ایک ہفتہ کراچی ٹھہرے، آٹھویں روز ہمیں بحری جہاز میں بوریوں کی طرح بھر کر بمبئی بھیج دیا گیا۔ بادبانی جہازوں اور سمندر کا نظّارہ ہم نے سب سے پہلے کراچی میں دیکھا، جہاز چونکہ بہت چھوٹا تھا اور قیدیوں کو تہہ خانے میں بھر دیا گیا تھا، اس لیے سب کی زبان پر تھا :
جائے تنگ است مردماں بسیار
وقنا ربنا عذاب النار
لنگر اٹھا کر جہاز ابھی تھوڑی دور سمندر میں گیا تھا کہ دریا کے تلاطم اور موجوں کی طغیانی کی وجہ سے ڈگمگانے لگا، جس سے قیدیوں کو قے اور متلی شروع ہوگئی، جگہ کی قلت کی وجہ سے ایک دوسرے کے اوپر ہی قے کی جارہی تھی، جس سے تکلیف میں اور اضافہ ہوگیا۔ جہاز میں کچھ مسلمان بھی سوار تھے جو قیدی نہیں تھے، انھوں نے ہمیں مولوی سمجھتے ہوئے بڑی تواضع کی، دو تین روز کے بعد بڑی مشکلات برداشت کرتے ہوئے ہم بمبئی کی بندرگاہ میں داخل ہوئے، وہاں میلوں تک ہزاروں جہاز کھڑے تھے بلکہ جہازوں کی کثرت کے باعث سمندر جہازوں کا جنگل معلوم ہو رہا تھا۔
جہاز سے اترے تو ہمیں بذریعہ ریل بمبئی کے جیل خانہ میں لے جایا گیا، جوکہ وہاں سے بارہ میل تھا۔ بمبئی میں پارسی مرد عورتیں بکثرت دیکھنے میں آئیں، یہ لوگ بڑے خوبصورت اور مالدار تھے اور آتش پرست زردشت کی امت سے تعلق رکھتے تھے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ کی چڑھائی کے وقت ایران سے بھاگ کر ہندوستان کے اس حصہ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ جہاں تک ہمیں دیکھنے کا موقع ملا بمبئی شہر بھی ایک ٹاپو ہے، ایک بند باندھ کر اسے اسے بر اعظم ہند سے ملا دیا گیا ہے۔ بمبئی اور تھانہ کے درمیان سمندر بہتا ہے، اس کے پانی کو کھیتوں اور کیاریوں میں روک دیا جاتا ہے، سمندر کا نمکین پانی جب سورج کی حرارت سے خشک ہوتا ہے تو وہ خود بخود عمدہ نمک بن جاتا ہے، ریلوے لائن کے کنارے ہزاروں من نمک کے انبار لگے ہوئے تھے، ناریل کا درخت اور اس کا تازہ پھل بھی ہم نے پہلے پہل بمبئی میں دیکھا۔
بمبئی کی عورتیں اپنی ساڑھی کو ایسے باندھتی ہیں جیسے مرد دھوتی کو، یہاں کے ہندو بڑی بڑی پگڑیاں استعمال کرتے ہیں جو سر پر ایک ٹوکرے کی طرح رکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں، اس علاقے کی زبان گجراتی یا مرہٹی ہے، جب ہم ریل سے اتر کر تھانہ کے بازار میں جیل کی طرف پیدل جا رہے تھے تو ہمارے چند قیدی ساتھیوں نے کچھ مٹھائی کو دوکانوں کو لوٹ لیا اور بے محابہ مال مسروقہ کھانا شروع کردیا۔ دوکاندار انھیں قیدی سمجھ کر خاموش ہو رہے بلکہ بعض دوکاندار تو بہت خوش ہوئے اور انھوں نے قیدیوں کے منہ میں مٹھائی پڑنے کو بڑا پن سمجھا۔