(Last Updated On: )
(6)
صبح کی نماز پڑھ کر صاحب عالم ہاتھی کی عماری میں سوار ہو گئے اور صاحب عالم کے ہاتھی کے ساتھ میر سنگی صاحب کی ہتنی بھی ہولی، صاحب عالم کے ہاتھی پر اور میر صاحب کی ہتنی پر پانی کی ایک چھاگل بھی تھی۔ دو رہبر راجپوت سنگھ نے بھیج دیے تھے وہ آگے آگے جا رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں بھی بلم تھے جن کے پھل بجلی کی طرح چمک رہے تھے۔ شیر کی تلاش میں صبح سے دوپہر دن ہو گیا مگر شیر کا پتہ نہ چلا۔ رہبر برابر کہتے رہے کہ شیر جھاڑیوں میں ضرور ہے ابھی نہیں ملا تو کیا ہے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ میں مل جائے گا، صاحب عالم نے مع اپنے ساتھیوں کے ایک جگہ فرش بچھوا کر کھانا نوش فرمایا۔ میر صاحب نے کہا، جناب عالی دن کا ایک بج گیا ہے اور ہم چھاؤنی سے اس قدر دور نکل آئے ہیں کہ اگر اب سے چلیں گے تو مغرب کے بعد چھاؤنی میں پہونچیں گے اور اگر حضور نے یہیں شام کی تو پھر چھاؤنی تک پہونچنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ جن درختوں میں سے آپ کا ہاتھی پھنس کر نکلا ہے رات کے وقت ان میں سے گزرنا بالکل ناممکن ہے۔ رہبروں نے بھی یہی کہا کہ حضور اب چھاؤنی ہی کو چلے چلیے ہم (ناہروں کی رہتان ) سے یعنی ان کے رہنے کی جگہ سے کچھ آگے نکل آئے ہیں۔ توقع ہے کہ حضور جب پلٹ کر چلیں گے تو شیروں سے مڈبھیڑ ہو جائے گی۔ صاحب عالم نے فرمایا کہ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ چاہے ساری رات مجھے ہاتھی پر سوار ہوئے گزر جائے مگر بے شیر کا شکار کیے نہ پلٹوں۔ مگر تم لوگ یہ جو کہتے ہو شیروں کے رہنے کا مقام پیچھے رہ گیا ہے اس لیے میں واپس چلتا ہوں۔ یہ کہہ کر صاحب عالم نے فیل بان سے کہا ہاتھی کو پھیرو اور صاحب عالم مع اپنے ساتھیوں کے اردوئے معلی کی طرف چلے، ابھی ایک میل ہی چلے ہوں گے جو کانوں میں بادل کے گرجنے کی آواز آئی۔ رہبروں نے کہا شیر دڑوک رہے ہیں، ہمارے بچار میں تو تین شیروں سے کم نہیں ہیں۔ صاحب عالم نے اپنی دونالی سنبھالی اور حکم دیا دھونسے اور باجے زور زور سے بجاؤ۔ حکم کے ساتھ ہی دھونسے اور باجوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور ان کی صدائیں بن میں گونجنے لگیں اور بن کے رہنے والے جانوروں میں ہلچل مچ گئی۔ گیدڑ، بھیڑیے، خرگوش اور جنگلی سور ادھر سے ادھر بھاگتے ہوئے دکھائی دیے ۔ صاحب عالم کے داہنی طرف کی جھاڑی میں سے ایک شیر نکل جانا چاہتا تھا جو اس نے دیکھا کہ دونوں جھاڑیوں کے بیچ میں صاحب عالم بہادر کا ہاتھی اڑا کھڑا ہے یہ اسے بہت ناگوار گزرا۔ اس نے عماری میں صاحب عالم بہادر کو کھڑا دیکھ لیا اور وہ غرش کے ساتھ ہاتھی کی طرف لپکا مگر صاحب عالم اسے ہاتھ تک کب آنے دیتے تھے۔ بندوق کا فیر کیا اور گولی اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں جا کر بیٹھی اور شیر الٹ کر گرا اور اس نے ایک جگر شگاف نعرہ مارا جس کے ہول سے صاحب عالم کے ہاتھی نے پیشاب اور لید کر دی اور تمام کجلی بن لرز گیا، صاحب عالم کی اس قادر اندازی پر سب آدمی سبحان اللہ کہہ رہے تھے جو یہ معلوم ہوا آسمان سے بجلی گری مگر بجلی نہیں گری تھی شیرنی شیر کو مردہ دیکھ کر جھلاتی ہوئی آئی تھی اور چاہتی تھی کہ ہاتھی کی سونڈ پر چڑھ کر صاحب عالم کو عماری میں سے پنجہ ڈال کر گھسیٹ لے، ہاتھی قیں کرکے اور سر ہلا کر پلٹنا چاہتا تھا جو مرزا شاہرخ نے دوسری نال بندوق کی شیرنی پر خالی کی، ادھر سے جس ہتنی پر میر سنگی صاحب سوار تھے اس نے شیرنی پر مہرہ کیا۔ صاحب عالم کی گولی شیرنی کے بھیجے پر پڑی تھی، اس کا بھی کام تمام ہوا اور ہتنی نے اسے اپنے پاؤں سے کچل ڈالا۔ ہاتھی کے سر سے لے کر سونڈ تک برگستوان فولادی یعنی پاکھر پڑی ہوئی تھی، نہیں شیرنی ضرور اس کی سونڈ اور اس کے سر کو کھا جاتی۔ مہاوت جو ایک دلیر آدمی تھا، اس نے بھی اپنی کٹار سے شیرنی کو روکا تھا، نہیں وہ اس کا بھی کام تمام کرتی اور بے شبہ عماری تک پہونچ جاتی۔ شکار کے بعد بھی دیر تک دیکھنے والوں کے دل کانپتے رہے اور مرزا شاہرخ بہادر کی ہنسی کسی طرح تھمتی ہی نہ تھی، عماری میں بیٹھے بیٹھے لوٹے جاتے تھے۔
دن ڈگڈیوں ہوگا جو صاحب عالم اردوئے معلی میں میر سنگی صاحب پہونچ گئے اور قراول رات کے بارہ بجے ان شیروں کو اٹھوا کر چھاؤنی میں لے آئے، صاحب عالم بارگاہ میں زینت بخش تھے۔ میر سنگی صاحب نے عرض کی، خداوند نعمت خدا کا شکر ہے آج ایسا شکار ہوا کہ آگے توقع نہیں ہے کہ اس سے بہتر شکار ہو کیونکہ نوکروں کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، نہیں شیر کے شکار میں اکثر پیادہ زخمی ہو جاتے ہیں کیونکہ شیر پہلے ان سے ہی مصافحہ کرتا ہے، پھر ایک شیر میں دو شیر شکار ہو گئے۔
صاحب عالم : بھئ میر سنگی تم کہتے سچ ہو، شیرنی شیر سے زیادہ پھرتیلی اور غصیل ہوتی ہے۔
اسی طرح بیس دن میں اٹھارہ شیر صاحب عالم نے شکار کیے اور کھال بنانے والے جو ساتھ تھے انھوں نے سب کی کھالیں درست کر لیں ۔ایک دن صاحب عالم بے وردی پہنے اردوئے معلی سے بندوق ہاتھ میں لے کر نکلے اور ایک کالے تیتر کے پیچھے چلے۔ شکاری جانتے ہیں کہ کالا تیتر بڑا دھوکا باز جانور ہے ۔ مشکل سے بندوق کی مار پر آتا ہے، ابھی یہاں بولا پھر وہاں جا بولا، اسی طرح کئی کئی فرلانگ بھگاتا چلا جاتا ہے ۔ تیتر کہیں چھپ گیا اور صاحب عالم اردوئے معلی میں واپس نہ آئے، میر سنگی صاحب خود چاروں طرف ڈھونڈ آئے اور بہت سے پیادہ اور قراول دوڑتے پھرے اور پھر رہے تھے، صاحب عالم کا کہیں پتہ نہ تھا۔ سب لوگ دق اور پریشان تھے، خاص کر میر سنگی صاحب کو بڑی فکر تھی۔ کیونکہ بادشاہ نے صاحب عالم کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا تھا، اسی تردد میں دن کٹ گیا۔ نہ صاحب عالم آئے نہ کوئی خبر لے کر پلٹا۔ میر سنگی صاحب مغرب کی نماز پڑھ کر دعا مانگ رہے تھے کہ الٰہی بادشاہ زادے کی جان کی خیر کرنا اور مجھ ناچیز کے منہ کو کلنگ کا ٹیکا نہ لگانا جو دنادن بندوق کی دو آوازیں کان میں آئیں اور میر صاحب اور بہت سے نوکر چاکر بندوق کی آواز کی طرف دوڑے۔ کوئی تین کوس پر جا کر یہ تماشا دیکھا کہ ایک شیر جو اگلے شیروں سے زبردست ہے صاحب عالم کی بندوق سے ہلاک ہوا خاک پر پڑا ہے اور صاحب عالم اس پر چڑھے بیٹھے ہیں اور ایک بگیلا شکار کیا ہوا صاحب عالم بہادر کے پاؤں میں لوٹ رہا ہے۔ میر سنگی صاحب پہلے آداب بجا لائے پھر صاحب عالم کے دست مبارک کو بوسہ دیا اور پانچ روپیہ جیب سے نکال کر صاحب عالم پر سے صدقہ کرکے پھینک دیے۔ صاحب عالم نے فرمایا، بھئی میر سنگی! آج خدا نے ہی میری جان بچائی۔ میں اکیلا اور یہ دو میری جان کے خواہاں تھے، مجھے ایک تیتر نے دھوکا دیا، میں اردو سے نکل کر اس کے پیچھے چلا اور اردو سے کوسوں دور نکل آیا اور پھر ایسے خارستان میں پھنس گیا کہ دن کو تارے دکھائی دے گئے ۔ آج صبح سے پانی تک نصیب نہیں ہوا۔ جب شام ہونے لگی تو میں اٹکل سے اپنے اردو کی طرف پلٹنے لگا کیونکہ ہمارا اردو مغرب کی طرف ہے۔ چلتے چلتے جب میں اس شیر سے پچاس قدم رہا تو میں نے دیکھا کہ یہ شیر ایک درخت کے نیچے بیٹھا اپنے منہ کی مکھیاں سر ہلا ہلا کر اڑا رہا ہے میں نے بندوق سنبھالی اور اس کے سر کا نشانہ باندھ کر چاہا تھا کہ لبلبی دبا دوں جو مجھے اپنے پیچھے کچھ آہٹ معلوم ہوئی گردن پھیر کر دیکھتا ہوں تو معلوم ہوا یہ بگیلا مجھ سے پانچ قدم پر دانت نکوسے کھڑا ہے اور بلی کی طرح دم ہلا رہا ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ اس بگیلے نے شیر کو دیکھ لیا تھا اور وہ مجھے شیر کا لقمہ سمجھ کر میرے اوپر حملہ کرنے سے رک رہا تھا۔ شیر کے ڈر کے مارے اس کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ وہ مجھ پر آ پڑے مگر للچا للچا کر گھور رہا تھا اور دانت پیس رہا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کس قوت نے میرا ہاتھ اور میری بندوق اس بگیلے کی طرف پھیردی مگر الحمد للہ کہ میری بندوق نے ایسا کام دیا کہ اس کی گولی بگیلے کے حلق میں سے گدی توڑ کر نکل گئی اور میں پھر شیر کی طرف مڑا اور میں نے دیکھ لیا کہ شیر میری طرف جھپٹا۔ مگر خدا کی رحمت میری گولی اس کے آنے سے پہلے اس کے دماغ میں پیوست ہوگئی اور شیر بے جان ہوکر زمین پر گرا۔ صاحب عالم کے نوکر چاکر تو صاحب عالم کی تعریف کر ہی رہے تھے مگر وہ دونوں رہبر جو راجپوت کے بھائی تھے آ گئے تھے، انھوں نے صاحب عالم کے اس شکار کی بہت ہی صفت و ثنا کی اور کہا یہ کام آپ نے مردانگی کا کیا ہے۔ پھر سب ہمراہی صاحب عالم بہادر کو لے کر اردوئے معلی میں پہونچے۔ میر سنگی نے کہا، جناب عالی اگر حضور کا جی شیروں کے شکار سے سیر ہو گیا ہو تو اب شاہجہاں آباد کے پلٹنے کا ارادہ فرمائیے کیونکہ جناب عالیہ اور جہاں پناہ حضور کے فراق میں بے چین ہوں گے۔ حضور کو یاد ہوگا کہ جب آپ اعلی حضرت سے رخصت ہوئے تھے تو اعلی حضرت نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ شعر پڑھا تھا:
