اکتوبر ۴۲ بروز اتوار اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا، وہ بالکل ویسا ہی محسوس کر رہی تھی جیسے کوئی عام سی لڑکی کسی شہزادے کے محل کی شہزادی بننے جا رہی ہو، اگر خوشی کو ناپنے کا کوئی پیمانہ ہوتا، تو ادیوا عمر کی خوشی اتنی ہوتی کہ کسی پیمانے سے نہ ماپی جاتی۔ صفان علی کی تمام تر خواہشات کا احترام کرتے ہوئے وہ انتہائی سادگی سے بیاہ کر اس کے گھر آ چکی تھی۔
اس کے گھر کی سیڑھیاں چڑھتے جب صفان علی اس کا ہاتھ تھام کر اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، تو یوں لگا کہ جیسے بلندیوں کے سارے سفر میں صفان علی کا ساتھ محبت کرنے والوں کی تاریخ میں ایک اتحاس ہو گا۔ وہ محبت جو ایک تصور سے شروع ہوئی اور ایک حقیقت پہ آ ٹھہری اور حقیقت بھی وہ جو جاگتے میں نظر آنے والے خواب کی مانند لگی۔
عمر حیات کے بے حد اصرار پہ صفان علی نے ادیوا کے میکے سے صرف ایک بیڈ اور ڈریسنگ کا تحفہ قبول کیا تھا، وہ بھی بہت زیادہ اصرار پر۔ ورنہ Self made man اپنے اصول توڑنے کی اجازت کہاں دیتے ہیں کسی کو۔
سیڑھیوں کے ساتھ والاکمرہ جو پہلے ڈرائینگ روم تھا، اب وہ کمرا صفان اور ادیوا کو دیا جا چکا تھا۔ ادیوا پہلی بار صفان کے گھر آئی تھی۔ اسے تو بس صفان کا ساتھ مل گیا تھا، گھر کسی جنت سے کم کیسے لگتا۔ شادی پر بہت کم لوگ بلائے گئے، مگر جو بھی آئے صفان کی والدہ کو ایک بار ضرور کہہ کے جاتے۔
”آپ بہت خوش قسمت ہیں۔ صفان کی بیوی کسی پری سے کم نہیں۔“
آج صفان اور ادیوا خود کو کسی اور ہی دنیا میں فیل کر رہے تھے۔ اگرچہ ادیوا، صفان کی طرح expressive نہیں تھی، مگراپنے دل میں اس کے لیے ایک جنون رکھتی تھی اور جنون بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔
صفان نے منہ دکھائی میں ادیوا کو ایک نازک سا گولڈ کا سیٹ دیا، اگرچہ سونے چاندی کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی ان کے درمیان، لیکن وہ سیٹ ادیوا کے لیے دنیا کا سب سے قیمتی اور خوبصورت تحفہ تھا۔
کتنا پیارا احساس تھا اپنے نام کے ساتھ اس کا نام۔ ادیوا صفان وہ دل میں کئی بار اپنا نام اس کے نام سے جوڑ کے دھراتی رہی۔
صفان اب اس کے اتنے قریب تھا کہ وہ اس کی سانسوں کی حدت اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی اور وہ اس کے ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیے اسے اتنی محبت سے دیکھتا رہا اور اپنی محبت کا اظہار کرتا رہا، جو جذبات اس کی آنکھوں میں تھے وہ محبت کی انتہا پہ تھے۔
”ادیوا صفان دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی۔“
وہ دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر کرتی رہی۔
