ایک منٹ۔۔۔ اس نے اسے روکا تھا
ائم سو سوری مجھے ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا لیکن مجھے واقعی آپ کی ہیلپ چاہئیے۔۔
وہ اب کی بار نرمی سے بولا تھا
مجھے کوئی مدد نہیں کرنی اور نا آپ کا کوئی احسان لونگی رہے آپ کے پیسے تو میں وہ جلد واپس کردونگی
یہ بولتے ہوئے اسکا دل ڈوبا تھا جانتی تھی اتنی جلدی پیسوں کا انتظام وہ چاہ کر بھی نہیں کرسکتی تھی
دیکھوں مجھے پیسے نہیں چاہیے بس ہیلپ چاہیے ائم سوری میں دوست کی باتوں میں آکر پتا نہیں کیا بول گیا
وہ پریشان تھا اس لئے لہجے کو نرم کرتے بولا تھا۔۔
پلیز بیٹھو۔۔ اس کے بولنے پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی بیٹھ گئی
ابرہیم نے اس کے آگے اپنا مسئلہ رکھا تھا
پیپر میرج نہیں تو نکاح پلیز۔۔۔
دیکھو میں تم سے کسی قسم کی کوئی ڈیمانڈ میں رکھتا بلکہ تمہیں مجھے یہ پیسے واپس کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے یہ بات تم بھی جانتی ہو کہ کینسر نے علاج کے لئے سرجری کے بعد بھی اتنا پیسہ لگتا ہے میں ہر طرح سے ہیلپ کرونگا بس تم میری ہیلپ کردو
وہ ملتجی انداز میں بولا تھا
امل نے بس خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی سودا برا نہیں تھا وہ نور اور اپنے باقی بہن بھائیوں کے لئے اتنا تو کرسکتی تھی اسے تو ویسے بھی کسی کی ضرورت نہیں تھی نا اسکی کسی کو اس نے بس لمحے کو سوچا تھا
آج اگر وہ زلیخا کی سرجری روکتی ہے اور اپنی انا کے لئے پیسے واپس کرتی ہے تو نور کا کیا ہوگا وہ تو اپنی ماں کے بغیر رہ چکی ہے وہ کیسے رہے گی
ٹھیک ہے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔
بالآخر اس نے ابرہیم کو اچھی خبر سنائی تھی
ٹھیک ہے ہم آج ہی نکاح کریں گے میں مزید تاخیر نہیں چاہتا۔۔
وہ خوشی سے بولا تھا کتنا بڑا بوجھ تھا جو اس نے سر سے ہٹا تھا
تمہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے نا ؟؟ اسے امل کا خیال آہی گیا تھا اس نے نفی میں سر ہلایا
اس نے جلدی سے ارحم کو کال کر کے نکاح کا ارینج کرنے کو بولا
وہ بس خاموشی سے سارا تماشہ دیکھ رہی تھی کیا کرنے جارہی تھی وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ اور بھی اس طرح کے مستقبل کی کوئی خبر نہیں وہ کبھی کمزور نہیں پڑی تھی نا پڑنا چاہتی تھی لیکن تھی تو وہ بھی ایک لڑکی ہی نا بھلے شادی کو لے کر اس نے ارمان نہیں تھے لیکن اس طرح شادی تو اس نے بھی نہیں سوچی تھی اور وہ اس کے لئے شادی کرے گی جس سے اسکی بنتی ہی نہیں تھی
ایک منٹ۔۔۔ اس کے اچانک بولنے پر وہ رکا تھا
کیا ہوا؟
میرا کوئی ولی نہیں ہے۔۔۔
تو اب۔۔۔
ولی کی موجودگی لازمی ہے۔۔ اس نے سر جھکا کر کہا
اپنوں کے چہرے کبھی کبھی بہت کمزور کردیتے ہیں
تمہاری امی کی موجودگی میں نکاح کرنا ہوگا کیا ؟؟
مجھے نہیں پتا۔۔ وہ سرے سے دامن بچا گئی تھی
اس سے اسے مزید وقت مل سکتا تھا سوچنے کے لئے شاید کوئی راہ نکل آتی۔۔۔
لیکن مایوسی تب ہوئی جب وہ اسے لئے اسپتال لایا تھا
زلیخا بی بے سدھ سی بستر پر پڑی تھیں
آپ سے ایک اجازت چاہتا ہوں بی وہ ان کے پاس کرسی گھسیٹ کر بیٹھا تھا
انہوں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا جو ان کے لئے اتنا کر ریے تھے
آپ کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لینا چاہتا ہوں آپ کی اجازت درکار ہے
اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا یہ کیا کررہا تھا وہ کہاں وہ پیپر میرج کی بات اور کہاں اب یہ سب …..
