گلزار بیگم اس وقت داور کے کمرے کے دروازے کے باہر موجود تھیں۔
ساتھ میں ملازمہ ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لئے کھڑی تھی۔
داور دوپہر میں وہاں سے آنے کے بعد سے کمرے میں بند تھا اور اب رات ہونے کو آئی تھی۔
گلزار بیگم جب اس کے باہر نکلنے کا انتظار کرکے تھک گئیں تو دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے لئے کھانا لے کر آئی تھی۔
پر اب کئی بار کی دستک کے بعد بھی جب دروازہ نہ کھلا تو ان کو تشویش ہونے لگی۔
انہوں نے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر گھمایا تو وہ ان لاک ہونے کی وجہ سے کھلتا چلا گیا۔
انہوں نے قدم اندر کی جانب بڑھائے تو انکا دل دہل گیا۔ پورے کمرے میں سامان اور ٹوٹے ہوئے کانچ کی کرچیاں بکھری ہوئی تھیں۔
پر انہیں داور کہیں نظر نہیں آیا۔
وہ کانچ اور بکھرے سامان سے بچتی بچاتی آگے بڑھیں تو بیڈ کے دوسری جانب کا منظر دیکھ ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔
بے ساختہ انکا ہاتھ ان کے دل پر رکھا گیا۔
وہاں پر داور نیچے زمین پر حوش و حواس سے بیگانہ پڑا تھا۔ اور ساتھ ہی مشروب کی ٹوٹی ہوئی بوتل پڑی ہوئی تھی۔
” داااااااورررر ”
وہ چیخ مار کر اس کی جانب بڑھیں اور اس کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور اسے پکارنے لگیں۔
پر اگر وہ حوش میں ہوتا تو جواب دیتا ناں۔
” زرینہ جائو شاہ جی کو بلائو۔ ”
زرینہ جلدی سے بھاگ کر صفدر علی شاہ کے پاس گئی اور بولی۔
” بڑے سائیں وہ دیکھیں آکر چھوٹے سائیں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے ”
زرینہ کی بات سن کر وہ بھاگ کر داور کے کمرے میں آئے۔ وہاں کی حالت دیکھ کر انہیں لگا جیسے کسی نے انکا دل مٹھی میں لے کر مسل دیا ہو وہ داور کی جانب بڑھے۔
” اللہ ڈنو کو بلائو۔ ”
صفدر علی شاہ چلائے۔
اللہ ڈنو اور دو تین اور ملازموں کی مدد سے اسے گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے کر آئے کہ داور جیسے مرد کو اٹھانا دو لوگوں کے بس کی بات نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری شاہ فیملی اس وقت آئی سی یو کہ باہر موجود تھی۔ زوار گلزار بیگم کو بازووں کے حلقے میں لئے بیٹھا تسلی دے رہا تھا۔ وہ اپنے ماموں کی عیادت کے لیے دوسرے شہر گیا ہوا تھا کہ حویلی پہنچنے پر اسے شاعر کی طبیعت کا پتا چلا تو وہ سیدھا ہسپتال چلا آیا۔
نجمہ بیگم مشعل کو سینے سے لگائے خود بھی رونے میں مصروف تھیں۔
صفدر علی شاہ ایک جانب پژمردہ سے کھڑے تھے۔
پہلی دفعہ ہی میں اس کے اس قدر زیادہ پینے کی وجہ سے اس کی حالت بگڑ گئی تھی۔
ڈاکٹر اس کا معدہ واش کر رہے تھے۔
ڈاکٹر نے اگلے چوبیس گھنٹے انتہائی اہم قرار دیئے تھے اگر ان چوبیس گھنٹوں میں اسے ہوش آگیا تو ٹھیک ہے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
ابھی وہ سب دعائوں میں مشغول تھے کہ ایک دم آئی سی یو کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر صاحب باہر نکلے۔
صفدر علی شاہ ان کی طرف لپکے اور داور کی حالت کے بارے میں پوچھا۔
” دیکھیئے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا ۔۔ پیشنٹ کی حالت انتہائی نازک ہے۔ ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں آپ بھی دعائیں جاری رکھیں۔ ”
ڈاکٹر تسلی دیتے ہوئے بولے۔
” میرے بیٹے کو کچھ نہیں ہونا چاہیئے۔ تمہیں جتنے پیسے چاہیئے لے لو۔ پر! اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا ناں تو تمہارا پورا ہسپتال تباہ کر دونگا میں۔ ”
