چند دن بعد محمد بن قاسم کی فوج دیبل سے چند میل کے فاصلے پر پڑاو ڈال چکی تھی۔رات کے تیسرے پہر اس نے اٹھ کر نمازِ تہجد ادا کی اور زبیر کو ساتھ لےکر پڑاو کا ایک چکر لگایا۔دن بھر کے تھکے ماندے سپاہی گہری نیند سورہے تھے۔پہرےدار اپنی اپنی جگہ چوکس کھڑے تھے۔سمندر کی نمی سے خنک ہوا میں چند ساعتیں سونے کی وجہ سے محمد بن قاسم اپنے عضاء میں کسل محسوس کررہا تھا۔اس نے زبیر سے کہا۔”آو زبیر! اس ٹیلے پر چڑھیں، دیکھیں اس چوٹی پر پہلے کون پہنچتا ہے۔ہوشیار! ایک۔۔۔۔۔دو۔۔۔۔۔تین!“
دونوں بھاگتے ہوئے ٹیلے کی چوٹی کے قریب پہنچے۔محمد بن قاسم زبیر سے چند قدم آگے جاچکا تھا لیکن اوپر سے پہرے دار نے آواز دی۔”ٹھہرو! کون ہے؟“
محمد بن قاسم نے رک کر جواب دیا۔”محمد بن قاسم!“
پہرےدار نے آواز پہچان کرکہا۔”سالارِ اعظم! آپ مطمئن رہیں۔ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں!“
اتنی دیر میں زبیر بھی محمد بن قاسم سے آملا۔
محمد بن قاسم نے سمندر کی تروتازہ ہوا میں چند سانس لیے اور چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔سولہویں رات کی چاندنی میں ستاروں کی چمک مانند پڑ چکی تھی۔فضا میں ادھر ادھر اڑنے والے جگنو صبح کے چراغ نظر آتے تھے۔چاند کی روشنی نے نیلگوں سمندر کو ایک چمکتا ہوا آئینہ بنا دیا تھا۔مشرق سے صبح کا ستارہ نمودار ہوا۔محمد بن قاسم نے زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔
”زبیر دیکھو یہ ستارہ کس قدر اہم ہے لیکن اس کی زندگی کس قدر مختصر ہے۔یہ دنیا کی ہر صبح آفتاب کی آمد کا پیام دینے کے بعد روپوش ہوجاتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سورج کے چہرے سے تاریکی کا نقاب الٹ کر اپنے چہرے پر ڈال لیتا ہے لیکن اس کے باوجود جو اہمیت اسے حاصل ہے، وہ دوسرے ستاروں کو حاصل نہیں۔اگر یہ بھی دوسرے ستاروں کی طرح رات بھر چمکتا تو ہماری نگاہوں میں اس کا رتبہ اس قدر بلند نا ہوتا۔ہم تمام رات آسمان پر کڑوڑوں ستارے دیکھتے ہیں۔لیکن یہ ستارہ ہمارے لیے ان سب سے زیادہ جاذب توجہ ہے۔عام ستاروں کی موت و حیات ہمارے لیے کوئی معانی نہیں رکھتی۔بالکل ان انسانوں کی طرح جو دنیا میں چند سال ایک بےمقصد زندگی بسر کرنے کے بعد مر جاتے ہیں اور دنیا کو اپنی موت و حیات کا مفہوم بتانے سے قاصر رہتے ہیں. زبیر! مجھے اس ستارے کی زندگی پر رشک آتا ہے۔اس کی زندگی جس قدر مختصر ہے اسی قدر اس کا مقصد بلند ہے۔دیکھو! یہ دنیا کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ میری عارضی زندگی پر اظہارِ تاسف ناکرو۔قدرت نے مجھے سورج کا ایلچی بناکر بھیجا تھا اور میں اپنا فرض پورا کرکے جارہا ہوں۔کاش! میں بھی اس ملک میں آفتابِ اسلام کے طلوع ہونے سے پہلے صبح کے ستارے کا فرض اداکرسکوں!“
زبیر محمد بن قاسم کی طرف بغور دیکھ رہا تھا۔اس کے چہرے پر ایک بچے کی سی معصومیت، چاند کی سی دلفریبی، سورج کا سا جاہ و جلال اور صبح کے ستارے کی سی رعنائی اور پاکیزگی تھی۔
چند قدم کے فاصلے سے ایک پہرےدار نے آواز دی۔”ٹھہرو! کون ہے؟“
نیچے سے جواب آیا۔”میں سعد ہوں۔“
محمد بن قاسم نے چند قدم آگے بڑھ کر اسے سندھی لباس میں ٹیلے پر چڑھتے ہوئے دیکھ کر پہرےداروں سے کہا۔”اسے میری طرف آنے دو!“