اگلے دن ولیمہ تھا، لہٰذا وہ اس کی مناسبت سے قریبی کسی پارلر سے تیار ہو گئی۔ اس کا برائٹ اورنج ویڈنگ ڈریس بہت جچ رہا تھا اور صفان بلیک تھری پیس میں کسی شہزادے سے کم نہ تھا۔
اسی طرح اگلے دو ہفتے وہ سب بہت مصروف رہے۔ صفان کی بہن زویا کی رخصتی بھی صفان کی شادی کے ڈیڑھ ہفتے بعد رکھ دی گئی تھی۔
صفان ادیوا کو کہیں گھمانے نہ لے جا سکا سوائے مری کے۔ وہ بھی وہ لوگ صبح گئے اور شام کو واپس آ گئے، کیوں کہ اگلے دن صفان کی جاب تھی۔
ادیوا کو کھانے بنانے نہیں آتے تھے، لہٰذا وہ اپنی ساس سے کچھ نہ کچھ سیکھتی رہتی اور رات کو جب سب واپس آتے، تو ادیوا کی تعریفوں کے پل بندھنے لگتے۔
وہ بہت خوش تھی، جس کسی سے ملتی یہی کہتی۔
”میں دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہوں۔“
اور اس گھر کا ہر فرد جو صفان کے لیے تھا، اتنا ہی معتبر اور پیارا ادیوا کے لیے تھا۔ اس نے اتنی خوبصورتی سے پورا گھر سنبھال لیا تھا۔ ورنہ ادیوا نے اپنے گھر میں کبھی اٹھ کر پانی تک نہ پیا تھا۔ صفان علی نے ادیوا کو محبت دینے میں کوئی کمی نہ چھوڑی تھی رات کو جب وہ تھکا ہارا آتا، تو دونوں بہت دیر تک چھت پر واک کرتے۔ اپنی جیب میں تھوڑے پیسے ہونے کے باوجود بھی وہ ہر روز آتے ہوئے ادیوا کے لیے کچھ نہ کچھ لے آتا، اسے Chocolate pasteries پسند تھیں اور صفان اکثر وہ لاتا۔ کبھی پھول کبھی چاکلیٹ ادیوا یوں خوش ہوتی، جیسے وہ پوری دنیا اس کے قدموں میں لا ڈالتا ہو۔ چیزیں چھوٹی بڑی نہیں ہوتی ان سے وابستہ خوشیاں چھوٹی بڑی ہوتی ہیں اور صفان علی کی ایک مسکراہٹ بھی ادیوا صفان کی زندگی کی بڑی خوشیوں میں سے ایک تھی۔
وہ اکثر ادیوا کو پیار سے ادو بھی کہا کرتا تھا۔ جب اسے بالکل ویسا پیار آتا ادیوا کی معصومیت پر جیسے بچوں پہ آتا ہو۔
وہ immature تھی،معصوم تھی مگر صفان علی کے گھر کا ہر فرد اس کی معصومیت کا گرویدہ تھا۔ تیز طرار لڑکیوں والی برائیاں ادیوا میں نہیں تھیں۔ وہ کھرّی تھی۔ اپنی محبتوں میں اور یہی بات صفان علی کو اکثر سوچوں میں الجھا دیتی۔ وہ اکثر سوچتا اور پریشان ہو جاتا۔
”ادیوا! تم سب کا اتنا خیال رکھتی ہو …… امی نے بتایا کہ آج بھی زین اور منان کے سارے کپڑے تم نے استری کر کے رکھے۔ گھر کی صفائی سے لے کر ہر کام تمھیں کرنا پڑتا ہے۔ پتا نہیں …… میں نے تمھارے ساتھ ٹھیک کیا ہے یا غلط۔“
ادیوا نے فوراً صفان کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ دیا اور بولی۔
”صفان! میں سچ بول رہی ہوں۔ مجھ پہ کوئی بوجھ نہیں ہے۔ یہ میرا گھر ہے اور اس عمر میں امی اٹھ کے کام کریں، تو مجھے اچھا تھوڑی لگے گا۔“
ادیوا جو کر رہی تھی، دل سے کر رہی تھی۔کبھی ہر ویک اینڈ پر وہ سب کے head massage کرتی‘ ذین اور منان کا ہر چیز کا خیال ایسے رکھتی جیسے حادی اور اشعر کا۔ اس نے کبھی کسی چیز کا تقاضا کیا ہی نہیں تھا۔ کیوں کہ تقاضا وہاں ہوتا ہے، جہاں کوئی کمی ہو اور اس گھر میں اتنی محبتیں تھیں کہ کمی اور تقاضوں کے لیے کوئی جگہ ہی نہ تھی۔
