صبح تک وہ سسکیوں کے ساتھ روتی رہی تھی… شدت گریہ کے باعث آنکھوں میں گلابی پن سا پیدا ہو رہا تھا… جب کمرے کے باہر لاؤنج میں چہل پہل کا احساس ہوا تو وہ گال رگڑتی ہوئ اٹھی… واش بیسن کے سامنے جا کر نہ جانے کتنی دیر تک چہرے اور متورم آنکھوں پر پانی کے چھپاکے مارتے ہوۓ آنکھوں کی سرخی کم کرنے کی کوشش کی… تولیے سے چہرہ رگڑنے کے بعد نظریں آئینے میں موجود اپنے عکس پر جمائیں… چہرے کی سرخی اور آنکھوں کی سوجن صاف بتا رہی تھی کہ وہ کافی دیر روتی رہی ہے… تھک کر وہ باتھ روم سے نکل کر بیڈ پر آ بیٹھی… ذہنی الجھن اور پریشانی میں مزید اضافہ ہی ہوا تھا… دل میں ایک عجیب سا ڈر بیٹھ چکا تھا… جسے وہ لاکھ کوشش کے باوجود ختم کرنے میں ناکام رہی تھی… ڈریسنگ مرر سے دل کا نشان وہ بے دردی سے پہلے ہی مٹا چکی تھی…
کچھ ہی دیر بعد کومل اس کے کمرے میں چلی آئ…
“کیا ہو رہا ہے دلہن صاحبہ… لگتا ہے میڈم ابھی سے شرمانے کی پریکٹس کر رہی ہیں تا کہ کل حسن بھائ کو شرما شرما کر دکھا سکیں…” کومل شوخ لہجے میں کہتی دھپ سے اس کے برابر آ بیٹھی… ہانیہ نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر خود کو نارمل کرنا چاہا… لیکن اس کی طرف رخ کرنے سے گریز ہی برتا… نہ ہی اس کی بات کا کوئ جواب دیا کہ کہیں بات کرنے سے پہلے آنکھوں سے آنسو ہی نہ بہہ نکلیں…
“کیا ہوا ہانیہ… جواب نہیں دیا تم نے… اتنی خاموش کیوں ہو…؟؟” کومل نے آگے کو جھک کر اس کا چہرہ دیکھا… پھر چونکی…
“تم… تم رو رہی ہو…؟؟” وہ حیرت سے چلّائ… ہانیہ لب کاٹ کر رہ گئ اس کی بات پر…
“نہیں… وہ… بس ایسے ہی…” کمزور سے لہجے میں ہانیہ نے صفائ پیش کرنے کی کوشش کی…
“بی بریو یار… یہ وقت تو ہر لڑکی پر آتا ہے… میں جانتی ہوں پیرنٹس کو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے ہم لڑکیوں کے لیے… لیکن تم تو اس حوالے سے بہت خوش قسمت ہو ہانیہ… کہ یہیں پڑوس میں ہی بیاہ کر جا رہی ہو… دیوار سے دیوار ملی ہے دونوں گھروں گی… جب چاہو ادھر آؤ جب چاہو سسرال جاؤ… ارے رونے کی کیا بات ہے پگلی… چپ ہو جاؤ… بالکل چپ…” ماں باپ کی جدائ کے خیال نے اس کا پردہ رکھ لیا تھا ورنہ وہ ایسی حالت میں نہ تھی اس وقت کہ کسی بھی سوال کا جواب دے سکتی… البتہ کومل کی باتوں پر آنکھیں پھر سے نم ہو چکی تھیں… کومل نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ تسلی دینے کی کوشش کی… چند لمحوں بعد ہانیہ کی حالت قدرے بہتر ہوئ تو وہ سیدھی ہو کر بیٹھی… کچھ سوچ کر کومل کی طرف متوجہ ہوئ…
“کومل… ایک کام کرو گی میرا…؟؟” بھرائ آواز میں اس سے پوچھا تھا… کومل نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا… پھر اثبات میں سر ہلا دیا…
“مجھے حسن سے ملنا ہے… بہت ضروری بات کرنی ہے اس سے… پلیز کسی بھی طرح ملاقات ارینج کروا دو…” اس کا ہاتھ تھامے وہ منت کر رہی تھی… کومل نے حیرت سے اسے دیکھا…
“صرف ایک ہی تو دن باقی ہے ہانی… جہاں اتنے دن ویٹ کیا وہاں ایک دن اور ویٹ کر لو… اب تو دونوں گھروں میں مہمان آ چکے ہیں… ایسے میں تم دونوں کا ملنا کچھ مناسب نہیں لگتا مجھے… اور پھر اپنے رشتہ داروں کا تو پتا ہے تمہیں… ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں… کسی کی نظر پڑ گئ تو سو باتیں سنائیں گے… ” کومل نے اسے سمجھانے کی کوشش کی…
