صبح سورج طلوح ہو چکا تھا ۔آج تین دن کے بعد سب یونیورسٹی جا رہے ۔ آج بھی شاہ ویلا میں کافی ہلچل تھی ۔
"”ماما !!جلدی سے وہ جوس پکڑا دیں بہت دیر ہو گئی ہے آج ۔” عنایا نے سینڈوچ کا ٹکرا کھاتے ہوئے کہا
میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کے جلدی اٹھو تم سب ہی اتنے سست اور کاہل ہو کے جواب نہیں ۔گدھے گھوڑے سب بیچ کر سوتے ہو ۔” زرینہ بیگم نے عنایا کو بڑا سا نوالہ نگلتے ہوئے دیکھ کر کہا
"ماما! وہ میں تھک گئی تھی بس اس ہی لئے ” عنایا نے جواب میں کہا
"بچے !تم سب کونسا افریقہ پیدل چل۔ کر گئے ہو کے دو دن تھکان ہی نہیں اتری ۔”
زرینہ بیگم کا غصّہ دیکھ کر اب کے عنایا خاموش ہی رہی اور جلدی جلدی ناشتہ کر کے باہر آ گئی ۔لیکن گاڑی میں۔ اپنے لیے جگہ نہ دیکھ کر اور پرشان ہو گئی ۔
"اب کہاں جاؤں ۔امبرین تم کس خوشی میں بیٹھی ہو ۔یہاں سے پانچ منٹ تو لگتے ہیں تمہارے کالج کو ۔کونسا لکھنو میں ہے تمہارا کالج ۔ ” عنایا امبرین سے مخاطب ہوئی
"آپی میرے پاؤں میں۔ درد ہے ۔آپ کو زین بھائی چھوڑ دیں گے ۔ ا” مبرین نے کہتے ہی گاڑی کا دروازہ بند کر دیا
"اب زین کو کون بلائے گا ۔ "اس نے پریشانی میں گھٹری پر ٹائم دیکھا
تب ہی زین اندر آتا دکھائی دیا ۔ وہ فون پر میسج کرتا اندر جانے لگا تو عنایا کو تیار ہوا کھڑے دیکھ کر روکا
"کیا ہوا یہاں کیا کر رہی ہو؟” زین نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا
"یونیورسٹی جانا ہے ۔پر سب لوگ چلے گئی ہیں ۔میں زمان بھائی اور شایان کے ساتھ جاتی تھی پر امبرین ان کے ساتھ چلی گئی ہے ۔ ” گھڑی کا ٹائم دیکھتے ہوئے وہ روہانسی ہو کر بولی
"آؤ میں چھوڑ دیتا ہون ” ۔ زین نے آفر دی
"نہیں میں چلی جاؤں گی ”
"کیسے ۔؟ ” زین اس کی شکل دیکھ کر بولا
عنایا نے خالی پورچ کی طرف دیکھا پھر زین کی طرف ۔
"گاڑی کہاں ہے تمہاری "۔عنایا منمنا ئی ۔
"میرے گھر میں ہے ،آ جاؤ” زین مسکرا کر کہتے ہوئے باہر بڑھ گیا
"تھنکس ” زین نے موبائل پر میسج ٹائپ کر کے امبرین کو سینڈ کر دیا ۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
عنایا زین کے ساتھ اس کی گاڑی میں آ بیٹھی ۔جو ابھی زین لوگوں کے گھر میں کھڑی تھی ۔
” یہ گاڑی تم باہر کیوں نہیں نکال رہے گھر سے "۔عنایا نے اپنے فون پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
"بس ایک بات کرنی تھی تم سے” زین نے گیراج کا آٹومیٹک گیٹ کھلتے دیکھ کر کہا
"کیا بات کرنی تھی؟ دیکھو ہم لیٹ ہو رہے تم بعد میں کر لینا ”
"بہت امپورٹنٹ بات ہے ادھر آؤ کان میں بتاتا” ۔زین اس کو طرف دیکھا
"ہاں بتاؤ ۔”
”تھوڑا اور ادھر آؤ ۔اتنی دور سے کیسے بتاؤں ۔ ”