شادی کے بعد اپنی پہلی سیلری ملتے ہی وہ ادیوا کے پاس آیا اور اسے پکڑاتے ہوئے بولا۔
”آج سے اس پر تمھارا حق ہے۔ اب ا س گھر کے خرچوں کو تم مینج کرو گی۔“
ادیوا پہلے تو مسکرائی اور پھر اس کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے بولی۔
”اچھا جی! اتنی بڑی بڑی باتیں۔“
اور دونوں مسکرانے لگے۔
”صفان! آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ اپنی تنخواہ پہلے کسے لا کر دیتے تھے؟“
”امی کو دیتا تھا۔“ صفان نے جواب دیا۔
”تو پھر جناب! ایسا کریں۔ یہ ابھی بھی امی کو ہی دیں۔ مجھے کچھ بھی چاہیے ہو گا، تو میں امی سے کہہ دوں گی۔“
صفان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے ادیوا کو بے اختیار گلے سے لگالیا۔ وہ واقعی بہت اچھی تھی، سب سے بہت الگ۔
شادی ہوئے دو مہینے ہونے والے تھے اور وہ اپنے میکے صرف ایک بار آئی ہو گی۔ وہ بھی اسی وقت کچھ دیر بیٹھ کر صفان کے ساتھ واپس، اس لیے نہیں کہ صفان کو برا لگتا بلکہ ادیوا اپنے گھر کو اور گھر والوں کو زیادہ وقت دینا چاہتی تھی۔ وہ اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح سمجھتی تھی، اس لیے کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتی تھی۔ ادھر عمر حیات اور باقی گھر والے ادیوا کی پرابلمز کو سمجھتے تھے، اس لیے کبھی اسے insist نہیں کرتے تھے۔ جب وہ خوشی سے بات کرتی یا ملنے آتی، تو وہ بھی خوب انجوائے کرتے۔ ادیوا خوش تھی، ان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی بات اہم نہ تھی۔
آج شام بھی وہ صفان کے ساتھ چھت پر واک کر رہی تھی، مگر صفان خلاف معمول آج بہت پریشان تھا اور چُپ سا۔ ادیوا کے بار بار پوچھنے پر اس نے بتایا۔
” ایک ورکر کی وجہ سے شاپ پر کچھ مسئلہ ہو گیا ہے اور کیش اچھا خاصا شارٹ ہے سیلز کی نسبت۔ میں چوں کہ مینیجر ہوں، اس لیے ادائیگی بھی مجھے پڑی ہے اور اگلے کچھ مہینوں تک سیلری سے ٪۰۵ کٹتا رہے گا اور گھر کے خرچے کیسے مینج ہوں گے میں نہیں جانتا ادیوا!“
ادیوا نے اسے بہت تسلی دی اور پھر رات کو خود کافی دیر تک وہ اس مسئلے کاحل سوچتی رہی۔ وہ صفان سے کیا وعدہ بھی نہیں توڑ سکتی تھی۔ ورنہ اس کے ایک فون کال سے پیسے اس کے اکاؤنٹ میں ہوتے۔ عمر حیات نے ادیوا کے جہیز اور باقی کے سب پیسے اس کے لیے سیو رکھ دیے تھے۔ بہت دیر سوچنے کے بعد کوئی حل نہ نکلا، تو وہ پریشان سی سو گئی۔