“تم سمجھ نہیں رہی ہو کومل… میرا اس سے ملنا بہت ضروری ہے… اور آج ہی ملنا ضروری ہے… صرف چند منٹ کے لیے… پلیز…” وہ روہانسی ہونے لگی… کومل نے پریشانی سے اسے دیکھا…
“کیا بات ہے ہانیہ… کوئ مسئلہ ہے کیا…؟؟ کسی ٹینشن میں ہو تم…؟؟مجھے بتاؤ… ہو سکتا ہے میں کوئ حل نکال لوں… اور اگر حل نہ بھی نکال سکی تو حسن بھائ تک تمہارا پیغام پہنچا دوں گی… ” کومل اس کی حالت اور اس کی بے چینی کو دیکھ کر خود بھی پریشان سی ہو گئ تھی… ہانیہ لب کاٹتی خاموش رہ گئ…
“تم صرف یہ پیغام دے دینا حسن کو… کہ مجھے آج ہر حال میں اس سے ملنا ہے… کسی بھی طرح… بس…” وہ قطعی لہجے میں کہہ گئ… کومل چند لمحے اسے دیکھتی رہی…
“ٹھیک ہے… کہہ دوں گی حسن بھائ سے… اور میں کرتی ہوں کچھ… آج رات مہندی کے فنکشن کے بعد کوشش کروں گی کہ تم دونوں کو ملوا سکوں… ٹھیک ہے نا… اب پریشان ہونا بند کرو… ورنہ سب سوال جواب کرنے لگیں گے تم سے… ” کومل کی بات پر ہانیہ فقط سر ہلا کر رہ گئ…
💝💝💝💝💝
سارا دن ہانیہ نے بے چینی کے عالم میں گزارا… سہ پہر میں مہرالنساء نے اسے کومل کے ساتھ پارلر کے لیے روانہ کر دیا… شفیق صاحب ان دونوں کو پارلر ڈراپ کر کے خود کسی کام کے سلسلے میں چلے گۓ… مہندی وغیرہ لگوا کر رات آٹھ بجے ان دونوں کی واپسی ہوئ… تب تک گھر میں مزید مہمان بھی آ چکے تھے… گھر کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا… لان میں مہندی کے فنکشن کا انتظام کیا گیا تھا… جہاں دلہا اور دلہن کے لیے پھولوں سے سجا جھولا موجود تھا… ہانیہ کو کچھ دیر آرام کی غرض سے اس کے روم میں بھیج دیا گیا… لیکن سکون تو ایک پل کو میسر نہ تھا…وہ جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر سے ادھر چکراتی رہی… نو بجے کومل کے ساتھ بیوٹیشن اس کے کمرے میں آئ… مہندی کا لباس زیب تن کرنے کے بعد ہانیہ اسٹول پر بیٹھی تھی جبکہ بیوٹیشن اب اپنی مہارت کا استعمال کرتے ہوۓ اس کے نقوش کو مزید جاذب نظر بنانے میں مگن تھی… کومل بھی ایک جانب اپنی تیاری کر رہی تھی… ہانیہ کسی سنگی مجسمے کی مانند چپ چاپ بیٹھی تھی… آنکھیں خشک ہو چکی تھیں… لیکن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دل کا ڈر بڑھتا ہی جا رہا تھا… رات کی وہ دھمکی بار بار کانوں میں گونجتی اور اس کے پورے وجود میں وحشت سرایت کر جاتی…
بیوٹیشن میک اپ کر کے فارغ ہوئ تو ہانیہ نے سرسری سی نگاہ آئینے پر ڈالی… لیکن نگاہ نے واپس لوٹنے سے انکار کر دیا… خوبصورت تو وہ پہلے بھی تھی لیکن آج بیوٹیشن کے ہاتھوں نے اور کچھ شادی کے اس روپ نے اس کے حسن کو چار چاند لگا کر رکھ دئیے تھے… وہ اپنے چمکتے سراپے سے نگاہیں چرا کر ہاتھ دیکھنے لگی جہاں مہندی کا رنگ بھی خوب گہرا آیا تھا…
“حسن بھائ کے نام کی مہندی کا رنگ بتاتا ہے کہ وہ تم سے بے تحاشا محبت کرتے ہیں… ” بیوٹیشن اپنا سامان سمیٹ کر چلی گئ تو کومل نے جھک کر اس کی مہندی دیکھی پھر محبت سے اس کا چہرہ چھو کر مخاطب ہوئ… ہانیہ بمشکل مسکرا پائ…
“کومل… اپنا وعدہ یاد ہے نا…؟؟ ” اس نے یقین دہانی چاہی تھی… لہجے میں عجیب سی تشنگی کا احساس تھا..