ازمن جدا مشو کہ تو ام نور دیدہ
آرام جان و مونس قلب رمیدہ
اور حضرت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ صاحب عالم نے فرمایا اب ان شاءاللہ تعالیٰ جلد تر شاہجہاں آباد کو چلیں گے۔ کل ان دونوں رہبروں کو رخصت کیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ راجپوت سنگھ کو ہماری طرف سے دعا پہونچائیں اور یہ کہیں کہ اب تم کجلی بن میں جلد پہونچو، ہم تو شکار کر چکے مگر تمھارے شکار کے دیکھنے کا بڑا شوق ہے۔ صاحب عالم کے فرمانے کے بموجب وہ دونوں آدمی پلاکو گئے اور انھوں نے راجپوت سنگھ کو اردوئے معلی کی جانب روانہ کیا۔ وہ جب اردوئے معلی میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ پانچ چھ آدمی، دو گھوڑے، ایک چھوٹا سا خیمہ اور ایک بیلوں کا تانگہ اور دو کتے تھے جن کی آنکھوں پر چیتے کی طرح چمڑے کی ٹوپیاں چڑھی ہوئی تھیں۔ صاحب عالم نے میر سنگی کو حکم دیا کہ ہمارے مہمان راجپوت سنگھ کو اور ان کے آدمیوں کو اور ان کے جانوروں کو آرام سے ٹھہرایا جائے۔ میر سنگی صاحب نے جمعدار کو بلا کر صاحب عالم کا حکم سنا دیا۔ خاصہ نوش فرمانے کے بعد جب رات کو صاحب عالم سکھ کرنے کے لیے چھپر کھٹ میں لیٹے تو فرمایا راجپوت سنگھ کو حاضر کیا جائے۔ راجپوت آ گیا اور آداب بجا لا کر دست بستہ کھڑا ہو گیا۔ میر سنگی صاحب نے کہا، حضور فرماتے ہیں آپ سورج بنسی خاندان میں سے ہیں اور آپ کے خاندان کی ہمارے بڑوں نے ہمیشہ تعظیم کی ہے، آپ چاندنی پر بیٹھ جائیے۔ اور جب وہ بیٹھ گیا تو صاحب عالم نے ارشاد کیا آپ کل شیر کے شکار کو چلیں گے؟
راجپوت سنگھ : جی ہاں اگر حضور حکم دیں گے تو یہ غلام شیر کے شکار کو چلے گا۔
صاحب عالم : تو آپ ہاتھی پر عماری میں بیٹھیں گے یا گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کریں گے۔ گھیرا ڈالا جائے گا یا کسی اور طرح شیر کو جھاڑی سے نکالا جائے گا؟
راجپوت سنگھ : حضور ہم غریب آدمیوں کے پاس ہاتھی کہاں سے آیا۔ میں تو پیدل شیر سے آمنا سامنا کرکے اسے مارتا ہوں۔ میرے ساتھ دو کتے ہوں گے اور وہ میرے پہلو میں تانگے کے کھٹولے پر بیٹھے ہوں گے۔ اس تانگے میں دو آدمیوں کے بیٹھنے کی اور جگہ ہے، اگر حضور کو میرا کرتب دیکھنا منظور ہے تو حضور کو بھی اسی تانگہ میں بیٹھنا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ ایک آدمی حضور اپنے پاس اور بٹھا لیں۔ دس بیس یا سو پچاس آدمی شیر کو نکالنے کے لیے درکار نہیں ہیں۔ صاحب عالم نے فرمایا جو تمھاری خوشی، ہم بھی تمھارے ساتھ تانگہ میں بیٹھ لیں گے۔ اچھا اب رات بہت آئی تم جا کر آرام کرو ۔ ابھی کچھ رات باقی تھی جو راجپوت سنگھ کے خیمہ سے بھجن گانے کی آواز آئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ دھیان گیان کا آدمی ہے ۔ تارے صاحب عالم کے اردوئے معلی کو غور سے دیکھ رہے تھے اور نورانی زبان میں کہہ رہے تھے کہ آج ایک سورج پورب سے نکلے گا اور دوسرا سورج دہلی کا بادشاہ زادہ اپنی بارگاہ سے باہر آئے گا۔ ہم اس انتظار میں ہیں کہ دونوں آفتاب نکلیں اور ہم دیکھیں کہ چمک دمک دہلی کے بادشاہ زادے کے رخسار میں زیادہ ہے یا پرانے سورج میں ۔
