صبح سے شام ہونے کو آئی تھی۔ وہ آفس میں تھا پر ذہن صبح والی بے اختیاری میں الجھا ہوا تھا.. تنگ آکر اس نے کرسی کی بیک سے کوٹ اور ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور باہر کا رخ کیا،،
روم سے نکلتے ہی سب اسے دیکھ کر اٹھتے سلام کر نے لگے وہ سر کے اشارے سے جواب دیتا لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔
انڈر گراؤنڈ پارکنگ میں پہنچتے ہی اس کے لیے ایک اور جھٹکا تیار تھا سامنے سمیر کی صورت میں۔۔
*******__________*********_______*******
وہ سر پہ جھومر پہ پنیں لگا رہی تھی تبھی ایک بھولا بسرا منظر اس کے پردہ ذہن میں آیا..
“باجی.! سر پہ دوپٹہ تو اوڑھ لیں…..باہر سے سب نظر آتا ہے..” بھائی کی بات سنتے ہی وہ غصے سے واپس مڑی اور بولی،،
“کیا مصیبت ہے تمہارے ساتھ؟؟ چھوٹے ہو چھوٹے بن کے رہو.. کیا تمہیں صرف مجھ پر اعتراض کرنا آتا ہے؟؟کتنی دفعہ کہا مجھ پہ روک ٹوک نہ کیا کرو ۔۔۔ پھر بھی تمہیں سمجھ نہیں آتی.۔۔
وہ غصے میں بولتی دوبارہ اندر چلی گئی جب کہ چھوٹے بھائی کا حیرانگی سے منہ کھلے کا کھلے رہ گیا..
وہ غلط تو نہیں کہ رہا تھا،، ٹوٹے ہوئے دروازے کے اوپر ڈالا گیا پرانا کپڑا ہوا سے ہلتا تو اندر کا منظر باہر صاف نظر آتا.
وہ حیرانگی سے نکلا تو بہن کے پیچھے اندر گیا،، وہ نواڑی چارپائی پہ بیٹھی تھی۔ وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا،،
“باجی میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا.. باہر گلی سے سارا صحن نظر آتا
ہے…..مجھے اچھا نہیں لگتا کوئی آپ کو یوں دیکھے”
اس کی بات سن کے بہن نے پٹ کے آنکھیں کھولیں اور اور حیرانگی سے اپنے سے چھوٹے پندرہ سالہ بھائی کو دیکھنے لگی،
“کیا دیکھ رہی ہیں؟؟” اس نے بہن سے پوچھا ،،
اس نہ میں سر ہلاتے ہوئے کان پکڑے اور بولی “سوری”
اس کی ہنسی نکل گئی اور چارپائی پہ ہی ڈھیر ہوا “نہیں سوری نہیں چلنی مجھے کچھ کھانے کو دے دیں”
وہ اس کی ہنسی سے چڑتی خود بھی ہنس پڑی اور چولہے کی جانب چل پڑی۔۔
“اری او.!. تیار نہیں ہوئی ابھی تک تم” تارا بائی اوپر اس کے کمرے میں آ کے جھانکتے ہوئے بولی،،
بائی کی آواز سنتے ہی وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔۔ جہاں کوئی بھائی نہ تھا اسے سر پر دوپٹہ اوڑھانے والا…
“جانے کیوں؟؟”
وہ جلدی سے پن لگا کر شیشہ میں خود کو دیکھتے ہوئے بولی “بس تیار ہوں”
آج پھر ہفتہ تھا،، آج پھر تماشا تھا،، آج پھر اسے ناچنا تھا.. آج کپڑے اوڑھانے والا کوئی نہیں تھا سب نوچنے والے تھے..
پر یہ راستہ بھی تو خود چنا تھا اس نے،، یہ رسوائیاں بھی تو اس کی اپنیے لیٔے خود بنائی گئی تھیں…
وہ صرف ہفتہ کو ہی محفل میں آتی تھی..
ابھی بھی جب وہ جھکی نظر سے محفل میں آئی تو رنگ ہی بدل گیا تھا،،
پر طبلے کی تھاپ سے پیروں کی تال ملاتے گھنگروؤں کی جھنکار میں اس کے ذہن میں ایک ہی بات گونج رہی تھی..
“بھائی چھوٹا ہو یا بڑا بہن کا محافظ ضرور ہوتا ہے”
” گھنگھرو بن کےسینے اندر
یاد تیری میں نچدی ویکھی”
(منقول)
*******________*******________******
“میں پاگل نہیں ہوں سنا تم نے!!! سنا تم سب نے” “میں..میں پاگل نہیں۔ قسم لے لو”۔۔۔۔
“مممم۔۔۔ مجھ ۔۔۔مجھے معافی ۔۔ مانگنی ہے ۔۔۔ ممم ۔۔ میں پپپ۔۔۔ پاگل نہیں ہوں”
وہ ہکلا رہا تھا یا بول رہا تھا سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔ آواز پاگل خانے کے درودیوار کے سے ٹکرا کے واپس آرہی تھی..
