The rose and the thorn, and sorrow and gladness are linked together.(sheikh saadi sherazi)
صبح کی روشنی چار سو پھیل چکی تھی ۔ ارج اور پامیر دونو ہی کچن میں موجود تھے ۔
"آج واپسی پر میں تمھیں پک کر لوں گا ۔” پامیر نے تکریبا آدھے گھنٹے میں یہ ایک بات ہی ارج سی کی تھی ۔
"تمہارا رویہ اتنا سرد کیوں ہو گیا ہے میرے ساتھ” ۔ ارج آنسو ضبط کرتے ہوئے چہرہ دوسری طرف پھیرا ۔
"خود سے باہر مت آنا بیکری سے میں جب تک لینے نا آؤں” اس کی بات کو نظر انداز کئے پامیر کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
"پتا نہیں کیا بنے گا” .ارج بڑبڑاتے ہوئے ۔ چیزیں سمیٹنے لگی ۔ پامیر کمرے سے باہر آیا اور کچھ کہے بغیر ہی گھر سے نکل گیا ۔
لائبریری میں کافی چہل پھیل تھی ۔ موسم میں گرمی کا عنصر زیادہ تھا ۔
"آپ ایک کام کریں ۔ دوسری شیلف میں دیکھیں آپ کو مولیکولر بیولوجی کی کتاب مل جائے گی” ۔ پامیر کتاب کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ۔ تبھی ارج دروازہ کھول کر لائبریری میں داخل ہوتی دکھائی دی ۔
"اس کو کہا بھی تھا کے اکیلی باہر نا نکلے بیکری سے "۔ پامیر نے کاؤنٹر کے دوسری طرف آتے ہوئے کہا ۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ ارج تمھیں میری بات سمجھ کیوں نہیں آتی ایک دفع” ۔پامیر ارج کو کافی غصے میں لگا ۔ ارج کو دکھ بھی ہوا پر پھر اس دکھ کی جگہ غصے نے لے لی
"کیوں ! یہاں باہر لکھ کے لگا دیا ہے کے ارج نامی افراد کا لائبریری میں داخلہ ممنوع ہے "۔ ارج بھی تنک کر بولی ۔
"یہ ارج ہی ہے ۔” اتنا اونچع بولنے پر تو پامیر کو پہلے یقین ہی نا آیا ۔
"تمھیں میں نے کہا تھا ۔ کہ میری اجازت کے بغیر بیکری سے باہر مت آنا ۔پر شائد تمھیں تو ترکش بھی سمجھ نہیں آتی ۔” پامیر تپ کر بولا
"مین کب باہر نکلی تھی وہ تو بیکری والوں نے ہی باہر نکال دیا ۔ ”
"وہ کیوں بھلا ۔کیا کیا ہے کے تمھیں جاب سے نکال دیا "پامیر نے حیران ہوتے ہوئے کہا ۔
"میں نے کب کہا ہے کے جاب سے نکال دیا ہے میں تو یہ کہھ رہی ہون ۔ کے بیکری سے نکال دیا ہے ۔”
"ارج اب تم۔ مجھ سے کچھ سن مت لینا ۔” پامیر نے اس کی بےتکی باتوں پر بہت تاؤ آیا ۔
"ارے ارے پوری بات تو سن لو ۔ میرے پاس ایک خوش خبری ہے ۔ ہماری بیکری کی ایک برانچ آپ کو لائبریری کے سامنے کھول رہی ہے جس کی ہیڈ میں ہون اور میرے ساتھ عفت بھی ہے” ۔ ارج نے باہر کی طرف اشارہ کر کے ۔ چیئر پر آ بیٹھی ۔
"اب میرا کیا ہو گا ۔ مطلب تم پورا دن یہاں ہی بیٹھی رہو گی "۔ پامیر نے دوسری کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
"تمھیں خوشی نہیں ہوئی”
” ایسی بات نہیں ہے ۔ ارج "۔ پامیر نے رجسٹر پر اری ترچی لکیریں بناتے ہوئے کہا
"تو پھر کیا بات ہے ۔ تم صبح سے ایسے کی برتاؤ کر رہے ہو آخر بتا ہی دو کے مسلہ کیا ہے "۔ ارج نے آخر دل کی بات پوچھتے ہوئے کہا ۔
"یہ کوئی ڈرامہ نہیں ہے ۔ کہ کے ایک بات پوچھنے کے لئے دس قسطیں لگے گیں یہ ہم دونوں کی زندگی کی بات ہے ۔ میرے بارے میں جانے کے بعد تمہارا برتاؤ بہت بدل گیا ہے "ارج آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔
