اپنے ہاتھو سے کر دیا آزاد ۔۔
جس پرندے میں جان تھی میری ۔۔۔۔
“آج کل کیا کر رہی ہو ”
“کچھ خاص نہیں بس فری ہو میں ۔۔تم سناؤں آج کل کیا کر رہے ہو ۔۔۔ویسے آج کا کیا ارادہ ہے ۔۔۔۔۔”
زہرا کے اس سوال پر وسیم تھوڑا ہربڑایا ۔
“مطلب۔۔۔مطلب میں سمجھا نہیں تم ۔۔۔۔او سوری آئ مین ۔۔اپ ۔۔۔۔”
“تم مجهے تم کر کہ مخاطب کر سکتے ہو ”
زہرا وسیم کو بیچ میں ٹوک کر کہتی ہے ۔۔۔۔
“ویسےتم بھی اتنی حسین اور یہ جگہ بھی تمہاری طرح حسین تو کیا ارادے ہیں ۔۔۔”
“ہاہا ہا ہا ہا ہا ۔۔ ” زہرا نے وسیم کی بات پر قہقہ لا گیا ۔۔۔۔۔۔
“تم ہنس کیوں رہی ہو ۔۔” ۔۔وسیم محظوظ (خوش ہونا ) ہوتے ہوے گہری نظرو سے زہرا کو دیکھنے لگا ۔۔۔اوراس کے سفید گداز سے ہاتھو پر اپنے مردانہ ہاتھ رکھ دیے اور سفیان کی برداشت ختم ہو گئی وہ سبط کرتے کرتے تھک گیا تھا اور ان کے پاس چلا آیا ۔۔۔
“تم یہاں ۔۔مطلب یہاں کیا کر رہے ہو ۔”
سفیان کو دیکھ کر زہرا کا رنگ فق ہو گیا تھا ۔۔اور وسیم حیران ہو گیا کہ یہ کون شخص ہے جس کو دیکھ کر زہرا کا چہرہ سفيد لٹھے کی مانند ہو گیا ہے
“یہ تو میں بعد میں بتاؤ گا پہلے یہ بتاؤ تم۔۔یہاں کیا کر رہی ہو کیونکہ تمہارا thesis تو میں نے بنانا ہے نا اور یہ شخص کون ہے ۔۔۔۔”
بہت ہی غصے میں بولے گئے الفاظ زہرا کے کانو میں سیسے کی طرح اترے تھے ۔۔۔
“میں یہاں ۔۔یہ وہ ۔۔۔۔اصل میں سفیان میری بات سنو یہ وسیم ہے ۔۔اصل میں ہم یہاں پر thesis بنانے آئے تھے کیوں وسیم ۔۔” زہرا مدد طلب نظرو سے وسیم کی طرف دیکھتی ہے ۔۔
اوروسیم اس جھوٹ پر سٹپٹا جاتا ہے ۔۔
“جھوٹ مت بولو زہرا تمہاری thesis میں بنا رہا ہو اور وہ بھی تمہاری بہت التجا کرنے پر ۔۔اور ہاں تم تو ایسی جگہ پر آنا پسند نہیں کرتی تھی نہ ۔۔کیوں میں صيح کھ رہا ہو۔۔۔ نا” سفیان انکھو میں نفرت لئے قہر برساتی انکھو سے زہرا کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔کچھ نہیں تھا ان انکھو میں سوائےدھوکہ دینے کا دکھ دل توڑنے کا دکھ بے اعتباری کا دکھ ۔۔اور زہرا تو ایسے تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔۔
“اورتم کون ہو جو بار بار زہرا سے ایسے بات کر رہے ہو ۔۔۔”
وسیم جو کافی دیر سے خاموش تھا آخر بول ہی پڑھا ۔۔
“اورتم زہرا کون سا thesis کم اون یار ہم یہاں ایک دوسرے سے ملنے اہے ہیں ۔۔ اور اب تو ہم شادی کرنے والے ہیں تو یہ کون ہے جو یو تم پر حق جاتا رہا ہے ”
“کیا مطلب ۔۔۔مطلب تم اس سے یعنی تم اس سے۔۔۔ یو مین ديٹ ۔۔۔”غصے کی ششدت کی وجہ سے سفیان سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا ۔۔”تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو یو نو ۔۔یہ میری منگيتر ہے ہم ایک دوسرے سے چار سال سے پیار کرتے ہیں ”