“ہاں میری جان… یاد ہے…حسن بھائ سے بات بھی کر چکی ہوں میں… رات میں دو بجے تک وہ آئیں گے تمہارے گھر کے ٹیرس پر… امید ہے تب تک سب سو چکے ہوں گے… مل لینا پھر ان سے… اب میں ذرا دیکھ لوں کہ رسم میں کتنی دیر ہے…” کومل اس کا ہاتھ دبا کر تسلی دیتی کمرے سے نکل گئ… جبکہ ہانیہ کی نگاہیں پھر اپنے ہاتھوں پر جم گئ تھیں…
💝💝💝💝💝💝
ڈھول کی تھاپ اور شورو غل کی آوازوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ لڑکے والے آ چکے ہیں گھر… ہانیہ نے لان کی جانب کھلتی کھڑکی کا پردہ ذرا سا سرکا کر نیچے جھانکا… حسن کسی شہزادے کی مانند اپنے کزنز کے حصار میں چلتا ہوا لان میں سجاۓ گۓ جھولے کی جانب بڑھ رہا تھا… ان کے آگے کچھ مرد حضرات ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے میں مگن تھے… مووی میکر مووی بنا رہا تھا… جبکہ ہانیہ دور سے ہی حسن کے چہرے سے جھلکتی خوشی دیکھ سکتی تھی… بے ساختگی میں ہی اس کے چہرے پر مسکان ابھر آئ… وہ کھڑکی سے ہٹنے کا قصد کر ہی رہی تھی کہ اس کے کمرے کی لائٹس جلنے بجھنے لگیں… ہانیہ نے چونک کر کمرے میں چاروں طرف نگاہ دوڑائ… چند لمحے بار بار جلنے بجھنے کے بعد لائٹس بند ہو چکی تھیں… کمرے میں گھپ اندھیرا چھا گیا… جبکہ نیچے لان میں سب کچھ ویسے ہی روشن تھا… ہانیہ نے آگے بڑھ کر ٹیبل لیمپ آن کرنا چاہا لیکن بے سود… یوں لگ رہا تھا کہ ساری لائٹس ایک دم ہی خراب ہو گئیں تھیں جیسے… وہ خوفزدہ نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی… تبھی مخالف سمت کی کھڑکی کی جانب کچھ کھٹکا سا ہوا… ساتھ ہی پردے زور زور سے لہرانے لگے… ہانیہ بے ساختہ پیچھے ہٹی… باہر ہوا بالکل نہیں چل رہی تھی لیکن اس کے باوجود پردے لہرا رہے تھے… پھر کھڑکی کی چٹخنی کھلنے کی آواز سنائ دی… ہانیہ نے آنکھیں پھاڑ کر اندھیرے میں ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی… کھڑکی کھل کر خودبخود بند ہو گئ… ہانیہ ہڑبڑا کر تیزی سے دروازے کی جانب بڑھی… لیکن اس کے دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی دروازہ ٹھک سے بند ہو گیا…
ہانیہ نے بوکھلاہٹ میں بار بار دروازے کا ہینڈل گھما کر دروازہ کھولنا چاہا لیکن ناکام رہی…
“ہیلپ… ہیلپ می پلیز… کوئ ہے…؟؟” وہ چینخ چینخ کر کسی کو مدد کے لیے پکار رہی تھی… حلق سے آواز بھی مشکل سے نکل پائ تھی… لیکن سب گھر والے اور مہمان شاید اس وقت لان میں ہی موجود تھے لڑکے والوں کے استقبال کی غرض سے… تبھی اس کی فریاد کسی کے کانوں تک نہ پہنچ پائ…
ہانیہ نے بھاگ کر لان کی جانب کھلتی کھڑکی کی طرف جانا چاہا تاکہ وہاں سے کسی کو مدد کے لیے بلا سکے لیکن اس سے پہلے ہی کسی نے اس کا بازو تھام کر اسے بیڈ کی جانب دھکا دیا تھا… وہ لڑکھڑا کر اوندھے منہ گری… ہاتھوں کی چند چوڑیاں اس کی کلائ زخمی کرتیں ٹوٹ کر بیڈ پر ہی گر گئیں… منہ سے سسکاری سی نکلی تھی… ہیوی جیولری سیٹ کے جھمکوں کے باعث کانوں میں بھی شدید درد محسوس ہوا… لیکن ابھی اس درد سے کہیں زیادہ طاقتور وہ خوف تھا جس نے اسے اپنے حصار میں جکڑ رکھا تھا…