صفدر صاحب نے ڈاکٹر کا گریبان دبوچا۔
زوار نے آگے بڑھ کر انہیں ڈاکٹر سے دور کیا اور انہیں جانے کا اشارہ کیا ۔
” تایا سائیں کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ داور بھائی کو کچھ نہیں ہوگا۔ پورا گاوں ان کے لئے دعائوں میں مشغول ہے۔ ارے جس انسان کے ساتھ اتنی دعائیں ہوں اسے بھلا کچھ ہو سکتا ہے۔ ”
زوار خود پریشان تھا کہ داور جو ان برائی سے کوسوں دور رہتا تھا وہ کیسے اس حرام چیز کو ہاتھ لگا گیا۔ پر ابھی صفدر صاحب یا کوئی بھی اسے بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ وہ داور کے ٹھیک ہونے پر ساری بات پوچھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
” میں ان لوگوں کو بالکل نہیں چھوڑونگا جن کی وجہ سے میرا بیٹا اس حال میں پہنچا ہے۔ ”
صفدر شاہ دل میں مصمم ارادہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوہا کے گھر میں نکاح کی تیاریاں زور و شور سے کی جا رہی تھیں۔
رمشا کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا آخر کو اس کی عزیز از جان دوست اور کزن اس کی بھابھی بننے والی تھی۔
فائز ایک بار زوار سے بات کرنا چاہتا تھا پر اس کا فون نہیں لگ رہا تھا۔ وہ اس سے پوچھنا چاہتا کہ جب وہ جانتا تھا کہ فائز زوہا کو پسند کرتا ہے تو وہ کا طرح اپنے کزن کا رشتہ زوہا کے لیے آنے دے سکتا ہے۔
گھر میں سب ہی مطمئن تھے سوائے زوہا کے جس نے اظہار صاحب کی وجہ سے ہاں تو کردی تھی پر وہ مطمئن نہیں ہو پا رہی تھی۔
اس کی چھٹی حس اشارہ کر رہی تھی کہ کچھ غلط ہونے والا ہے پر وہ سب کے مطمئن چہرے دیکھ کر اپنی ساری سوچوں کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی۔
نکاح ایک ہفتے بعد ہونا قرار پایا تھا۔
رمشا زوہا کو بلانے آئی تھی وہ نکاح کا ڈریس لانے جا رہی تھی۔ تو عائلہ بیگم بولی زوہا کو بلا لو وہ اپنی مرضی کا لے لے گی۔
” رمشا تم جا کر لے آئو ہماری پسند کون سی الگ ہے۔ ”
” زوہا کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ تم تو ہمیشہ شاپنگ کے لئے ریڈی ہوتی ہو پھر آج کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ تم خوش تو ہو ناں؟ ”
” رمشا ایسی کوئی بات نہیں ہے تم غلط سوچ رہی ہو۔ میری بس طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔ ”
” کیوں کیا ہوا تمہاری طبیعت کو اچھی بھلی تو بیٹھی ہو۔ ”
رمشا اسکا ماتھا چھوتی ہوئی بولی۔
” ہاں وہ سر میں درد ہے مجھے۔ ”
” تم اٹھو !!! شاپنگ کرکے تمہارا سر کا درد خود ہی غائب ہو جائے گا۔ ورنہ میں فائز بھائی کو بھیج دیتی ہوں اب وہی کریں گے تمہارے سر درد کا علاج۔ ”
رمشا زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتی اسے چھیڑتے ہوئے بولی ۔۔۔
” فضول بکواس مت کرو۔ چھوڑو مجھے چل رہی ہوں میں ”
زوہا ہار مانتی ہوئی بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بائیس گھنٹے ہونے کو آئے تھے پر داور کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا اب تو ڈاکٹرز بھی مایوس ہو رہے تھے داور کی حالت کو دیکھ کر۔
مشعل پریئر روم میں جائے نماز پر بیٹھی اپنے بھائی کی زندگی کے لیے دعائوں میں مشغول تھی۔
گلزار اور نجمہ بیگم آئی سی یو کے باہر تسبیحات میں مشغول تھیں۔
گلزار بیگم کی آنکھیں ایک منٹ کے لئے بھی خشک نہیں ہوئی تھیں۔
زوار صدقہ کرنے گیا ہوا تھا۔
جبکہ صفدر علی شاہ ایک کونے میں کھڑے کسی سے فون پر مصروف تھے۔
” ہاں بولو کیا رپورٹ ہے۔ ”
صفدر علی شاہ نے پوچھا۔