سعد نے ٹیلے پر چڑھ کر پڑاو کی طرف اترنا چاہا لیکن پہرےدار نے اس کا راستہ روکتے ہوئے محمد بن قاسم کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔”پہلے اس طرف جاو۔“
سعد نے بےپروائی سے جواب دیا۔”نہیں! میں سپہ سالار کو دیکھے بغیر کسی سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔“
محمد بن قاسم نے آواز دی۔”سعد میں ادھر ہوں۔“
سعد نے چونک کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور آگے بڑھا۔
محمد بن قاسم نے سوال کیا۔”کہوکیا خبر لائے ہو؟“
سعد نے جواب دیا۔”دیبل کی حفاظت کرنے والی فوج کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے۔میرا خیال ہے کہ وہ سندھ کے باقی شہروں سے مزید کمک کے انتظار میں قلعہ بند ہوکر لڑنے کی کوشش کریں گے۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”کیا یہ ممکن ہے کہ اگر ہم اس جگہ دوتین دن قیام کریں، تو وہ شہر سے پیش قدمی کرکے ہم پر حملہ کردیں۔“
سعد نے جواب دیا۔”اس بات کے کوئی آثار نہیں۔وہ لسبیلا کا پہاڑی قلع فتح ہوجانے کے بعد ناہموار زمین پر لڑنا اپنے لیے مفید خیال نہیں کرتے۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”تو ہمیں کسی تاخیرکے بغیر پیشقدمی کردینی چاہیے۔“
دیبل کے محاصرے کو پانچ دن گزر چکے تھے۔اس دوران محمد بن قاسم کی فوج نے دبابوں کے زریعے متعدد بار شہر کی فصیل پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی لکڑی کے دبابے جب شہرِ پناہ کے قریب پہنچے، راجہ کے سپاہی ان پر جلتا ہوا تیل انڈیل دیتے اور مسلمانوں کو آگ کے شعلوں میں پیچھے ہٹنا پڑتا۔ محمد بن قاسم اپنے ساتھ ایک بہت بڑی منجنیق لایا تھا۔جسے پانچ سو آدمی کھینچتے تھے۔اس منجیق کا نام ”عروس“ مشہور ہوچکا تھا۔پہاڑی کے راستے کے نشیب و فراز کا خیال کرتے ہوئے عروس کو سمندر کے راستے دیبل کے قریب لاکر خشکی پر اتارا گیا اور محاصرے کے پانچویں دن محمد بن قاسم کے سپاہی اسے دھکیل کر شہر پناہ کے سامنے لے آئے۔اس سے قبل چھوٹی چھوٹی منجنیقیں شہر کی فصیل کو چند مقامات سے کمزور کرچکی تھیں۔شہر کے سپاہی عروس کی غیر معمولی جسامت سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگاچکے تھے۔شام سے پہلے عروس سے چند وزنی پتھر شہر میں پھینکے گئے اور راجہ نے یہ محسوس کیا کہ دیبل کی مضبوط فصیل زیادہ عرصہ اس مہیب ہتھیاڑ کے سامنے نہ ٹھہر سکے گی۔
چھٹے روز علی الصباح محمد بن قاسم نے عروس کے زریعے شہر پر سنگ باری شروع کی۔شہر کے درمیان کے مندر کے بلند کلس پر ایک سرخ رنگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔مندر کے کلس کے طرح یہ جھنڈا بھی تمام جھنڈوں سے اونچا تھا۔محمد بن قاسم کو اس جھنڈے کی اہمیت کا احساس ہوا اور ایک روایت کے مطابق دیبل کے گورنر کے ہاتھوں ستائے ہوئے ایک برہمن نے شہر سے فرار ہوکر محمد بن قاسم کو اصلاع دی کہ جب تک یہ جھنڈا نہیں گرتا، شہر کے لوگ ہمت نہیں ہاریں گے۔
محمد بن قاسم کو منجنیق کے استعمال میں غیر معمولی مہارت تھی۔چنانچہ اس نے عروس کا رخ درست کرکے سپاہیوں کو پتھر پھینکنے کا حکم دیا۔بھاری پتھر کی ضرب نے کلس کے ٹکڑے اڑا دیے اور اس کے ساتھ سرخ جھنڈا بھی نیچے آرہا۔