پردے ایک دم ہلنا بند ہو گۓ… اور بالکل کھڑکیوں کے برابر کر دئیے گۓ کہ باہر سے کسی کی نگاہ اندر نہ پڑ سکے… لان سے جو ہلکی سی روشنی کمرے میں آ رہی تھی اس کا راستہ بھی رک گیا…
ہانیہ کو کسی کی کمرے میں موجودگی محسوس ہو رہی تھی… سرد موسم کے باوجود وہ پسینے سے تر چہرہ لیے خوفزدہ سی بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی… تبھی ٹیبل لیمپ آن ہوا… اور ٹیبل لیمپ کی روشنی میں ہانیہ نے دیکھا کہ بیڈ پر جو کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ کر گریں تھیں ان کے ٹکڑے اب ہوا میں بلند ہوتے نیچے فرش پر گر رہے تھے… وہ خوفزدہ ہوتی اٹھ کر پیچھے ہوئ… لیکن پیچھے بیڈ کی پشت سے کمر ٹکرانے پر وہ وحشت بھری نگاہوں سے ان ٹوٹی چوڑیوں کو نیچے گرتے دیکھے گئ… ہونٹ کپکپا رہے تھے… منہ سے ایک لفظ تک نکال پانا محال ہو گیا تھا…
تبھی اسے لگا جیسے بیڈ پر اس کے بالکل مقابل کوئ آن بیٹھا ہے… وہ وجود دکھائ نہیں دے رہا تھا لیکن ہانیہ اس کی موجودگی کو محسوس کر سکتی تھی…
اس نے ڈر کر مزید پیچھے ہونے کی کوشش کی لیکن پیچھے گنجائش ہی نہ تھی… اس کی بندیا جو مانگ سے ہٹ چکی تھی اس ان دیکھے وجود نے ہاتھ بڑھا کر اس بندیا کو درست کیا… ہانیہ نے اذیت کے مارے آنکھیں سختی سے بند کر لیں… بیڈ پر اوندھے منہ گرنے کے باعث بالوں کی چند لٹیں چہرے پر پھسل آئیں تھیں… وہ وجود اب ان لٹوں کو اس کے چہرے سے ہٹا رہا تھا… ہانیہ بے بس سی لرزتے وجود کے ساتھ بیٹھی رہی… البتہ آنسو بے تاب ہوتے چہرے پر پھسل گۓ تھے… اسے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے اردگرد آگ لگی ہوئ ہے… شدید تپش محسوس ہو رہی تھی… اور یہ پہلی بار نہ تھا… وہ وجود جب جب اس کے نزدیک آتا تب تب اسے شدید گرمی کا احساس ہوتا…
چند لمحوں بعد اسے اپنی زخمی کلائ پر اس نادیدہ وجود کے ہاتھ کی گرفت محسوس ہوئ… اس نے بے ساختگی میں ہی ہاتھ کھینچا… لیکن اسے آزاد نہیں کیا گیا تھا…
“خوامخواہ زخم لگوا لیا نا کلائ پر… کیوں ظلم کر رہی ہو اپنے ساتھ…؟؟” سرگوشی نما آواز ابھری تھی… ساتھ ہی کلائ سے بہتا خون صاف ہونے لگا… ہانیہ کو اپنا بازو جلتا ہوا محسوس ہونے لگا اس لمس سے…
“چھوڑو میرا ہاتھ…” وہ گھٹی گھٹی آواز میں چلّائ… اپنے ہاتھ سے اس نظر نہ آنے والے ہاتھ کو جھٹکنے کی کوشش کی… لیکن کوشش اب بھی ناکام ہی ثابت ہوئ تھی… کچھ دیر بعد جب اس نے تھک کر کوشش ترک کر دی تو اس کا ہاتھ آزاد کر دیا گیا… لیکن وہ کوشش کے باوجود بیڈ سے اٹھ کر اس سے فاصلے پر نہ ہو پائ تھی…
“کتنا دور بھاگو گی مجھ سے… تمہیں کہیں جانے نہیں دوں گا میں… جب جب میں چاہوں گا تم کسی کچی ڈور سے کھنچتی ہوئ میری طرف چلی آؤ گی… کہا تھا نا… کہ مجبور مت کرو زبردستی کرنے پر… پیار سے سمجھایا تھا تمہیں… لیکن نہیں مانی میری بات… تمہیں تو میں کوئ تکلیف پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا… ہاں البتہ تمہاری وجہ سے اگر تمہارا وہ کزن جان سے گیا تو مجھ سے شکایت مت کرنا پھر… ” سنگین لہجے میں دھمکی دی گئ تھی… ہانیہ کے رونگٹے کھڑے ہو گۓ…