” سر ان کے گھر میں نکاح کی تیاریاں چل رہیں ہیں ایک ہفتے بعد نکاح ہے اور وہ لڑکی ابھی خریداری کے لئے نکلی ہے اگر آپ حکم کریں تو۔ ”
” نہیں لڑکی کو کچھ نہیں ہونا چاہیئے۔ آگے کیا کرنا ہے یہ ہم تمہیں بتا دیں گے۔ بس تم آنکھیں اور کان کھلے رکھو۔ ”
صفدر علی شاہ اس کی بات کاٹ کر بولے۔
” جی بہتر۔ ”
میرے بیٹے کو اس حال میں پہنچا کر خود اپنے گھر میں شہنایاں بجا رہے ہیں۔ چھوڑوں گا نہیں تباہ کر دوں گا۔
فون رکھ کر وہ دل ہی دل میں بولے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوبیس گھنٹے ختم ہونے میں آدھا گھنٹا باقی تھا کہ نرس ان کے لئے زندگی کی نوید لے کر آئی۔
” آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔ ”
” یا اللہ تیرا شکر ہے۔ ”
سب کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
گلزار بیگم نے اپنے ہاتھ سے ایک قیمتی انگوٹھی اتاری اور نرس کو دیتے ہوئے بولیں۔
” تم نے اتنی مبارک خبر ہمیں سنائی ہے۔ یہ تمہارا انعام ہے۔ ”
نرس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ گلزار بیگم بولیں۔
” بیٹا منع مت کرنا۔ ایک ماں کا پیار سمجھ کر رکھ لو۔ ”
وہ اسے زبردستی انگوٹھی پکڑاتی ہوئی بولیں۔
” کیا ہم مل سکتے ہیں اپنے بیٹے سے۔ ”
انہوں نے بے قراری سے پوچھا۔
” جی ہم انہیں روم میں شفٹ کر رہے ہیں۔ پھر آپ مل سکتے ہیں۔ ”
نرس یہ کہہ کر چلدی۔
” میں ذرا شکرانے کے نفل ادا کرلوں اور مشعل کو بھی خوشخبری سنا دوں۔ ”
گلزار بیگم یہ کہہ کر پریئر روم کی طرف چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” آپکے پیشنٹ کو روم میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ آپ اب مل سکتے ہیں انہیں۔ ”
نرس نے انہیں اطلاع دی۔
وہ سب داور کے کمرے میں داخل ہوئے۔
گلزار بیگم نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹا۔
کیونکہ سامنے لیٹا ہوا داور کہیں سے بھی وہ داور نہیں لگ رہا تھا جو دو دن پہلے انہیں اپنی پسند سے آگاہ کر رہا تھا۔ کیسی چمک تھی اسکے چہرے پر۔
اور اب وہ دو دن میں ہی صدیوں کا بیمار لگ رہا تھا۔
” داور میرے شیر۔ ”
صفدر صاحب نے اسے پکارا۔
ان کی آواز سن کر اس کی پلکوں میں جنبش ہوئی اور دھیرے دھیرے اس نے اپنی آنکھیں کھولی اور سامنے کھڑے صفدر صاحب کو دیکھ کر نقاہت سے مسکرایا۔
پر وہ باپ تھے ناں اس کی مسکراہٹ میں چھپا درد پہچان گئے۔
” داور میرے بچے میری جان۔ ”
گلزار بیگم اسکی جانب بڑھی۔
ان کو دیکھ کر اس نے بیٹھنا چاہا پر اس سے بیٹھا نہ گیا تو آگے بڑھ کر زوار نے اسے سہارا دے کر بٹھایا۔
گلزار بیگم اس کے پاس بیٹھیں اور اسکا ماتھا چوم کر بولیں.
” داور تجھے اپنی بوڑھی ماں کا ایک دفعہ بھی خیال نہ آیا. کیا اس کی دو دن کی محبت ہماری برسوں کی محبت پر غالب آ گئی. ”
” اماں سائیں معاف کردیں مجھے میں ہوش میں نہیں تھا. مجھے تو حرام حلال کا فرق بھی بھول گیا تھا۔ اب میں اپنے خدا کو کیا منہ دکھائوں گا. ”
داور ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے سر جھکا کر رو دیا۔ شاید اپنی بتیس سالہ زندگی میں ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ رویا تھا.
” نہیں میرے لعل تیری کوئی غلطی نہیں تو دل پر نہ لے.وہ اللہ بہت بڑا ہے وہ سب کو معاف کردیتا ہے. ”
وہ اس کے ہاتھ کھولتے ہوئے بولیں.
صفدر صاحب نے آگے بڑھ کر داور کو سینے سے لگایا اور اس کی پیٹھ تھپکتے ہوئے بولے.
” میرے شیر سب ٹھیک ہو جائے گا تو فکر مت کر. ”
” میں ٹھیک ہوں بابا سائیں. ”
وہ ان سے الگ ہوتا ہوا منہ صاف کرتا ہوا بولا.
پھر اس کی نظر ایک کونے میں کھڑی روتی ہوئی مشعل پر پڑی.
