غالباً آٹھ یا دس برس پہلے کی بات ہے جب کویت کی ایک شعری مجلس میں نو آمدہ شاعروں میں مسعود حساس کا تعارف کچھ اس طرح کروایا کہ وہ مزاح نگاری اور طنز کے میدان میں کچھ لکھتے ہیں۔ کلام جس نے بھی سنا وہ ان کی مشاقی اور بات سے بات نکالنے کے فن کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس محفل میں انھوں نے اپنی ایک سنجیدہ غزل بھی سنائی وہ بھی خوب لگی۔ اس طرح مسعود حساس آہستہ آہستہ کویت کی شعری محفلوں میں ایک قابل قدر شاعر کی طرح لازم و ملزوم بن گئے۔
مجھے لگتا ہے کہ چوں کہ ان کا ادبی ظرف تربیت یافتہ ہے اور ان کا زبان و بیان پر خاصا قابو ہے اس لیے انھوں نے ترسیل کے لیے سخن وری کو سنجیدگی سے برتنا شروع کیا۔ انھوں نے یہ بھی محسوس کیا ہو گا کہ کویت میں جہاں کچھ واقعی قابل اور ماہر شاعر موجود ہیں ان کے ساتھ ایک مشاعروں اور بزم خود مشاعروں کی ٹولی بھی ہے جو شاعروں اور ادیبوں کے ہم پلہ سمجھے (بلکہ باور) کیے جاتے ہیں۔ چوں کہ مسعود بہت سے شاعروں کے مقابلہ میں ممیز ہیں وہ تیز قدمی سے صفِ اوّل کی جانب رواں ہو گئے اور وہ جلد ہی اپنی نادر سوچ، جداگانہ لفظی رویہ اور قابل شناخت ڈکشن کی وجہ سے جلد ہی ادبی حلقوں میں پہچانے جانے لگے ہیں۔
ردیف و قافیہ کے میدان میں انھوں نے بے حد سرعت کے ساتھ تجربے کیے اور غزل بہ غزل کا خاصا مواد تخلیق کر ڈالا اور اس طرح سنجیدہ لب و لہجہ کے میدان میں ان کا مجموعۂ کلام ’’جوشِ جنون‘‘ اشاعت پذیر ہو گیا۔ جو مدتِ تخلیق کے تناظر میں کافی ضخیم اور اس طرح زود گوئی (وہ بھی مثبت سمت میں) اور اُن کی خلّاقی کی دلیل ہے۔
یہ خوبصورت مجموعہ جو ہمارے پیش نظر ہے کئی وجوہ سے زمانہ اوائل کے مجموعہ ہائے کلام (بلکہ کلیات) کے ہیکل پر مبنی کیا گیا۔ جدید شعری مجموعوں کے برعکس اس میں غزلیات کو مستعمل قافیہ کے اختتامی حروف تہجی کی ترتیب کے لحاظ سے دیوان کی طرح پیش کیا گیا ہے۔
مجموعہ حمد و نعت سے شروع ہوتا ہے اس کے بعد دیوان کا اصلی مواد ہے اور آخری حصہ میں کچھ شخصیات کی تحسین میں قطعات ہیں۔ مفردات ہیں اور شاعر کی نسبت سے دوسرے اہل قلم کے ارشادات ہیں۔
گویا یہ ایک مکمل ادبی محفلِ شعر ہے جو مطبوعہ ہے۔ جس کا میزبان خود شاعر ہے۔ اچھا لگتا ہے کہ شاعر نے بے حد دل جمعی سے کوشش کی ہے کہ حروفِ تہجی کا دامن خالی نہ ہو اور ان میں کم از کم ایک غزل تو ہو ہی۔ بعض بعید از قیاس اور دور ازکار قافیوں پر بھی اچھے شعر نکالے ہیں۔ بعض غزلیں اپنے ایک یا دو ایسے اشعار کے وسیلے سے پہچانی جائیں گی جو نشتر کی طرح ہیں۔ مثلاً:
پا بریدہ شخص کی حاجت ہے گھر
اک مسافر کے لیے مسکن عبث
…
میرا رشتہ کسی سے کچھ بھی نہیں
پھر بھی کتنا کھٹک رہے ہیں لوگ
…
چارسو تعمیر ہوتی جا رہی ہیں بستیاں