"یہاں کوئی تیسرا بندا نظر رہا ہے” ۔عنایا خفگی سے بولی
زین نے ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا اور اس کے گال پر بوسہ دے دیا
"تم سے کسی رومانس کی امید نہیں خود ہی کباب میں ہڈی بن جاتی ہو "۔ زین نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا
اور گاڑی سٹارٹ کر دی ۔جبکہ عنایا نے پھٹی آنکھوں سے اس کو گھورتے ہوئے ۔چہرہ کھڑکی کی طرف کر لیا
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
یونیورسٹی کی کینٹین میں کافی رش تھا ۔سٹوڈنٹس کی بہتات کی وجہ سے شور بھی کافی ہو رہاتھا ۔
"ویسے یہ ظلم ہے۔ اس کے خلاف دھرنا دینا چاہیے ۔ ساری فاسٹ فوڈ مہنگی کر دی ہے۔ اور تو اور ان لوگوں نے کوک پر بھی پابندی لگا دی ہے "۔ شیزہ نے اپنا دکھ سب کو سناتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی برگر کا بڑا سا بایٹ لیا ۔
"پھر بھی تمھیں کھانے سے نہیں روک سکے ۔ جب تم کبڈی کا ورلڈ کپ کھیلو تو ہمارے لئے بھی ٹکٹس لے لینا” رباب نے لاتاڑتے ہوئے کہا
"ہاں!! اور تم جب ناسا کی سانئس دان بن جاؤ تو مجھے بتانا کے مریخ پر کون کون سے کیمکل پائے جاتے ہیں ۔ "شیزہ جواب میں بولی ۔
"تم لوگ دماغ خراب کرنا بند کرو ۔” عنایا نے تپ کر کہا
"تم اور ہانیہ بوڑھی ہو گئیں ہیں ۔ہم تو ابھی جوان ہیں” شیزہ بولی
"مطلب ؟” دونو ں نے اس کی طرف دیکھا
"تم دونوں کی شاد ی جو ہو چکی ہے ۔ویسے میں نے سنا ہے سر عشر کا ٹرانسفر ہو گیا یہاں سے ۔شیزہ بولی
"اور میں نے سنا ہے کے سر وجدان کا ہاتھ ہے ان کی ٹرانسفر میں بھلا سر کو ان سے کیا مسلہ "۔اس نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا
"کہیں ،وجدان کو پتا تو نہیں چل گیا تھا "۔ہانیہ نے سوچا
"جس نے بھی بھیجا بہت اچھا کیا ۔سر ہر لڑکی کو گھورتے تھے ۔خس کم جہاں پاک "۔ رباب بولی
” ویسے ہانیہ کبھی تمہارا دل بائیو ٹیکنالوجی کی ماروی کا سر پھڑ نے کا کیا ۔” شیزہ نے اس کی طرف دیکھ کر بولا
"کیوں !اب اس بیچاری کی کیا غلطی ہے کے اس کا سر پھاڑ دوں ۔بغیر وجہ کے "۔ہانیہ نے فون سے نظریں ہٹا کر شیزہ کو دیکھا
"وجہ تو بہت بڑی ہے ۔ذرا تھوڑا گھوم کر پیچھے تو دیکھو ۔”
ہانیہ نے گردن گھوما کر دیکھا تو ماروی بلکل وجدان کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی شائد کوئی پیپر ڈسکس کر رہے ہیں ۔مگر اتنے دانت تو نکلنے کی ضرورت نہیں ہے "۔مجھے کہتے ہیں بدل گئے ہیں ۔سب غلطی تھی ہانیہ ۔اب دیکھو کیسے بتیسی باہر ہے ” ۔ہانیہ نے جلتے ہوئے وجدان کو ہنستے دیکھ کر سوچا ۔تب ہی ماروی ماروی نے وجدان کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