” کیا ہوا میری چڑیل نہیں ملے گی کیا مجھ سے. ”
تو مشعل ایک دم سے بھاگ کر اس کے سینے سے لگ گئی اور تیز تیز رونے لگی.
” ارے چڑیل ابھی زندہ ہوں میں خاموش ہو جائو. ”
اور اسے خود سے الگ کر کے اسکے آنسو صاف کئے۔.
” دیکھو بالکل ٹھیک ہوں میں اگر تم اور روئی نہ تو زوار مجھ سے ناراض ہو جائے گا کہ میں تمہیں رلا رہا ہوں. ”
اس نے ایک نظر زوار کو دیکھا جو اسی کی جانب دیکھ رہا تھا اور شرما کر سر جھکا کے روتے روتے مسکرا دی۔
” ہاں وہ ایسا ہی تھا خود تکلیف میں ہوتے ہوئے بھی روتوں کو ہنسانے والا۔ ”
سُدھ بُدھ اپنی
گنوا بیٹھا ہوں
اُلٹ سُلٹ میں جیون
الجھا بیٹھا ہوں
سانس کی ڈور زور لگائے
جیون میرا روز گھٹائے
اکھیاں جو پونچھوں
اکھیاں پھر بھر آئیں
من گھومت گھامت
پھر بھید یہ پائے
تم بن میرا من گھبرائے
پیا تُو مورے جی کو بھائے !!!
Copied
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور کو دو دن بعد ہسپتال سے چھٹی مل گئی تھی اور آج وہ دو دن بعد گھر آ رہا تھا۔
زوار اور صفدر صاحب داور کے ساتھ تھے باقی سب کو انہوں نے پہلے ہی گھر روانہ کر دیا تھا۔
گلزار بیگم داور کا کمرہ اپنی سرپرستی میں صاف کروا رہیں تھیں۔ ان دو دنوں میں صفدر صاحب نے اس کے کمرے کو بالکل پہلے جیسا کروا دیا تھا۔
مشعل اس کے لئے پرہیزی کھانا بنوا رہی تھی۔
اسی اثناء میں میں گاڑی کا ہارن بجا دونوں اپنے اپنے کام چھوڑ کر باہر کی جانب بھاگی۔
داور ، زوار کے سہارے چلتے ہوئے حویلی کے اندر داخل ہو رہا تھا۔
” زوار !!! داور کو اس کے کمرے میں لے جائو۔ ”
صفدر صاحب زوار سے بولے۔
” جی تایا جان۔ ”
یہ کہہ کر زوار داور کو لئے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ کمرے میں پہنچ کر زوار نے اسے بیڈ کرائون سے ٹیک لگا کر بیٹھا دیا اور بولا۔
” بھائی آپ ایسے تو نہ تھے۔ ایک لڑکی کے لئے آپ نے اپنا یہ حال کر لیا۔ ”
” یار تجھے بن مانگے تیری محبت مل گئی ناں اسی لئے ایسا بول رہا ہے۔ مجھے تو ایک دن نہیں ہوا تھا محبت ہوئے کہ مجھے پتا لگا کہ میری محبت تو میری ہے ہی نہیں۔ ”
” ہاں فائز اسے بچپن سے پسند کرتا تھا۔ وہ مجھے پر غصہ ہو رہا گا کہ میں نے سب جانتے ہوئے بھی آپ لوگوں۔کو نہیں روکا۔ پر اس نے یہ کبھی نہیں بتایا تھا کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے۔ ”
” اس کے گھر والوں نے یہی کہا ہے کی اس کی بات فائز سے طے ہے۔ ”
” نکاح ہے دو دن بعد انکا۔ ”
داور کو اسکے ملازم خاص سے پتا چلا تھا۔
” مطلب اس نے زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ لے لیا اور مجھے بتایا بھی نہیں۔ حالانکہ ہم تو اپنی ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے۔ ”
زوار دکھ سے بولا ۔۔۔
” اچھا تم دکھی نہ ہو۔ تم اس سے مل کر ساری بات کلیئر کر لینا۔ ”
وہ ایسا ہی تھا سب کی فکر کرنے والا اپنے غم میں بھی دوسروں کا خیال کرنے والا۔
” اور کام کیسا چل رہا ہے۔ ؟؟؟ وہ اس کا دھیان بٹانے کی خاطر کاروباری باتوں میں مشغول ہو گیا۔
اندر داخل ہوتے ہوئے صفدر صاحب کے قدم ان کی باتوں نے روک لئے۔ یعنی ان لوگوں نے غلط بیانی کی ہم سے۔ اس کے بعد وہ کسی کو فون لگا کر ہدایت کرنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...