اور دوسرا جھٹکا اسے تب لگا جب۔۔۔۔
زلیخا بی نے لمحہ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا تو وہ مسکرا اٹھا۔۔۔
جب کے وہ آخری امید کے ٹوٹنے پر رو بھی نا سکی۔۔
وہ اپنے کام کے سلسلے میں یہاں آیا تھا مگر واپسی اب ناممکن سی لگ رہی تھی
وہ پریشان حال سے ہوٹل کے روم میں بیٹھا تھا رہ رہ کر نور اور زلیخا بی کا خیال آرہا تھا نا جانے آپریشن ہوا بھی ہوگا یا نہیں ان میں سے بس علی کا نمبر تھا اس کے پاس باقی کے نمبر پتا نہیں کیسے مس ہوگئے تھے اس سے ۔
ابرہیم بھی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا وہ پریشان ہوگیا تھا میٹنگ ڈیلے پر ڈیلے ہورہی تھی
یا اللّٰہ پلیز اب مزید تاخیر نا ہو۔۔۔
تبھی اس کے فون کی بیل رنگ ہوئی تھی
بنا نمبر دیکھے ان سے کال ریسیو کی تھی
ہیلو اسلام وعلیکم۔۔۔
وعلیکم اسلام حاشر۔۔۔
دادو۔۔۔ وہ زیر لب بڑبڑایا ۔۔
اتنے کیوں حیران ہورہے ہو؟؟ انہیں نے اچھنبے سے اس سے پوچھا
نہیں نہیں دادو وہ بس یہاں میٹنگ میں پھنسا ہوا ہوں تو بس اس لئے۔۔۔
اس نے صفائی پیش کی تھی
کل صبح کی فلائٹ سے آرہی ہوں اور اپنے دوست کا خیر خواہ بن کر اسے یہ بات بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے
وہ دو ٹوک لہجے میں بولی تھیں
مگر دادو…..
کچھ مت بول تو تم دونوں نے بہت دکھ دیا ہے مجھے تجھے اس لئے بتا رہی ہوں کہ ڈرائیور کو بھیج دینا کیونکہ تم لوگوں کو تو دادی بوجھ لگتی ہے نا
ایسی بات نہیں ہے دادو۔۔
بس کر مجھے صفائی نہیں چاہیئے یہ کہہ کر انہوں نے کھٹاک سے فون رکھ دیا
یا اللّٰہ۔۔۔ اسے سر ہاتھوں میں گرایا
اس نے ایک بار پھر ابرہیم کو کال تھی جس کا نمبر بند ہی جارہا تھا آفس کی ٹائمنگ بھی اب ختم ہوچکی تھی
علی کو کال کی تو پتا چلا وہ ہاسپٹل میں ہے آخر تھک کر اس نے وقت پر سب چھوڑا اور میٹنگ کے لئے میٹنگ روم میں بڑھ گیا
یہ جانے بغیر کے واپسی پر ایک بم اس پر پھوٹے گا۔۔۔
ایک تماشہ تھا جو اسکی زندگی کا آج لگا تھا کبھی کسی کی ایک نا سننے والی اپنی زندگی کے اتنے بڑے فیصلے پر چپ تھی ہارے جواری کی طرح بیٹھی وہ اپنے بے رنگ ہاتھوں کو دیکھ رہی تھیں جن پر سہاگ کا کوئی رنگ نہیں لگ تھا
مولوی صاحب آئے تو اس نے ایسے نکاح کیا جیسے اسکا نہیں بلکہ کسی اور کا ہو
سخت جان تو وہ شروع سے تھی جن کے ماں باپ نہیں ہوتے انہیں خود کو مضبوط کرنا پڑتا ہے اس دنیا میں اس نے بس دو لوگوں سے شدید محبت کی تھی ایک اسکا باپ اور ایک نور۔۔