“کیا” ۔وسیم کبھی زہرا کو دیکھے کبھی سفیان کو اسے سمجھ نہیں ا رہی تھی کے سفیان کیا کھ رہا ہے “۔ زہرا کیا یہ سچ ہے زہرا بولو کیا یہ سچ ہے ۔۔۔۔”
“ہاں یہ سچ ہے وسیم ۔۔۔”
زہراجو کافی دیر سبط کيے کھڑی تھی آخر بول پڑی ۔۔۔۔۔
چٹاخ ۔۔۔۔۔۔
“یہ تھپڑ بہت پہلے مجھے تم کو مار دینا چائيں تھا ۔۔خیر اب بھی دیر نہیں ہوئی ۔اور ہاں ۔۔” سفیان جاتے جاتے مڑا ۔۔” یہ تمہاری رنگ یہ لو آج سے تمہارا میرا ہر رشتہ ختم ۔۔” سفیان لمبے لمبے ڈاگ بھرتا بار سے باہر چلا گیا اور باہر جا کر کلائنٹ کو پھر کبھی ملنے کا کھا ۔۔۔۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“تم نے مجهے یہ کیوں نہیں بتا یا کے تم اينگيجڈ ہو اور وہ بھی اس شخص سے جس سے تم محبت کرتی ہو “۔۔
“وسیم پلیز leave me alone ۔۔۔۔۔”
زہرا گلے کے بل چلائ۔۔
“تم اب ہمیشہ اکیلی ہی رہنا یو ۔۔۔۔” وسیم ایک موٹی سی گالی دے کر چلا گیا ۔۔
زہرا بما مشکل اپنا بکھرا وجود سمیٹتی ہے اور بار سے باہر ا گئی ۔۔کافی دیر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد بھی اسے یاد نہیں اتا کے اس نے کار کہا کھڑی کی تھی ۔۔آخرکار اس کو اپنی کار نظر ا جاتی ہے ۔۔زہرا کار کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
“یہ میں نے کیا کیا اپنے ہاتھو سے سب کچھ بیگاڑ دیا سفیان
I really love you
یہ سب تو ایک ڈیئر تھا بس ۔۔۔۔۔پر تم مجھ سے یو بدظن نہیں ہوسکتےبلکل نہیں ۔”
زہرا کو اپنے دوستو کے ساتھ ایسے فضول سے ڈیئر لگانے میں بہت مزہ اتا تھا ۔ یہ بھی انہی میں سے ایک تھا گروپ کی کچھ لڑکیو کا کہنا تھا وسیم جیسے لڑکے کو پھسانا بہت مشکل ہے لیکن کچھ کا کہنا تھا نہیں ہے اسی بات پر سب کی لڑاہی ہو گئی جسے زہرا نے یہ کھ کر ختم کیا آج دیکھ لیتے ہے کہ تم میں سے کون صيح کون غلط ہے تو اسی وجہ سے وہ پچھلے کچھ دنو سے اسی ڈیئر پے کام کر رہی تھی اور وہ آج تک ڈیئر ہاری نہیں تھی پر ۔۔۔آج ۔آج تو وہ زندگی کی ہر بازی ہار گئی تھی اس بندے کو کھو دیا تھا جو اس کا سب کچھ تھا ۔۔وہ گھر پہنچ کر بھی یہی سب کچھ سوچتی رہی آخر کیسے سفیان کو مناؤ ۔۔کافی دیر سوچنے کے بعد اسے حل مل جاتا ہے ۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
سفیان خالی کھولی راستو پر گاڑی دوڑاتا رہا ۔۔۔”ایسا کیوں کیا
ایسا کیوں کیا زہرا تم نے آخر میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ۔۔اتنا بڑا دھوکہ اتنی بڑی بے اعتباری مجھے نفرت ہے تم سے زہرا سنا تم نے مجھے نفرت ہے تم سے ۔۔۔” اسی طرح کی سوچو میں گم جب وہ گھر پہنچا تو سامنے امبرین پریشان سی ٹہل رہی تھی اس کے ہاتھ میں سیل فون تھا ۔۔۔اور آخر وہ پہنچ ہی جاتا ہے ۔۔
“ہاں زہرا ”
سفیان جو چپ کر کے وہا سے گزر جانا چاہتا تھا پر امبرین کو اس طرح زہرا سے بات کرتا دیکھ کے روک گیا ۔۔۔۔
