صبح کی کرنیں افق پہ لہراتی جونہی ایمان کے کمرے میں داخل ہوئیں تو ہر اک شے میں مزید نکھار پیدا کر گئی۔۔ یہ کمرہ آج بھی ویسا ہی تھا جیسا شاہان کی موجودگی میں تھا۔۔ اک شے میں بھی فرق نہ آیا تھا سوائے اس میں رہتے وجود کی زندگی کے سب اپنی اپنی ڈگر پہ زندگی گزار رہے تھے۔۔
سنگھار میز کے مقابل کھڑے اس نے بالوں کو اک کیچر میں مقید کیا۔۔ گھنے سیاہ بال کھلے جتنے خوبصورت لگتے تھے، کیچر میں مقید ذرا الجھے الجھے لگنے لگے تھے البتہ خوبصورتی میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔۔
لمبی چادر کندھوں اور سر پہ درست کئے وہ اپنے وجود پہ نگاہ ڈالے بغیر کمرے سے باہر آ نکلی۔۔ راہداری سے گزرتے جونہی اس کا گزر حال سے ہوا تو ناشتہ کرتے احمد صاحب پکار اٹھے۔۔ “بیٹا۔۔ ناشتہ تو کر لو۔۔”
مگر وہ “راستے میں کر لونگی۔۔” کہتی ہوا کے جھونکے کی ماند گھر سے نکل گئی۔۔ احمد صاحب کا نوالہ حلق میں اٹک کر رہ گیا۔۔
“الله میری بیٹی کی پریشانیاں آسان کرے۔۔” نم لہجے میں کہتے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔۔
“ارے آپ کہاں چلے؟ ناشتہ تو کرتے جائیں۔۔” ناشتے کی ٹیبل پہ پراٹھے رکھتے طاہرہ بیگم ہاتھ روکے دریافت کرنے لگیں۔۔
“بھوک مٹ گئی ہے۔۔”
“ایسا کیسے چلے گا؟؟؟ کھانا نہیں کھائیں گے تو بیمار ہو جائیں گے۔۔”
“اور میری بیٹی۔۔؟” طاہرہ بیگم لحظے بھر کو خاموش ہوئیں۔۔ “دل کٹ جاتا ہے میرا جب اس کو اس حال میں دیکھتا ہوں۔۔”
“الله پہ بھروسہ رکھیں۔۔۔ الله ہماری بیٹی کے نصیب سنوار دے گا۔۔” ان کے قریب پڑی کرسی پہ بیٹھتے وہ ان کی پلیٹ میں سالن ڈالنے لگیں۔۔ چائے کی پیالی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔۔ وہ اسے دوبارہ گرم کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔۔
“جانے وہ پھر کبھی مسکرائے گی بھی یاں نہیں۔۔”
‘مجھے الله پہ اعتماد ہے احمد صاحب۔۔ میری بیٹی زندگی کی طرف وآپس ضرور لوٹے گی۔۔” انہیں امید دلائے وہ چائے کی ٹھنڈی پیالی تھام اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔
“انشا الله۔۔۔” سرد آہ بھرتے وہ بند مٹھی باہم ملائے اسے تھوڑی تلے ٹکائے غیر مرئی نکتے کو گھورنے لگے۔۔
“انشاء الله۔۔” وہ کچن کی جانب بڑھ دیں۔۔ اب مزید ضبط کرنے کی گنجائش باقی نہ رہی تھی۔۔۔
* * * * * * *
ہر سو گہما گہمی سی چھائی تھی۔۔ مہمانوں کی آمد۔۔ زمرد روشنیاں۔۔ پھولوں کی مہک۔۔ کھانے کی مہک۔۔ غرض منظر نامہ دیکھتے یہ قیاس کیا جا سکتا تھا کہ یہ ایک فیملی فنکشن تھا۔۔ اس فنکشن میں جہاں درجنوں عام لوگ اکٹھے ہوئے تھے، وہیں کئی پاک فوج کے باشندے بھی موجود تھے۔۔ دراصل یہ فنکشن خاص کر فوج کے انہی باشندوں کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔۔
“تمھیں پتا ہے آج علی نے بھی آنا ہے۔۔” کونے میں چند لڑکیاں چغلیوں میں مصروف تھیں جب ایک لڑکی چہرے پہ شریر مسکراہٹ سجائے بولی۔۔ لمحے بھر کو سب ہی کو سانپ سونگھ گیا۔۔ گہری طویل خاموشی چھا گئی۔۔
“کیا واقعی؟؟؟” دوسری نے خود کو شاید اب تک کمپوز کر لیا تھا تبھی پوچھ بیٹھی۔۔
“ہاں نہ تب ہی تو میں نے یہ فراک پہنا ہے۔۔” اس نے اپنے سرخ کامدار فراک کا حوالہ دیا۔۔ “امی کہتی ہیں میں اس فراک میں حور لگتی ہوں۔۔”