ان دونوں کی ہی محبت اس کے لئے بے غرض تھی اس نکاح کے پیچھے بھی نور کا چہرہ تھا جو گلابی رنگ سے سفید ہوگیا تھا شاید ماں کو کھونے کا اس میں حوصلہ نہیں تھا اور اس میں بھی بھلا کہا تھا اتنے اپنوں کو کھو چکی تھی اب سوتیلی بھی چلی جاتی تو وہ کہاں جاتی یہ زمانہ تو ویسے بھی کسی کا نہیں سب تاک میں رہتے ہیں
زلیخا کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا تھا اس کے پاس نور بیٹھی تھی جو اس نے یوں نکاح کرنے پر اس سے خفا تھی لیکن اسے ابھی پرواہ نہیں تھی پرواہ تھی تو اس وجود کی جو اندر زندگی موت کی جنگ لڑ رہا تھا
البتہ علی سے اس نے کچھ نہیں چھپایا تھا وہ تو اسکے بچپن کا ساتھی تھا ہر قدم پر اسکے ساتھ ہاں البتہ وہ شخص غائب تھا جس کے نام کے ساتھ اسکا نام کچھ گھنٹے پہلے جوڑا گیا تھا اور اسے پرواہ بھی نہیں تھی کیونکہ جس مقصد کے تحت یہ سب ہوا تھا وہ اب پورا ہوگیا تھا اب انتظار تھا ڈاکٹر کا
تقریباً چار گھنٹے بعد ڈاکٹر نے آکر آپریشن کے کامیاب ہونے کی خبر سنائی تھی تو جیسے مانوں سب کی جان میں جان آئی تھی
زلیخا بی فلحال ہوش میں نہیں تھیں لیکن خطرے سے باہر تھیں
نور کی خوشی سے آنکھیں چمک رہی تھیں اس کی خوشی دیکھ کر وہ مسکرا دی
اگر وہ آج یہ نکاح نا کرتی تو ان آنکھوں میں خوشی کیسے دیکھتی اسے خوش دیکھ کر وہ خود بھی مسکرادی
دل سے بوجھ سرکا تو اس نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا تھا۔۔۔
اگلے دن صبح زلیخا بی کو ہوش آیا تھا سب سے پہلے انہوں نے نور کو پکارا تھا جو تقریباً بھاگتے ہوئے ان کے پاس گئی تھیں ایک ایک کر کے سب ہی لوگ ان سے ملے تھے
لیکن زلیخا بی نے نا اسکا پوچھا اور نا وہ خود گئی دل تو ایسے ہمک رہا تھا کہ جائے اور سینے سے لگ کر روئے کبھی ماں کی محبت محسوس ہی کب کی تھی اس نے اس کے آنچل میں چہرہ چھپانے کا موقع دیا ہی نہیں تھا زندگی نے
اور اب بھی وہ تنہا اسپتال کے کاریڈور میں بیٹھی تھی جیسے اسکا کوئی اپنا ہی نا ہو سب اندر تھے وہ خاموشی سے اٹھ کر گھر آگئی اب دل رکنے کا تھا ہی نہیں صبح سے اس انتظار میں تھی کہ اب زلیخا بلائے اور وہ ماں کہہ کر لپٹ جائے…
مگر انسان جو سوچتا ہے وہ ہوتا کب ہے بھلا۔۔۔۔
وہ رات کو ہی گھر آگیا تھا سر سے ایک بڑا بوجھ ہٹا تھا وہ ارحم کا احسان مند تھا جس نے اس کو یہ راہ دکھائی تھی ورنہ تو اس کی سہی والی بینڈ بج جانی تھی رات وہ کافی پرسکون نیند سویا تھا ہر فکر سے آزاد کھانا بھی اپنی پسند کا کھایا تھا
رات دیر تک وہ مووی دیکھتا رہا تھا مووی دیکھتے دیکھتے کب آنکھ لگی اسے احساس ہی نہیں ہوا