"ارج ” پامیر نے کس مشکل سے یہ نام لیا تھا یہ وہی جانتا تھا "۔میں بہت محبت کرتا ہون تم سے ارج ۔ تمہاری بہت اہمیت ہے میری زندگی میں ۔ میں ایسے کیسے ایک بات پر تمھیں چھوڑ دوں جیسا ۔”
تو پھر یہ سب ۔ تم ٹھیک ہو کوئی مسلہ ہے تو بتاؤ ۔ ارج کی بات پر افسردہ سی مسکراہٹ آئی ۔ آنکھوں میں آنسو روک کر بولا کبھی میری زندگی میں کسی نے میرا حال نہیں یوں پوچھا پامیر نے سوچا
یہ سانحہ بھی ،محبت میں بارہا گزرا
کہ اس حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
"جیسا تم سمجھ رہی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ بس میں تھوڑا اپسیٹ ہون کسی بات کو لے کر اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ تم اپنے ذھن پر زور مت ڈالو ۔ اچھا چھوڑو ان باتوں کو میں بلکل ناراض نہیں ہون "پامیر نے بات بدلتے ہوئے کہا ۔
پامیر تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو پتا نہیں کیوں مجھے ایسا احساس ہو رہا ۔” پامیر کی بات کو نظر اندز کئے ارج بولی ۔
” بو نیتا ! میں آپ سے کچھ چھپا نہیں سکتا ۔” پامیر نے چہرے پر بشاشت لانے کی کوشش کی ۔
"بھائی بات سنیں "۔۔تبھی عمر نے کسی کام سے پامیر کو بلایا ۔
"میں آتا ہون ایک ۔منٹ ” کہتے ہوئے چلا گیا ۔
"کتنا ہینڈسم ہے نا ۔ بڈ بوئے ٹائپ لوک ۔” یہ آواز سن کر ارج تو کان ہی کھڑے ہو گئے ۔
"چلو ! اس سے بات کر کے دیکھتے ۔ روڈ ہیرو تو ویسے بھی بہت اچھے لگتے ہیں ۔ "ان لڑکیوں کی باتیں سن کر ارج تو غصے سے سرخ ہی ہو گئی ۔
"مطلب جس کو دیکھو تاڑ لو ۔بیڈ بوئے ۔ نہیں اب بیڈ (bad)ویمن سے ہی سامنا ہو گا ان کا "۔ ارج نے تلملاتے ہوئے سوچ کر اٹھ ان کی طرف بڑھی ۔
"جی بولیں ۔ کوئی کام تھا آپ کو ؟” ارج نے راستے میں ھائل ہوتے ہوئے کہا
"جی ! آپ کا تعارف "۔ پرپل کلر کے بالوں والی لڑکی نے کہا ۔
”اوہ! جسٹ لیوایٹ ۔ واٹ از ہیز نیم؟۔ڈٹ مسٹر بیڈ بوئے (اس بات کو رہنے دو ۔ اس مسٹر کا نام بتا دو )۔ اس نے پامیر کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔
"ہیز نم از۔۔۔۔۔نن اف یور بزنس ! ”
"واٹ ! ” لڑکی نے اس کے تیور دیکھ کر کہا
"آپ ہیں کون ؟ ”
اس لڑکی کی بات سن ارج کو اور تپ چڑھی۔”اس کو تو میں بتاتی ہون کے میں کون ہون ۔۔”
ان کا نام پامیر ہے ۔ میرا نام ارج ہے ۔ اور آپ ارج کی جگہ مسز پامیر بھی بلا سکتی ہیں ۔” اس نے مضنوعی سا مسکرا کر جواب دیا ۔
جب اس تمام کاروائی کے دوران پامیر بھی ارج کے سر پر پہنچ گیا تھا ۔ اور آخری لائن سن کر اسے حیرانی بھی ہوئی اور خوش بھی ۔وہ لڑکیاں ارج کی بات سن کر وہاں سے چلتی بنی
"یہ کیا کیا ! ۔بیچاری لڑکیوں کو ڈانٹا کیوں ۔ کیا امیج بنے گا میرا ان کے سامنے ۔ ” پامیر نے مسکرا کر کہا ۔ارج تو پہلے ہی تپی بیٹھی تھی
"میں بتاتی ہون کیا ۔ اگر یہ مجھے لائبریری کے پاس بھی دکھائی دی نا ۔ تو ان کو تو میں ۔۔۔۔۔۔۔”
"اچھا اچھا بس بس "۔پامیر نے شرارت سے مسکرا کر کہا ۔
