انسپکٹر عاصم اب تک اسٹینلے عرف مسٹر اسٹیل کا کھوج لگانے میں ناکام ہی ثابت ہوئے تھے۔ اس کی تلاش میں انہوں نے بے شمار مشکوک جگہوں کو چھان مارا تھا۔ میک اپ میں انہوں نے ساری ایسی جگہوں کو دیکھ لیا تھا۔ جہاں مجرموں کی اکثریت پائی جاتی تھی۔ لیکن مسٹر اسٹیل ایسے غائب ہو گیا تھا کہ دوبارہ اس کا نشان تک نہیں ملا تھا۔ پھر ایک اور کیس انسپکٹر عاصم کے سپرد کر دیا گیا۔
یہ مشہور سنکی سائنسدان پروفیسر نجیب کے پراسرار قتل کا کیس تھا۔ انسپکٹر عاصم نے خود جا کر پروفیسر کی لاش کو دیکھا تھا، جو تجربہ گاہ میں پڑی ہوئی تھی۔ اس کے منہ میں گولی ماری گئی تھی۔ گوشت اور خون کی پپڑیاں تجربہ گاہ کی مشینوں پر جمی ہوئی تھیں۔ وہاں بہت لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔ پولیس والے اپنی تفتیش کر رہے تھے۔ فوٹو گرافر دھڑا دھڑ تصویریں اتارنے میں مصروف تھے اور فنگر پرنٹس کا عملہ اپنے کاموں میں مشغول تھا۔ اخباری اور چینلز کے رپورٹر انسپکٹر عاصم سے قتل کے بارے میں اس کی رائے دریافت کر رہے تھے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ ادھر پروفیسر نجیب کا دوست ڈاکٹر بیدی بھی آ گیا تھا۔ وہ انسپکٹر عاصم کو پروفیسر سے اپنی آخری ملاقات کے بارے میں بتا رہا تھا۔ اس نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ یہ کار روائی پروفیسر نجیب کے اسسٹنٹ اختر کی بھی ہو سکتی ہے، کیوں کہ اب تک اس کی لاش ملی تھی اور نہ اس کا کہیں اور پتا چل سکا تھا۔
بظاہر ایسا ہی لگتا تھا کہ پروفیسر کے اسسٹنٹ اختر نے اسے قتل کیا ہو گا اور تمام قیمتی اشیاء لے کر فرار ہو گیا۔ اختر کا ملنا بے حد ضروری تھا۔ معاملہ چوں کہ پروفیسر نجیب کا تھا، اس لیے کئی بڑے افسران لامحالہ دلچسپی کا اظہار کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ انسپکٹر عاصم نے از سر نو پوری عمارت کا باریک بینی سے جائزہ لیا تھا۔ باقی تو ہر چیز ٹھیک تھی، مگر چند باتوں نے انہیں مخمصے میں ڈال دیا تھا۔ ایک تو تجربہ گاہ کے دروازے کا شگاف انہیں مزید عقل کے گھوڑے دوڑانے کی دعوت دے رہا تھا۔ پھر ماہرین کی ٹیم نے میں گیٹ میں موجود جدید میکنزم اور خود کار کیمرا بھی تلاش کر لیا تھا۔ اس کیمرے کو نامعلوم طریقے سے ضائع کر دیا گیا تھا اور اس کے اندر موجود میموری خالی ملی۔
انسپکٹر عاصم سوچنے لگے کہ بفرض محال۔۔۔ پروفیسر کو اختر نے ہی قتل کیا ہے تو اسے دروازے میں شگاف ڈالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وہ اجازت لے کر بھی اندر داخل ہو سکتا تھا۔ پھر میں گیٹ کے کیمرے کے بارے میں بھی اسے علم ہی ہو گا۔ وہ عقبی راستہ بھی اختیار کر سکتا تھا۔ ڈاکٹر بیدی سے اسے یہ معلوم ہوا کہ اختر کے پاس اس کا پالتو کتا بھی ہے۔ اگر یہ سب اختر کا کیا دھرا ہے تو وہ کتا کہاں گیا؟ کیا اختر اتنا احمق ہے کہ کتے کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا۔ کتے ہی کی وجہ سے وہ کہیں بھی پکڑا جا سکتا ہے۔
انسپکٹر عاصم جتنا سوچ رہے تھے۔ ان کا ذہن الجھتا ہی چلا جا رہا تھا، لیکن ان کی تفتیش کی گاڑی آگے نہ بڑھ سکی تھی۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے تھے کہ مسٹر اسٹیل اور پروفیسر کے معاملات کہاں تک آپس میں مل رہے ہیں۔ کیا اس معاملے کے پیچھے مسٹر اسٹیل کا ہاتھ ہے؟ یا پھر۔۔۔ واقعی یہ قتل پروفیسر کے اسسٹنٹ اختر نے کیا ہے؟ اور وہ آخر کہاں غائب ہو گیا ہے؟