صبح آنکھ کھلی تو صبح کے گیارہ ہورہے تھے وہ ہڑبڑا کر اٹھا تھا ۔
وہ آج پھر آفس سے لیٹ ہوگیا تھا
ارے یار کیا مصیبت ہے وہ بیزار ہوا تھا موبائل کی تلاش میں سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ رکھا لیکن موبائل غائب تھا
موبائل کہاں گیا۔۔۔۔۔ خود سے بڑبڑاتے اسنے موبائل کی تلاش شروع کی جو کہ نا ملنا تھا اور نا ہی ملا۔۔
موبائل پر لعنت بھیج کر وہ جلدی جلدی سے تیار ہوا تھا حاشر بھی ابھی تک نہیں آیا تھا یقیناً میٹنگ لیٹ ہوئی ہوگی
فل تیار ہوکر خود پر پرفیوم چھڑک کر وہ بلکل تیار تھا تبھی ڈور بیل بجی تھی
حاشر کا خیال کرکے وہ جلدی سے ڈور تک آیا تھا مگر جیسے کی ڈور اوپن کیا سامنے کھڑی ہستی نے اس کے چھکے چھڑائے تھے۔۔۔
اسے یہ تو پتا تھا دادو آئیں گی مگر اتنی جلدی۔۔
وہ شاکڈ سا کبھی ان کو دیکھتا تو کبھی ان کے پیچھے کھڑے حاشر کو جس کے چہرے پر خفگی کے تاثرات تھے
ہٹ راستے سے۔۔۔ دادی کی گرجدار آواز پر وہ تھوک نگلتے سائیڈ ہوا تھا
اور بے بسی سے حاشر کو دیکھا۔۔
یار دادو کہاں سے آئیں؟؟ وہ دبی آواز میں حاشر سے مخاطب ہو اتھا
مجھ سے پوچھ نا اس سے نہیں۔۔
دادو کے کان اس عمر میں بھی غضب کے تھے
نہیں وہ دادو۔۔۔۔
حاشر تیار ہوکر آفس جا یہ آج یہی میرے ساتھ رہے گا۔۔
لیکن دادو۔۔۔۔۔
ایک آواز سمجھ نہیں آئی میری۔۔
اس نے زندگی میں پہلی بار انہیں اتنے غصے میں دیکھا تھا اسکا وکیل بھی آج بے بس تھا
حاشر کندھے اچکاتا تیار ہونے کے لئے اندر چلے گیا جب کہ وہ پریشان سا انہیں دیکھ رہا تھا جو ناجانے کیا سوچ رہی تھیں۔۔۔
نور صبح ناشتے کے بعد گھر آئی تھی۔۔ اس نے بات کرنی چاہی لیکن نور نے رخ پھیر لیا کیونکہ اس کے اس اچانک شادی پر وہ ناراض تھی
اس لئے اپنا ضروری سامان اٹھایا اور اسپتال واپس چلے گئی تو اس نے اپنا سر دیوار سے ٹکایا
اس شادی کی وجہ سے بہن ناراض تھی جس کا کوئی مستقبل ہی نہیں تھا اس نے نکاح کیا تھا لیکن ایک نا ایک دن اسے ختم ہو جانا تھا وہ من چاہی نہیں تھی جو اس نکاح پر خوش ہوتی یا سب کو مناتی پھیرتی
روشنی بھی اس سے ناراض تھی
وہ تلخی سے ہنس دی خودغرضی دیکھاتی تو بری بنتی بے غرض ہوکر کچھ کرنا چاہا تو سب کی بری بن گئی
ہونہہ مجھے کیا مجھے کونسا فرق پڑتا ہے میرا گھر میری دوکان مجھے کیا کسی سے لینا ۔
غصے سے بڑبڑاتی وہ کچن میں گھس گئی ناشتہ کرنا تو تھا نہیں بس دل بہلانے کے لئے وہ سامان ادھر ادھر پٹخنے لگی۔۔۔
I
کہاں ہے وہ؟؟؟؟ ان کے بولنے پر اس نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا
کون؟؟؟