“ہاں کیونکہ وہی تمہارا نام ہے۔۔۔ حور صدیقی۔۔” لڑکیوں کے مجمح میں بلند بانگ قہقے گونجنے لگے۔۔ اس سے قبل کے حور اس پہ لفظوں کے تیر چلاتی اپنی توہین کا بدلہ لیتی، علی جہانزیب کا گزر اس کے قریب سے ہوا۔۔
حور کے لب کھلے کے کھلے رہ گئے۔۔ انگداشت شہادت ہوا میں معلق رہ گئی۔۔ دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہو گئیں۔۔ بلآخر وہ آ گیا تھا کہ جس کا حور صدیقی کو انتظار تھا۔۔
“ایکسکیوز می۔۔” عقب سے آتی آواز پہ علی کے قدم تھم گئے۔۔ نیم رخ موڑے اس نے پکارنے والی کی جانب دیکھا۔۔ چہرے پہ بلا کا رعب اور ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ٹھونسے وہ وجیہہ سا نوجوان اپنے پورے قد سے کھڑا پکارنے والی کا منتظر تھا۔۔
“آپ۔۔۔ علی۔۔۔ ہیں نہ؟؟؟؟” علی کے مقابل کھڑی حور مضطرب سی انگلیاں مروڑتی پوچھ رہی تھی۔۔۔ “جنہوں نے۔۔۔ چند دن قبل۔۔۔ مطلب جو چند دن قبل۔۔۔ مشن سے لوٹے ہیں؟”
“جی میں وہی ہوں۔۔۔” مختصر کہتے وہ پیشانی پہ بل ڈالے اس کے بولنے کا منتظر تھا۔۔ فوج میں جانے کے باعث اس کے حسن میں مزید نکھار آ چکا تھا یاں شاید دیکھنے والوں کا نظریہ بدل چکا تھا۔۔۔
وہ اب ایک عام شخص نہ رہا تھا بلکہ ملک کے محافظوں میں شامل ہو چکا تھا۔۔ شاید اسی خاصیت کے باعث آج وہ ایک حسین پری کے مقابل کھڑا، کڑے تیوروں سے گھورتا اسے کنفوز کر رہا تھا۔۔۔
“وہ۔۔ امی نے آپ سے کچھ بات کرنے تھی۔۔ تو کیا۔۔ آپ کا نمبر مل سکتا ہے؟” علی کے ابرو تعجب سے اکٹھے ہوئے۔۔ پیشانی کھجاتے وہ مسکرایا اور اگلا گھنٹہ حور صدیقی کی زندگی کا بدترین وقت ثابت ہوا تھا۔۔
منظر سے ہٹتے اس ہال کے داخلی حصّے کی جانب آؤ تو ایمان اب داخل ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔۔ سادہ شلوار سوٹ میں ملبوس بالوں کی چوٹی بنائے وہ مرجھائے چہرے سمیت اپنے والدین کے ہمراہ آتی دکھائی دی تھی۔۔
ہال میں قدم بڑھاتے وہ اطراف کا جائزہ لے رہی تھی۔۔ صدیاں بیتیں اس نے خوشیوں سے علیحدگی اختیار کر رکھی تھی اور اس لمحے بھی وہ طاہرہ بیگم کے پرزور اسرار پہ آئی تھی۔۔ نگاہیں بھٹکتی ہال کے کونے میں کھڑے نوجوان پہ جا ٹکیں جو اپنے مقابل کھڑی حسین دوشیزہ کو صلواتیں سناتا اسکی توہین کر رہا تھا۔۔ چہرے پہ سختی اور پیشانی کی سلوٹیں وہ واضح دیکھ سکتی تھی۔۔ وہ جانتی تھی یقینا فوجی کو دیکھ حور کا دل بہک گیا ہوگا۔۔ (اس شخص سے تو بات بلکل نہیں کرنی۔۔) اپنی سوچ پہ جھرجھری لیتی وہ قدم بڑھاتی اپنی امی کی سمت چل دی۔۔ اس بات سے بےخبر کہ جس شخص کو وہ نظر انداز کئے دے رہی تھی، ایک سال بعد اس کا سامنا اسی شخص سے ہونا قسمت کے پنوں پہ لکھ دیا گیا تھا۔۔
اس فنکشن سے تقریبا گیاراں ماہ بعد وہ اسی شخص سے دوبارہ ملی تھی۔۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایمان اس شخص کا عکس تک اپنے ذہن کے پردوں سے مٹا چکی تھی۔۔ کزن کی شادی میں شرکت کرنے آئی ایمان اپنے کزنز کے مجمع میں گھری بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھی۔۔
“مانو تمہیں طاہرہ آنٹی نے بلایا ہے۔۔” ایک حسین نازک کلی ان کی گفتگو میں خلل ڈالتی عجلت میں لگتی تھی۔۔ ایمان نے سر کو جمبش دی۔۔
دفعتاً عقب سے مردانی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔ “شی از ناٹ مانو۔۔ شی از ٹام۔۔” ایمان نے چونک کر علی کی جانب دیکھا تھا جو چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ سجائے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ٹھونسے اس کے عقب میں آ کھڑا ہوا تھا۔۔