“نہیں.. تم ایسا کچھ نہیں کرو گے… خدا کا واسطہ ہے تمہیں… میرا پیچھا چھوڑ دو… بخش دو مجھے…” وہ ہاتھ جوڑتے ہوۓ گڑگڑائ تھی… دوسری جانب چند لمحے خاموشی چھائ رہی…
“مت کرو ایسے… بہت عقیدت ہے تمہارے لیے میرے دل میں… تمہاری کوئ بات ٹالنا بھی میرے لیے گناہ کا درجہ رکھتا ہے… لیکن تمہاری یہ بات نہیں مان سکتا میں… تم سے دور نہیں جا سکتا اب… جو راستہ, یا جو شخص مجھے تم سے الگ کرنے کی کوشش کرے گا اسے کاٹ کر پھینک دوں گا میں… ” نہ جانے کیسی ضد تھی اس لہجے میں کہ ہانیہ خوف سے ٹھٹھر کر رہ گئ… وہ روتی چلی گئ…
“رونا بند کرو ہانیہ… تمہارے یہ آنسو بہت تکلیف دیتے ہیں مجھے… مان کیوں نہیں جاتی تم… تمہیں تو جن اور بھوت دیکھنے کا شوق تھا نا… تو میں تمہارا یہ شوق پورا کر سکتا ہوں… بلکہ یہی کیا تمہاری ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ کرتا ہوں… صرف ایک بار میری بات مان لو… تمہاری خاطر کچھ بھی کر گزروں گا… تمہارے لیے جنات کی بستی چھوڑ دوں گا… ہم اس انسانوں کی بستی سے بھی کہیں دور چلے جائیں گے… کسی اور دنیا میں… جہاں تمہارے اور میرے سوا کوئ نہ ہو… وہاں ہم دونوں بہت…” وہ پراسرا سی آواز ابھی سنائ دے رہی تھی جب ہانیہ ضبط کھوتے ہوۓ اس کی بات کاٹ کر چلّائ…
“نہیں دیکھنا مجھے کوئ بھوت… نہیں جانا مجھے کسی بھوت نگری میں.. یا کسی اور جہاں میں… بھوت کو دیکھنے کی خواہش میری زندگی کی سب سے بڑی حماقت تھی… مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس خواہش کی تکمیل کے سلسلے میں تم کسی مصیبت کی طرح میرے گلے پڑ جاؤ گے… تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی یہ بات کہ تم کسی اور دنیا کے ہو… میں کسی اور دنیا کی… آگ اور مٹی کا ملاپ کسی صورت ممکن نہیں… تم قدرت کی بنائ گئ حدود کو پار کرنے کی کوشش مت کرو… دفع ہو جاؤ میری ذندگی سے… ” وہ چینخ چینخ کر کہہ رہی تھی… ساتھ ہی سسکیاں سنائ دے رہی تھیں اس کی… اس نے ہاتھوں میں چہرہ چھپایا تو چوڑیوں کی کھنک گونج اٹھی…
باہر سے کسی کے ہنسنے اور بولنے کی آواز سنائ دے رہی تھی… شاید لڑکیاں ہانیہ کو رسم کے لیے لینے آ رہی تھیں…
“ٹھیک ہے… تو اب مجھے بھی کوئ پرواہ نہیں… تمہیں حاصل کرنے کی کوشش میں اگر مجھے کسی کی جان لینی پڑی تو میں یہ بھی کر جاؤں گا… پھر چاہے مرنے والا تمہارا شوہر ہی کیوں نا ہو… ” سرد و سپاٹ سی آواز ابھری… اور پھر کھڑکی کھلنے کی آواز سنائ دی… چند سیکنڈز بعد کھڑکی اپنے آپ بند ہو گئ… کھڑکی بند ہوتے ہی دروازہ کھلا اور تین سے چار لڑکیاں اندر داخل ہوئیں… جن میں کومل بھی تھی… ہانیہ نے نامحسوس سے انداز میں اپنی زخمی کلائ دوپٹے کی اوٹ میں چھپائ…
“چلیے میڈم… باہر آپ کو یاد فرمایا جا رہا ہے…” ایک لڑکی نے شوخی بھرے انداز میں کہا… وہ سب آپس میں ہی باتیں کرنے میں مشغول تھیں تبھی ہانیہ کے روۓ روۓ چہرے پر کسی نے غور نہیں کیا… کومل نے نیٹ کا دوپٹہ اس کے سر پر اوڑھایا اور گھونگھٹ نکال کر اس کا چہرہ چھپا دیا… پھر ایک اور دوپٹے کے سایے میں وہ سب ہانیہ کو لیے ہوۓ رسم کے لیے لان کی جانب بڑھ گئیں…