کون سے کیا مراد ہے ابرہیم حیات خان؟؟؟؟ انہوں نے اسے تیکھے چتونوں سے سے گھورا تو وہ ہڑبڑایا
نہہ۔۔نہیں دادو وہ میرا مطلب۔۔۔
کوئی مطلب نہیں ابرہیم حیات خان میں نے پوچھا بہو کہاں ہے؟؟؟
اس عمر میں بھی ان کی آواز بے حد کڑک اور رعب دار تھی
یہ جو گھر کا حال ہے نا لگتا نہیں ہے کہ کوئی عورت یہاں رہ کر گئی ہے۔۔
انہوں نے ایک طائرانہ نظر پورے گھر پر ڈالی تھی جو سارا کا سارا بکھرا پڑا تھا
وہ دادو۔۔۔ اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ کہے تو کیا کہے عجیب مصیبت میں پھنس گیا تھا دماغ کام ہی نہیں کر رہا تھا
کہا ہے بہو؟؟؟ وہ ایک بار پھر گرجی تھیں
یہاں نہیں ہے دادو۔۔۔۔
کیا مطلب یہاں نہیں ہے ؟؟ کہاں ہے پھر نکاح کیا بھی ہے یا جھوٹ کہا ہے ہاں؟؟
اگر یہ جھوٹ ہوا تو آج ہی لالی کی بیٹی سے نکاح کروگے تم ہر حال میں۔۔۔ وہ کرخت لہجے میں بولی تھیں
لالی کی بیٹی….. اس نے ذہن میں جھماکہ سا ہوا تھا ان کی دوست کی پوتی ایک نمبر کی چپکو اور عجیب جو اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی
اس نے شکر ادا کیا تھا کہ اس نے نکاح کرلیا
میرا مطلب ہے وہ ابھی اپنے گھر پر ہے دادو۔۔۔
کیوں کیا لینے گئی ہے اپنے گھر ہاں شوہر کا گھر چھوڑ کر ایسے کون جاتا ہے
دادو ادھر بیٹھے بات سنیں پلیز۔۔۔ وہ ان کا ہاتھ تھامے صوفے تک لایا جو جب سے آئی تھیں ایک ہی جگہ کھڑی تھیں
میں مانتا ہوں جو ہوا غلط ہوا مجھے یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا مگر میں مجبور تھا اسکی امی کینسر کی پیشنٹ ہیں کل ہی سرجری ہوئی ہے ان کی بس یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ مجھے کچھ سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا۔۔پلیز معاف کردیں وہ وہی ان کے گھٹنے سے لگ کر بیٹھ گیا
اب کیسی ہیں اسکی امی۔۔ کینسر کا لفظ سن کر وہ نرم پڑی تھیں
جی بس ویسے ہی ہیں۔۔
ہممم اللّٰہ پاک صحت کاملہ عطا فرمائے۔۔ آمین۔۔
نام کیا ہے اسکا؟؟؟
اور یہاں آکر اسکی سٹی گم ہوئی تھی نام تو اسے یاد ہی نہیں تھا
اسکا نام۔۔۔۔ اس نے تھوک نگلا
کیوں نام نہیں پتا اپنی بیوی کا؟؟؟ انہوں نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا
افففف دادو کیوں نہیں پتا ہوگا بس آپ جب ملیں خود ہی پوچھیے گا اس سے ابھی میں آپ کے لئے بہت اچھا سا ناشتہ بناتا ہوں آپ فریش ہو جائیں۔۔وہ بات بدلتا اٹھا تھا
اس نے انکا سامان لے جا کر روم میں شفٹ کیا تھا
مجھے اسکی ماں سے ملنا ہے۔۔۔
لو بھئی ایک اور ٹینشن اس نے ماتھا مسلا
مل لینا ابھی تو آپ آئی ہیں ریسٹ کریں مجھے بھی آفس جانا ہے میڈ آکر صفائی کر جائے گی ۔