اگلے دن وہ اٹھی، تو صفان کی امی کے کچھ رشتے دار گھر آئے۔ آنٹی کی کوئی بہت قریبی کزن جن سے غالبا کسی لڑائی کے بعد اب صلح ہوئی تھی اور آنٹی نے بہت پرجوش ویلکم دیا انھیں۔ ادیوا صبح سے کچن میں بزی تھی اور مسلسل ایک ہی بات سوچ رہی تھی کہ دو مہینے میں آنٹی کے پانچ سو رشتے دار آ چکے تھے، مگر انکل کا کوئی ایک بھی نہیں۔ حالاں کہ شادی پر صفان کی چچا زاد بہنیں اور تایا کی فیملی سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ خیر بعد میں پتا چلا کہ وہ لوگ آنٹی کی ہی وجہ سے نہیں آتے، وہ بھی جب فون پر صفان کے چچا کی بیٹی ماریہ سے بات ہوئی تھی، تو ادیوا کو یہ سب معلوم ہوا۔
آنٹی کے ایک ہی بھائی تھے، جو کچھ عجیب سی پرسنالٹی کے مالک تھے۔ ادیوا ہمیشہ ان کے سامنے کچھ uncomfortable ہو جاتی تھی۔ انھوں نے اپنی بیوی کو ڈائیورس دے دی تھی اور وہ بھی دو بچوں کے باوجود اور آج کل آنٹی اپنے بھائی کے لیے رشتے ڈھونڈ رہی تھیں۔عمر میں تقریباً ۸۳ سال کے ہوں گے فردوس ماموں۔
صفان کے پاپا بہت ہی نائس تھے۔ ادیوا کام ختم کر کے ان کے پاس اکثر جا کر بیٹھ جاتی۔ وہ بہت شفقت سے پیش آتے۔ بہت ہی attractive اورdecent پرسنالٹی کے مالک تھے، لیکن ان کی بس ایک کمزوری تھی۔ آنٹی سے بے پناہ محبت کی وجہ سے ان کی غلط ہاں میں بھی ہاں ملا دیتے تھے۔۔ بس یہی کمزوری تھی ان کی شخصیت میں۔
ادیوا کئی دنوں سے صفان کی اس پریشانی کو کم کرنے کا سوچ رہی تھی اور ایک آئیڈیا آ ہی گیا اس کی ذہن میں۔
صفان کو شاپ پر ہی کال کی۔
”صفان! آپ بزی تو نہیں؟ مجھے بات کرنی تھی آپ سے۔“
”ادیوا! میں تمھیں کال بیک کرتا ہوں ۰۱ منٹ میں …… ابھی ایک کسٹمر ہے۔“
”جی! ٹھیک ہے۔“
ادیوا نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا۔
کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی بجی اور اب صفان اس سے مخاطب تھا۔
”صفان! وہ میں یہ سوچ رہی تھی کہ خود کو کہیں بزی کر لوں۔ میں گھر میں بہت بور ہو جاتی ہوں۔ آپ اجازت دیں، تو کوئی جاب کر لوں۔ ٹیچنگ وغیرہ…… وہ بھی صرف اپنا وقت گزارنے کے لیے، آپ بھی رات ۰۱ بجے سے پہلے واپس آتے نہیں اور میں بور ہو جاتی ہوں بہت۔“
ادیوا نے کہانی بہت اچھی گھڑی تھی۔
صفان کو ذرا بھی شک نہ ہوا کہ اس کے پیچھے ادیوا کا کیا مقصد ہے۔ وہ ادیوا کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس تھا، شاید اسی لیے اسے تشویش ہونے لگی۔ ایک تو وہ پہلے ہی سے حساس تھا کہ وہ ادیوا کے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہا اور اب یہ مسئلہ،اس لیے اس نے ادیوا کو کھلے دل سے اجازت دے دی۔ وہ بہت خوش ہوئی۔
اس نے جابز اپلائے کرنی شروع کیں۔
جو گھر کے پاس سکولز تھے ان کا ایک تو نہ پے سکیل اچھا تھا نہ سکول کا سٹینڈرڈ۔ ادیوا کو گھر سے دور ایک پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول میں کمپیوٹر ٹیچر کی جاب آفر ہوئی اور سیلری بھی اچھی تھی۔ لہٰذا صفان اور آنٹی‘ انکل کی اجازت سے اس نے جاب سٹارٹ کر دی۔ صفان نے اسے پک اینڈ ڈراپ لگوا دی، تا کہ اسے بالکل کوئی تکلیف نہ پیش آئے۔ محبت کے معاملے میں توصفان بھی ادیوا سے پیچھے نہیں تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی ہر چھوٹی سی چھوٹی بات کا دل و جان سے خیال رکھتے۔