اسے دیکھ کے لگتا تھا یہ کافی دبنگ شخصیت رہ چکی ہیں پر اب قابلِ رحم حالت میں تھی..
“مجھے نہیں لگوانا یہ” وہ شخص انجکشن دیکھ کے بچوں جیسی حرکتوں پہ اتر آئے تھے ۔۔ دو میل نرسز اسے جکڑے ہوئے تھے۔۔۔ اور ایک انجکشن لگا رہا تھا۔۔
سفیدی دکھاتے بال جن کا نہ جانے کیا بنا ہوا تھا۔۔ سلوٹوں بھرے گندے کپڑے جن پہ جا بجا کھانے کے اور دوا کے داغ تھے جو ان کو دینے کے چکر میں اکثر انہی کے اوپر گر جاتی تھی نہ جانے کب سے نہیں بدلے گئے تھے۔۔
“مجھے جانے دو” میں نے یہاں نہیں رہنا۔۔۔”
آواز دوبارہ آرہی تھی پر اس بار غنودگی غالب تھی آواز میں،، شاید تازہ تازہ دیے گئے انجکشن کا اثر تھا۔۔ اب وہ سو چکے تھے ۔۔
“خدا جانے اس کے ساتھ کیا ہوا ہے”
نرس نے اسے چادر اوڑھاتے تاسف سوچا…
*******_______*******________*******
“یہ یہاں کیسے ؟؟” اس نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔۔
ابھی سمیر کی نظر اس پہ نہیں پڑی تھی۔۔ وہ کسی گاڑی کے پہ بونٹ پہ بیٹھا تھا وہ نظر انداز کرتا دوسری جانب سے اپنی گاڑی کے جانب چل پڑا۔۔
وہ ڈور انلاک کرنے ہی لگا تھا کہ سمیر اسے دیکھ چکا تھا۔۔
“احتشام بھائی” وہ جزباتی سا پکارتا ہوا دوڑا،
احتشام رک گیا تھا اور آنکھیں زور سے بند کیے کھڑا تھا.
سمیر پیچھے سے بھاگتا اسے لپٹ گیا جیسے صدیوں کا بچھڑا ہو،ناچار اس نے بھی بازو اس کے گرد پھیلا دیئے اور زور سے خود میں بھینچ لیا ۔۔
“کیسے ہیں بھائی؟؟کہاں ہوتے ہیں آپ ملتے ہی نہیں؟؟ ”
اٹھارہ سالہ سمیر اس سے الگ ہوتا نم آنکھوں سے بول رہا تھا۔۔
“ایسی بات نہیں ہے بس وقت نہیں ہوتا”،، “تم کیسے ہو؟”
عجیب سی وضاحت دیتے اس نے پوچھا
“ٹھیک ہوں..”سمیر نے سر جھکا کے چھوٹا سا جواب دیا پر اس کا بازو نہیں چھوڑا جیسے اگر چھوڑا تو دوبارہ گم ہو جائے گا۔
ناجانے کیوں ظالم وقت انسان کو اپنی عمر سے پہلے بڑا کردیتا ہے۔۔
اپنی عمر کے باقی لڑکوں کے برعکس وہ بھی کافی سنجیدہ تھا۔۔
“خود مزاجی بھی مشہور تھی اب سادگی بھی کمال ہے
ہم شرارتی بھی انتہا کے تھے اب سنجیدگی بھی کمال ہے..”
کچھ پل یونہی گزر گئے۔۔ چبھتی خاموشی تھی ان کے درمیان۔۔ دل کو چیرتی،، دھڑکنوں کو اتھل پتھل کرتی۔۔۔
جانے کیا راز تھا خاموشی کا۔۔ سر تو دونوں کے ہی جھکے تھے۔۔
احتشام خود کو کافی حد تک سنبھال چکا تھا تبھی برائے بات پوچھا ،،
“کیا کرتے ہو” ؟؟
“ٹیکسی چلاتا ہوں” سمیر گہری سانس لے کر خود کو کمپوز کرتا ہوا بولا،،
اس سن کے جھٹکا لگا۔۔۔تبھی ایک اور سوال پوچھا “اماں کیسی ہیں تمہاری”؟؟
“زندہ ہیں” جواب دیتے ہوئے پل بھر کو سمیرکے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ آ کے معدوم ہوئی تھی جو احتشام کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکی تھی۔۔۔
اس نے لمحوں میں فیصلہ کیا تھا۔۔
____________________________________
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...