💝💝💝💝💝💝
مہندی کا فنکشن ختم ہوتے ہی اسے اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا… باہر ہوتے شور شرابے سے اس کا دل ایک دم اچاٹ ہو کر رہ گیا تھا… دل کسی سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا… تبھی اس نے کومل کو اپنے پاس ہی ٹھہرا لیا… اس کی حالت ابھی تک سنبھل نہیں پائ تھی… بی پی بھی لو ہو رہا تھا… سر میں شدید درد تھا… کومل نے اسے میڈیسن لینے کے بعد آرام کرنے کو بھی کہا لیکن وہ اب سونے سے بھی خوفزدہ ہو چکی تھی… بہر حال کومل اس کے ساتھ لیٹ گئ…
سوا دو بجے تک ہنگامے سرد ہوۓ… تو حسن چھپتا چھپاتا کسی طرح ان کے ٹیرس تک پہنچا… پھر کومل کے نمبر پر میسیج چھوڑا… کومل نے پہلے باہر نکل کر راستہ صاف ہونے کی تسلی کی پھر بغیر قدموں کی چاپ پیدا کیے ہانیہ کو لے کر چھت پر چلی آئ…
“میں نیچے سیڑھیوں کے پاس ہوں… دس منٹ تک کر لو بات… کوشش کرنا جلدی نیچے آ جاؤ… کیونکہ کب کوئ جاگ جاۓ کوئ خبر نہیں… ” سرگوشی نما آواز میں ہانیہ سے کہہ کر کومل سیڑھیوں کے آغاز پر ہی رک گئ… ہانیہ لب کاٹتی کنفیوژ سی سیڑھیاں چڑھ گئ… وہ مہندی کا لباس بدل چکی تھی… میک اپ بھی صاف کر لیا تھا… اب بالکل سادگی کی حالت میں تھی…
سیڑھیاں چڑھتی وہ اوپر آئ تو حسن کو اوپر موجود پایا… چند دن پہلے کا واقعہ اس کے ذہن میں گردش کرنے لگا جب وہ حسن سمجھ کر لان میں آئ تھی اور اسے اس کی مرضی کے خلاف SP Fort لے جایا گیا تھا… پہلے دل چاہا واپس مڑ جاۓ… کہ کہیں یہ بھی کوئ دھوکہ ہی نہ ہو… وہ ابھی اسی سوچ میں گم تھی جب حسن پلٹا… اور اسے دیکھ کر اس کی جانب بڑھنے لگا…
ہانیہ خوفزدہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹی یہ خیال کیے بغیر کہ وہ سیڑھیوں کے اختتام پر کھڑی ہے… قدم پیچھے لینے کے باعث وہ لڑکھڑائ تھی… اس سے پہلے کہ گرتی ہوئ سیڑھیوں سے ٹھوکریں کھاتی نیچے جاتی حسن نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے ہاتھ سے تھام کر اپنی جانب کھینچا… یہ سب بہت اچانک ہوا تھا… ہانیہ نے سر اٹھایا تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں…
“کیا ہو گیا ہے ہانی.. پاگل تو نہیں ہو تم… دھیان کہاں ہے تمہارا…؟؟ ابھی اگر سیڑھیوں سے گر جاتی تو…؟؟” حسن نے اسے اس کی غائب دماغی پر سرزنش کی… لیکن پھر ہانیہ کی سفید پڑتی رنگت کو دیکھ کر چونکا…
“کیا ہوا ہے ہانی…؟؟ تم اتنی ڈری سہمی ہوئ سی کیوں ہو…؟؟” ایک دم شدید پریشانی جھلکنے لگی تھی اس کے لہجے سے… ہانیہ کے حلق میں نمکین گولا سا پھنسنے لگا… کچھ بولنے کی کوشش میں فقط ہکلا کر رہ گئ وہ…
حسن نے تشویش سے اسے دیکھا… پھر اس کا ہاتھ تھام کر ایک جانب لے آیا… وہاں پڑے بینچ پر اسے بٹھایا اور خود اس کے مقابل بیٹھ گیا…
“کیا بات ہے ہانی…؟؟ کچھ بولو پلیز…” اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لے کر درخواست کی تھی… جبکہ نگاہیں اس کی نگاہوں میں ہی گڑی تھیں جہان بیک وقت کئ جذبات موجود تھے… ڈر, خوف, غصہ, بے چینی, اضطراب, بے بسی اور وحشت…