“کیوں کیسے سفیان وہاں کیسے پہنچے وہ تو کسی کلائنٹ سے ملنے گئے تھے ۔۔”
دوسری طرف سے زہرا کچھ کہتی ہے امبرین سے ۔۔
“،نہیں کرو زہرا وسیم ایسے نہیں جا سکتا اس نے خود کہا تھا وہ مجھ سے شادی کرے گا اس نے تو بن دیکھے شادی کا کہہ دیا تھا ۔۔پھر اب جب کل تم اسے مجھ سے ملوانے لگی تو اس نے انکار کیوں کیا ۔۔۔۔مجھے نہیں پتا اب کیا ہو گا زہرا سوری میری وجہ سے سفیان نے تم پر ہاتھ اٹھایا کاش میں فورس نہ کرتی تم کو ۔۔۔۔سفیان کے واسطے نہیں دیتی ۔۔تو تم وہا کبھی نہ جاتی مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔۔۔”
دوسری طرف سے زہرا کی بات سن کر امبرین ایک دم پرجوش ہو کر کہنے لگی ۔۔
“ارےنہیں یار چھوڑو ایک گیا تو دوسرا آے گا ۔۔بس اب تم اپنی سوچو ۔۔” زہرا نے کچھ کہا تھا اس سے ۔۔
“نہیں سفیان کو کچھ مت بتانا میرا نام بھی مت لینا پلیز ورنہ وہ مجھ سے اور ناراض ہو جائے گے ۔۔۔چلو میں فون رکھتی ہو۔۔آج رات ویسے بھی نیا شکار ڈھونڈنا ہے ۔۔۔خدا حافظ ۔۔”
آه ۔۔۔مجھے معاف کر دینا ۔۔۔اللّه ۔۔۔پر میں مجبور ہو ۔۔۔۔۔
………۔
خاموشی بھی کسی کو بتانے کا ایک طریقہ ہے ۔
“کہ تم نے اچھا نہیں کیا ۔”
“تم اگر فرح خالہ کی بیٹی نہ ہوتی نہ پھر تمہیں دھکے مار کر اسی وقت گھر سے نکال دیتا ۔۔۔۔تم مجهہ سے محبت کے دعوے کرتی تھی پتا نہیں کتنو سے کیے ہو گے ایسے دعوے تم غليظ عورت نے ۔۔۔۔”
“پر سفیان کیا ہوا میں نے کیا کیا ہے ۔۔؟”
“تم نے کیا کیا ہے ۔۔۔۔کیا اب بھی کچھ کرنا ره گیا ہے ۔۔۔۔”
سفیان امبرین کے سیل فون کی طرف اشارہ کر کے بولتا ہے اس کی آواز میں کیا کچھ نہیں تھا غضہ نفرت حکارت تذليل امبرین کے ہاتھ پاؤ پھول رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
“امبرین اتنا بڑا دھوکہ دیا تم نے زہرا کو استعمال کیا تم نے ۔۔۔۔بس تم تیاری پکڑو کل ہی امی سے بات کر کے تمہاری شادی کسی سے بھی کرواتے ہیں تکہ یہ گند ہماری زندگی سے نکلے ۔۔۔۔” سفیان کہنے کہ بعد روکا نہیں ۔۔۔۔
جب چہرے بدل جائے ۔۔۔
تو واضحتيں کیسی ۔۔۔۔۔۔
وہ جو سفیان کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی اس کے جانے کہ بعد وہ اپنے کمرے میں بھاگ گئی ۔۔۔
جہاں کچھ دیر پہلے زہرا نے فون کر کے اس کے اگے ہاتھ جوڑے تھے اس کے پیر پکڑے تھے کہ وہ اس کو بچا لے اس نے بچا لیا اسے پر ۔۔۔۔۔اپنے اپ کو ۔۔۔ہاں اپنے اپ کو ۔۔۔آج تک وہ دوسرو کو مصيبطوں سے بچاتی ای تھی اس کو بچانے والا کوئی نہیں تھا ۔۔۔ نہیں کوئی ہے جو اس کو بچا سکتا ہے ہاں وہی جو اب تک اسے بچاتا ا رہا تھا ۔وہی جس نے اکبر انکل سے بچايا وہی ہے جو آج اسے بچاے گا ۔۔ہاں وہی جسے پکارو تو جلد چلا اتا ہے ۔۔۔۔
امبرین نے جلدی سے وضو کیا اور دو رکعت نفل ادا کیے اور اللّه کے حضور ہاتھ اٹھاۓ التجا کی گرگڑائ اور اعلیٰ شان اس کی سن رہا تھا وہ اسے راستہ دیکھا رہا تھا ۔۔۔