اسے حقیقتاً حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔۔ لڑکیوں سے خار کھاتا شخص بلاوجہ اسے مخاطب کر رہا تھا، ناممکن سی بات لگتی تھی۔۔ “ویسے بات تو ٹھیک کہی ہے علی بھائی نے۔۔” ایک نوجوان تھوڑی تلے انگلی ٹکائے پرسوچ انداز میں بولا۔۔
“علی از آلویز رائٹ۔۔” لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔۔
“واہ مانو۔۔ آج تمہیں ایک نیا نام مل گیا، محض علی بھائی کی نسبت۔۔” پہلو میں بیٹھی لڑکی نے شوخ لہجے میں کہا تھا۔۔
“ایمان کو مانو نام سوٹ نہیں کرتا۔۔ البتہ ٹام از دی بیسٹ۔۔” ایمان نے غصّہ ضبط کرنا چاہا مگر علی کی شرارتی مسکراہٹ نے ضبط کے سبھی پیوند توڑ ڈالے۔۔
“اگر میں ٹام ہوں تو یقینا آپ جیری ہیں۔۔” بظاہر نارمل لہجے میں کہا گیا جملہ تھا مگر ایمان کے چہرے کی سختی واضح محسوس کی جا سکتی تھی۔۔ سبھی نوجوان قہقہ لگائے ہنسنے لگے۔۔ ہنستے مسکراتے ماحول نے ایمان کے تاثرات تبدیل کر دئے۔۔ وہ ڈھیلی ہوتی مخروطی مسکراہٹ چہرے پہ سجاۓ نگاہیں جھکا گئی۔۔ البتہ علی کے تاثرات میں رتی برابر بھی فرق نہ آیا تھا۔۔ وہ ہنوز کھڑا مسکراتا ایمان کو دیکھتا اسے مزید طیش دلا رہا تھا۔۔
آج وہ پہلا روز تھا جب علی نے بظاہر ایمان کو مخاطب کیا تھا اور یوں یہ سلسلہ چل پڑا۔۔ وہ دونوں ہی اس بات سے انجان تھے کہ چند دن میں ان کی زندگیاں بدلنے والی تھیں۔۔ محض چند ماہ باقی تھے۔۔!
* * * * * * *
آج ایمان کی سالگرہ تھی۔۔ سبھی گھر والے اسے سالگرہ کی مبارک بعد دے چکے تھے۔۔ وہ تقریبا زندگی کی جانب لوٹ چکی تھی۔۔ زندگی اپنے ڈگر پہ آ چکی تھی مگر جس کے باعث یہ سب ممکن ہوا تھا وہ اس کی سالگرہ سے بےخبر ڈیوٹی پہ مصروف تھا۔۔
وقت بیتا گیا۔۔ رات 12 بجے سے صبح ہوگئی مگر علی کی جانب سے کوئی مبارک باد وصول نہ ہوئی۔۔ صبح کی کرنیں دھیمے دھیمے سرکتی گئیں۔۔ علی اس کے اہم دن سے بیگانہ کام میں مصروف رہا۔۔ ایمان اس کی سب سے اچھی دوست تھی۔۔ محض چند ہی دنوں میں دونوں میں گہری دوستی ہو چکی تھی مگر آج ایک دوست دوسرے دوست کی سالگرہ جیسا اہم موقع بھول چکا تھا۔۔
دن غروب ہوا تو ایمان نے آس چھوڑ دی۔۔ یقینا کام کی مصروفیت کے باعث اسے ہوش نہ رہا ہوگا۔۔ رات کے کھانے سے فارغ ہوتی وہ جونہی اپنے کمرے کی جانب بڑھی تو دروازے پہ ہوتی دستک نے اسکے قدم روک دئے۔۔
سر پہ دوپٹہ درست کرتی وہ دروازے کی جانب بڑھی۔۔ دروازے کے پار وہ ہاتھ کمر پہ باندھے چہرے پر بلا کی معصومیت سجاۓ اسے دیکھ رہا تھا۔۔ ایمان کی پیشانی کے بل دیکھ علی نے ہاتھ اس کی جانب بڑھایا جس پہ ٹشو پیپر رکھا تھا۔۔
“happy birthday tom and I am sorry for being late”
ایمان ٹشو پہ لکھا فقرہ پڑھ دھیمے سے مسکرائی۔۔ خاصے انوکھے انداز میں اسے وش کیا گیا تھا۔۔
“accept my apology and this
۔۔ کیونکہ اس وقت میرے پاس صرف یہ ٹشو پیپر اور پین ہے۔۔” نرم لہجے میں کہا گیا۔۔ علی کی معصومیت دیکھ ایمان بےاختیار کھل کر مسکرا دی۔۔ راہداری سے گزرتی طاہرہ بیگم اسے دروازے میں کھڑا دیکھ ٹہر گئیں۔۔
“ایمان بیٹا کون ہے؟؟؟؟” حیرانگی سے دریافت کیا گیا۔۔ ایمان چوکھٹ سے سرکی تو علی کا عکس واضح ہوا۔۔ طاہرہ کو دیکھ علی نے سر کو جنبش دیتے سلام جھاڑا۔۔
* * * * * * *
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...