احمد کیا میں خوبصورت نہیں،مجھے پہننے اوڑھنے کا سلیقہ نہیں،بول چال کا ڈھنگ نہیں،میں ان پڑھ گنوار ہوں۔جو آپ نے مجھے اپنے فنکشن میں لے جانا مناسب نہیں سمجھا،مہرو کے آنسو اس کی خوبصورت آنکھوں سے بہتے ہوئےاس کی گھنی زلفوں میں جذب ہو رہے تھے۔احمد مہرو کو روتا دیکھ کر تڑپ گیا۔مہرو میری جان تم ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو،تمہیں نہیں پتہ اس گیدرنگ میں کیسے کیسے لوگ آئے ہو ئے تھے،میں نہیں چاہتا کہ کسی کی غلیظ نظریں تم پر پڑیں،احمد اس کی نم آنکھوں کو آہستگی سے چومتے ہو ئے بولا،احمد وہاں کو نسا میں نے اکیلے جانا تھا آپ بھی ساتھ ہوتے۔مہرو نے سسکی بھری،تم ٹھیک کہہ رہی ہو مہرو مگر تم بہت معصوم ہو تمہیں نہیں پتہ باہر کیسے کیسے شیطان صفت درندے گھوم رہے ہیں،جن کا مقصد صرف عورت کا شکار ہے۔انہیں بس عورت کے جسم سے مطلب ہے۔اس کا مذہب کیا ہے وہ کس طبقے اور فرقے یا قبیلے کی ہے یہ کوئی نہیں دیکھتا،چاہے کم سن بچی ہو یا بوڑھی مقصد صرف اسے اپنے خواہش کی تکمیل کے لئے بھنبھوڑنا ہے۔ احمد جذباتی سا ہو کر عجیب سے اندازمیں بولا،مہرو اس کی عجیب سی لاجک پر خاموش ہو گئی۔اس دن صبح سے ہی لائٹ نہیں تھی۔یو پی ایس کی بیٹری بھی لو ہو چکی تھی،اپارٹمنٹ میں گرمی اور گھٹن بڑھ رہی تھی۔مہرو بار بار جا کر اپنا چہرہ گیلا کرتی،پھر آکر کھڑکی سے باہر دیکھتی،ہوا بھی رکی ہو ئی تھی،ابھی احمد کے آنے میں تین چار گھنٹےباقی تھے،مہرو کے لئے لمحہ لمحہ کاٹنا مشکل تھا،وہ دروازے کے پاس آئی باہر سے نیلم کی آواز آرہی تھی،وہ کسی سے باتیں کر رہی تھی،نہ جانے باہر کیا چل رہا تھا پتہ نہیں لائٹ میں کیا پرابلم ہے،کیا سب کی لائٹ گئی ہے یا صرف ان کے اپارٹمنٹ میں کوئی پرابلم تھی۔احمد سے بھی رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔میں کیاکروں،بھلا نیلم سے پتہ کروں کہ کیا مسلہ ہے۔وہ شش و پنج کا شکار تھی۔ڈرتے ڈرتے اس نے تھوڑا سا دروازہ کھولا باہر کوریڈور میں نیلم اوراس کا بھائی کھڑےتھے،دروازہ کھلتا دیکھ کرنیلم اس کی طرف بڑھی،او مہرو شکر ہے تم اپنے پنجرے سے باہر آئی نیلم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر باہرکھینچ لیا،چھوڑو نیلم کیا کررہی ہو یار۔مہرو اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہو ئے بولی،کم آن یار مر جاو گی۔گرمی سے،آ رہے ہیں واپڈا والے۔کمپلین کر دی ہے،نیلم بولی۔مہرو کو وہاں کھڑے کافی دیر ہو گئی تھی۔نیلم کے ساتھ باتوں میں پتہ ہی نہیں چلا تھا،فہد بھی جوس کی چسکیاں لیتا ہوا ٹیرس سے باہر تاک جھا نک کر رہا تھا،مہرو باتوں میں مگن ہو کر یکسر بھول گئی تھی کہ اگر احمد کو معلوم ہو جائے کہ وہ نیلم کے ساتھ تھی تو وہ اس کا کیا حشر کرے گا،جاو فہدی ہمارے لئےبھی کولڈ ڈرنکس لے آو۔میرا تو گرمی اور suffocation سے سانس ہی نہیں آرہا۔نیلم نے فہد سے کہا،تو کیا کولڈ ڈرنک میں آکسیجن ہو گی،وہ شرارت سے بولا،اچھا باتیں نہ بناو جاو جلدی سےلے آو،اور سنو چپس بھی ہم دونوں کے لئے۔نیلم نے اسے آرڈر دینے کے انداز میں کہا،اوکے مادام وہ اس کے سامنے سر جھکاتے ہو ئے بولا۔مہرو کو بھی باد نخواستہ جوس پینا پڑا،واپسی پر اس نے کولڈ ڈرنک کا ٹن اور چپس کا خالی پیک لاونج میں رکھی ڈسٹ بن میں ڈال دیا،لائٹ آچکی تھی،مہرو نے سکھ کا سانس لیا،چھٹی کے دن احمد اور مہرو دیر سے اٹھے،احمد ناشتہ باہر سے لے آیا،دونوں نے ناشتہ کے بعد گھر کا کام سٹارٹ کیا۔مہرو واشنگ کر رہی تھی جب کہ احمد لاونج میں ویکیوم لگارہا تھا،مہرو مہرو احمد اسے آوازیں دیتا ہوا لانڈری میں چلا آیا تھا،مہرو یہ ٹن اور چپس کا پیک کہاں سے آیا۔احمد ڈسٹ بن میں سے تڑا مڑا چپس کاپیک اور خالی ٹن اٹھائے کھڑا تھا،مہرو خالی نگاہوں سے اسےدیکھ رہی تھی۔اس کے پاس اس کی بات کا جواب نہیں تھا،مہرو بولو کون آیا تھا،بتاو احمد نرمی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔مگر مہرو کہ منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی،احمد نے ٹن کا الٹ پلٹ کا جائزہ لیا یہ اندر سے خشک ہے مطلب یہ تین چار دن پرانا ہے،احمد بولا،واشنگ مشین کا ٹائمر بولنے لگا تو مہرو کا سکتہ ٹوٹا اور وہ ڈھکن اٹھا کر خاموشی سے کپڑے نکالنے لگی،احمد نے ایک دم سے اس کے ہاتھ سختی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لئے،مہرو کو لگا کہ جیسے اس کی نازک گیلی انگلیاں ابھی ٹوٹ جائیں گی۔وہ تکلیف سے بلبلا اٹھی۔احمد چھوڑیں میرے ہاتھ،وہ بے بسی سےبولی۔احمد چند ثانیے تک اسے قہر آلودہ نظروں سےدیکھتا ریا اور پھر اس کے دونوں ہاتھ زورسے جھٹک کر ٹن اور چپس کے پیک کو زمین پر پھینک کر جوتے سے روندتا ہوا بیڈروم میں چلا گیا،سارا دن اور شام گزر گئی تھی،احمد روم میں بند سگریٹ پہ سگریٹ پھونکے جارہا تھا اور مہرو لاونج میں اندھیرا کئے کاؤچ پر بیٹھی سوچے جارہی تھی کہ کیا اس شادی شدہ زندگی کےسنہرے خواب ایک لڑکی اپنی آنکھوں میں سجاتی ہے،کیا یہ ان سہانے خوابوں کی تعبیر ہے،اتنی بھیانک۔اور درد ناک۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...