اب ادیوا کو سکول جاتے ایک ہفتہ ہو چکا تھا اور سکول سے واپسی پر وہ اس قدر تھک جاتی کہ بہت مشکل تین منزلہ مکان کی سیڑھیاں چڑھ کر گھر میں داخل ہوتی، مگر اسے خوشی تھی کہ اس کی سیلری سے ایٹ لیسٹ گھر کے کچھ اخراجات مینج تو ہوں گے اور وہ پھر سے اپنے صفان کے چہرے پر وہ سکون اور اطمینان دیکھ سکے گی۔
جیسے جیسے دن گزرتے گئے ادیوا آنٹی کے عجیب و غریب رویوں کو محسوس کرنے لگی۔ وہ جب گھر میں داخل ہوتی، وہ آگے اپنی کزن اور ان کی جوان بچیوں کے ساتھ مصروف ہوتی اور پھر آہستہ آہستہ گھر کے کاموں پہ وہ ادیوا کو غیر محسوس طریقے سے رئیلائز کروانے لگ گئیں کہ یہ بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ ادیوا سکول سے تھکی ہاری تین چار بجے گھر پہنچتی، تو آگے گھر کے ڈھیروں کام اس کے منتظر ہوتے اور وہ آنٹی کی کزن تو اب بلا ناغہ ان کے گھر براجمان ہوتیں۔خیر ادیوا چپ چاپ کرتی رہی، مگر آہستہ آہستہ وہ اس رویے سے اندر ہی اندر ہرٹ ہوتی گئی۔
صفان سے بھی شیئر کرنے والی یہ بات نہ تھی اور اب تو آنٹی نے بہت ہی عجیب حرکت کرنا شروع کر دی۔ ادیوا کو کام سے عین اس وقت چھوڑنے کا کہنا جب صفان کے آنے کا ٹائم ہوتا۔ ادیوا کو کہا جاتا۔
”جاؤ! جا کر تیار ہو جاؤ …… فریش ہو جاؤ! صفان آ رہا ہو گا، خوش ہو جائے گا تمھیں تیار دیکھ کر۔“
اور وہ خوشی خوشی صفان کے لیے سجنے سنورنے لگتی۔
صفان جب بھی آتا ادیوا کو اپنے کمرے میں پاتا اور ماں کو کچن میں اکیلا کام کرتے دیکھتا۔ کچھ دن تک تو سب یوں ہی چلتا رہا اورصفان کے رویے میں بھی ادیوا کے لیے بدلاؤ آنے لگا۔ ادیوا بہت واضح طور پر یہ چینج فیل کر سکتی تھی، مگر وہ اس کی وجہ سمجھ نہ پا رہی تھی۔
اور پھر ایک دن وہ آیا اپنے اسی ٹائم پر اور ادیوا اس کے آنے سے ہارڈلی دس منٹ پہلے اندر آئی ہو گی۔ آنٹی کے ساتھ کچن میں ساری ہیلپ کروا کر، کیوں کہ آنٹی کھانا خود بنانا چاہتی تھیں۔ باقی تو سارے کام ادیوا ہی کرتی تھی۔
صفان علی کا معمول ہوتا تھا کہ گھر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اپنے کمرے میں آتا تھا، مگر اس دن وہ سیدھا کچن میں گیا اور زور زور سے بولنے لگا۔
”امی! آپ پہ فرض ہے کہ اس گھر کے سارے کام آپ ہی کریں گی۔؟؟؟ ادیوا …… ادیوا……!“
وہ زور زور سے چلانے لگا۔ ایسا اس کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا۔ آج تک کسی نے اتنے غصے میں اس کا نام نہیں لیا تھا۔ وہ ڈری ڈری سی کچن میں داخل ہوئی۔
”جی صفان……!“
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...