تھاتو مشکل پر اس کے لئے محفوظ تھا ۔۔۔
جب درد حد سے بڑھ جاتا ہے ۔۔
تو انسان روتا نہیں خاموش ہو جاتا ہے ۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
امبرین خالہ کو جیسے تیسے کر کہ منا لیتی ہے اور scholarship پر apply کر دیتی ہے اور اللّه اتنا مہربان ہے امبرین پر اسے تو پتا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
آج abroad آے اس کو دو ماہ ہو گئے تھے اور سفیان کی شادی کو دو دن ہو گئے تھے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ اس کی کیا حالت ہے یہ خبر سن کر کہ آج دو دن بعد اس دشمن جاں کی شادی کا پتا چلا ہے ۔۔
“تم اتنی اپ سیٹ کیوں ۔۔۔ہو ماما نےبہت کہاں تھا مجھے تمہیں ساتھ لے کر آو ۔۔۔مانسچرڈ سے یہ ابروڈ کے راستے میں کافی فرق ہے اور الگ سا راستہ ہے ۔۔
تمہیں کالز کی میسیجز کيے کوئی رسپانس نہیں ملا تو آج میں واپسی میں تم سے ملنے ا گیا ۔۔”
“ہوں۔۔۔اچھا کیا ریحان تم یہاں ا گئے میں دو مہینوں سے تنہا ہو کسی اپنے کی ضرورت تھی مجھے ۔”
امبرین اتنا کہہ کر ریحان کے کندے پر سر رکھ کر رونے لگ گئی ۔۔۔۔
“اے پاگل لڑکی ایسے کیوں رو رہی ہو ”
ریحان نے امبرین کو خود سے دور کیا اور اس کے چہرے پر آئيں بال پیچھے کیے اور وہی اس کی کائنات تھم گئی ريحان نے نظرے چرا لی ۔۔۔
“وہ بس ماما کی یاد ا گئی تھی ”
“ہوں صيح کہہ رہی ہو پرديس میں ماما پاپا بہت یاد اتے ہیں خیر دو سال گزارنے ہیں یہاں تم نے ۔۔۔”
“اور اپ نے ۔۔”
“میں نے بس یہ آخری ائير ہے۔۔۔”۔
“ہوں اچھا ۔۔ویسے کوفی پیے گے ۔۔۔”
“نہیں بس میں چلتا ہو مجھے ابھی مانسچرڈ کے لیے روانہ ہونا ہے ”
“ہوں ۔۔اچھا ٹھیک ۔۔”
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“اخر وہ تمہیں مل ہی گئی سفیان کیوں نہ ملتی میری اتنی دعائیں رائيگاه تھوڑی جاتی ۔۔۔۔تم اسی کہ تھے میرے کبھی تھے ہی نہیں ۔۔۔۔”
دو۔ آنسو ٹوٹ کر اس کے رخسار پر پھسل گئے ۔۔پر پروا کس کو تھی ۔۔
ریحان کے جانے کہ بعد اسے نہیں پتا وہ کتنی دیر یہاں ایسے ہی بیٹھی رہى بس یہ اس کو سوچے جا رہی تھی جسے کبھی اس کا نہیں ہونا ۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“مجھے معاف کر دو زہرا اس رات مجهے پتا نہیں کیا ہو گیا تھا ۔۔۔”
“آشششششش۔۔ بس بھول جائے نا اس رات جو ہوا اپ کی جگہ کوئی اور ہوتا وہ بھی ایسا کرتا ۔۔”
“تمہیں نہیں پتا زہرا میں تم سے کتنی محبت کرتا ہو تم سوچ بھی نہیں سکتی میں تم سے دور نہیں رہ سکتا ۔۔”
“اچھاسفیان واقعی۔۔ میں بھی اپ سے بہت محبت کرتی ہو ۔۔”
سفیان نے زہرا کے دونو مہںندی لگے ہاتھ اپنے ہاتھو میں۔ لیے اور پینٹ کی جیب میں سے ایک مہرون مخملى ڈبيہ نکالی جس میں ڈائمنڈ کی رنگ جگمگا رہی تھی ۔۔پھر سفیان نے اس کو وہ رنگ پہنائی اور اس کے سفید گداز ہاتھو کو پیار سے چھوہا ۔۔