ہانیہ کے اندر کی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ اس لڑکی کو دیکھ کر بھڑک گئی ۔ہانیہ نے جوس کی بوتل میز پر زور سے پٹکی ۔اور وجدان لوگوں کی طرف بڑھ گئی
"اب آئے گا مزہ ۔”۔شیزہ نے آنکھ دبا کر دعا کو دیکھا
"کہیں دنگل فساد ہو جائے "۔دعا ہانیہ کو جاتے دیکھ کر بولی
"نہیں ہو گا ۔تم بس سین دیکھو ۔”شیزہ برگر کھاتے ہوئے بولی ۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
سر مجھے بھی کچھ ٹوپک سمجھنے ہیں ۔اگر آپ کے پاس ٹائم ہو تو ” ہانیہ نے گھور کر ماروی کو دیکھا پھر وجدان کی طرف متو اجہ ہوئی
"جی !!! میں فارغ ہی فارغ ہوں” ۔ وجدان نے حیرانی سے ہانیہ کی طرف دیکھا پھر کچھ سمجھ کر ماروی سے مخاطب ہوا
"باقی کے پوائنٹس آپ میم سمارا سے سمجھ لیں ۔ اس سے زیادہ میں آپ کی مدد نہیں کر پاؤں گا "۔ ماروی نے نہ پسندیدہ نگاہوں سے ہانیہ کو دیکھا اور چلی گئی ۔ماروی کے جاتے ہی وجدان نے سکھ کا سانس لیا ۔ کے کہیں ہانیہ کو۔ شک کا۔ نیا ٹوپک مل جاتا ۔
"ادھر دکھاؤ کونسا ٹوپک سمجھ نہیں آ رہا ” وجدان نے اس کے ہاتھ سے نوٹس لے لئے
"یہ تو انالیٹکل کیمسٹری کے نوٹس ہیں میرا تو یہ سبجیکٹ ہی نہیں” اس نے ہانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"یہی تو بائیو ٹیکنالوجی کی سٹوڈنٹس کو آپ کونسےڈی این اے(DNA) کے statics سمجھا رہے تھے ۔ یا اراین اے (RNA) کے گراف سمجھا رہے تھے” ۔ ہانیہ کو۔ ماروی کے اس طرح مسکرا کر دیکھنے پر کافی تپ چھڑی ہوئی تھی ۔
"ہانیہ تم بھی نہ کبھی شک کے دائرے سے نکلا کرو ۔اس کے بھائی نے ام بی اے میں داخلہ لینا ہے تو بس یہی پوچھ رہی تھی کے "۔وجدان خفگی سے بولا ۔
ہانیہ نے اس کے ہاتھ سے نوٹس جھپٹے ۔اور جانے لگی
"اب کہا جا رہی ہو؟” ۔وجدان اس کو جاتے دیکھ کر بولا
"سر عشر کے پاس مجھے MS-world پر کام کرنے میں پرابلم ہو رہی ہے وہ پوچھنے” ۔ ہانیہ نے جان بوجھ کر کہا
جس پر وجدان نے گھور کر اس کی طرف دیکھا اپنا غصّہ ضبط کرتے ہوئے اس کا چہرہ لال ہو گیا
"آئندہ کبھی عشر کا نام تمہاری زبان پہ نہ آئے ۔ورنہ پوری یونیورسٹی کے سامنے تمھیں لے کے جانے میں مجھے تو کوئی مسلہ نہیں جو گا تمہارا کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔اور عشر کو یہاں سے ٹرانسفر کروا دیا ہے ایک۔ بوئز کالج میں ۔۔لیکچر کا ٹائم ہو گیا ہے میں چلتا ہون۔اور شام کو میں لینے آؤں گا انٹی سے میں نے بات کر لی ہے ۔” یہ کہہ کر وجدان حیران کھڑی ہانیہ کو وہیں چھوڑ کا باہر کی طرف بڑھ گیا پتا نہیں اس لڑکی کو میرا بلڈ پریشر ہائی کر کے کیا ملتا ہے ۔اس نے کلاس کی طرف جاتے سوچا
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...