ابھی مطلب ابھی ابراہیم۔۔۔۔۔۔وہ بضد تھی
دادو حاشر کو آنے دیں پھر چلتے ہیں نا۔۔۔ ضروری میٹینگ ہے نا اس نے ناشتہ ان کے آگے کیا اور فوراً سے وہاں سے نکلا تھا مبادہ وہ پھر اپنی ضد پر آجائیں سر درد سے پھٹ رہا تھا ایک جھوٹ کی وجہ سے کتنے جھوٹ بولنے پڑ رہے تھے۔۔۔
اداسی سے وہ منڈیر پر بیٹھی تھی زندگی کے بہت کم موقعوں پر وہ اداس ہوتی تھی
کیوں چھوڑ گئے آپ تینوں دیکھیں آپ کی بچی کیسے رل رہی ہے
جس نے لئے اپنی زندگی داؤ پر لگائی اس نے تو پلٹ کر بھی نہیں پوچھا بس ایک بوجھ کی طرح اتار پھینکا ایسی زندگی کی خواہش تو نہیں کی تھی میں نے بابا۔۔۔
میں تو آپ کا بہادر بچہ تھی نا آپ کی سب باتیں مانتی تھی پر دیکھیں یہ زندگی مجھے کہاں لے آئی ہے سب مجھ سے خفا ہوگئے مگر مجھے فرق نہیں پڑتا میں تو ہمیشہ سے محبت کے لئے ترسی ہوں بابا ۔۔
مجھ سے اچھے تو یہ پرندے ہیں کیسے خوش ہیں سب ان سے پیار کرتے۔ شبانہ خالہ کہتی تھیں کہ میرا شوہر مجھ سے پیار کرے گا مگر وہ تو کسی اور کا ہے۔۔وہ تلخی سے ہنسی تھی
تو یہ طے ہوا بابا کہ آپ کی بیٹی کے نصیب میں نا محبت ہے نا خوشیاں۔۔۔
وہ آج مایوس ہوگئی تھی
اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔
تبھی دروازے پر ہوتی دستک پر وہ گہرا سانس بھرتی باہر آئی جہاں علی کو دیکھ وہ ٹوٹی تھی
ایک وہی تو تھا اسکا دوست بچپن کا ساتھی۔۔۔
کیوں کیا تم نے ایسا جس کے لئے اسکو دیکھا ہے۔۔۔
وہ تلخی سے بولا تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی
کچھ ہوا ہے؟؟؟
کچھ نہیں ہوا چھوڑ پانی پلا دے پلا سکتی ہے تو۔۔۔۔۔
اچھا لاتی ہوں وہ پریشان سی اس کے لئے پانی لائی تھی۔۔۔
اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟؟ کیوں چہرے پر بارہ بج رہے؟؟؟
وہاں تیری سوتیلی نے اماں کو بتایا کہ تیرا چکر تھا اس ابرہیم صاحب کے ساتھ۔۔
کون ابرہیم؟؟ اس نے حیرت سے آنکھیں بڑی کی تو علی نے تاسف سے اسے دیکھا۔۔
وہی جس سے نکاح کیا تھا اپنی ماں کے علاج کے لئے تو نے۔۔۔
اوو۔۔۔ چھوڑ نا بولنے دے کیا فرق پڑتا میں کونسا اچھی تھی جو اب اچھی رہونگی
تیری قسم نے روک دیا ورنہ ۔۔ورنہ شرنہ کچھ نہیں۔۔
تو کسی کو کچھ نہیں بولے گا ویسے بھی اور بھی کئی مسئلے ہیں مجھے۔۔۔
ہمم بس خود ہی سب کر تو لیکن اب وہ کچھ بولی تو میں لحاظ نہیں کرونگا۔۔۔علی نے اسے وارن کیا تو وہ ہنس دی
چلو کوئی تو ہے جسے میری پرواہ ہے ۔۔۔
تو اس قابل ہے آنسہ کے تیری پرواہ کی جائے۔۔۔