اس کلس کے مسمار ہونے اور جھنڈے کے گرنے سے راجہ کے توہم پرست سپاہیوں کے حوصلے ٹوٹ گئے۔تاہم انھوں نے شام تک مسلمانوں کی فوج کو قلعے کے قریب نا پھٹکنے دیا۔شام کے دھندلکے میں فصیل کے تیراندازوں کی مدافعت کمزور ہونے لگی۔محمد بن قاسم نے ایک فیصلہ کن حملے کا حکم دیا اور اس کے سپاہی اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے دبابوں، سیڑھیوں اور کمندوں کی مدد سے قلعے کی دیواروں پر چڑھنے لگے۔
راجہ کی فوج نے رات کے تیسرے پہر تک مقابلہ کیا لیکن اتنی دیر میں مسلمانوں کی فوج کے سینکڑوں سپاہی فصیل پر چڑھ چکے تھے اور منجنیق کی سنگ باری کی بدولت قلعے کی دیوار بھی ایک مقام سے ٹوٹ چکی تھی۔
راجہ دہر نے حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہی شہر کا مشرقی دروازہ کھلوا دیا اور ہاتھیوں کی مدد سے فوج کے لیے راستہ صاف کرتا ہوا باہر نکل گیا اور مسلمان شہرِ پناہ کے چاروں طرف منقسم ہونے کی وجہ سے دروازے پر موثر مزاحمت نا کرسکے۔ہاتھی مشرقی دروازے کے سامنے سے ان کے مورچے توڑتے ہوئے آگے نکل گئے اور اس کے پیچھے راجہ کی تیس ہزار فوج لڑتی بھڑتی نکل گئی۔محمد بن قاسم کی فوج نے چاروں طرف سے سمٹ کر دروازے پر حملہ کردیا اور باقی سپاہیوں کے راستے میں مضبوط دیواریں کھڑی کردیں۔انھوں نے راجہ کی محبت سے زیادہ اپنے انجام سے خوفزدہ ہوکر باہر نکلنے کا راستہ صاف کرنے کے لیے چند زوردار حملے کیے لیکن مسلمانوں نے آن کی آن میں دروازے کے سامنے لاشوں کے ڈھیر لگادیے۔وہ بددل ہوکر پیچھے ہٹے اور مسلمانوں کی فوج پانی کے ایک زبردست ریلے کی طرح شہر کے اندر داخل ہوگئی۔
اتنی دیر میں کئی اور دستے مختلف راستوں سے شہر پناہ کے اندر داخل ہوچکے تھے۔
راجہ کے بچی کھچی فوج نے چاروں طرف سے اللہ اکبر کے نعرے سن کر ہتھیاڑ ڈال دیے۔
محمد بن قاسم نے اپنی فوج کے ساتھ دیبل کے گورنر کے محل میں صبح کی نماز ادا کی اور طلوعِ آفتاب کے وقت دیبل کے دہشت زدہ باشندے اپنے مکانوں کی چھتوں پر کھڑے ہوکر فاتح افواج کے سترہ سالہ سپاہ سالار کا جلوس دیکھ رہے تھے۔قلعہ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے جن اسیرانِ جنگ کو آزاد کیا تھا اور جن زخمیوں کی مرہم پٹی کی تھی، وہ عوام کو ہندوستان میں ایک نئے دیوتا کی آمد کا پتہ دےچکے تھے۔اس کی نوجوانی، شجاعت، عفو اور رحم کے متعلق ایسی داستانیں مشہور ہوچکی تھیں جن کی صداقت پر استبدادی حکومت کے ستائے ہوئے عوام اعتبار کرنے کو تیار نا تھے۔گزشتہ چنددنوں میں دیبل کے شہریوں کو راجہ کی فوج کے سپاہی سخت اذیتیں دے چکے تھے۔دیبل میں راجہ کی فوجوں کی آمد کے بعد ان کے گھر اپنے گھر نا تھے۔سپاہی رات کے وقت شراب کے نشے میں بدمست ہوکر لوگوں کے گھروں میں آگھستے اور لوٹ مار کرکے نکل جاتے۔صبح کے وقت شرم و حیا کی دیویاں پھٹے ہوئے پیرہن اور بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ بازاروں میں گشت لگانے والے افسروں کو اپنی مظلومیت کے قصے سناتیں لیکن انہیں شرمناک قہقہوں کے سوا کوئی جواب نہ ملتا۔
