمل ہوگا۔؟ماں کے سامنے ایک سوال ہے کہ وہ اور اُس کی جواں سال بیٹی زندہ کیوں کر رہیں۔؟
کیا زندہ رہنے کے لئے وہ طریقہ اپنانا ہو گا جو مجید نے بتایا ہے۔!
ایک ماں تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تو پھر اور کوئی طریقہ کیا ہے۔!
اِس سوال کا جواب جذباتی نہیں ہوگا یہاں صورتِ حال کی ساری سنگینی کو سمجھنا ہو گا۔اگر اس سنگینی کو سمجھ لیا جائے تو افروز کی ماں نے جو لفظ کہے ہیں، جو فیصلہ کیا ہے وہ ایثار کے سوا اور کچھ نہیں۔
افسانہ نگار نے اس افسانے کا آخری جملہ بڑی تخلیقی ذہانت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
’’گاہک افروز کے لئے نہیں آئے گا۔‘‘
’’تو پھر۔‘‘
’’میرے لئے۔‘‘
اِس بے حد مختصر جواب’’میرے لئے‘‘ میں معنویت کی ایک دنیا چھپی ہوئی ہے ۔ ماں کے یہ دو لفظ سن کر قاری کی روح کانپ جاتی ہے مگر چند لمحوں بعد وہ ’’ماں‘‘ ک عظمت کے سامنے اپنا سر جھکا دیتا ہے۔ ’’گواہی‘‘ سلطان جمیل کے کئی افسانوں کی طرح اک کرداری افسانہ ہے۔ یہ کردار جس کا نام ’ممتاز‘ ہے اور ایک چھوٹی سی دوکان کا مالک ہے واقعتا ایک بڑا کردار ہے۔ ایک عظیم کردار ہے۔راجہ کرم بخش ، جو شہر کے بڑے رئیس ہیں۔ وہ ممتاز کا ایمان ’’گواہی‘‘ کی صورت خریدنا چاہتے ہیں اور ممتاز کہتا ہے۔
’’میری چھوٹی سی دکان ہے‘میں صبح سے شام تک پچیس پچاس پیسے تک کی پرچون بیچتا ہوں۔اتنی بڑی رقم سے جو چیز خریدی جا سکتی ہے وہ میری دکان پر نہیں بکتی۔‘‘
ایک افسانے کا عنوان ہے ’’آگ اور سمندر‘‘ نسیم نے اپنے اِس بہت خوبصورت افسانے میں ایک زندہ رہنے والا ‘قابلِمحبت‘ قابلِ احترام کردار ،دیا ہے۔ یہ کردار ہے شاداں ‘جو بعد میں ’خالہ‘ کہلاتی ہے۔یہ کردار اپنے جذبہء ایثار کی بدولتایک زندہ کردار بن جاتا ہے۔
ہمارا یہ دور ‘جہاں تک انسان کی حقیقی اقدارِ حیات کا تعلق ہے بہت کچھ کھو چکا ہے مگر جیسا کہ میں نے سلطان جمیل نسیم کے چند افسانوں حوالہ دیا ہے‘ اس دورمیں بھی انسانیت زندہ ہے۔
انسانیت زندہ ہے․․․․کیونکہ ابھی افروز کی غریب اور بے سہارا ماں۔ دوکاندار ممتاز اور خالہ جیسے کردارزندہ ہیں، سلطان جمیل نے اور بھی ایسے کردار دیئے ہیں۔ ٹیگور نے کہا تھا۔ جو بچہ اِس دنیا میں آتا ہے وہ کہتا ہے خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا۔اور سلطان جمیل نسیم کے یہ کردار بھی ہمیں یقین دلا رہے ہیں کہ انسانیت ابھی زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔یہ ایسے کردار ہیں جن کی نور فشانی سے زندگی کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اور جو ہمارے دلوں میں زندگی سے محبت کا جذبہ ابھارتے ہیں۔
سلطان جمیل نسیم کے افسانے جہاں زندگی کی رودادِ ستم سناتے ہیں وہاں ہمیں روشنی اور محبت اور امید کا پیغام بھی دیتے ہیں۔ اور یہ کوئی چھو ٹی بات نہیں ہے۔’’کھویا ہوا آدمی‘‘ کا مصنف خود رجائیت پسند ہے۔ اس لئے اس کے افسانے بھی اپنے دور کی سفاکیوں کی طرف اشارہ کرنے کے باجود ‘ انسان کو انسانیت سے مایوس نہیں ہونے دیتے ۔سلطان جمیل نسیم کا افسانہ ․․․․․آج کا افسانہ ہے۔یہ افسانہ اپنے اندر کہانی پن بھی لئے ہوئے ہے۔ نیا طرزِ احساس بھی اور اردو افسانے کی صحت مند روایت بھی۔اس کے علاوہ یہ ایسا افسانہ ہے جسے دل چسپی کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔یہ قاری کے جمالیاتی احساس کو بھی نمو بخشتا ہے۔