ورطہ حیرت میں ہے دو گز زمیں کا مسئلہ
ان کی رواں دواں شعری کاوشیں ایک بے حد مصروف ذہن کا نتیجہ ہیں جو ہر پل نئی اشارت، نئی تشبیہہ یا نئی ترکیب صنع کرنے میں لگا رہتا ہے۔ ان کی ایجادات کا جائزہ مناسب وقت پر ضرور کوئی نہ کوئی ناقد کرے گا۔ اس وجہ سے ان کی شاعری ان صنعتوں کے سبب ہمیشہ نئی نویلی سی لگتا ہے اور قاری کی توجہ حاصل کر لیتی ہے:
میں بت گری سے کروں توبہ تو بتا کیسے
مری سرشت میں پیوست ایک آذر ہے
…
آئینہ گو کہ بول رہا تھا سفید جھوٹ
الزام آئینہ کے مقابل کے سر گئے
…
ہوا کے سر پہ ہی الزام بارہا کیوں کر
مرا چراغ ہی خود بجھنے کی کگار پر تھا
مسعود حساسؔ کی زبان مفرس و معرب ہے، اس میں بہت ساری ترکیبوں، لفظیات کی نشست و برخاست اور سلاست کے ساتھ شعر میں داخل کرنے کا عمل ان کی لغت دانی اور زباں کی روح سے مناسبت ثابت ہوتی ہے۔ انھوں نے شاید ادب اور حکمت کی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے جو ان کی سوچ کی تار و پود میں رچ بس کر بالکل نئے پیراہن میں شعر کی تخلیق میں ممد و معاون ہوا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں ایک دوست دار، خوش مزاج اور انسانیت پرست فرد کی طرح ابھرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں شباب کے اثرات تازہ لمسیات بھی رکھتے ہیں تو سماجی فکر اور عقیدہ کی شہادت کے پرتو بھی ملتے ہیں۔ اس طرح مسعودؔ کی شاعری ان کی ذات کی رنگا رنگی کی عکاس ہے۔
شاعر نیا نیا ہے، جذبۂ اظہار سے سرشار ہے، نئی زبان اور نئی تراکیب میں بات کرنا چاہتا ہے اسی لیے کبھی کبھی دائرہ احتیاط سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی چند غزلیں جو شاید ردیف و قافیہ نبھانے اور برائے وزن بیت کی روش کے تحت لکھی گئی ہیں شاید قبولیت میں نہ آ سکیں مثلاً ان کی غزل جس کا مطلع ہے:
منسلک ہوتا ہے گر درد سے چہکار کا قد
شاعری اور بڑھا دیتی ہے گفتار کا قد
عجیب و غریب تراکیب کا شکار ہو گئی ہے۔
کیا کروں اوڑھ کے ناصح ترے پندار کا قد
پندار کے قد کا اوڑھنا؟ چہ معنی دارد؟
ایک اور غزل میں کہتے ہیں:
شمیم زلف سی آئے گی رت جگوں میں خراش
یہ خراش بھی خوب ہے؟
مجموعی طور پر آج جب غزل ایک ایسے موڑ پر آ پہنچی ہے کہ بہت سے شاعر، مختلف ملکوں اور شہروں میں، شبانہ روز غزلوں کا انبار تخلیق کر رہے ہیں جب کہ توجہ منعطف کرنے والے غزل گو صرف چند ہی ہیں۔ ایسے ماحول میں مسعود حساس جیسے تازہ کار اور مختلف ڈکشن والے شاعر کی آمد ایک خوش آئند خبر ہے یہ ایک ایسے شاعر ہیں جو خلوص، تجربہ اور جستجو کے ساتھ شاعری کے میدان میں قدم جما رہے ہیں اور اپنے طرز بیان سے دل موہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس بنا پر امید ہے کہ ارباب ادب مسعود حساس کو خوش آمدید کہیں گے۔
٭٭٭