اپنے راجہ کی فوج کا یہ سلوک دیکھ کر دیبل کے باشندے محمد بن قاسم کے عفوورحم کے متعلق کئی داستانیں سننے کے باوجود فاتح لشکر سے نیک سلوک کی توقع رکھنے کے لیے تیار نا تھے لیکن جب محمد بن قاسم کی فوج اپنے سپہ سالار کی طرح نگاہیں نیچے کیے دیبل کے بازار سے گزر رہی تھی ان کے شبہات آہستہ آہستہ دور ہونےلگے اور مردوں کے علاوہ عورتیں بھی مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر کھڑی ہوگئیں۔جب محمد بن قاسم شہر کا چکر لگا کر دوبارا محل کے قریب پہنچا۔ایک نوجوان لڑکی بے بھاگ کر اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور ہونٹ بھنچتے ہوئے محمد بن قاسم کی طرف ملتجی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔خوبصورت چہرے پر خراشوں کے نشان تھے۔آنکھیں غم و غصے کے باعث سرخ تھیں۔محمد بن قاسم کو وہ گلاب کے ایسے پھول سے مشابہ نظر آئی جسے کسی کے بےرحم ہاتھوں نے مسل ڈالا ہو۔
اس نے ترجمان کی وساطت سے کہا۔”خاتوں! اگر یہ میرے کسی سپاہی کا فعل ہے تو میں اسے تمہاری آنکھوں کے سامنے قتل کروں گا!“
لڑکی نے نفی میں سر ہلایا، اس کے ہونٹ کپکپائے اور آنکھوں سے آنسووں کے دھارے بہہ نکلے۔
ایک عمر رسیدہ اور باوضع آدمی آگے بڑھا اور اس نے ہاتھ باندھ کر کہا۔”ان داتا! یہ ان کئی مظلوم لڑکیوں میں سے ایک ہے، جو راجہ کے سپاہیوں کی بربریت کا شکار ہوچکی ہیں، آپ سے انصاف مانگنے آئی ہے!“
ناصرالدین نے اس عمر رسیدہ شخص کی ترجمانی کرتے ہوئے محمد بن قاسم کو بتایا کہ یہ دیبل کا پروہت ہے۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”آپ میرے سامنے ہاتھ نا باندھیں، اس لڑکی کی داد رسی میرا سب سے پہلا فرض ہے۔راجہ کے بارہ ہزار سپاہی ہماری قید میں ہیں، آپ اسے وہاں لے جائیں۔اگر مجرم ان میں سے کوئی ہو تو میں اسے آپ کے حوالے کردوں گا۔ورنہ میں اس ملک کی آخری حدود تک اس کا تعاقب کروں گا!“
لڑکی نے کہا۔”میرا مجرم دیبل کا گورنر ہے۔اس نے پرسوں میرے پتا کو قید کرلیا تھا اور مجھے۔۔۔۔“ یہاں تک کہہ کر اس کی آواز بھرآگئی اور آنکھوں سے پھر ایک بار آنسو بہنے لگے۔محمد بن قاسم نے اپنے ایک سالار کو بلا کرکہا۔”میں دیبل کے تمام قیدیوں کو آزاد کرنے کا حکم دیتا ہوں۔تم قید خانے کے دروازے کھلوادو!“
اگلے دن دیبل کے سب سے بڑے مندر کا پروہت پجاریوں کے سامنے عرب کے ایک نوجوان کے روپ میں بھگوان کے ایک نئے اوتار کی آمد کا پرچار کررہا تھا اور دیبل کا سب سے بڑا سنگ تراش دیبل کے محسن کے لیے محبت اور عقیدت کے جذبات سے سرشار ہوکر شہر کے بڑے مندر کی زینت میں اضافہ کرنے کے لیے عرب کے کمسن اور نوجوان سالار کی مورتی تراش رہا تھا۔محمد بن قاسم نےجنگ میں مقتولین کے ورثا کے لیے معقول وظائف مقرر کیے۔ناصرالدین کو دیبل کا گورنر مقرر کیا۔ ایک گرانقدر رقم مندر کی مرمت کے لیے مخصوص کی جو منجنیق کے پتھر کا نشانہ بن کر مسمار ہوچکا تھا۔
دس دن بعد اس نے نیرون کا رخ کیا۔اس عرصے میں اس کے حسنِ سلوک سے دیبل کے باشندوں پر اس کی تلوار کے زخم مندمل ہوچکے تھے۔رخصت کے وقت ہزاروں مردوں، عورتوں اور بوڑھوں نے احسان مندی کے آنسووں کے ساتھ اسے الودع کہی۔اس کی فوج میں دیبل کے پانچ ہزار سپاہی شامل ہوچکے تھے۔
محمد بن قاسم نے رخصت ہونے سے پہلے زبیر، ناہید، خالد اور زہرا کو ناصرالدین کے ساتھ ٹھہرنے کی اجازت دی لیکن انھوں نے شہر کے محلات میں آرام کرنے کی بجائے جنگ کے میدانوں میں بے آرامی کے دن اور راتیں کاٹنے کو ترجیح دی۔تاہم زبیر اور خالدنے محمد بن قاسم کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے ناہید اور زہرا کو دیبل میں چھوڑ دیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...