مجھے ایسا نہیں لگتا۔۔۔ علی کی بات کر وہ تلخی سے ہنسی تھی۔۔۔
وہ آفس آیا تو حاشر اسے کہیں نظر نہیں آیا وہ بے تاب تھا اس سے بات کرنے کے لئے مگر پھر کام میں اتنا مصروف ہوا کہ اسے کچھ یاد ہی نہیں رہا
وہ تھک کر اپنے آفس میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ دروازہ دھاڑ سے کھولتا حاشر اندر آیا تھا
تو نے آنسہ سے شادی کرلی ابراہیم؟؟؟ اس کے لہجے میں بے یقینی تھی
اسے دیکھ کر ابرہیم نے سر کھجایا تھا
ہاں۔۔۔ ایک لفظی جواب۔۔
اور وہ بھی اس سے جسے تو پسند تک نہیں کرتا مجھے تو نور سے پتا چلا وہ سب سمجھ رہے تیرا آنسہ سے افئیر تھا۔۔وہ پریشان تھا کہ ایک دن میں ہوا کیا تھا
واٹ افئیر۔؟؟؟ اسے ٹھیک ٹھاک جھٹکا لگا تھا
پاگل ہوگئے ہیں کیا اسے میں منہ لگانا پسند نا کرو اور بات کر رہا آفئیر کی۔۔
واہ منہ لگانا پسند نہیں نکاح کرنا پسند ہے۔۔۔اسکی بات پر پہلی بار حاشر کا کیا اسکا منہ توڑ دے
افف بات سن اس سے شادی صرف دادی کی وجہ سے کی ہے شادی بھی نہیں بس ایک کانٹریکٹ ہے۔۔
پوری بات بتا ابرہیم۔۔۔۔وہ سخت کنفیوز ہورہا تھا اسکی باتوں سے۔۔
تبھی اسنے گہرا سانس لیتے ہوئے سب بتایا تھا
مطلب وہ بچاری قصور نا ہوتے ہوئے بھی بدنام ہورہی ہے صرف تیری خود غرضی کی وجہ سے۔۔۔ حاشر کا دل کیا اسکا منہ لال کردے
دیکھ میری مجبوری۔۔۔
بس کردے ابرہیم ایسے کیسے مان لوں ہاں میں نے تجھے جھوٹ بولنے کو کہا تھا اسے سچ کرنے کو نہیں تجھے اندازہ بھی ہے تو نے کیا کیا ہے۔۔؟؟؟ وہ اسے ملامت کررہا تھا
میرے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔۔ وہ لب کاٹتے بولا تھا
مجھے تجھ سے یہ امید نہیں تھی۔۔تو نے اچھا نہیں کیا ابراہیم۔۔
اور وہ ارحم اسکے کہنے پر تو نے اپنا بڑا کام لیا مجھ سے پوچھنا تو دور بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا تو ٹھیک اب اپنے مسئلے خود ہی سلجھانا مجھ سے امید نا رکھنا۔۔غصے سے کہتا وہ تن فن کرتا باہر کی طرف بڑھ
یار حاشر بات تو سن۔۔ وہ اسکے پیچھے لپکا تھا مگر وہ رکا نہیں
شٹ کیا مصیبت ہے۔۔۔وہ گاڑی پر ہاتھ مارتا بے بس ہوا تھا وہ جانتا تھا حاشر غصہ ہوگا مگر اتنا۔۔
کہاں پھنس گیا ہوں میں یار۔۔۔
اس وقت اسے احساس ہوا تھا کہ بے بسی کیا ہوتی ہے گھر جانے کا تو اسکا دل ہی نہیں کیا تھا جاتا تو دادی کو جواب دہ ہونا پڑتا،سیٹ پر ڈھے جانے کے انداز میں بیٹھا تھا سر سیٹ کی پشت سے لگائے اس نے آنکھیں موندی تھیں
واقعی ایک دن میں کیا سے کیا ہوگیا تھا
کیوں کیا میں نے یہ ۔۔۔۔۔ سیٹ پر سر پٹختا وہ پچھتاوں کی زد میں آیا تھا۔۔