"تم بھی ان ۔۔ فلرٹی لڑکیوں کے ساتھ جاؤ ۔ اور تو کام۔ نہیں ۔۔جا رہی ہون ۔پر نظر ادھر ہی ہو گی میری ۔” ارج نے غصے سے کہا اور دروازے کی طرف مڑی ۔
"مطلب میں سی سی ٹی وی نا لگوا وں ۔ اب ۔ مطلب اب میرا خرچہ ہونے سے بچ گیا "۔ اونچی آواز میں بالتے ہوئے پامیر نے مسکراہٹ ضبط کرنے کی۔ ناکام کوشش کی
"کیا ! میں نے تو بس یہ کہا ہےکہ اگر تم ٹائم سے نا گئی تو مسز تمیور(بیکری کی اونر ) کو اپنا فصیلہ نا بدلنا پڑے” ۔ پامیر ابرو اچکا کر بولا ۔
ارج پاؤں پٹک کر چل دی ۔ "میرے ساتھ ہی گھر جانا ۔ ”
"مرضی میری ،میں اکیلی جاؤں گی "۔ ارج ضد کرتے بولی
شام ہونے کو تھی ارج کی نے لائبریری کی۔ طرف دیکھا ۔ اور پھر اپنی گھڑی کی طرف جو شام۔ کے ساڑھے چار بجا رہے تھے ۔ "بیکری تو چار بجے ہی بند کر دی تھی
مطلب اب پانچ بجے تک تو میں انتظار کرنے سے رہی ۔” کچھ سوچتے ہوئے اس نے تمام چیزیں سمیٹیں ۔بیکری سے باہر آ کر دروازہ بند کیا ۔ سامنے مڑتے ہی اس کی نظر ایک چشمہ پہنے شخص پر پڑی ۔
"یہ بندہ تو شائد صبح بھی ادھر ہی تھا ” ۔ ارج نے منہ بناتے ہوئے خود کلامی کی
"میرا وہم بھی ہو سکتا ہے ۔ ارج تم بھی نا "۔ ارج نے سر پر ہاتھ مارا اور سر جھٹک کر لائبریری کی طرف چل دی ۔
پا میر اپنے کام میں مصروف تھا ۔باہر دیکھا ۔تو ارج بار بار پیچھے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔پامیر کو آس پاس کوئی نظر نا آیا ۔ مگر دل میں شک بیٹھ گیا ۔
"ارج تم پیچھے کیا دیکھ رہی تھی "۔ وہ لائبریری میں داخل ہوتی ارج سے مخاطب تھا ۔
"میں ! کچھ نہیں ۔ وہاں کوئی شخص تھا ۔ مجھے لگا شائد صبح سے کھڑا ہے خیر یہ میرا وہم۔ بھی ہو تا ہے ۔” ارج کرسی پر جا بیٹھی ۔
پامیر کے چہرے پر پریشانی کے آثار وازیہ ہوۓ ۔
"تمھیں کتنی بار کہو ں کے ۔ مجھے بلانا جب بیکری بند کرو گی تمھیں تو شائد لاطینی زبان سمجھ آتی ہے ۔ میں تو بکواس ہی کرتا ہو ۔” پامیر کو زندگی میں پہلی بار کوئی رشتہ اپنا ملا ۔تھا اب وہ بھی کسی کو فیملی کہہ سکتا تھا ۔ وہ نا شکرا نہیں تھا ۔ اس کے جذبات وہی لوگ ہی محسوس کر سکتے تھے جن کے پاس مخلص لوگوں کی کمی ہو ۔
"تمھیں غصہ کس چیز کا ہے ۔ میں کب سے انتظار کر رہی تھی ۔فون میں گھر بھول گئی تھی ۔ صبح بھی یہی برتاؤ تھا ۔ آخر کس بات کی وجہ سے پریشان ہو اس رویہ کا کیا مطلب اخذ کروں میں "۔ارج اس کی بار بار ڈانٹنے سے تنگ آ کر بولی ۔
پامیر نے زخمی سی مسکان لئے اس کی طرف نظریں اٹھائیں ۔ م”اضی نے اب تک پیچھا نہیں چھوڑا میرا "۔ پامیر اتنا کہ کر اٹھ کھڑا ہوا "چلو اؤ گھر چلتے ہیں تاکہ تمھیں ماضی سے روشناس کرواؤں ۔ بتاؤں کے پامیر کن دکھوں کو کن بوجھوں کتنے رازوں کو لئے گھوم رہا ہے ۔”
لائبریری میں اکا دکا لوگ ہی بچے تھے ۔ان سے فارغ ہونے کے بعد پامیر نے دروازہ بند کیا ۔
پامیر اور ارج گھر کے راستے کی طرف چل پڑے ۔ "پامیر ” ارج نے پکارا
"یہ بار بار ادھر ادھر دیکھ رہے ہو جیسے ابھی کوئی جن آ کر ہم دونوں پر حملہ اور ہو جائے گا آخر اتنے پریشان کیوں ہو مجھے بتاؤ تو سہی ۔”ارج نے پامیر آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔
"نہیں ! میں پریشان تو نہیں ہون” ۔ پامیر کہہ کر آگے بڑھا ۔ جبکہ ارج اس کی منتق پر حیران تھی ۔ پامیر ارج کو ساتھ چلتے ہوئے نا پا کر ۔روکا اور اس کی طرف مڑ کر دیکھا
"اب کیا ہے ؟ وہاں کیوں روک گئی ہو ۔ ”
"بس دماغ خراب ہو گیا ہے ۔ "ارج منہ بنا کر بولی ۔
"ٹھیک کب تھا ۔ ” پامیر کے چہرے پر بھی ہلکی سی مسکراہٹ آئی
"تم سے نا بات کرنا ہی فضول ہے ۔ آس پاس ایسے دیکھ رہے ہو جیسے ڈرا کولا کو تم مطلوب ہو "۔ ارج نے اب تیز چلنا شروع کر دیا تھا پامیر نے بھی اس کے ساتھ چلنے کے لئے قدم تیز کر دیے ۔
"ایک عدد ڈرئیکو لی ساتھ ہو تو دھیان رکھنا ہی پڑتا ہے "۔ پامیر نے مسکرا کر کہا ۔
"میں ڈرئیکولی ہو ہی نہیں سکتی ۔ کیونکہ ڈراکولا اصل میں ہوتے ہی نہیں ہیں ۔ ” ارج کہہ کر ساتھ چلنے لگی ۔
"اچھا میں کہوں تو غلط آپ کہیں تو کوئی بات نہیں ۔واہ ۔” پامیر کا موڈ اب پہلے سے کافی بہتر تھا اب ۔
دونو ں باتیں کرتے ہوئے اچھے موڈ میں گھر میں داخل ہوئے ۔ لیکن جو حال گھر کا سامنے منتظر تھا ۔ اس نے دونوں کو پریشانی اور خوف میں مبتلاکر دیا ۔
گھر کی ہر چیز سہی سلامت تھی سوائے ان کے کمرے کے اور لیونگ روم کے جس کی کوئی ایک بھی شے ایسی نا تھی جس کو نقصان نا پھنچایا گیا ہو ۔
پامیر کے لئے یہ تمام صورتحال کافی تشویش کا با عث تھی ۔ ۔
"تم ٹھیک ہو کچھ بھی نہیں ہوتا یہ تمام چیزیں تو پھر بن جایئں گی ۔ جان زیادہ شکر کرو اللہ جی کا کے ہم نہیں تھے گھر میں "۔ارج نے اس کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ کر اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا
"میں ٹھیک ہون ۔ بس میں نے بہت محنت کی تھی یہ سب بنانے کے لئے بس اس چیز کا دکھ ہے ۔ باقی تم اور میں ٹھیک ہیں ۔ سہی سلامت ہیں اس بات کا جتنا رب کا شکر گزار رہوں کم ہی ہے "۔وہ ارج کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا ۔
"ہمم ! جمال صاحب کو۔ پتا لگ گیا ہے انہوں نے آرزو صاحبہ کے گھر کی چابیاں دیں ہیں فلحال ہم وہاں رہیں گے ۔ پھر بعد میں سوچتے ہیں "۔ پامیر ارج کا تھامے ہوئے اٹھ کر باہر کو چل دیا ۔
"ہمیں پولیس کو بتانا چاہیے نا ۔ اس تمام وارداد کے بارے میں "۔ ارج نے پامیر سے کہا جو گھر کا دروازہ بند کر رہا تھا ۔
"نہیں ! فلحال نہیں ۔ یہ کام کوئی چوری کے لئے نہیں کیا گیا ۔ بلکے ہم لوگوں کو ڈرانے کے لئے کیا گیا ہے ۔ "ارج نے حیرانی سے اس کی طرف مڑ کر دیکھا ۔
"وہ کیوں ۔ ہم نے کسی کا کیا بگاڑا دیا ۔ ”
"میں بتاتا ہون سب تم بس ساتھ چلو اس طرح باہر رہنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے "۔پامیر نے اسے ساتھ کھینچتے ہوئے کہا ۔
"تم ڈرا رہے ہو مجھے ،پامیر!!!” ارج نے کے بھی قدم کافی تیزی سے چل رہے تھے ۔ رات کو باہر کا موسم کافی حد تک خوشگوار تھا ۔ ہلکی ہلکی رم جھم بھی ہو رہی تھی ۔ سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں چلتے ہوئے پامیر کے چہرے پر پریشانی نے ڈیرہ جما رکھا تھا ۔