صاحب عالم اور میر سنگی صاحب صبح کی نماز سے فارغ ہو کر خیمہ سے باہر آئے ہی تھے جو اطلاع ہوئی کہ راجپوت سنگھ اپنا تانگہ لے کر در دولت پر حاضر ہے۔ صاحب عالم اپنی دونالی ہاتھ میں لے کر خیمہ سے نکلے تو دیکھا راجپوت سنگھ گاڑی بان بنا ہوا تانگہ کے جوئے پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کے ادھر ادھر دو کتے جو بہت دبلے پتلے ہیں مگر لمبے بہت ہیں تانگہ میں بیٹھے ہیں راجپوت سنگھ آداب بجا لایا اور دست بستہ کہنے لگا حضور تانگہ میں سوار ہو جائیں۔ صاحب عالم کے نوکروں نے تانگہ میں مخملی زردوزی گبا بچھا دیا اور صاحب عالم مع میر سنگی کے تانگہ میں بیٹھ گئے۔ تانگہ کے بیل بہت چالاک تھے اور اس ناہموار زمین پر اڑے چلے جاتے تھے۔ راجپوت سنگھ صاحب عالم کو ایسی جگہ لے گیا کہ انھوں نے اپنی اس مدت قیام میں کبھی نہ پہونچے تھے ۔ راجپوت سنگھ نے تانگہ ٹھہرا لیا اور تانگہ سے اتر کر دس پانچ قدم ادھر ادھر زمین کو دیکھتا بھالتا چلا گیا ۔ پھر پلٹ آیا اور صاحب عالم سے کہا میں شیر کا کھوج لے آیا۔ شیر ہرن اور نیل گائے کے مارنے کے لیے ندی پار گئے ہیں۔ آج ہمارا ان کا ضرور مقابلہ ہوگا اور تانگہ پر آ بیٹھا اور اس نے تانگہ ندی میں ڈال دیا۔ ندی بہت گہری تھی اور اس کا پانی موتی سے زیادہ اجلا تھا۔ ندی کی تہہ میں گھونگہ، سیپیاں اور قسم کی چھوٹی بڑی مچھلیاں نظر آ رہی تھیں۔ کوئی مچھلی ابلق، کوئی سبز، کوئی سرخ، کوئی سیاہ، کوئی نقرئی تھی ۔ کچھ مچھلیاں ایسی بھی نظر آئیں جن کا ایک پہلو سنہری اور ایک پہلو روپہلی تھا ۔ ندی میں بعض کیڑے بری صورت کے تھے جن کے دیکھنے سے نفرت پیدا ہوتی تھی۔ ندی کا پاٹ بہت چوڑا تھا اور تانگہ اس میں ناؤ کی طرح تیر رہا تھا، پانی کی دھار چاہتی تھی کہ اسے بہا لے جائے ۔ مگر بیل ایسے زور دار اور تیراک تھے کہ وہ پھرتی سے پانی کاٹتے چلے جاتے تھے ۔ تھوڑی دیر میں دوسرا کنارہ آگیا اور تانگہ بخیر و خوبی ندی سے نکل گیا، ابھی ندی سے پچاس قدم آگے آئے ہوں گے جو ایک طرف سے ہرنوں کی ڈار دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے تانگہ کے آگے سے ہوکر دوسری طرف جانا چاہا۔ راجپوت سنگھ نے جلدی سے اپنے کتوں کی آنکھوں پر سے ٹوپی اتار لی اور ان کے گلے میں سے ڈوری بھی کھول دی۔ اتنے میں ایک شیر بھی آن پہونچا، در اصل ہرن شیر کو دیکھ کر بھاگے تھے ۔ شیر کی بو سونگھ کر کتے تانگے سے دھڑام دھڑام کودے اور انھوں نے بھونکنا شروع کیا ۔ کتوں کی آواز سن کر شیر نے اپنی توجہ ہرنوں کی طرف سے اٹھا لی اور وہ کتوں کی طرف آیا اور کتے بھی اس کی طرف لپکے۔ کتوں کے ساتھ ہی راجپوت سنگھ بھی اپنا کھانڈا لے کر کودا، کتوں نے شیر کو جا لیا۔ ایک کتا شیر کے منہ کی طرف دوسرا اس کی دم کی طرف گیا ۔ شیر نے بہت چاہا کہ وہ کتوں کو چیر پھاڑ کر پرخچا اڑا دے مگر وہ کتے ایسے پھرتیلے اور پچیت تھے کہ اس کے منہ اور پنجے کی پکڑ سے بالکل بچے رہے، وہ نہ شیر کو آگے بڑھنے دیتے نہ پیچھے ہٹنے دیتے تھے، اس میں راجپوت سنگھ بھی جا پہونچا اور اس نے کھانڈا نکال کر ایسا ہاتھ مارا کہ شیر کا سر تن سے جدا ہو کر دور جا پڑا، صاحب عالم کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ واہ راجپوت سنگھ کیا کہنا ہے۔ آفریں ہے تیری ضرب و دست کو تیری ماں تجھے ہی جنے ۔ کتوں نے شیر کا خون پینا شروع کیا اور راجپوت سنگھ کے آگے دم ہلانے لگے اور غل مچانے لگے۔ راجپوت سنگھ نے کہا کیوں مرے جاتے ہو دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے شیر کا پیٹ چاک کر کے اس کا جگر اور دل کتوں کے آگے ڈال دیا اور وہ ہپڑ ہپڑ کر کے کھا گئے۔ میر سنگی صاحب نے کہا، حضور نے دیکھا یہ کتے شیر کا شکار کیوں نہ کریں انھیں تو اس کے دل و جگر کے کباب بھاتے ہیں۔
اب دن کے بارہ بج گئے تھے۔ راجپوت سنگھ نے تانگہ کے اندر سے ایک تھیلا موم جامے کا نکالا۔ اس میں ناشتہ تھا اور ندی کے پانی کا اس پر ذرا اثر نہ ہوا تھا ۔ تینوں صاحبوں نے بیٹھ کر اسے کھایا ایک جھیل کا ٹھنڈا پانی پیا۔ اور راجپوت سنگھ ان صاحبوں کو لے کر بدستور تانگہ پر سوار ہوا اور ایک جھاڑی کے پاس پہونچ کر اس نے ایک شیر کا کھوج لے کر کہا شیر اس جھاڑی میں پڑا سوتا ہے ۔ اس نے اپنے دونوں کتے تانگہ سے اتارے اور انھیں جھاڑی کی طرف اشارہ کیا، وہ چپکے چپکے جھاڑی میں گھسے، کوئی دو منٹ بعد شیر کے دہاڑنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی یہ تماشا دکھائی دیا کہ شیر بولایا ہوا آ رہا ہے اور ایک کتا اس کے نرخرے سے لپٹا ہوا جونک کی طرح لٹک رہا ہے اور دوسرا اس کی دم سے چمٹا ہوا لٹکتا چلا آتا ہے راجپوت سنگھ نے ترچھی کاٹ کر ایک ہاتھ کھانڈے کا ایسا مارا کہ شیر کھیرے ککڑی کی طرح بیچ میں سے دو ٹکڑے ہو کر آدھا ادھر آدھا ادھر گرپڑا ، صاحب عالم اور میر صاحب نے پھر راجپوت سنگھ کی بہت تعریف کی اور راجپوت سنگھ نے شیر کا کلیجہ اور دل نکال کر کتوں کے حوالہ کیا۔ صاحب عالم نے فرمایا، راجپوت سنگھ اس طرح شکار کرنا تمھارا ہی حصہ ہے ۔ بس اب زیادہ تکلیف نہ کرو ، چھاؤنی کو چلو۔ راجپوت سنگھ نے اس شیر کی کھال اتار کر تانگہ میں رکھ لی ۔ پھر جہاں دوسرا شیر مارا تھا وہاں آیا اس شیر کی کھال بھی اتار کر رکھ لی اور بیلوں کو بھگایا اور ندی تک پہونچ گئے اور ندی میں تانگہ ڈال دیا، ندی میں تانگہ چلا جاتا تھا۔ اتفاق اور موقع ندی کے اُس پار سے ایک شیر ادھر آ رہا تھا غالبا وہ ہرنوں کے شکار کی غرض سے ندی اترنا چاہتا تھا اور وہ بیچ ندی میں پہونچ گیا تھا ۔ راجپوت سنگھ نے اسے دیکھا اور اپنے دونوں کتوں کو اس ندی میں اتارا، کتے شیر کی طرف چلے اور اس کے ساتھ ہی راجپوت سنگھ بھی ندی میں کودا ۔ صاحب عالم نے میر سنگی صاحب سے فرمایا، بھئی میر سنگی آج جانوں کی خیر نہیں کیونکہ تانگہ والا تو شیر مارنے گیا ۔ اب یہ بیل ہمیں تمھیں اور تانگہ کو ندی میں ڈبو دیں گے ۔ ادھر کتوں نے جا کر شیر کا آگا روکا اور راجپوت سنگھ نے شیر کے پاس پہونچ کر ندی میں غوطہ مارا اور شیر کے پیٹ کے نیچے پہونچ کر پیش قبض سے اس کا پیٹ پھاڑ دیا کتے اسے لپٹ گئے اور بہادر راجپوت سنگھ سسکتے شیر کی ٹانگ گھسیٹ کنارہ پر لے آیا ۔ تانگہ کے بیل ایسے شائستہ تھے کہ آپ سے آپ تانگہ لے کر ندی اتر گئے ۔ راجپوت سنگھ نے شیر کا دل و جگر کتوں کو کھلا دیا اور اس کی کھال بھی اتار لایا ۔ صاحب عالم اور میر سنگی صاحب نے اس تیسرے شکار کی بھی بہت تعریف کی اور شام ہوتے ہوتے صاحب عالم بہادر مع راجپوت سنگھ اور میر سنگی کے اردوئے معلی میں پہونچ گئے اور صاحب عالم نے اسی وقت راجپوت سنگھ کو خلعت اور جڑاؤ کڑے عطا فرمائے، چھاؤنی کے خاص و عام نے راجپوت سنگھ کے شکار کا حال سنا تو انھیں بڑا افسوس ہوا کہ ہم نے نہ دیکھا ۔ آج رمضان المبارک ختم ہو گیا تھا اور آسمان پر ہلال عید جلوہ گر تھا۔ اردوئے معلی میں عید کی تیاری ہو رہی تھی۔ رات کے دو بجے تھے جو میر سنگی صاحب کی سواری کی ہتنی جو شیر کے شکار پر لگی ہوئی تھی، بری طرح چیخی اور ایسی دہاڑی کہ سارے اردوئے معلی میں جاگ ہو گئی ۔ اس ہتنی کا تھان بھی میر سنگی صاحب کے خیمہ کے پاس ہی تھا۔ ہتنی کے چیخنے چلانے کو سن کر میر سنگی صاحب ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر اس کے تھان کی طرف دوڑے، روشنی والوں کو حکم تھا کہ خطرے کے وقت فوراً مشعل مہتاب روشن کریں ۔ اس لیے ذرا دیر میں ساری چھاؤنی روشن ہو گئی ۔ میر صاحب ہتنی کے پاس پہونچے تو انھوں نے دیکھا ایک زبردست شیر ہتنی سے لپٹا ہوا ہے اور چونکہ ہتنی کے اگلے اور پچھلے پاؤں میں مضبوط زنجیریں پڑی ہوئی ہیں اس لیے وہ بے چاری کھڑی کھڑی شیر کے تھپڑ کھا رہی ہے اور کانپ رہی ہے اور وہ شیر کو جواب نہیں دے سکتی ہے۔ میر صاحب نے للکارا کہ او کتے ادھر آ اس بیچاری ہتنی کو کیوں ستاتا ہے ۔ شیر کا قاعدہ ہے کہ وہ آواز پر آتا ہے اس لیے ہتنی کو چھوڑ کر میر صاحب کی طرف آیا۔ اس نے ہاؤ کرکے اور اپنے دونوں پچھلے پاؤں پر کھڑے ہو کر اگلے دونوں ہاتھوں کی تھاپ میر صاحب کے سر پر ماری مگر میر صاحب نے یہ کمال کیا کہ اس کی تھاپ پڑنے سے پہلے اس کے پیٹ کے نیچے پہونچ گئے اور خنجر سے اس کا پیٹ چاک کر دیا اور شیر لڑکھڑا کر زمین پر آیا تو اسے تلوار سے چورنگ کر ڈالا۔ صاحب عالم بہادر اور راجپوت سنگھ نے بھی یہ تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، صاحب عالم نے دوڑ کر میر سنگی صاحب کو اپنے گلے سے لگا لیا اور فرمایا خدا کا شکر ہے میر صاحب بھی بہادری میں راجپوت سنگھ سے کم نہیں ہیں ۔ ادھر راجپوت سنگھ نے میر صاحب کے ہاتھ چوم کر کہا واہ میر جی واہ میں تو کتوں کی آڑ میں شیر کا شکار کرتا ہوں اور آپ بےلاگ شیر مارتے ہیں، آپ ہی جیسے لوگوں کو سورما کہا جاتا ہے ۔ ہتنی بے چاری کو شیر نے جابجا سے زخمی کر دیا تھا اور خصوصاً اس کے سر پر سے کوئی پانچ سیر کا گوشت کا بوٹا اڑا دیا تھا ۔ صاحب عالم نے فرمایا فیلبان اور جراح مل کر اس کی مرہم پٹی کریں ۔ صبح ہوئی اور صاحب عالم نے مع اپنے ساتھیوں کے دوگانہ عید الفطر ادا کیا اور بارگاہ میں آ کر تشریف فرما ہوئے، نذریں پیش ہو رہی تھیں جو دلی کا قاصد حضور جہاں پناہ کا فرمان مبارک لے کر پہونچا، اس میں تحریر تھا کہ اے نور بصر لخت جگر! جلد آؤ، ہم تمھاری مفارقت میں سخت بے چین ہیں اور دن رات یہ شعر پڑھا کرتے ہیں:
از چشم بخت خویش مبادت گزند از آنک
در دلبری بہ غایت خوبی رسیدہ ای
ہماری طرف سے بعد دعا کے میر سنگی کو یہ مژدہ سناؤ کہ تمھارے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے اور اس کے دادا نے اس کا نام اپنے دادا کے نام پر میر عرب رکھا ہے ۔ حضرت میر سنگی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کجلی بن میں ایک دن مجھے تہری خوشی حاصل ہوئی تھی، اول یہ کہ میں نے اسی دن شیر مارا تھا۔ دوسرے یہ کہ اسی دن عید تھی ۔ تیسرے اسی دن دہلی سے قاصد پہونچا اور میر عرب کی پیدائش کی خبر معلوم ہوئی تھی۔
جب صاحب عالم اس شکار سے فارغ ہو کر دہلی پہونچے تو شہر میں ان کے آنے کی دھوم مچ گئی، حضرت ابوظفر بہادر شاہ نے بیٹے کے آنے کا جشن کیا۔ صاحب عالم جہاں پناہ کے حضور میں عرض کر رہے تھے کہ قراولوں کا دستور ہے کہ ادھر شیر پڑا سسک رہا ہے اور یہ گھانس پھونس جلا کر اس کا منہ جھلس رہے ہیں ۔ اس پر شیخ ابراہیم ذوق نے برجستہ یہ شعر تصنیف کر کے بادشاہ اور صاحب عالم کو سنایا:
یاں تک عدو زمانہ ہے مرد دلیر کا
جھلسے ہے منہ شکار کیے پر بھی شیر کا
قطعہ :
مرزا شاہرخ بہادر نے
خونِ نخچیر سے ہوا سارا
نہ بچا اس شکار افگن سے
مرغ و سی مرغ اور غزال و پلنگ
ہے جگر گوشہ بہادر شاہ
سمجھے شیر آپ کو ہزار غنیم
رہے مانند شیر قالیں کے
ہاتھ میں جب تفنگ لی اس نے
کئی شیر ژیاں شکار کیے
ہے بجا گر دلاورانِ جہاں
جب کہ اس جرأت و شجاعت کو
تا رہے یادگار عالم میں
قصدِ صید افگنی کیا جس دم
دامنِ دشت لالہ زار ارم
صید کوئی سوائے صیدِ حرم
ہوئے مسکن پذیر دشتِ عدم
ہو بہادر نہ کیوں وہ نیک شِیَم
اس کے پر سامنے ہے شیر علم
اوج ہمت سے اس کے زیر قدم
ہمسر اژدرہائے آتش دم
اُس غضنفر شکار نے پیہم
کھائیں اس کی دلاوری کی قسم
چاہا اس طرح دل نے کیجیے رقم
وصف عالی صاحب عالم
لکھی اے ذوقؔ میں نے یہ توصیف
مع تاریخ ثانی رستم
مرزا شاہرخ بہادر کے شکار کا دلی میں اس قدر چرچا ہوا کہ داستان گو اسے لوگوں کو سنایا کرتے تھے، عورتوں نے گیت بنائے۔ چنانچہ میں نے دلی کی بڑی بوڑھی عورتوں سے ایک گیت سنا جس کا سِرا مجھے یاد ہے اور وہ یہ ہے :
مرزا شاہرخ بن اکیلا
آگے شیر پیچھے بگیلا
بس اس سے زیادہ کیا لکھوں کہ دنیا اور دنیا کے جاہ و حشم فانی ہیں۔