“حسن… مم…میں بہت پریشان ہوں… پلیز ہیلپ میں… اس سچویشن سے کیسے نکلوں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا…” وہ رو پڑی تھی اس کے سامنے… دل کا غبار ہلکا کرنے لگی تھی…
“ہانی… ادھر دیکھو میری طرف…رونا بند کرو یار… مجھے کچھ بتاؤ تو سہی… کیا ہوا ہے…؟؟ کیا پریشانی ہے… ؟ پھر ہی کوئ حل بتاؤں گا نا…” حسن نے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی…
کچھ دیر بعد خود پر قابو پا کر ہانیہ نے اسے ساری بات بتا دی… اپنے ساتھ ہونے والے سب واقعات کہہ سناۓ…
حسن سب کچھ سن کر بہت دیر تک سر جھکاۓ خاموش بیٹھا رہا…
“حسن… میرے خیال میں ہمیں فوری طور پر کسی عامل سے رجوع کرنا چاہیے… وہ جو بھی ہے بہت خطرناک ہے… تمہین یا مجھے کوئ بھی مقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرے گا…” ہانیہ نے اپنی سمجھ مین آنے والا واحد حل اس کے سامنے پیش کیا…
“اوہ کم آن ہانی… بچوں جیسی باتیں مت کرو… یہ عامل, یہ بابے وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتے سواۓ ایک ڈھکوسلے کے… صرف لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان سے پیسے بٹورنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے لوگوں نے… میں مانتا ہوں کہ جنات ہوتے ہیں… قرآن پاک میں بھی ان کی موجودگی کی گواہی دی گئ ہے… لیکن ان کی اور ہماری دنیا میں ایک حد مقرر کی گئ ہے…. جیسے ہم انسانوں کو اجازت نہیں ان جنات کی دنیا میں جانے کی ویسے ہی اللّہ نے انہیں بھی اجازت نہیں دی کہ وہ انسانوں کی دنیا میں آئیں…. سب اپنی اپنی دنیا کے باسی ہیں… اور پھر اس جن زادے کو کیا پڑی ہے یوں کسی انسان پر فدا ہونے کی… اس کی اپنی دنیا میں جن زادیوں کا کال پڑ گیا ہے کیا…؟؟ یہ سب تمہارا وہم ہے ہانی… صرف تمہاری امیجینیشن… میں نے ایک سائکاٹرسٹ سے تمہاری ساری حالت ڈسکس کی ہے… سب کچھ سننے کے بعد انہوں نے بتایا کہ تم شاید نائٹ فوبیا کا شکار ہو… یہ بھی ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں انسان اندھیرا پھیلتے ہی خوفزدہ ہونے لگتا ہے… اپنے سایے سے بھی ڈرنے لگتا ہے… ایسے میں اسے لگتا ہے اس کے ساتھ مختلف واقعات پیش آ رہے ہیں جبکہ یہ سب صرف اس کی امیجینیشن ہوتی ہے, اس کے اپنے خیالات ہوتے ہیں… اور کچھ نہیں… وہ جو کچھ دیکھنا چاہتا ہے یا جو کچھ اس کے دماغ میں چل رہا ہوتا ہے اسے وہی سب نظر آتا ہے… بھروسہ رکھو… جیسا تم سوچ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ہے… کوئ دوسرا وجود نہیں جو مجھے یا تمہیں نقصان پہنچاۓ… بی بریو… ” حسن کی باتوں پر ہانیہ شاکڈ ہی تو رہ گئ تھی… مطلب… وہ اس کے ساتھ پیش آنے والے ان تمام واقعات کو جھٹلا رہا تھا…
“لل…لیکن حسن… وہ سب میری امیجینیشن نہیں تھی… میں نے خود…” وہ ہکلاتے ہوۓ اسے یقین دلانے کو کچھ کہنے جا رہی تھی جب حسن نے اس کا ہاتھ تھاما…
“یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے ہانی… گولڈن ٹائم ہے یہ ہمارے لیے… ہم اپنی ذندگی کے قیمتی لمحے ان فضول باتوں میں کیوں ضائع کر رہے ہیں…؟؟ کسی کو کچھ نہیں ہو گا… اگر کچھ ہونا ہوتا تو اب تک ہو چکا ہوتا… چلو مان بھی لیا کہ یہ سب تمہاری امیجینیشن نہیں… جو کچھ تم نے بتایا سب سچ ہے… لیکن یہ بھی سوچو کہ اب یہ سب کر کے اسے کیا ملے گا… اب جبکہ ہمارا نکاح ہو چکا ہے… شرعی طور پر ہم میاں بیوی ہیں… کل تو صرف رخصتی کا فریضہ ادا ہونا ہے… بنیادی چیز نکاح تھی… اگر اسے روکنا ہی ہوتا تو اس نکاح کو روکتا… نکاح ہو جانے کے بعد باقی بچتا ہی کیا ہے جو وہ یوں تمہیں دھمکاۓ گا… ڈونٹ وری… سب ٹھیک ہو جاۓ گا… کل تک خود کو مضبوط رکھو…اس کے بعد میری محبت, میرا پیار تمہیں کچھ اور سوچنے کا موقع ہی نہ دے گا… تم صرف میرے بارے میں سوچا کرو گی… ” وہ نرم لہجے میں کہتا اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کر رہا تھا… اور اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا تھا… ہانیہ نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلا دیا…
“ویسے یہ ناانصافی ہے میرے ساتھ… مہندی کی رسم کے دوران تمہارے چہرے پر گھونگھٹ ڈال دیا گیا… اب یہ سوچ کر آیا تھا میں کہ اپنی مہندی کی دلہن کو لائیو دیکھوں گا کہ کیسی لگ رہی ہے… لیکن یہاں تو دل کے سارے ارمانوں پر پانی ہی پھیر دیا تم نے… میک اپ تو چلو صاف کر ہی دیا… مہندی کا لباس تک بدل کر آئ ہو ظالم لڑکی… ” وہ مصنوعی خفگی سے کہہ رہا تھا… ہانیہ کے گالوں پر سرخی سی چھانے لگی… جبکہ لبوں پر شرمگیں مسکراہٹ آن ٹھہری تھی….
حسن اس کے ہاتھ تھامے اس کی مہندی پر نظریں جماۓ بیٹھا تھا… مہندی کے ڈیزائن میں چھپا کر حسن کا نام لکھا گیا تھا… تھوڑی دیر تلاش کرنے کے بعد حسن نے بالآخر اپنا نام تلاش کر ہی لیا…
“لوگ بارات کے دن دلہن کے ہاتھ کی مہندی میں اپنا نام تلاش کرتے ہیں… لیکن میں ذرا ایڈوانس ہوں… مہندی کی رات ہی یہ کام کر لیا…” وہ شرارت بھرے لہجے میں نچلے لب کا کونا دانتوں میں دباۓ کہہ رہا تھا… ہانیہ ہنس دی اس کی بات پر…
“ہیر رانجھا کی گفتگو اگر ختم ہو گئ ہو تو نیچے آ جائیں… میں تھک گئ ہوں پہریداری کرتے کرتے…” کومل کی شرارتی آواز سن کر ہانیہ بوکھلاتے ہوۓ اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑا کر اٹھ کھڑی ہوئ…
“سالی صاحبہ… غلط وقت پر اینٹری دینا آپ نے اپنا فرض سمجھا ہوا ہے شاید…” حسن بھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا اٹھ گیا….
“جی بالکل… کیونکہ ابھی ان سب کاموں کا, اور یوں رومینس جھاڑنے کا وقت نہیں آیا…..” کومل نے شرارتی نگاہیں حسن پر جماتے ہوۓ ہانیہ کا ہاتھ تھاما…
“کوئ بات نہیں… کل ہمارا بھی وقت آۓ گا… دیکھ لوں گا پھر آپ لوگوں کو بھی… کل اگر مجھے اور میری بیوی کو ڈسٹرب کیا آپ نے تو اچھا نہیں ہو گا…” وہ بھی شرارت پر آمادہ ہوا تھا…
“کل کس نے دیکھا ہے جناب…” کومل اٹھلا کر کہتی ہانیہ کو لیے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئ جبکہ ان کے جانے کے بعد حسن بھی مسرور سا اپنے گھر کی جانب چل دیا… اس بات سے بے خبر کہ کل کا سورج ان کو کیا دکھانے والا ہے…