“چھوڑے کیا کر رہے ہیں اپ ”
زہرا کا چہرہ لال ٹماٹر کی طرح ہو گیا ۔۔سفیان کو اس طرح پیار لوٹاتے دیکھ کر ۔۔۔
“ہا ہا ہا ہا ہا ۔۔۔ڈر کیوں رہی ہو ۔۔”
میں وہ ایسے ہی سو جائے میں بہت تھک گئی ہو ۔”
“ہوں چینج کر لو ۔۔پہلے ”
سفیان اتنا کہہ کر وارڈروب سے نائٹ سوٹ لے کر واش روم میں چلا گیا ۔۔
“مجهے معاف کر دینا امبرین تمہارے ساتھ غلط کر کے میں خود سکون میں نہیں ہو میرے اللّه مجھے معاف کر دینا اور امبرین کو اچھا سا جیون ساتھی دے دیں ۔۔۔امین ۔۔۔۔”
میری انکھو کے خواب بن کر تم
کھو جانا سراب بن کر تم ۔۔
میری سانسوں میں تیری خوشبو ہو
مجھ میں رہنا گلاب بن کر تم ۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
آج آخری دن تھا ابروڈ میں اس کا اس کے بعد اسے واپس خالہ کہ پاس جانا تھا یہ دو سال کیسے گزرے وہ کبھی بیان نہیں کر سکتی تھی اتنی تکلیف تو اماں کو چھوڑ کر بھی نہیں ہوہی تھی اور اس نے سوچ لیا تھا واپس جا کر اپنے گاؤں میں۔ اسکول کھولے گی اپنے بابا کی حویلی میں اب وہا کوئی نہیں رہتا تھا اماں کے مرنے کے بعد سے وہ حویلی خالی ہی پڑھی ہے ۔۔۔اور اب تو الشبا بھی اپنے گھر۔ کی ہو گئی ہے اور ریحان بھی ایک بیٹی کا باپ بن چکا ہے ۔۔۔ تین دن پہلے ریحان کے گھر بیٹی ہوہی تھی ۔۔۔۔اسے ریحان نے کال کی تھی۔۔
“السلام علیکم ”
“وعلیکم السلام کیسے ہو ریحان ”
“میں ٹھیک ہو تم سناؤ کیسی ہو اور کب کی واپسی ہے ۔۔”
“میں بھی ٹھیک ہو بس کچھ دنو میں۔ واپسی ہے ”
“او اچھا ویسے بہت مبارک ہو پھوپھو بن گئی ہو میری بیٹی ہوہی ہے ۔۔” ریحان کو اتنی خوشی تھی اپنی بیٹی کی پدائیش پر کے اسے سمجھ ہی نہیں ا رہی تھی اور خوشی اس کے لفظو سے جھلک رہی تھی ۔۔
“اہان ماشااللہ بہت بہت مبرک ہو مٹھائی تیار رکھنا ”
“ہاں ضرور ”
“چلو میں فون رکھتی ہو باقی باتیں ا کر ہو گی ”
“ہمم ٹھیک ہے اللّه حافظ”
ہاں ریحان امبرین سے شادی کرنا چاہتا تھا پر جب امبرین نے صاف لفظو میں انکار کر دیا کہ اسکا پہلا اور آخری پیار کوئی اور ہے اس کے علاوہ وہ کسی سے شادی نہیں کرے گی ۔۔یہ سن کر ریحان اپنی يونی فرینڈ امارہ سے شادی کر لیتا ہے ۔۔کیونکہ امارہ ریحان کو بہت پیار کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سب کو اپنے چہانے والے مل گئے پر میں ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میں آج بھی اکیلی ہو اس محبت کے سفر میں بلکل تنہا ہو میں اور تھک گئی ہو ۔۔۔اس سفر سے پتا نہیں اس کی منزل کب أے گی ۔۔أے گی بھی کہ نہیں ۔۔”
کتنی عام سی بات ہے لیکن اتنی عام سی بات نہیں ۔۔
سب کو خوشیاں مل جاتی ہیں میرا حصہ کھو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...